... loading ...
ماحولیات کی بہتری کے لیے کام کرنے والے کاروباری شخص آرتھر کے چاہتے ہیں کہ لندن کی پہنچان لال بسیں کافی کی باقیات سے بننے والے ایندھن پر چلیں۔آرتھر بئیو بین نامی کمپنی کے مالک ہیں جو مختلف کافی بنانے والی کمپنیوں سے باقیات اکٹھا کرتی ہے اور اس کو مائع ایندھن میں تبدیل کرتی ہے۔یہ کمپنی چند ہفتوں میں لندن میں کوفی پر چلنے والی بس متعارف کرائے گی۔سڑکوں کا جال اور بلند عمارتوں کے باعث لندن برطانیہ کا آلودہ ترین شہر ہے اور برطانیہ میں آج یعنی جمعرات کو صاف فضا کا قومی دن بھی منایا جا رہا ہے۔آرتھر کا کہنا ہے کہ جب تک لوگ کافی پیتے رہیں گے تب تک کافی کی باقیات دستیاب ہوں گی اور ایندھن بنتا رہے گا۔انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں لوگ ہر سال پانچ لاکھ ٹن کافی پیتے ہیں اور اگر اس کی تمام باقیات استعمال کی جائیں تو مانچیسٹر جیسے شہر کو توانائی فراہم کی جا سکتی ہے۔بہت سے ممالک کو بائیو فیول کے فوائد کا اندازہ ہو گیا ہے جو کہ چاکلیٹ سے نکاسی کے نظام سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔چند سال قبل سویڈن اس وقت خبروں کی زینت بنا جب اس نے خرگوشوں کی لاشوں سے تیل بنایا۔ ان خرگوشوں کو آبادی زیادہ ہونے کے باعث تلف کیا گیا تھا۔لیکن سویڈن اس سے کافی عرصہ پہلے سے بائیو فیول استعمال کر رہا تھا۔ دارالحکومت ا سٹاک ہوم میں 15 ہزار گاڑیاں اور 300 بسیں بائیو گیس پر چلتی ہیں۔شروع میں بائیو فیول ایتھنول سے بنتا تھا جو برازیل سے لائے گئے گنے سے بنتا تھا لیکن 90 کی دہائی میں اس حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا کیونکہ گنا خوراک کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے بعد سویڈن میں توجہ بائیو گیس پر دی جانے لگی۔بائیو فیول کے استعمال کو زیادہ کرنے کے لیے ا سٹاک ہوم کی حکومت نے اپنی گاڑیاں بائیو فیول پر کیں اور پیٹرول ا سٹیشنز کو ترغیب دی کہ بائیو فیول پمپ لگائیں۔ تاہم دنیا میں کچھ شہر آلودگی میں کمی کے لیے روایتی طریقے استعمال کر رہے ہیں جیسے کہ الیکٹرک گاڑیاں۔بیجنگ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ شہر کی 70 ہزار ٹیکسیاں الیکٹرک میں تبدیل کر دی جائیں گی اور اس پر 9 بلین ین لاگت آئے گی۔ناروے میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مارچ میں ناروے کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس سال رجسٹر ہونے والی گاڑیوں میں سے آدھی سے زیادہ گاڑیاں یا تو الیکٹرک ہیں یا پھر ہائیبرڈ۔لندن میں فورڈ کمپنی نے ٹرانسپورٹ فار لندن کے ساتھ مل کر الیکٹرک وینیں چلانے کا منصوبہ بنایا ہے۔