... loading ...
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب قومی زندگی پر سوال اُٹھاتی ہے۔ کیا زندگی کی بساط پر ہمارا تعارف جواریوں کا ہے؟
نکتۂ حیات یہ ہے کہ زندگی اپنے محاسن پر بسر کی جاتی ہے، دوسرے کے عیوب پر نہیں۔ مفادات کی تاویل سے اپنے گھناؤنے کردار کو تحفظ دینے والے لوگ تاریخ میں کھیت رہے۔ اب بھی رہیں گے کہ قومی حیات کا تجزیہ تاجرانہ انداز سے نہیں کیا جاتا۔ ا س کے لیے ایک ذرا سی حمیت درکارہوتی ہے۔ علامہ اقبال ؒ کی نظم غلام قادر روہیلہ اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ جب افغان قبیلہ روہیلہ سے تعلق رکھنے والے غلام قادر ر نے اپنے دادا نجیب الدولہ اور اپنے خاندان کی عزتوں کی پامالی کا بدلہ مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی (مرزا عبداللہ)سے اس طرح لیا کہ اُس کی آنکھیں نکال لیں اور اُن کے حرم کی عورتوں کو رقص کرنے پر مجبور کیا۔ تب غلام قادر نے خنجر کھلا چھوڑ کر اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ یہ دراصل غلام قادر کی جانب سے بادشاہ کے حرم کی عورتوں کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ غلام قادر کو ہلاک کردیتیں۔ مگر ایسا نہ ہوسکا اور حرم کی عورتیں غلام قادر کے حکم پر رقصاں رہیں۔ تب غلام قادر کا ردِ عمل اقبالؒ کے الفاظ میںکچھ یوں تھا :
مرا مسند پہ سو جانا بناؤ ٹ تھی، تکلف تھا
کہ غفلت دور ہے شانِ صف آریانِ لشکر سے
یہ مقصد تھا مرا اس سے کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
پاکستانی حکمرانوں کے پاس بھی یہ ایک موقع تھا کہ اپنی قومی حمیت کے نیلام گھر سے باہر نکل کر اجتماعی زندگی کو سجدۂ سہو کراتے۔ مگر یہ موقع ضائع ہوا۔ اب اس کی تاویلیں ہیں۔حاصل وصول کے گوشوارے ہیں۔اپنی بے بضاعتی کا رونا ہے۔ اور اپنی اجتماعی جیب کے ویرانے کا مرثیہ ہے۔ ایک دوسری سے جڑی یہ تمام باتیں دراصل ہماری قومی بداعمالیوں کا ہی لیکھا جوکھا ہے۔ یہ تمام بداعمالیا ں دراصل حقیقی آزادی سے محرومی کا نتیجہ ہے۔
انسان کے لیے آزادی ہمیشہ ایک سرشار کردینے والا تصور رہا ہے۔ تقریباً 1123 برس قبل از مسیح میں چوہسن کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور نسبتاً ایک نیم آزادہ معاشرے کی امید چھوٹی چھوٹی جاگیروں کی صورت میں بندھنے لگی تب یہ کنفیوشس تھا جس نے ’’کتاب نغمات‘‘ میں 305نظمیں اُس دور کی جمع کیں۔ کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ تب بھی سب سے مشہور نغمہ، آزادی کے احساس سے معمور تھا، سب سے مشہور گیت اُس مجموعے کایہ تھا کہ
پروں والے بگلے کس قدر آزاد ہیں،
اور وہ درختوں پر آرام پاتے ہیں!
مگر ہم بادشاہوں کے بلاتکان خادم،
اپنا جوار اور چاول بھی بونے سے قاصر ہیں
تہذیبوں کی کہانی لکھنے والا وِل ڈیورانٹ اب مرگیا، مگر زندگی بھی کہاں سانس لیتی ہے۔جدید عہد کا انسان جوار اور چاول تو بہت دور کی بات ہے، اب اپنے سانس لینے پر کامل قدرت کھو چکا ہے۔نئے نظام کی دستوری اور اجتماعی بناؤٹ نے اُسے غلامی کے نئے پہلوؤں سے آشنا کرایا ہے جس کی جکڑ بندی جسمانی غلامی سے زیادہ خطرناک اور محیط تر ہے۔ ریمنڈ کے باب میں ہی دیکھ لیجیے! کیا کیا کچھ نہیں ہوا؟
ریمنڈ نے کتاب میں اپنا تعارف دوسروں کی زبان سے کرایا ہے جس کے تحت لوگ اُنہیں زیادہ کروفر والا ایک سیکورٹی گارڈ سمجھتے ہیں یا پھر مکّے باز۔مگر 27؍جنوری 2011 کو مزنگ چوک پر جو کچھ ہوا،درحقیقت ریمنڈ نے اُس کے بعد مسلسل مکے کھائے ۔ وہ ایک قاتل کے طور پر گرفتار ہوا۔ اور پھر دورانِ تفتیش اُس کے ساتھ وہی ہوا جو کبھی طاقت کے زعم میں مبتلا سیف الرحمان پر ایامِ امتحان میں ہوا تھا۔ جب(دروغ بر گردنِ راوی) اُس کا پیشاب خطا ہو گیا تھا۔ ریمنڈ نے اپنی کتاب سے لوگوں کو دھوکا دیا۔ مگر وہ درحقیقت امریکا کے ایک بہت بڑے اور خطرناک کھیل کے تمام کھلاڑیوں کو بے نقاب کرنے کا ذریعہ بنا تھا۔ اُس نے ہی نہیں امریکی بازیگروں نے بھی تب بہت سے مکے کھائے تھے۔ افسوس قدرتی طور پر سجی اس بازی کو پاکستان کی طاقت ور اشرافیہ نے امریکا کے حق میں بدل دیا۔ وہ ہمیشہ سے یہی کرتی آئی ہے۔
اُس افسر کی حالت کیا رہی ہوگی جس نے ریمنڈ کے سامنے ہی اُس کے اچھے شوٹر ہونے کی تعریف کی تھی جب دو پاکستانیوں کو قتل ہوئے چند گھنٹے گزرے تھے اور ابھی خون سڑک پر جما ہوا تھا۔ اُس افسر نے دراصل دو پاکستانی شہریوں کے قتل کا مذاق اڑایا تھا۔ اُس نے درحقیقت نیزے کی اَنی سے ہمیشہ انسانوں کا کامیاب شکار کرنے والے چنگیز خان کی تعریف کی تھی۔ایک ستم ظریف افسرکے یہ الفاظ مذاق میں بھی بہت بُرے تھے جب اُس نے کہاکہ وہ اپنی پولیس کی تربیت ریمنڈ ڈیوس سے کرانا چاہیں گے۔ قاتل کے ساتھ یہ رویہ دراصل مقتولین پر ملامت تھی۔اور یہ وہ افسران تھے جو ریمنڈ سے ابتدائی تحقیقات پر مامور تھے۔
ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس سے ہونے والی تفتیش سے پاکستانی اداروں کو بہت فائدہ ہوا۔ مگر ریمنڈ ڈیوس لکھتا ہے کہ وہ اُ س سے اُس کا فنگر پرنٹس تک نہیں لے سکے تھے۔ منطقی طور پر یہ 27؍جنوری کا ہی دن تھا جب ریمنڈ کو کسی قدر پریشان کیا گیا ہوگا، کیونکہ اُس کے بعد امریکی پوری طرح ملوث ہو چکے تھے۔ جیسا کہ ریمنڈ نے لکھا ہے کہ اُس کی تفتیش پر مامور ایک پولیس افسر طارق کا بھائی امریکی ریاست جارجیا میں رہتا تھااوراُسے تفتیش سے زیادہ امریکی فلموں اور ثقافت میں دلچسپی تھی اور وہ سارا وقت اُس سے اُسی موضوع پر بات کرتا رہتا۔ کیا انہیں کسی موقع پر احساس نہیں تھا کہ یہ شخص پاکستانی بھائیوں کا قاتل ہے۔ بالکل ایسے ہی بھائی جیسے جارجیا میں مقیم اُس کا بھائی تھا۔
اس قضیے کی ایک بات پریشان بہت کرتی ہے۔ اس کھیل کے تمام پاکستانی کرداروں کو جانچ لیجیے!دوطرح کے کردار ہیں ۔ وہ کردار جو امریکا ہامی ہیں۔ آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی اور حسین حقانی۔ جنہیں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھی اسی طرح یاد کیا جاتا ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی ریمنڈ ڈیوس کی آزادی کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکا۔ ریمنڈ ڈیوس اپنی کتاب میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ فرض کیجیے یہ ایک پروپیگنڈا کتاب ہے تب بھی یہ تو ایک سامنے کی حقیقت ہے۔ مگر دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں پاکستانی مفادات کے اصل محافظ کے طور پر اپنی شناخت کراتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ جنرل (ر) پاشا ہیں جو اس کھیل میں سارے معاملات طے کرتے ہیں۔پس منظر میں فوجی سربراہ جنرل کیانی بھی۔غالباً23 فرور ی کو اومان کی ایک پرآسائش سیرگاہ میں ہونے والی پاک امریکا فوجی سربراہان کی ملاقات میں یہ مسئلہ ترجیحی رہا۔ جنرل مائیک ملن اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ملاقات میں ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے سمیٹ لیا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا نواز افراد تو بنیادی معاملات میں اپنی’’ امریکا نوازی‘‘ دکھانے کے قابل تک نہیں ہوتے۔ اور خود کو امریکا مخالف باور کرانے والے بازی لے جاتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ پاکستان کے سیاست دانوں کو بے بس ثابت کرکے دنیا بھر کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اصل فیصلہ کن قوت تو ہم ہیں۔ اور تمہارے باج گزار تمہیں پاکستان سے کچھ بھی دینے کے قابل نہیں۔ سامنے نظر آنے والی اس صورتِ حال پر ہم کیا رائے بنائیں۔درحقیقت کوئی اور نہیں یہ جنرل پاشا تھے جنہوں نے اس ڈیل کے جملہ امور انجام دیے۔یہاں تک کہ اُنہوں نے لواحقین کے وکیل اسد منظور بٹ کو تبدیل کرکے راجہ ارشاد کو اس کام پر مامور کیا جو لواحقین کی جانب سے وکالت کی ذمہ داری ادا نہیں کررہا تھا،بلکہ وہ ریمنڈ ڈیوس کے لیے ڈیل میں آسانیاں پیدا کررہا تھا۔دیت کے معاملات کی پوری نگرانی آپ جناب کررہے تھے۔پاکستانی قوم کے لیے اس میں خوشی کی بات یہ ہے کہ لواحقین اس کے لیے تیار نہیں تھے۔بے پناہ دولت کا منہ اُن کے سامنے کھلاتھا۔ مگر ہماری باوفا معزز خواتین اس پر رِ جھائی نہ جاسکیں تھیں۔ ریمنڈ لکھتا ہے کہ مقتولین کے تمام ورثاء کو دباؤ ڈال کر خون بہا لینے پر مجبور کیا گیا تھا۔پیسے آنے کے بعد ان خاندانوں میں جو کچھ ہوا ہو مگر اُن کا یہ کردار ناقابل فراموش رہے گا کہ وہ زیرِ دباؤ خوںبہا لینے پر مجبور کیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان ورثاء کو خوں بہا لینے پر مجبور کرنے والوں کو ہم کیا سمجھیں؟ افسوس آج کل اُن ریٹائرڈ افسران کی ’’بصیرت‘‘ اور پاکستان کے لیے ’’خدمت ‘‘ کی زبردست دلیلیں اور اُن کے ’’بے نقاب‘‘ کردار کی بے پناہ تاویلیں کی جارہی ہیں۔ اور ہم’’بادشاہوں کے بلاتکان اور بے دام خادم‘‘ اپنے نغمۂ آزادی کو گنگناتے ہیں!آہ
پروں والے بگلے کس قدر آزاد ہیں