... loading ...
برطانیا کی یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ میں پروفیسر یانِس ایروپولوس کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم نے اچھوتا نظام ایجاد کیا ہے جو انسانی پیشاب کے ذریعے نہ صرف بجلی بناتا ہے بلکہ نکاسی کے گندے پانی میں موجود خطرناک جرثوموں کو ہلاک بھی کرتا ہے۔ یعنی یہ صحیح معنوں میں ’’ایک پنتھ دو کاج‘‘ والی ایجاد ہے۔
یہ بات صدیوں سے معلوم ہے کہ پیشاب میں تیزاب کے علاوہ مختلف نامیاتی مرکبات، خاص طور پر یوریا کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔ کیمیائی عمل کے ذریعے ان مادّوں سے بجلی بنانے اور جراثیم ہلاک کرنے کے امکانات بھی برسوں سے موجود تھے لیکن ایسا کوئی قابلِ عمل طریقہ وضع نہیں کیا جاسکا تھا جس کی مدد سے یہ سارے کام تیز رفتاری اور سہولت کے ساتھ کم خرچ پر انجام دیے جاسکتے۔
یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ کے ماہرین نے 2015 میں بین الاقوامی تنظیم ’’آکسفیم‘‘ کے تعاون سے ایسا ہی ایک تجرباتی فیول سیل ایجاد کرلیا تھا جس میں موجود جراثیم، یوریا کے سالمات توڑتے ہیں اور معمولی مقدار میں بجلی بھی بناتے ہیں۔ البتہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ یہ بیکٹیریا اسی کارروائی کے دوران میں ہائیڈروجن پرآکسائیڈ بھی بناتے ہیں جس سے انہیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا لیکن یہ نکاسی کے گندے پانی میں موجود دوسرے جرثوموں کو ہلاک کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کم خرچ اور مفید نظام کے پروٹوٹائپ کی دو سالہ آزمائش مکمل ہونے کے بعد برطانوی ماہرین نے اپنی تفصیلی رپورٹ ریسرچ جرنل ’’پبلک لائبریری آف سائنس ون‘‘ (PLoS ONE) کے تازہ شمارے میں شائع کروادی ہے۔
چند ہفتے پہلے موسیقی کے ایک میلے میں بھی اس نظام کا ایک نمائشی نمونہ رکھا گیا تھا جو پیشاب سے اپنے لیے ساری بجلی خود بنایا کرتا تھا جبکہ پانی کو جراثیم سے پاک بھی کرتا تھا۔پروفیسر یانِس کہتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں یہ نظام غریب اور پسماندہ ممالک میں طہارت کی سہولت فراہم کرتے ہوئے انتہائی کم خرچ پر بجلی بنانے کا کام بھی کیا کرے گا جبکہ نکاسی کے پانی میں شامل خطرناک اور ہلاکت خیز بیکٹیریا ہلاک کرتے ہوئے ماحول دوستی کا حق بھی ادا کرے گا۔