وجود

... loading ...

وجود

سندھ میں اختیارات کی تقسیم

پیر 19 جون 2017 سندھ میں اختیارات کی تقسیم

ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی 22اگست 2016ء والی متنازعہ تقریر سے قبل تک کراچی اور حیدرآباد کے عوام کا بھاری مینڈیٹ پارٹی کی میراث تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ان دونوں شہروں میں ایم کیو ایم کی دھڑے بندی سے پیدا ہونے والے چار گروپوں نے اپنی اپنی جگہ بنالی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد صحافیوں کے ساتھ افطار میں اس بات پر دلگرفتہ تھے کہ 2018ء کے انتخابات میں’’مہاجر گروپ‘‘ آپس میں ٹکرائیں گے جس کا فائدہ دوسرے لسانی گروہ اٹھائیں گے اور’’مہاجر امیدوار‘‘ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں گے۔ ایم کیو ایم کے بطن سے ہی پھوٹنے والی نئی جماعت پاک سر زمین پارٹی نے اس ممکنہ انتخابی سیاسی نقشہ کو سامنے رکھتے ہوئے لفظ’’مہاجر‘‘ کو متروک کردیا ہے۔ حیدرآباد کے سابق رکن سندھ اسمبلی نواب راشد علی خان نے حال ہی میں پی ایس پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان کے والد مرحوم نواب مظفر حسین خان نے سندھ میں سب سے پہلے’’مہاجر ‘‘ پنجابی‘ پٹھان متحدہ محاذ‘‘ کے نام سے پارٹی تشکیل دی جس کا ایک نوجوان ونگ’’مہاجرپنجابی پٹھان طلبہ محاذ‘‘ بھی ان ہی کے ذہن رسا کی تخلیق تھی۔ نواب مظفر حسین خان نے حیدرآباد سے 1970ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
1972ء میں لسانی فسادات ہوئے جس میں سندھ اور مہاجر کے نام پر خوب خونریزی ہوئی۔ اندرون سندھ کئی شہروں سے مہاجر آبادی نے کراچی اور حیدرآباد کی طرف نقل مکانی کی۔ اپنے گھر اور زمینیں چھوڑ کر ایک بار پھر ہجرت کی اور کراچی وحیدرآباد میں سکونت اختیار کرلی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نواب مظفر حسین خان میںمذاکرات ہوئے۔ فسادات کو روکنے کے لیے ایک معاہدہ بھی طے پایا جس کے تحت صوبے کے شہری علاقوں اور بالخصوص کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر کا ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں چالیس فیصد حصہ تسلیم کیا گیا۔ یہ وسائل کی وہی تقسیم تھی جو 1947ء کی نقل مکانی سے قبل سندھ میں آباد ھندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تھی۔ حتیٰ کہ سندھ اسمبلی میں بھی 40فیصد حصہ ہندوؤں اور غیر مسلم آبادی کے لیے مقرر تھا۔’’بھٹو نواب مظفر‘‘ معاہدے کی رو سے مختلف اضلاع میں کمشنر سندھی تو ڈپٹی کمشنر مہاجر اور آئی جی یا ایس ایس پی سندھی تو ڈی آئی جی اور ڈی ایس پی مہاجر مقرر ہونا تھا۔ اس معاہدے کے بعد سندھی مہاجر فسادات ‘‘ تو ختم ہوگئے لیکن بتدریج معاہدے پر عملدرآمد سست پڑتا چلا گیا۔بھٹو دور کے مشہور وزیر اعلیٰ غلام مصطفی جتوئی نے جمعیت علماء پاکستان کے ایم پی اے پروفیسر شاہ فرید الحق کے سوال کے جواب میں سندھ اسمبلی کے فلور پر جواب دیا کہ انہوں نے اپنے دور میں 36ہزار ملازمتیں دیں جن میں مہاجر برائے نام تھے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد بیورو کریسی میں 87فیصد تعداد بھارت سے نقل مکانی کرنے والے’’مہاجر افسروں‘‘ کی تھی جو آئی سی ایس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ لاہور کے ڈپٹی کمشنر ایس ایس جعفری’’مہاجر‘‘ تھے جو بعد ازاں سابق گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر کے سسر بنے۔ پھر یہ ہوا کہ وقت کے ساتھ بیورو کریسی اور سرکاری ملازمتوں میں’’مہاجروں‘‘ کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ اس سے تباہ کن احساس محرومی نے جنم لیا اور 1984ء میں ایم کیو ایم جیسی طاقتور اور فائر برانڈ تنظیم وجود میں آئی۔ لیکن مہاجر نام سے سیاست کا آغاز کرنے والے نواب مظفر حسین خان کے صاحبزادے نواب راشد علی خان کی رہائش گاہ پر پی ایس پی کے قائد مصطفیٰ کمال نے بالکل ہی کمال کردیا‘ الٹی گنگا بہادی‘ تاریخ پلٹ دی۔ انہوں نے کہا کہ مہاجر سیاست کرنے والا مہاجروں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ نواب مظفر حسین مرحوم کی روح کو اس جملے سے جو اذیت پہنچی ہوگی‘ اس کا اظہار مہاجر قومی جرگہ کے بانی اور معروف دانشور سہیل ہاشمی نے مصطفی کما ل کے نام اپنے کھلے خط میں کیا ہے۔ وہ بھی مصطفیٰ کمال کے بدلے ہوئے لہجے اور تیوروں پر سخت تکلیف میں ہیں۔ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان حق پرست اور ایم کیو ایم لندن وفا پرست کے القاب استعمال کریں لیکن قوم وطن پرست بن چکی ہے جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار بھی الطاف حسین کا کھلونا ہیں۔ مصطفی کمال کے لہجے کی تلخی یہ بتا رہی ہے کہ وہ مہاجر سیاست کی بے ثمری سے سخت نالاں ہیں۔ سندھ میں مہاجر سیاست کا بیشتر فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پہنچا ہے۔ اس نے سندھ کو کھنڈر بنا کر بھی ’’مہاجروں‘‘ کے خوف سے سندھی ووٹرز کو اپنے ساتھ یکجا رکھا ہے۔ برائے نام کام کرکے بھی ’’جئے بھٹو‘‘ کے نعرے لگوائے ہیں۔ سرکاری فنڈز کی بڑے پیمانے پر خورد برد اور کرپشن کے باوجود سندھی ووٹرز کا مینڈیٹ حاصل کیا ہے۔ دوسری طرف مہاجر نوجوان گزشتہ تین دھائیوں کی سیاست کے دوران بڑے پیمانے پر بیروزگار اور اچھی تعلیم سے محروم ہوئے ہیں۔ وہ مقابلے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ مصطفیٰ کمال‘ انیس قائمخانی اور ان کے ساتھی اب اس سیاست کو ترک کرنے کی باتیں کررہے ہیں تاکہ سندھی مہاجر عوام کی آنکھیں کھلیں اور وہ ایک دوسرے کی ضد میں غلط فیصلوں کی بجائے صوبے کے مفاد میں فیصلے کریں۔ تنگ نظر قوم پرستی ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ مفاد پرست طبقات کو ہی پہنچتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والا صوبہ پنجاب ہے جہاں قوم پرستی کو تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ مصطفیٰ کمال ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قوم پرستی کے دائرے سے نکل کر وطن پرستی کی راہ پر چل پڑے ہوں کہ پنجاب نے بھی اسی راستے پر چل کر ترقی کی ہے البتہ سندھ میں ایک مختلف روش اور رجحان ’’قبضہ گیری‘‘ کا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ دنوں ایک تقریب میں کہا کہ ہم نے کراچی کا کام دوسروں کو دے رکھا تھا لیکن اب یہ کام ہم خود کریں گے گویا کراچی کے بلدیاتی اور سیاسی اداروں کا کام بھی سندھ حکومت کرے گی جس میں اندرون سندھ کی اکثریت ہے اور قوت نافذہ بھی ان ہی کے پاس ہے۔ یہ صورتحال کراچی اور حیدرآباد کی تین کروڑ سے زائدآبادی کو جن میں بیشتر اردو بولنے والی ہے۔ ایک مرتبہ پھر اسی احساس محرومی کی طرف لے جائے گا جو مہاجر‘ پنجابی‘ پٹھان متحدہ محاذ اور ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کی بنیاد بنے تھے۔ سندھ حکومت اگر صوبے میں آبادہر لسانی اکائی کے مفادات کا خیال رکھے۔ کرپشن اور بد عنوانیوں کا سدباب کرے‘ اربوں روپے کے سرکاری فنڈز کو قوم کی امانت تصور کرے‘ عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے تو فکری مغالطوں اور تضادات کا خاتمہ ہوسکتا ہے جس کے آثار بظاہر کم نظر آتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کا حالیہ بجٹ اجلاس اور کراچی کے لئے مختص اونٹ کے منہ میں زیرہ جیسی رقم سے اتحاد ویگانگت کا خواب پورا ہوتا نظرنہیں آتا۔ ماضی میں بیرون وطن ورلڈ سندھی کانگریس نامی تنظیم وجود میں آئی تھی اور اب شنید ہے کہ ورلڈ مہاجر کانگریس بھی تشکیل پا چکی ہے جس کی آرگنائزنگ کمیٹی میں الطاف حسین کے تین معتمد ندیم نصرت محمد انور اور واسع جلیل بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔ محرومیاں بغاوت کو جنم دیتی ہیں۔ بلوچستان میں 1974سے مزاحمتی تحریک جاری ہے جس کا اتار چڑھاؤ وقت کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ بھارت کی راجیہ سبھا میں ہر صوبے کی نمائندگی اس کی آبادی کے تناسب سے ہے۔ ملائیشیاء میں ’’قبائلی بادشاہت‘‘ کادستور نافذ ہے۔ ہر قبیلے سے چارسال کے لیے بادشاہ مقرر ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں آبادی کے تناسب سے وسائل اور اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے۔ کیا سندھ میں ایسا ممکن ہے؟
آخر میں قارئین کے لیے یہ اطلاع بھی حیران کن ہوگی کہ آصف علی زرداری کے شدید ترین مخالف ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بھی قطار لگا کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں شامل ہونے والے ہیں۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر