وجود

... loading ...

وجود

اسلامی عسکری اتحاد دہشت گردی کی کسی ایک تشریح پر متفق ہو سکے گا؟

پیر 05 جون 2017 اسلامی عسکری اتحاد دہشت گردی کی کسی ایک تشریح پر متفق ہو سکے گا؟


پاکستان سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی ممالک کے نئے فوجی اتحاد کا حصہ بن چکا ہے لیکن ابھی یہ اتحاد بنا نہیں ہے، اتحاد بننا ابھی باقی ہے۔ اس نئے اتحاد کا جسے اسلامی نیٹو بھی کہا جا رہا ہے ابھی ضابطہ کار طے ہونا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زیادہ متنازع ہوتا جا رہا ہے۔اگر یہ اتحاد اپنی موجودہ حیثیت برقرار رکھتا ہے جیسے کہ سنّی اکثریتی اور ایران مخالف ،اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کے لیے جو ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کا داعی رہاہے اس اتحاد کا حصہ بنے رہنا یعنی اس اتحاد میں شامل رہناکتنا مناسب رہے گا؟ ارباب اختیار کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ پاکستان نے اس فوجی اتحاد کی قیادت سنبھالنے کے لالچ میں کہیںجلد بازی سے کام تو نہیں لیا؟
پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خاتمے اور شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے وجود میں آیا ہے۔ ترجمان نفیس زکریا کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی پالیسی انتہائی واضح ہے اور وہ یہ کہ یہ کسی مسلمان ملک کے خلاف نہیں ہے۔‘اس اسلامی عسکری اتحاد کے ضابطہ کار پر مشاورت جاری ہے اور میڈیا میں اس بارے میں کی قیاس آرائیاںجاری ہیں۔ طریقہ کار کو حتمی شکل دینے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ جلد اتحاد میں شامل ممالک کے وزرا دفاع کا اجلاس سعودی عرب میں منعقد ہوگا۔لیکن وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے سینیٹ میں اعتراف کیا کہ اسلامی اتحاد کی خاطر پاکستان کو انتہائی احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ریاض میں عرب اور امریکی سربراہ اجلاس میں تقاریر سے فرقہ وارانہ تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔تاہم ان کا مؤقف ہے کہ ریٹائرڈ جنرل راحیل کی موجودگی سے پاکستان کا مؤقف مضبوط ہوگا۔ پاکستان بظاہر تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی چاہتا ہے اور اس کے لیے اس کی سیاسی و عسکری قیادت نے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کی ہیں لیکن اس سے بظاہر کوئی زیادہ افاقہ نہیں ہوا ہے۔
اب اس فوجی اتحاد سے ایران کی ناراضگی میں مزید اضافے کا قوی امکان ہے۔ نئے اتحاد میں شامل اکثر ممالک سنّی ہیں جس سے اس کے یک طرفہ ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ امریکا عرب اجلاس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور عرب رہنماؤں کی تقاریر نے بھی اس اتحاد کے اہداف کے بارے میں کوئی ابہام نہیں چھوڑا ہے۔ماہرین کے مطابق اس تاثر کو درست کرنے کی بنیادی ضرورت ہے ورنہ اس اتحاد کی100 فیصد افادیت شاید ممکن نہ رہے۔ سعودی عرب کے زیر انتظام اور اس کے ملک سے اس قسم کی تقریر سفارتی آداب کے شاید کوئی زیادہ موافق بھی نہیں تھی۔
اسلامی اتحاد میں شامل ممالک
سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، پاکستان، بحرین، بنگلہ دیش، ترکی، مغربی افریقی ملک بنن، چاڈ، ٹوگو، تیونس، جبوبتی، سینیگال، سوڈان، سیرا لیون، صومالیہ، گبون، گنی، فلسطین، کومورس، قطر، لبنان، لیبیا، مالدیپ، مالی، ملائشیا، مصر، مراکش، موریطانیہ، نائجر، نائجیریا اور یمن اس اتحاد میں شامل ہیں۔
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ان ممالک کے علاوہ انڈونیشیا سمیت10دیگر ممالک نے اس اتحاد کی حمایت کی ہے۔ سعودی شاہ نے گزشتہ دنوں ہی انڈونیشیا کا ایک تفصیلی اور طویل دورہ کیا تھا جس کے دوران تعاون کے کئی معاہدوں ہر دستخط کیے گئے لیکن ساتھ میں اس اتحاد کے لیے حمایت کی بھی طلب تھی۔ان ممالک نے اس انسداد دہشت گردی کے اس اتحاد کا مشترکہ کارروائی کا مرکز ریاض میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ اتحاد امن پسند دوست ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے لیے رابطے کرے گا تاکہ بین الاقوامی سطح پر امن اور سیکورٹی کو برقرار رکھا جائے لیکن اس اسلامی فورس کی تعداد کیا ہوگی، یہ ابھی واضح نہیں۔ پھر اعلامیے میں بدعنوانی یا کرپشن کا بھی ذکر ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اس سے مراد اخلاقی بدعنوانی ہے یا معاشی؟
ایران کی مخالفت
ایران آغاز سے ہی اس اتحاد کے تصور کے حق میں نہیں ہے۔ اس نے پاکستان کی جانب سے ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کو اس عسکری اتحاد کا سپہ سالار بنانے پر اپنے تحفظات کا برملا اظہار کیا تھا۔
ایران کا موقف تھا کہ مسائل کے حل کے لیے عسکری نہیں سیاسی کوششوں کی ضرورت ہے۔
ایران اور سعودی عرب 1979ءکے ایرانی انقلاب کے بعد سے ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں
اس انقلاب کے بعد جہاں ایران نے مختلف ممالک خصوصاً مشرق وسطیٰ میں شیعہ سیاسی جماعتوں اور ملیشیاؤں کی حمایت اور مدد کرنا شروع کی وہیں سعودی عرب نے بھی سنی حکومتوں اور جماعتوں کی مدد شروع اور اپنے سخت گیر اسلام کو فروغ دینا شروع کر دیاہے۔اس کے بعد سے دونوں ممالک ہر علاقائی قضیے میں جیسے کہ شام، عراق اور یمن میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہونے لگے ہیں۔
ماضی کے اتحاد
مشرق وسطیٰ میں اس سے قبل بھی عسکری اتحاد کی کوششیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے 2میں سعودی عرب بھی شامل تھا۔ ان میں سے کسی میں بھی اسلامی فوج کا نام یا اتنی بڑی تعداد میں اراکین شامل نہیں تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں رہی۔ان تنظیموں میں عرب لیگ کا مشترکہ ڈیفنس پیکٹ، مڈل ایسٹ کمانڈ، مڈل ایسٹ ڈیفنس آرگنائزیشن، بغداد معاہدہ یا مڈل ایسٹ ٹریٹی آرگنائزیشن اور خلیجی ممالک کی تعاون کونسل شامل ہیں۔ 2011ءمیں عرب ممالک میں عوام کے اٹھ کھڑے ہونے اور حکومتیں گرانے کے عمل کے آغاز کے بعد سعودی عرب کی یہ عسکری اتحاد بنانے کی تیسری کوشش ہے۔
اس اتحاد کے قیام سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کو اسلامی ممالک میں ہونے والی اتھل پتھل اورہمسایہ ملک یمن میں جاری لڑائی پرشدید تشویش لاحق ہے۔ معاشی میدان میں بھی سعودی عرب کی حالت کافی خراب بتائی جاتی ہے یہاں تک کہ سعودی حکومت نے اپنی مملکت میں غیر ملکیوں کی ملازمتیں مکمل طورپر بند کرنے کااعلان کردیاہے۔سعودی عرب نے مصر کے ساتھ مل کر عرب لیگ کی چھتری تلے مشترکہ انسداد دہشت گردی فورس قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس فورس میں سپاہیوں کی تعداد40 ہزار رکھی گئی تھی۔ لیکن رہنماؤں کے اس کے حق میں بیانات کے برعکس یہ فورس 2015ءسے جمود کا شکار ہے۔
سعودی عرب کو درپیش خطرات
خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم نے ایک یا دو نہیں بلکہ کئی مرتبہ سعودی عرب کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔اسلامی اتحاد کے قیام کے اعلان کے بعد دولت اسلامیہ نے تازہ دھمکی بھی ایک ویڈیو میں جاری کی جس میں ایک سعودی شہری کو جاسوس قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔پچھلے دو سال میں دولت اسلامیہ نے سعوی عرب میں درجن بھر حملے کیے جن میں پچاس افراد ہلاک ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق داعش میں تقریباً 3 ہزار سعودی رکن ہیں۔
دولت اسلامیہ کے علاوہ یمن بھی سعودی عرب کے دروازے پر ایک خطرہ بن کر کھڑا ہے۔القاعدہ کے حوثیوں کے علاوہ سعودی شاہی خاندان بھی ہدف پر ہے۔ القاعدہ کی عرب شاخ سعودی شہزادے محمد بن نائف پر ایک حملے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس تنظیم کے یمن میں ایک تہائی اراکین سعودی باشندے بتائے جاتے ہیں۔
سعودی عرب کی اپنی فوج
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک نے ایک ارب ڈالرز سے زائد کے دفاعی سامان کی فراہمی کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ ان میں سرحدی سیکورٹی کے لیے ٹینک اور ہیلی کاپٹرز، جنگی بحری کشتیاں، جاسوسی کے طیارے اور آن لائن سیکورٹی کی فراہمی شامل ہے۔اس کی بڑی وجہ سعودی عرب کی اپنی فوج کا ایک فعال فورس نہ ہونا ہے۔ تاہم اس نے حالیہ برسوں میں اس پر خصوصی توجہ دینا شروع کی ہے اور فوج کی تعداد اور صلاحیت بڑھانے میں مگن ہے لیکن اس سے خطے میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہو رہا ہے۔
ایران کے مذہبی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کو ’کافر امریکا‘ ’دودھ دینے والی ایک گائے‘ کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ ’وہ کفار کے قریبی دوست ہیں اور دشمن کو وہ پیسے دے رہے ہیں جنہیں اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔‘ایسے حالات میں سعودی عرب کی جانب سے خطے میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے یہ کوشش مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ آیا ایران اور سعودی عرب اپنی اثرورسوخ بڑھانے کی لڑائی کیا شام اور یمن تک محدود رکھ پائیں گے؟دولت اسلامیہ نے کئی مرتبہ سعودی عرب کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔
جب اس اتحاد کا طریقہ کار اور دائر اختیار ہی واضح نہیں تو اس میں شمولیت کی اتنی جلدی کیا تھی؟ پاکستان کی اتحاد میں شمولیت کے لیے بنیادی شرط یہی تھی کہ یہ صرف اور صرف دہشت گردی کے خلاف سرگرم ہو گا لیکن اگر کسی ملک پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام عائد ہوتا ہے تو ایسے میں پاکستان کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج سعودی عرب سے باہر تعینات بھی نہیں ہوگی تو کیا سعودیوں کو یہ قابل قبول ہوگا؟سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں بھی اس اتحاد سے متعلق دو اہم سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ جنرل راحیل کی تعیناتی کی شرائط کیا تھیں اور کیا حکومت اتحاد کے تبدیل ہوتے زاویوں کی بنا پر انہیں واپس بلانے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟پاکستان نے ان سوالات کے واضح جواب ابھی نہیں دیے ہیں لیکن سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے حکومت کو گزشتہ برس منظور کی گئی ایک قرارداد کے تحت اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وفاقی حکومت کی منظوری سے قبل تمام شرائط پارلیمان کے سامنے رکھی جائیں۔لیکن اس اتحاد کے لیے سب سے بڑا سوال دہشت گردی کی کسی ایک تشریح پر اتفاق ہوگا؟ اقوام متحدہ کے اراکین کسی ایک تشریح پر متفق نہیں تو اسلامی ممالک کیسے اتنی آسانی سے کسی ایک پر متفق ہو سکیں گے۔
ہارون رشید


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر