... loading ...
پاکستان سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی ممالک کے نئے فوجی اتحاد کا حصہ بن چکا ہے لیکن ابھی یہ اتحاد بنا نہیں ہے، اتحاد بننا ابھی باقی ہے۔ اس نئے اتحاد کا جسے اسلامی نیٹو بھی کہا جا رہا ہے ابھی ضابطہ کار طے ہونا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زیادہ متنازع ہوتا جا رہا ہے۔اگر یہ اتحاد اپنی موجودہ حیثیت برقرار رکھتا ہے جیسے کہ سنّی اکثریتی اور ایران مخالف ،اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کے لیے جو ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کا داعی رہاہے اس اتحاد کا حصہ بنے رہنا یعنی اس اتحاد میں شامل رہناکتنا مناسب رہے گا؟ ارباب اختیار کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ پاکستان نے اس فوجی اتحاد کی قیادت سنبھالنے کے لالچ میں کہیںجلد بازی سے کام تو نہیں لیا؟
پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خاتمے اور شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے وجود میں آیا ہے۔ ترجمان نفیس زکریا کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی پالیسی انتہائی واضح ہے اور وہ یہ کہ یہ کسی مسلمان ملک کے خلاف نہیں ہے۔‘اس اسلامی عسکری اتحاد کے ضابطہ کار پر مشاورت جاری ہے اور میڈیا میں اس بارے میں کی قیاس آرائیاںجاری ہیں۔ طریقہ کار کو حتمی شکل دینے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ جلد اتحاد میں شامل ممالک کے وزرا دفاع کا اجلاس سعودی عرب میں منعقد ہوگا۔لیکن وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے سینیٹ میں اعتراف کیا کہ اسلامی اتحاد کی خاطر پاکستان کو انتہائی احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ریاض میں عرب اور امریکی سربراہ اجلاس میں تقاریر سے فرقہ وارانہ تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔تاہم ان کا مؤقف ہے کہ ریٹائرڈ جنرل راحیل کی موجودگی سے پاکستان کا مؤقف مضبوط ہوگا۔ پاکستان بظاہر تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی چاہتا ہے اور اس کے لیے اس کی سیاسی و عسکری قیادت نے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کی ہیں لیکن اس سے بظاہر کوئی زیادہ افاقہ نہیں ہوا ہے۔
اب اس فوجی اتحاد سے ایران کی ناراضگی میں مزید اضافے کا قوی امکان ہے۔ نئے اتحاد میں شامل اکثر ممالک سنّی ہیں جس سے اس کے یک طرفہ ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ امریکا عرب اجلاس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور عرب رہنماؤں کی تقاریر نے بھی اس اتحاد کے اہداف کے بارے میں کوئی ابہام نہیں چھوڑا ہے۔ماہرین کے مطابق اس تاثر کو درست کرنے کی بنیادی ضرورت ہے ورنہ اس اتحاد کی100 فیصد افادیت شاید ممکن نہ رہے۔ سعودی عرب کے زیر انتظام اور اس کے ملک سے اس قسم کی تقریر سفارتی آداب کے شاید کوئی زیادہ موافق بھی نہیں تھی۔
اسلامی اتحاد میں شامل ممالک
سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، پاکستان، بحرین، بنگلہ دیش، ترکی، مغربی افریقی ملک بنن، چاڈ، ٹوگو، تیونس، جبوبتی، سینیگال، سوڈان، سیرا لیون، صومالیہ، گبون، گنی، فلسطین، کومورس، قطر، لبنان، لیبیا، مالدیپ، مالی، ملائشیا، مصر، مراکش، موریطانیہ، نائجر، نائجیریا اور یمن اس اتحاد میں شامل ہیں۔
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ان ممالک کے علاوہ انڈونیشیا سمیت10دیگر ممالک نے اس اتحاد کی حمایت کی ہے۔ سعودی شاہ نے گزشتہ دنوں ہی انڈونیشیا کا ایک تفصیلی اور طویل دورہ کیا تھا جس کے دوران تعاون کے کئی معاہدوں ہر دستخط کیے گئے لیکن ساتھ میں اس اتحاد کے لیے حمایت کی بھی طلب تھی۔ان ممالک نے اس انسداد دہشت گردی کے اس اتحاد کا مشترکہ کارروائی کا مرکز ریاض میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ اتحاد امن پسند دوست ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے لیے رابطے کرے گا تاکہ بین الاقوامی سطح پر امن اور سیکورٹی کو برقرار رکھا جائے لیکن اس اسلامی فورس کی تعداد کیا ہوگی، یہ ابھی واضح نہیں۔ پھر اعلامیے میں بدعنوانی یا کرپشن کا بھی ذکر ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اس سے مراد اخلاقی بدعنوانی ہے یا معاشی؟
ایران کی مخالفت
ایران آغاز سے ہی اس اتحاد کے تصور کے حق میں نہیں ہے۔ اس نے پاکستان کی جانب سے ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کو اس عسکری اتحاد کا سپہ سالار بنانے پر اپنے تحفظات کا برملا اظہار کیا تھا۔
ایران کا موقف تھا کہ مسائل کے حل کے لیے عسکری نہیں سیاسی کوششوں کی ضرورت ہے۔
ایران اور سعودی عرب 1979ءکے ایرانی انقلاب کے بعد سے ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں
اس انقلاب کے بعد جہاں ایران نے مختلف ممالک خصوصاً مشرق وسطیٰ میں شیعہ سیاسی جماعتوں اور ملیشیاؤں کی حمایت اور مدد کرنا شروع کی وہیں سعودی عرب نے بھی سنی حکومتوں اور جماعتوں کی مدد شروع اور اپنے سخت گیر اسلام کو فروغ دینا شروع کر دیاہے۔اس کے بعد سے دونوں ممالک ہر علاقائی قضیے میں جیسے کہ شام، عراق اور یمن میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہونے لگے ہیں۔
ماضی کے اتحاد
مشرق وسطیٰ میں اس سے قبل بھی عسکری اتحاد کی کوششیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے 2میں سعودی عرب بھی شامل تھا۔ ان میں سے کسی میں بھی اسلامی فوج کا نام یا اتنی بڑی تعداد میں اراکین شامل نہیں تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں رہی۔ان تنظیموں میں عرب لیگ کا مشترکہ ڈیفنس پیکٹ، مڈل ایسٹ کمانڈ، مڈل ایسٹ ڈیفنس آرگنائزیشن، بغداد معاہدہ یا مڈل ایسٹ ٹریٹی آرگنائزیشن اور خلیجی ممالک کی تعاون کونسل شامل ہیں۔ 2011ءمیں عرب ممالک میں عوام کے اٹھ کھڑے ہونے اور حکومتیں گرانے کے عمل کے آغاز کے بعد سعودی عرب کی یہ عسکری اتحاد بنانے کی تیسری کوشش ہے۔
اس اتحاد کے قیام سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کو اسلامی ممالک میں ہونے والی اتھل پتھل اورہمسایہ ملک یمن میں جاری لڑائی پرشدید تشویش لاحق ہے۔ معاشی میدان میں بھی سعودی عرب کی حالت کافی خراب بتائی جاتی ہے یہاں تک کہ سعودی حکومت نے اپنی مملکت میں غیر ملکیوں کی ملازمتیں مکمل طورپر بند کرنے کااعلان کردیاہے۔سعودی عرب نے مصر کے ساتھ مل کر عرب لیگ کی چھتری تلے مشترکہ انسداد دہشت گردی فورس قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس فورس میں سپاہیوں کی تعداد40 ہزار رکھی گئی تھی۔ لیکن رہنماؤں کے اس کے حق میں بیانات کے برعکس یہ فورس 2015ءسے جمود کا شکار ہے۔
سعودی عرب کو درپیش خطرات
خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم نے ایک یا دو نہیں بلکہ کئی مرتبہ سعودی عرب کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔اسلامی اتحاد کے قیام کے اعلان کے بعد دولت اسلامیہ نے تازہ دھمکی بھی ایک ویڈیو میں جاری کی جس میں ایک سعودی شہری کو جاسوس قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔پچھلے دو سال میں دولت اسلامیہ نے سعوی عرب میں درجن بھر حملے کیے جن میں پچاس افراد ہلاک ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق داعش میں تقریباً 3 ہزار سعودی رکن ہیں۔
دولت اسلامیہ کے علاوہ یمن بھی سعودی عرب کے دروازے پر ایک خطرہ بن کر کھڑا ہے۔القاعدہ کے حوثیوں کے علاوہ سعودی شاہی خاندان بھی ہدف پر ہے۔ القاعدہ کی عرب شاخ سعودی شہزادے محمد بن نائف پر ایک حملے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس تنظیم کے یمن میں ایک تہائی اراکین سعودی باشندے بتائے جاتے ہیں۔
سعودی عرب کی اپنی فوج
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک نے ایک ارب ڈالرز سے زائد کے دفاعی سامان کی فراہمی کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ ان میں سرحدی سیکورٹی کے لیے ٹینک اور ہیلی کاپٹرز، جنگی بحری کشتیاں، جاسوسی کے طیارے اور آن لائن سیکورٹی کی فراہمی شامل ہے۔اس کی بڑی وجہ سعودی عرب کی اپنی فوج کا ایک فعال فورس نہ ہونا ہے۔ تاہم اس نے حالیہ برسوں میں اس پر خصوصی توجہ دینا شروع کی ہے اور فوج کی تعداد اور صلاحیت بڑھانے میں مگن ہے لیکن اس سے خطے میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہو رہا ہے۔
ایران کے مذہبی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کو ’کافر امریکا‘ ’دودھ دینے والی ایک گائے‘ کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ ’وہ کفار کے قریبی دوست ہیں اور دشمن کو وہ پیسے دے رہے ہیں جنہیں اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔‘ایسے حالات میں سعودی عرب کی جانب سے خطے میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے یہ کوشش مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ آیا ایران اور سعودی عرب اپنی اثرورسوخ بڑھانے کی لڑائی کیا شام اور یمن تک محدود رکھ پائیں گے؟دولت اسلامیہ نے کئی مرتبہ سعودی عرب کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔
جب اس اتحاد کا طریقہ کار اور دائر اختیار ہی واضح نہیں تو اس میں شمولیت کی اتنی جلدی کیا تھی؟ پاکستان کی اتحاد میں شمولیت کے لیے بنیادی شرط یہی تھی کہ یہ صرف اور صرف دہشت گردی کے خلاف سرگرم ہو گا لیکن اگر کسی ملک پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام عائد ہوتا ہے تو ایسے میں پاکستان کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج سعودی عرب سے باہر تعینات بھی نہیں ہوگی تو کیا سعودیوں کو یہ قابل قبول ہوگا؟سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں بھی اس اتحاد سے متعلق دو اہم سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ جنرل راحیل کی تعیناتی کی شرائط کیا تھیں اور کیا حکومت اتحاد کے تبدیل ہوتے زاویوں کی بنا پر انہیں واپس بلانے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟پاکستان نے ان سوالات کے واضح جواب ابھی نہیں دیے ہیں لیکن سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے حکومت کو گزشتہ برس منظور کی گئی ایک قرارداد کے تحت اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وفاقی حکومت کی منظوری سے قبل تمام شرائط پارلیمان کے سامنے رکھی جائیں۔لیکن اس اتحاد کے لیے سب سے بڑا سوال دہشت گردی کی کسی ایک تشریح پر اتفاق ہوگا؟ اقوام متحدہ کے اراکین کسی ایک تشریح پر متفق نہیں تو اسلامی ممالک کیسے اتنی آسانی سے کسی ایک پر متفق ہو سکیں گے۔
ہارون رشید
کمیٹی اسحاق ڈار کی سربراہی میں تشکیل دی جائے گی، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ اورآبی وزرعی ماہرین کو شامل کیے جانے کا امکان، وزیراعظم شہباز شریف کی منظوری سے مذاکراتی کمیٹی کو حتمی شکل دی جائے گی شہباز شریف جلد صدر مملکت اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو سے ملاقات بھی کریں ...
مجلس اتحاد امت کے نام سے نیا پلیٹ فارم تشکیل دے دیا،فلسطینیوںسے اظہارِ یکجہتی کے لیے 27؍اپریل کو مینارِ پاکستان پر بہت بڑا جلسہ او رمظاہرہ ہوگا، لاہور میں اجتماع بھی اسی پلیٹ فارم کے تحت ہوگا کوشش ہے پی ٹی آئی سے تعلقات کو واپس اسی سطح پر لے آئیں جہاں مشترکہ امور پر ...
بانی کی بہنوں کو سیاست میں لانا ناجائز ہے ، بہنیں بطور فیملی ممبر ملاقات کرتی ہیں میرے خلاف امیدوار ہار مان چکے ،ریموٹ کنٹرول والوں کو چین نہیں ، اپوزیشن لیڈر اپوزیشن لیڈر عمرا یوب نے کہا ہے کہ سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے ،میرے خلاف امید...
پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے، محکمۂ آبپاشی دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے ،دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 3...
35 ہزار سے زائد گاڑیاں پھنس گئیں،برآمدی آرڈرز ملتوی ہونے کا خدشہ آلو، پیاز، پلپ اور جوسز کے درجنوں کنٹینرز کی ترسیل مکمل طور پر رک گئی متنازع کینال منصوبے کے خلاف اندرون سندھ جاری احتجاج اور دھرنوں کے باعث ملکی برآمدات اور تجارتی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ تفصی...
ضرورت کے تحت کل اگر کوئی چیز کرنا پڑی تو تمام اتحادی جماعتیں و پارلیمنٹ بیٹھ کر سوچیں گی فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوں گے تو آپ کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائے جائیں گے، گفتگو وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ 26ویں ترمیم اسٹرکچرل ریفارم ہے جو نظام کی بہتری کے لیے ک...
مجلسِ عمومی میںپی ٹی آئی سے اتحاد نہ کرنے کے فیصلے سے متعلق میڈیا رپورٹس کی تردید مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا اعلان جلد کردیا جائے گا، ترجمان ترجمان جے یو آئی نے کہا ہے کہ میڈیا میں چلنے والی پی ٹی آئی سے اتحاد نہ کرنے سے متعلق خبریں مصدقہ نہیں ہیں۔جمعی...
ہم نے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کا کہا تھا، حکمرانوںنے اسلام آباد بند کیا ہے ، ہم کسی بندوق اور گولی سے ڈرنے والے نہیں ، یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے تھے مگر ہم پولیس والوں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہتے حکمران سوئے ہوئے ہیں مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے ، اسرائیلی وح...
پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے ، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے ، اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے ، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا ، ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں(پیپلزپارٹی) ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے ،...
نیشنل کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس کا جی میل اور مائیکروسافٹ 365پر 2ایف اے بائی پاس حملے کا الرٹ رواں سال 2025میں ایس وی جی فشنگ حملوں میں 1800فیصد اضافہ ، حساس ڈیٹا لیک کا خدشہ جعلی لاگ ان صفحات کے ذریعے صارفین کی تفصیلات اور او ٹی پی چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔نیشنل ک...
خالص آمدنی میں سے سود کی مد میں 8 ہزار 106 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہوگی وفاقی حکومت کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 111 ارب روپے لگایا گیا ، ذرائع وزارت خزانہ نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال 26-2025 کے لیے وفاقی بجٹ خسارے کا تخمینہ 7 ہزار 222 ارب...
حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے وزیراعظم نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر 7روزہ انسداد پولیو کا آغاز کر دیا وزیراعظم شہباز شریف نے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک...