... loading ...
پاکستان کے پہلے جمہوری طور پر منتخب نامور سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کے نام میں جونیئر کے اضافہ کے ساتھ ان کے ہم نام پوتے کی رقص کرتی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ تصویر کی پس پردہ کمنٹری میں بتایا گیا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے اکلوتے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے کسی مغربی کلب میں زنانہ لباس پہن کر رقص شروع کردیا ہے۔ ویڈیو میں ذوالفقار جونیئر کی انگریزی گفتگو بھی شامل ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مرد خواتین کی طرح سے نرم و نازک بھی ہوسکتا ہے۔ اس میں لچک ہوسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ سختی میں ہی مردانگی ہو۔ ایک ایسا نوجوان جس کے والد مرتضیٰ بھٹو کو سازش کرکے پولیس نے ساتھیوںسمیت بے رحمی کے ساتھ گولیوں کا نشانا بنایا ہو۔ جس کے دادا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا ہو‘ جس کی پھوپھی بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کی سڑک پر لیزر گن سے نشانہ بنایا گیا ہو‘ جس کے ایک چچا شاہنواز بھٹو کو فرانس میں پر اسرار طور پر زہر دے کر ہلاک کردیا گیا ہو اور جس کی دادی نصرت بھٹو نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اورپاگل ہوکر جان دی ہو۔ جس کی نسلی شناخت چھن گئی ہو‘جو زمین جائیداد حتیٰ کہ اپنے دادا کی بنائی ہوئی پارٹی کی وراثت سے بھی محروم ہوگیا ہو‘ اس کے پاس مزید جینے کے لیے ’’نرمی‘‘ کے سوا اور کون سا راستہ باقی رہ گیا ہے۔ اس کے والد نے صدر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں’’الذوالفقار‘‘ نامی تنظیم بنائی جس نے پی آئی اے کا طیارہ اغواء کیا۔ ٹیپو جیسے جوشیلے نوجوان اس پرواز کو بندوق کے زور پر افغانستان کے دارالحکومت کابل لے گئے۔ جہاں مرتضیٰ بھٹو نے پہنچ کر پاکستانی حکمرانوں کے وفد سے مذاکرات کیے اور ملک کی مختلف جیلوں میں قیدو بند کی صعوبتوں سے دو چار اپنے 54ساتھیوں کو رہائی دلواکر بیرون ملک بھجوایا تھا۔ ’’الذوالفقار‘‘ جیسی سخت تنظیم کا بھی ضیاء الحق کے جبرو استبداد کے خلاف ’’بغاوت‘‘ کا ایک انداز تھا اوراب ذوالفقار جونیئر کی زنانہ لباس میں رقص کرتی تصویر بھی’’بغاوت‘‘ ہی کا روپ ہے۔ یہ ایک بہادر انسان کے بیٹے کی بے بسی کا شاخسانہ ہے جسے اپنے نسلی تفاخر سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔یہ بے انصافیوں اور ظلم و استحصال سے بھرپور اس معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ فلسطینی عوام کی دلیرانہ مسلح جدوجہد جب بار آور نہیں ہوئی۔مجاہدہ لیلیٰ خالد کے طیارہ اغواء کرنے سے بھی دنیا متوجہ نہیں ہوئی تو فلسطینیوں نے ’’نرمی‘‘کے ذریعے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی ٹھانی۔’’تحریک انتفادہ‘‘ شروع کردی۔ اسرائیلی فوجی گولیاں برساتے تھے اور فلسطینی عوام اپنے سینے آگے کردیتے تھے ۔ بالآخر دنیا کو’’فلسطینی ریاست‘‘ کی تشکیل پر آمادہ ہونا پڑا۔ مشہور پاکستانی فلم’’زرقا‘‘ میں زنجیر بکف ادا کارہ رانی پر ایک گانا فلمایا گیا ہے۔
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے بھی زنانہ لباس میں بے بسی کی تصویر بن کر اپنے رقص کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ’’نرمی‘‘ کی طرف آؤ۔ تشدد‘ دہشت گردی‘ قتل و غارتگری‘ بم دھماکے‘ تخریب کاری اور جارحانہ رویہ چھوڑ دو امن و شانتی کا راستہ اپناؤ۔ پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کا ناسور بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ہر طاقتور کمزوروں کو کچلنے میں مصروف ہے۔ سڑکیں جنگ و جدال اور قتل و قتال کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں ۔ طاقتور لوگوں کی ان سے بھی زیادہ طاقت کے نشے میں مست اولاد راہ میں آنے والوں کو گولیوں کا نشانا بنا کر یا گاڑیوں سے کچل کر نکل جاتے ہیں۔سب سے زیادہ ظلم و استحصال کی شکار صنف نازک ہے۔ خواتین پر تشدد کو مردانہ معاشرے نے اپنا حق سمجھ لیا ہے ۔ سندھی زبان کی معروف مصنفہ نور الہدیٰ شاہ نے ذوالفقار جونیئر کی کایا پلٹ پر لکھا ہے۔
ویڈیو میں جب میں نے کپڑے پر کڑھائی کرتے ہوئے ذوالفقار بھٹو جونیئر کے ہاتھ دیکھے تو مجھے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے ایک بیت کی پہلی سطر یاد آگئی جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے’’باریک سی سوئی سے کاڑھا ہے میں نے اپنا من اپنے ہم وطنوں کے ساتھ۔‘‘ یہ آج کی بغاوت ہے آج کا انکار ہے جو مغرب کے لیے تو باعث حیرت نہیں مگر مشرق میں موجود پاکستان نامی ملک کے سماج کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہے نرم و نازک و نفیس اور ایک عورت کا دل لیے ہوئے بغاوت اور ان کا جینے کے لئے بغاوت اور مصنوعی مردانگی سے انکار۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ لعنت ہے اس ملک کی سیاست پر،جبر پر ،تشدد پر۔ جاؤ‘ میں نے نہیں پھانسی چڑھنا‘ جاؤ میرے نام کی گولی نہیں چاہیے مجھے۔ جاؤ مجھے نہیں حوروں کا لالچ دے کر دوسروں کے بیٹوں کو دہشت گردی میں دھکیلنا۔ میں خود کیوں نہ ایسی حور بن جاؤں جو زندگی کو بہشت بہشت کر دے ۔ ایک بچہ جو خون کی ہولی میں پرورش پاتا ہے۔ طاقت کے ایوانوں میں کھیلی گئی سازشوں کی لرزا دینے والی کہانیوں کے بیچ دبے پاؤں چلتے ہوئے بڑا ہوتا ہے۔ تیز تیز دھڑکتے دل کے ساتھ کہ پتہ نہیں ابھی کتنی گولیاں بندوق میں باقی ہیں اور کون سی گولی پر میرا نام لکھا ہے۔ بڑا ہونے پر وہ کس سکون سے بغیر کچھ کہے بہت کچھ کہہ گیا ہے۔ وہ موروثی تاج کی دعویداری نہیں کررہا اور جینے کا متمنی ہے۔‘‘ نور الہدیٰ شاہ کے محسوسات ایک بڑی ادیبہ کے خیالات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ذوالفقار جونیئر کا انوکھا احتجاج ایک ایسی چیخ بن گیا ہے جس نے پاکستانی معاشرے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ذوالفقار جونیئر نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ سختی کو چھوڑو نرمی کی طرف آؤ۔ کمزوروں اور غریبوں پر ظلم نہ ڈھاؤ۔ جنگیں اور لڑائی مسائل کا حل نہیں ہیں۔ اپنے اندر نرمی پیدا کرکے دنیا کو امن کا گہوارہ بناؤ برصغیر کے صوفیوں نے بھی انسانوں کو یہی پیغام دیا تھا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید خاص حضرت امیر خسرو نے بھی پاؤں میں گھنگرو باندھ کر رقص کیا تھا۔ بادشاہوں کے دور میں غریب رعایا پر ظلم ڈھانا اور سختی کرنا عام بات تھی ۔حضرت امیر خسرو نے اپنے مرشد کے عشق میں گھنگرو باندھ کر اور زنانہ لباس میں رقص کرکے معاشرے میں نرمی پیدا کرنے کا درس دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے اپنے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے’’الذوالفقار‘‘ کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے’’نرمی‘‘ کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیجنڈ اداکار مصطفیٰ قریشی کی فلم’’مولا جٹ‘‘ ان کے نرم لہجے سے ہی کامیاب ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر اور ان کی ٹیلنٹڈ ہمشیرہ فاطمہ بھٹو اپنی جان بچاتے پھر رہے ہیں۔ ان کے خاندان کے کئی بڑوں کو مار دیا گیا ہے۔ ان کے سامنے تمثیلی انداز میںا پنا دکھ بیان کرنے کے لیے’’نرمی‘‘ کے سوا دوسرا کون سا راستہ بچا ہے۔ فاطمہ بھٹو نے’’خون اور تلوار کے گیت‘‘ کتاب لکھی ہے جس میں موجودہ سماج اور سیاست پرنشتر زنی کی گئی ہے اور اب ان کے بھائی ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے انسانی معاشرے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو آئینہ دکھایا ہے۔ وہ پاکستانی سیاست کے طاقتور کرداروں‘ گاڈفادرز اور مافیا چیفس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں لیکن زنانہ لباس میں ان کے رقص نے تلواروں اور بندوقوں سے بڑھ کر کام دکھادیا ہے۔ کوئٹہ اسمبلی کے رکن عبدالمجید اچکزئی نے چوراہے پر ڈیوٹی انجام دینے والے ٹریفک اے ایس آئی کوکچل کر ہلاک کردیا لیکن انہیں اس پر اس لئے کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ وہ گورنر بلوچستان احمد خان اچکزئی اور ان کے بھائی وزیر اعظم کے چہیتے مشیر محمود خان اچکزئی کے رشتہ دار ہیں اور طاقت کے گھمنڈ سے سرشار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا ’’نرمی‘‘ والا فلسفہ ایسے ہی لوگوں کے لیے نوشتۂ دیوار ہے۔
٭٭……٭٭