... loading ...
1876کا زمانہ ہندوستانیوں کے لیے بڑا پر آشوب تھا‘ انگریز حکمران ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں ان سے ان کا وطن اور آزادی چھین چکے تھے۔ برطانوی راج کے ہاتھوں دہلی میں مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کا اقتدار تاراج ہوئے 20سال گزر چکے تھے۔ انگریز تعداد میں چند ہزار تھے اور ہندوستانی 40کروڑ‘ اس تناسب سے حکمرانی قائم رکھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی تھا۔ چنانچہ تاج برطانیا نے فیصلہ کیا کہ مقامی سطح پر کچھ ایسی جماعتیں اور تنظیمیں قائم کی جائیں جو بظاہر ہندوستانیوں پر مشتمل ہوں مگر درپردہ برطانوی راج کی پروردہ اور ان کے سایۂ عاطفت میں سیاسی کردار ادا کریں۔
سب سے پہلے ہندوؤں کی جماعت’’کانگریس‘‘ بنانے کے لیے ایک انگریز افسر مسٹر ہیوم کو ذمہ داری سونپی گئی۔ اس نے ہندوستانیوں میں سے ہی کچھ لوگ تلاش کیے اور انہیں کانگریس کی تشکیل پر آمادہ کردلیا۔ وقت گزرتا رہا۔ کانگریس کی طاقت بڑھتی چلی گئی۔ مسلمان 1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد سخت مایوس اور پژمردہ تھے‘ انہوں نے ہندوؤں کی پارٹی کانگریس کو پھلتے پھولتے اور پروان چڑھتے دیکھا تو انہیں بھی پارٹی بنانے کا خیال ستانے لگا۔ مسٹر ہیوم کو اسی دن کا انتظار تھا۔ مسلمان آزادی کے معرکے میں ناکامی کے بعد انگریز حکومت سے عدم تعاون کی پالیسی پر گامزن تھے۔ ان میں جب پارٹی بنانے کا خیال کلبلا نے لگا تو مسٹر ہیوم نے چند مسلم رہنماؤں سے رابطہ کرکے انہیں ڈھاکا میں اجلاس کی ترغیب دی۔ 1906ء میں نواب آف ڈھاکا نواب سلیم اللہ خان کی زیر صدارت مسلم رہنماؤں کا اجلاس منعقد ہوا اور آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھ دی گئی۔ مسلمانوں میں انگریز حکومت کے خلاف نفرت انگیز جذبات کا رخ بغاوت کی بجائے تعاون کی طرف موڑ دیا گیا۔ ہندوستانیوں کی یکجہتی ختم ہوکر ہندو مسلم جماعتوں میں تقسیم ہوگئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں وجود میں آنے والی دونوںجماعتوں کے درمیان بآلاخر 1937ء میں انتخابی معرکہ ہوا دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے اکثریتی علاقوں میں کامیابی حاصل کی اور اسمبلیاں وجود میں آگئیں۔ 1940کی دہائی میں دونوں جماعتوں نے ایک بر صغیر کو دو ملکوں بھارت اور پاکستان میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ بدستور سیاسی فیصلوں پر حاوی رہی۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے دور صدارت میں آگرہ مذاکرات کے لیے دہلی گئے۔ بھارت وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ دہلی میں ان کے مذاکرات سو فیصد کامیاب ہوچکے تھے۔
دونوں رہنماؤں کو تیسرے دن آگرہ جاکر مفاہمتی معاہدے پر دستخط کرنا تھے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ آڑے آگئی۔ کھیل بگڑ گیا۔ معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے۔ پرویز مشرف اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر پاکستان واپس آگئے۔ اگلے دن انہیں اجمیر شریف جاکر حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضر ہونا تھا۔ وہاں روانگی بھی منسوخ ہوگئی۔ بھارت کے تیور بدل گئے اور مذاکرات مخاصمت میں تبدیل ہوگئے۔ گزشتہ 70برس سے دوستی اور دشمنی کا یہ کھیل جاری ہے۔ بھارت اپنے بڑے ہونے کا رعب جمانے کے لیے علاقے کے چھوٹے ملکوں کے خلاف جارحیت سے کبھی باز نہیں آتا۔ ہتھیاروں کی خریداری کے جنون نے اسے اپنی ایک ارب سے زائد غریب اور مفلوک الحال آبادی کے مسائل سے بھی بے گانہ کر رکھا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے اپنے حالیہ دورہ امریکا میں دو ارب ڈالر کے 18جاسوس ڈرون طیارے اور اربوں ڈالر کے دیگر ہتھیار خریدنے کا آرڈر دیا ہے حالانکہ یہ خطیر رقم بھارتی عوام کی فلاح و بہبود اور غربت دور کرنے پر خرچ ہوسکتی تھی۔ امریکی تو تاجر قوم ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیسے اور تجارت کے لیے مودی کو اپنا بھائی بھی کہہ سکتے ہیں۔ گزرے وقتوں کا ذکر ہے۔ صدارتی امیدوار رونالڈ ریگن کو انتخابی مہم کے دوران ایک ٹی وی انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ سات عرب ملکوں کے بادشاہ پانچ ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم اور ایک امریکی تاجر آپ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہیں ۔ آپ ان میں سے سب سے پہلے کس سے ملاقات کریں گے تو ریگن نے جھٹ جواب دیا’’امریکی تاجر سے‘‘
نریندرا مودی ہتھیاروں کے گاہک بن کر امریکا گئے تھے تو ان کا پرتپاک استقبال کیوں نہ ہوتا۔ امریکا ہویا یورپ‘ ان اقوام نے تاجر بن کر ہی دنیا بھر سے دولت سمیٹی ہے۔ آج پوری دنیا کی 75فیصد دولت امریکا کے پاس ہے۔ اس میں سے 90فیصد نیویارک کے علاقے میں ہے جہاں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کے صدر دفاتر ہیں۔ 200سال قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے برطانوی تاجر بھی تجارت کے لیے ہندوستان (برصغیر) آئے تھے۔ اور پھر یہاں قبضہ کرکے بیٹھ گئے تھے۔ وہ 1947ء میں واپس جاتے ہوئے اپنے ایسے (ٹو ڈی) ایجنٹ بھی چھوڑ گئے تھے جنہوں نے آگے جاکر نو آزاد ملکوں کے اقتدار پر قبضہ کرنا تھا ۔ ان کے وسائل اور قومی خزانہ لوٹ کر امریکا اور یورپ کے بینکوں میں جمع کرانا تھا‘ وہاں کی معیشت کو مضبوط بنانا تھا اور جائیدادیں خرید کر اپنے وطن کو کنگال اور بدحال بنانا تھا۔ ہمارے حکمران گزشتہ 70سال سے یہ فریضہ بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ نئے نو آبادیاتی نظام کی ایک غلیظ اور بدبو دار شکل ہے۔ اس ظالمانہ استحصال سے پاکستان کے عوام غریب سے غریب تر ہورہے ہیں‘ ذراسی بارش ان کھوکھلے اور دوغلے حکمرانوں اور انگریزوں کے غلاموں کے دعوؤں اور انتخابی وعدوں کی ساری قلعی کھول دیتی ہے۔ یہ 70سال سے شہروں‘ گلی کوچوں‘ بازاروں اور سڑکوں کی حالت ٹھیک نہیں کرسکے ہیں۔ ان امور کے لیے مختص رقومات لوٹ کر بیرون ملک لے گئے ہیں۔ پاکستان کو 70ارب ڈالر کا مقروض بنادیا ہے۔ اس کے سود کی بھارتی قسطیں گیس‘ بجلی‘ ٹیلیفون‘ پانی‘ پراپرٹی اور چھوٹے کاروباروں پر بھاری ٹیکس عائد کرکے ادا کرتے ہیں‘ غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر خود سونے کے نوالے اپنے پیٹوں میں اُتارتے ہیں‘ پھر علاج کے لئے امریکا اور یورپ بھاگتے ہیں۔ یہ خودتو غلام ہیں لیکن انہوں نے قوم کو بھی غلامی کی زنجیریں پہنادی ہیں۔ ذہنی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تازہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 9کروڑ 70لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ 2018کے مجوزہ عام انتخابات تک یہ تعداد 10کروڑ سے متجاوز ہوجائے گی۔ گویا پاکستان کی آدھی آبادی ووٹروں پر مشتمل ہے لیکن چند خاندانوں نے انہیں غلام بنا رکھا ہے۔ ان کی اخلاقی تربیت میں کمی کا یہ عالم ہے کہ بھاولپور کے شہر احمد پور شرقیہ کے قریب آئل ٹینکر الٹتا ہے تو پورا علاقہ پیٹرول چرانے پہنچ جاتا ہے اور پھر 190افراد پیٹرول کی آگ میں جھلس کر جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ بد اخلاق‘ چور اور لٹیرے حکمران قوم کو بھی اپنی ڈگر پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ سب ایسٹ انڈیا کمپنی کی خراب تربیت کا نتیجہ ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی اصلاح کے لیے سر سید احمد خان نے جریدہ’’تہذیب الاخلاق‘‘ شائع کیا تھا۔ اس کے بعد اپنی تعلیمی تحریک شروع کی تھی۔ اسلام اخلاقیات کا سب سے بڑا مبلغ ہے۔ ہادیٔ برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی شناخت ’’صادق اور امین‘‘ہونا تھا جس کی گواہی کفار بھی دیتے تھے۔ حکمرانوں کے خلاف کتنے ہی’’پاناما کیس‘‘ چلالیں وہ جب تک صادق اور امین نہیں ہوں گے خراب حکمرانی کی ٹریل چلتی رہے گی۔ انگریزوں کے بر صغیر سے جانے کے باوجود ان کی وراثت قائم رہے گی اور پیسہ یہاں سے وہاں منتقل ہوتا رہے گا۔