وجود

... loading ...

وجود

سید صلاح الدین احمد‘سیاست دان سے بین الاقوامی دہشت گرد تک

بدھ 05 جولائی 2017 سید صلاح الدین احمد‘سیاست دان سے بین الاقوامی دہشت گرد تک

بی بی سی کے مطابق امریکہ نے کشمیرکے معروف جہادی رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین احمد کو خصوصی طور نامزد کردہ عالمی دہشت گرد قرار دے دیا ہے انڈیا نے جہاں اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے وہیں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ردعمل میں اس اقدام کو مکمل طور پر بلاجواز قرار دیا ہے۔سید صلاح الدین انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حکومتی افواج سے برسرپیکار سب سے بڑی کشمیری عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ ہیں۔27جون کی شب میں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انھیں ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے سیکشن ’’ون بی‘‘ کے تحت دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ یہ پابندی ان غیرملکی افراد پر عائد کی جاتی ہے جنھوں نے امریکی شہریوں یا ملک کی قومی سلامتی، خارجہ پالیسی یا معیشت کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کی ہوں یا ان سے ایسی کارروائیوں کا واضح خطرہ ہو۔ یہ اعلان وائٹ ہاؤس میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات سے چند گھنٹے قبل کیا گیا۔محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سید صلاح الدین نے ستمبر 2016 میں کشمیر کے تنازعے کے کسی پرامن حل کا راستہ روکنے اور وادی میں مزید خودکش بمباروں کو تربیت فراہم کرنے اور اسے انڈین فورسز کے قبرستان میں تبدیل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ بی بی سی نے خبر کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ خصوصی طور پر نامزدہ کردہ دہشت گرد قرار دیے جانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ نہ صرف امریکی شہریوں پر اب سید صلاح الدین کے ساتھ مالیاتی لین دین پر پابندی ہوگی بلکہ ان کے امریکہ میں تمام اثاثے بھی منجمد کر دیے جائیں گے۔ سید صلاح الدین احمد کی عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کئی دہائیوں سے کشمیر میں انڈیا کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ صلاح الدین کی سربراہی میں حزب المجاہدین نے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اعلان کے فوراََ بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے اس بیان اپنا ردعمل دیتے ہو ئے جہاںاسے بلا جواز قرار دیاوہی کشمیر سے پاکستان تک ہر فرد کی زبا ن پر ایک ہی بات ہے کہ یہ نریندر مودی کو خوش کرنے کے اقدام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ یہ سب صرف ایک فرد کی خوشنودی کے لئے کر سکتا ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں بلکہ امریکہ جان بوجھ کر اس طرح کے اقدامات اٹھاتا ہے۔امریکہ ایک ایسی طاقت ہے جس کے سینکڑوں چہرے ہیں۔یہ کب کیسے اور کس طرح اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کا فیصلہ لیتی ہے، سمجھنے میں عالمِ اسلام نے بہت دیر کردی ہے۔امریکہ کی پہلی اورآخری ترجیح دوسرے ممالک ہی کی طرح امریکہ ہے اس کے بعد اس کے وہ سبھی حلیف ممالک جو اس کی بولی بولتے ہیں۔امریکہ روزِ اول سے اسرائیل کی پشت پر کھڑا رہا اور نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطین کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوا اور نا ہی مستقبل قریب میں اس کے حل کے امکانات نظر آتے ہیں۔آج بھی یہودی فلسطینیوں کے گھر گرا کر اپنی کالونیوں میں توسیع کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور یہ سب کچھ پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے جاری ہے۔اسرائیل خود کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ یہ صرف امریکی فوجی اور معاشی قوت ہے جو اس کو اس قدر مظالم ڈھانے پر ہر دم تیار اور متحرک رکھتی ہے۔مسئلہ فلسطین سے پیدا شدہ تمام تر انسانی المیوں کی ذمہ داری اسی امریکہ پر عائد ہوتی ہے جس نے ہر سیاسی بین الاقوامی فورم پر اس کی کھلی حمایت جاری و ساری رکھی۔اسرائیل کے بعد اب کچھ عرصے سے امریکہ بھارت کی پشت پناہی کرنے کے لئے آگے آچکا ہے اور اپنی ستر سالہ ’’قدرے غیر جانبدارانہ پالیسی‘‘کو پامال کرتے ہو ئے بھارت کے ملک بھرمیں اقلیتوں پر بالعموم اور کشمیریوں پر بالخصوص مظالم کو جواز فراہم کردیا ہے۔امریکہ روزِ اول سے مسئلہ کشمیر کو’’ دو ممالک ‘‘کے بیچ تنازع قرار دیتا آیا ہے کہ اچانک نریندر مودی کے دور سے قبل اس نے تحریک کشمیر کی ’’علامت‘‘سید صلاح الدین احمد کو دہشت گرد قرار دے دیا۔
اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ اسرائیل کی لازوال دوستی میں بھارت کی والہانہ شمولیت کواگر چہ ’’مسلمان دانشور‘‘اتحادِ ثلاثہ قرار دیتے آئے ہیں اوربھارت کے اسرائیل کے ساتھ کھلے مراسم اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔نریندر مودی جب گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تب اسرائیلی ماہرین کی گجرات آوا جاہی گر چہ معنی خیز تھی مگر 2000ء کے قتلِ عام کے بعد جب مسلمانوں کی کھنڈرات میں تبدیل شدہ بستیوں سے آتشی مادہ کے ڈبے ’’میڈ اِن اسرائیل‘‘ملے تو اسرائیلیوں کی گجرات آمد و رفت کا خلاصہ بھی ہوا۔ بھارت کے لئے امریکہ کا یہ قدم اس کی اپنی سوچ کے مطابق انتہائی اہم ضرور ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسے بھارت کو اس کشمیر میں کیا حاصل ہونے والا ہے جہاں بچہ بچہ اس کے خلاف پتھر اٹھا کر اس کے فوجی نوعیت کے حساس آپریشنز تک کو ناکام بنا رہا ہے۔ بھارت کا کشمیر میں اسے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے اس لئے کہ کشمیر میں حالات اس قدر تبدیل ہو چکے ہیں کہ اگر کل کو ’’عسکری تحریک پورے طور پر دب بھی جائے تو بھی کشمیر کی آزادی کی متمنی نئی نسل تحریک کو ختم کرنے کے بالکل برعکس منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پر عزم نظر آتی ہے۔
کئی برس قبل ہم نے کئی مضامین میںعرض کیا تھا کہ بھارت کی غیر فطری اور جارحانہ پالیسی ایک روز اس کومکافاتِ عمل کی زد میں لاکر حریت اور جہادِ کونسل کے بالکل برعکس کسی ایسی شدت پسند جماعت سے گفتگو پر مجبور کر دے گی۔ جو اس کی ایک بھی بات ماننے کو تیار نہیں ہوگی۔سید صلاح الدین احمد کو دہشت گرد قرار دینے سے پہلے خود بھارت کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس کی کشمیرسے متعلق اپنائی گئی ظالمانہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک اسلام پسند سیاست دان سید محمد یوسف شاہ سے سید صلاح الدین احمد ہوگیا۔1990ء سے قبل بھی بھارت کی ریاستی پالیسی جبر و تشدد پر مبنی تھی نہیں تو شیخ محمد عبداللہ جیسے سیکولر سیاستدان کوآج کے حریت لیڈران یا عسکری تنظیموں سے وابستہ حضرات کے برعکس جیل بھیجنا چہ معنی دارد؟ پھر جب پر امن جدوجہد پر یقین رکھنے والا ’’مسلم متحدہ محاذ ‘‘ وجود میں آیا توبھارت نے تمام تر شرافت و انسانیت کو بالائے تاک رکھ کرخود ہی اپنی جمہوری اور سیکولر روایات کو پامال کر ڈالا نتیجہ 1990ء میں عسکریت کی صورت میں ظاہر ہوا اور اب گذشتہ اٹھائیس برس سے عسکریت بھارت کے لئے دردِ سر بنی ہوئی ہے جس کے عسکریت روحِ رواں سید صلاح الدین احمد ہیں جس کو دہشت گرد قرار دینے پر بھارت بھر کی ٹیلی ویڑن چینلز بغلیں بجا رہی ہیں۔
امریکہ کاسید صلاح الدین احمدکو’’بین الاقوامی دہشت گرد ‘‘قرار دینے سے بھارت کو شاید انٹرنیشنل فورمز میںکچھ عارضی فائدہ حاصل ہو تو ہو مگر جس کشمیرکی آبادی کو لیکر یہ پورا مسئلہ زندہ ہے اس میںاس ساری اچھل کود سے کچھ بھی بگڑنے والا نہیں ہے بلکہ نوجوان نسل میں کچھ نئے حوالوں کو لیکر اب وہ ’’ہیرو‘‘بنے ہوئے ہیں۔امریکہ ایک بے مہار اور بے اصول ملک ہے جس کوآج مجاہد اورآزادی پسند کہتے ہیں کل اسی کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔حزب المجاہدین کے جولائی 2000ء میں سیز فائر کے اعلان پرNDAکولیشن سرکار کے تب کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کیبنٹ کے وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی نے بھی اس کو مثبت قدم قرار دیکر جنگ بندی کا اعلان کر کے حزب المجاہدین کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔نہرو گیسٹ ہاوس میں حزب المجاہدین کے کمانڈروں نے مرحوم عبدالمجید ڈار کی قیادت میں کمل پانڈے کی سربراہی میں آئے حکومتی وفد سے بات چیت کی۔امریکہ اور اکثر یورپین ممالک نے اس وقت اس فائر بندی کی حمایت کی تھی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حزب المجاہدین تب بھی تو آج ہی جیسی تھی پھر صلاح الدین اور اس تنظیم میں کیا بدلاؤآیا کہ امریکہ کو اسے کو دہشت گرد قرار دینا پڑا۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ حزب المجاہدین حماس اور حزب اللہ کی طرح مقامی ایجنڈا کی حامل ایک مقامی جہادی تنظیم ہے۔ یہ عالمی خلافت کی قیام کی قائل ضرور ہے مگر اسے یہ احساس بھی دامنگیر ہے کہ جب تک ہم بھارتی تسلط سے آزادی حاصل نہیں کر سکتے ہیں تب تک بین الاقوامی ایجنڈے کی بات کرنا غیر ضروری ہے۔حزب المجاہدین یہ بھی جانتی ہے کہ خلافت ’’نعمتِ کبریٰ‘‘ہے مگر اس کے احیاء کی کوشش بین الاقوامی سطح سے لیکر مسلم ممالک تک ہر سطح پر ہونی چاہیے مگر ساتھ ہی یہ بھی سمجھتی ہے کہ یہ غلام قوموں کا نہ کام ہے نا ہی وہ اس کے لئے عملی سطح پرکچھ کر سکتے ہیں سوائے یہ کہ وہ اس کے حق میں مؤثرآواز اٹھائیںیا ’’آزاد مسلم ممالک ‘‘میں اس حوالے سے برسرِ جدوجہد تنظیموں کی حمایت کرکے اپنا وزن ان کے حق میں ڈالیں۔
حز ب المجاہد ین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ریاستِ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم ہو نے کے باوجود یہ ابتدا سے لیکر آج تک ان کمانڈروں کے زیر اثر رہی ہے جوچند ایک غلطیوں کے باوجود خونِ ناحق ، سیاسی اختلافات پر قتل اور غیر محارب عوام پر وحشیانہ حملوں کے قائل نہیں ہیں۔حزب المجاہدین جنگ کو ایک ضرورت سمجھتی ہے ہر وقت اور ہر حال میں جنگ ہی میں رہنا نہیں۔جن دانشوروں اور صحافیوں نے حزب المجاہدین کے بیانات کا باریک بینی سے گزشتہ اٹھائیس برس میں مطالعہ کیا ہوگا انھیں ضرور اس بات کا ادراک ہوگا کہ حزب کا تصورِ جنگ کیا ہے کہ وہ جنگ کے شوقین نہیں بلکہ بھارت کی ضد ،ہٹ دھرمی اور بین الاقوامی برادری کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں پیدا شدہ انسانی المیہ پردنیا کے امن پسند عوام کو متوجہ کرانے کے لئے بندوق اٹھائی تاکہ وہ بھارت کو مسئلہ حل کرنے پر مجبور کرے اورآزادی کے بعد پھر ’’احیا ئِ خلافت‘‘ کے لئے جدوجہد کی باری آتی ہے نہ کہ ابھی جب آپ کو بھارت سانس لینے کا بھی موقع فراہم نہیں کرتا ہے بلکہ وہ بین الاقوامی برادری کی حمایت کے توڑ کے لئے اسے دیگر اقلیتوں اور قوموں کے خلاف جنگ قرار دیکر آزادی کی جدوجہد ہونے کی نفی کرتی۔
حزب المجاہدین جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر و باہر ہے کہ ایک جہادی جماعت ہے اس کے باوجود وہ ’’اقوام متحدہ‘‘کی قراردادوںپر عمل درآمد کی بات کرتی ہے۔وہ عالمی اداروں جیسے اقوام متحدہ ،ہیومن رائٹس ،ریڈ کراس ،نیٹواور آو ،آئی،سی سے مسئلے کے حل میں مدد کا ذکر کرتے ہو ئے ’’اعتدال پسندی پر مبنی روش‘‘اپنانے والی جماعت کے طور پر اپنا تعارف کراتی ہے۔حزب المجاہدین حریت کانفرنس کے پروگراموں کی تائید کر کے یہ باور کراتی ہے کہ وہ ناگزیر تشدد کی منکر تو نہیں مگر غیر ضروری جنگ و جدال سے بھی پرہیز پر کار بند ہے۔حزب المجاہدین کی دھمکیوں کے باوجود یہ سچائی ہے کہ وہ خود کش بمباری پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ 30جون2017 کو پورے اٹھائیس برس کی طویل اور پر مشقت جنگ کے باوجود شدید اور سخت ردِ عمل کے شکار ہو نے کے برعکس حزب المجاہدین کشمیر کے نوجوانوں کو ’’داعش‘‘سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہو ئے یہ بین السطور یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ مسلم ممالک اور معاشروںکے ظالم حکمرانوں اور سنگدل چودھریوںسے انتقام لیکر اینٹ سے اینٹ بجانے کی بھی قائل نہیں ہے۔حزب المجاہدین نے ریاست سے باہر سواارب ہندوستانی بے گناہ شہریوں کو کبھی نشانہ نہیں بنایااور نا ہی اس کی حوصلہ افزائی کی حالانکہ مقامی تنظیم ہو کر وہ بھارت بھر میں دوسروں کے مقابلے میں انتہائی مؤثر کارروائیاں انجام دے سکتے تھے۔حزب المجاہدین کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کی داعی تو ہے ہی مگر ساتھ ہی وہ’’ غیر ریاستی غیر مسلموں‘‘ کو عبادت سے روکنے کی بھی قائل نہیں ہے بلکہ وہ ’’یاتریوں اور سیاحوں ‘‘کی کشمیر سیاحت کی حوصلہ افزائی کر کے دوسروں کو برداشت کرنے کا بھی ثبوت دے چکی ہے۔حزب المجاہدین نے کبھی بھی مسلکی تشدد کی حمایت نہیں کی بلکہ ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے ہو ئے یہ ثابت کردیا کہ بین المسلمین تفریق کے روادار نہیں ہیں اور تو اور حزب المجاہدین میں جہاں سنی المسلک نوجوان شامل ہیں وہی شیعہ حضرات ہی نہیں بلکہ کم ہی سہی غیر مسلم نوجوانوں کو تنظیم میں شامل کر کے ان کے لئے ایک الگ شعبہ بنا کر انہیں دفاعِ وطن کی جنگ میں شامل ہونے کی بھر پور حمایت کر کے یہ ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک ریاست کی دھرتی پر پیدا ہو نے والا ہر فرد عزت و احترام کا مستحق ہے۔
المیہ یہی ہے کہ اقوامِ عالم بشمول امریکہ حزب المجاہدین کے طریقہ جدوجہد کی حوصلہ افزائی کے برعکس انھیںجان بوجھ کر مایوسی کے غار میں دھکیلنے کی کوششوں میں بھارت کے ساتھ مصروف ہے تاکہ وہ بھی وحشیانہ طریقوں کو اختیار کرتے ہو ئے اقوام عالم میں اپنی خوفناک تصویر بنا کر پورجدوجہد کی شکل و صورت کو ہی مسخ کر دے۔امریکہ اور اس کے نئے حلیف بھارت کی مشترکہ کوشش یہ ہے کہ کشمیر کی تحریک کو دہشت گردی سے نتھی کراتے ہو ئے ہر ظلم و جبر کو جواز فراہم کیا جا ئے۔بھارتی فوجی سربراہ کے بیان سے ایک سال پہلے ہم نے یہ عرض کیا تھا کہ بھارت کی ترجیحی کوشش یہ ہے کہ کشمیر کی ’’پر امن تحریک‘‘کسی طرح ’’پرتشددراستوں‘‘پر چل پڑے تاکہ کشمیر میں نسلی صفایا کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہو۔بعد میں جنرل راؤت نے یہ بات کھل کر کہی کہ کاش ’’پتھر باز‘‘پتھروں کے برعکس ہتھیار بند ہوتے تو ہم اپنی قوت کابھرپور مظاہرہ کرتے۔حزب المجاہدین ان تمام تر منصوبہ بندیوں سے گہری واقفیت رکھتے ہو ئے ’’راہِ اعتدال ‘‘پر گامزن ہے اور اسی سے خار کھائی دلی اور واشنگٹن انتظامیہ صلاح الدین احمد کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے حالانکہ اسے بھارت کے پالے میں کچھ پڑنے کے بجائے حزب ہی کو فائدہ پہنچے گاجس کا بہت بڑا ثبوت حافظ محمد سعید ہے جس کو نا صرف دہشت گرد قرار دیا گیا بلکہ بہت بڑا انعام مقرر کر کے آپ اپنی بیہودہ پالیسی کا مذاق بنوادیاگیا۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر