وجود

... loading ...

وجود

سندھ حکومت کی کراچی سے نفرت ظاہر ہوگئی

جمعه 07 جولائی 2017 سندھ حکومت کی کراچی سے نفرت ظاہر ہوگئی

حالیہ بارشوں نے متعلقہ اداروں خصوصاً سندھ حکومت کی کراچی سے نفرت ظاہر کردی ہے۔ بارش سے قبل گندگی اورکچرے کے ڈھیروں کا معاملہ سندھ حکومت کے کھاتے میں گیاہے کیونکہ کچرا اٹھانے کی ذمہ داری اب سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ہے۔ اس کے بعدکوئی شہری ادارہ کچرا اٹھانے کا ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایس ایس ڈبلیو ایم بی اب تک فعال نہیں ہوسکا ہے مگراس کی ذمہ داری بھی سندھ حکومت پرعائد ہوتی ہے ابھی کچرے کا معاملہ جاری تھا کہ محکمہ موسمیات نے کراچی میں تیز اور دھواں دھار 3 روزہ بارشوں کی پیش گوئی کردی۔ اس صورت حال میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ذمہ داری تھی کہ وہ کراچی کے برساتی نالوں کی صفائی کاکام بارشوں سے قبل شروع کرادیتی تاہم ایسا نہیں ہوا۔ اس حوالے سے جب میئر کراچی وسیم اختر سے سوال کیاگیاتو انہوں نے واضح جواب دیا کہ سندھ حکومت ہی نالوں کی صفائی کے لئے فنڈز فراہم کرتی ہے تاہم یہ کام ہمارے انتخابات کے بعدمگر حلف برداری سے قبل سندھ حکومت نے اپنے تعینات کردہ ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے کرایاتھا اورجون2016ء میں43کروڑ70 لاکھ روپے سندھ حکومت نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کوجاری کئے تھے۔ اس سے نالوں کی صفائی کیوںنہ مکمل کی جاسکی یا وہ رقم کہاں گئی اس کا جواب تو سابقہ ایڈمنسٹریٹر ز سے سندھ حکومت کو لیناچاہئے۔ یہ ایک بات ہے کہ سب جانتے ہیں کہ اس رقم کی کس طرح بندر بانٹ کی گئی جبکہ نالے آج بھی کچرے سے بھرے ہیں۔ کراچی کے28بڑے برساتی نالوں میں زیادہ ترسیوریج کی لائنیں کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ نے ملا رکھی ہیں اورسیوریج کے ساتھ سالڈ ویسٹ بھی آجاتاہے مٹی اورغلاظت کے ساتھ ساتھ کچرا بھی انہی نالوں میں ڈالاجاتاہے۔جس کے باعث یہ نالے بندہوجاتے ہیں۔ اگرمان بھی لیاجائے کہ گزشتہ سال نالوں کی صفائی مکمل کی گئی توپھرکیا وجہ ہے کہ ایک سال گزرنے اورہماری باربار کی یاددہانیوں کے باوجود سندھ حکومت نے نالوں کی امسال صفائی کیلئے رقم فراہم نہیں کی۔میئرکراچی وسیم اختر کا کہناتھا کہ وزیراعلیٰ سندھ فرماتے ہیں کہ جواختیارقوانین میں ہیں وہ سب میئرکوحاصل ہیں اورفنڈز کی فراہمی پرکہا جاتاہے کہ جو شیئرہیں اس شہر کے وہ دے رہے ہیں توجناب شیئر یعنی اوزیڈ ٹی کی مد میں قوانین کے مطابق حصہ نہیں دیا جارہا نہ ہی اس شہر سے کروڑوں روپے یومیہ ٹیکس وصول کرکے اس کے منصوبوں کے لئے فراہم کئے جارہے ہیں۔ ہمارے اور ڈی ایم سیز کے تمام دئے گئے منصوبے وزیراعلیٰ نے مسترد کردیئے۔ پھر کہتے ہیں کہ یہ شہر ہمارا ہے اورہم اس شہر کی ترقی چاہتے ہیں بارباراس شہر کے حقوق پرڈاکہ مارکرمحرومیوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے اور اب توسندھ حکومت کراچی کوکچرے کے ڈھیروں کے بعدبرساتی ریلوں اورسیوریج کے پانی میں ڈبونا چاہتی ہے۔ ہم اپنے محدود اختیارات اورمحدود ترین وسائل کے ساتھ میدان میں اترے ہوئے ہیں اورلوگوں کے درمیان رہ کر اس شہر کے ڈپٹی میئر،ضلعی چیئرمینوں اور ارکان اسمبلی نے ڈوبتے کراچی کے شہریوں کوبارشوں میں ریلیف فراہم کیاہے۔ وسیم اختر نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی ،کراچی کوفنڈ ز صوبائی اوروفاقی حکومتیں فراہم کرتی رہی ہیں مگراس مرتبہ دونوں حکومتوں کی جانب سے سرد مہری سے کراچی کی حالت بدترہوتی جارہی ہے۔28بڑے نالوں کی صفائی کوئی آسان کام نہیں رہا ا سکے لئے بڑی رقم کی ضرورت ہے اوراگربرساتی نالوں کی مکمل صفائی نہ ہوئی تو پھرشہر کراچی اورشہریوں کی امداد کا وقت بھی میسر نہیں ہوگا۔اس سلسلے میں سندھ حکومت کے سیکریٹری بلدیات رمضان اعوان نے بتایا کہ میئر کراچی نے50کروڑ روپے نالوں کی صفائی کیلئے مانگے ہیں اوراس حوالے سے اعلیٰ سطح پرمشورہ ہواہے جس میں سندھ حکومت کا موقف ہے کہ ہم نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کوجولائی2016ء میں43کروڑ 70لاکھ روپے جاری کئے تھے۔ پہلے میئر کراچی اس کا حساب دیں پھر 50کروڑ طلب کریں۔ سیکریٹری بلدیات کا کہناتھا کہ نالوں کی6اسکیمیں بھی تھیں کے ایم سی نے وہ بھی بناکرنہیں دیں۔ انہوں نے کہاکہ جب تک کے ایم سی اورڈی ایم سیز مل کرنالوں کی صفائی کا منصوبہ نہیں بناتیں یہ مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔یہ مل کرایک کمیٹی بنائیں جونالوں کی صفائی کی مکمل نگرانی مکمل پاور کے ساتھ کریں توکرپشن کم ہوسکتی ہے اور سرکاری رقم ضائع ہونے کے بجائے عوام کوریلیف فراہم کرنے میں لگے گی۔ اس سوال پرکہ شہر میں سینکڑوں گٹروں کے ڈھکن غائب ہونے سے حادثات کے علاوہ سیوریج لائنوں میں کچرا بھررہا ہے اورگٹرابل رہے ہیں۔ جواب میں سیکریٹری بلدیات رمضان اعوان کاکہناتھا کہ سند ھ حکومت کے پاس اتنی استطاعت نہیں کہ ہم گٹرکے ڈھکن بھی رکھیں۔ ہرسال اس مد میں رقم فراہم کی جاتی ہے مگر ناقص ڈھکن بنائے جانے کے سبب ٹوٹ جاتے ہیں یا چوری ہوتے ہیں۔ رمضان اعوان کا کہناتھا کہ شہریوں کوگٹر کے ڈھکنوں کی نگرانی کرناچاہئے تاکہ وہ چوری نہ ہوں اوراس سلسلہ میں آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ سیکریٹری بلدیات کا کہناتھا کہ کراچی کی ترقی کیلئے70ارب روپے صوبائی اے ڈی پی میں رکھے جاتے ہیںجبکہ سندھ کی لوکل کونسلز کے لئے60ارب روپے مختص ہیں ہمیں اسکیمیں دیں ہم ترقیاتی کام کروائیںگے۔سندھ حکومت اوربلدیہ کراچی کے درمیان جاری جھگڑے میں شہریوں کوشدید مشکلات اورپریشانیوں کا سامناہے۔ آج بھی شہر کے مختلف علاقوں میں برساتی پانی جمع ہے اورشہرمیں سینکڑوں گٹر کے ڈھکن نہ ہونے کے باعث بارش کے پانی کے ساتھ کچرا اورمٹی بھی سیوریج سسٹم میں جاکرپھنس گئی ہے اورشہر کے سینکڑوں مقامات پر گٹرابل پڑے ہیں۔ ادھرکراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کا بھی یہی کہناہے کہ فنڈز کی کمی کے باعث ہم گٹروں کے ڈھکن نہیں بنوارہے جبکہ فنڈز کی کمی کے باعث ہی نئی سیوریج اورپانی کی لائنیں نہیں ڈال رہے،اداروں کے ان سب مسائل کا سامنا کراچی کے ڈھائی کروڑ سے زائد عوام کوکرنا پڑرہا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم وجود هفته 19 اپریل 2025
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر