... loading ...
وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سالانہ منصوبے پی ایس ڈی پی اور آئندہ بجٹ کے اہداف کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر ، گورنر کے پی کے، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعلیٰ گلگت و بلتستان اور دیگر ممبران نے شرکت کی۔ قومی اقتصادی کونسل نے مجموعی طور پر 2113 ارب روپے کے وفاقی اور صوبائی ترقیاتی پروگراموں کی منظوری دی۔ اس میں وفاقی ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) 1001 ارب روپے اور صوبائی ترقیاتی پروگراموں کا حجم 1112 ارب روپے ہے۔ آئندہ مالی سال (بجٹ) کے ترقیاتی اہداف کی بھی منظوری دی گئی۔ آئندہ بجٹ کا تخمینہ 5 ٹریلین روپے ہوگا،جس میں دفاع کے لیے 950 ارب روپے رکھے جائینگے۔ بجٹ میں مالی خسارے کا تخمینہ 10 ارب 40 کروڑ روپے لگایا گیا ہے جو ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہوگا۔ درآمدات کا تخمینہ 50 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اگلے مالی سال کے لیے 6 فیصد جی ڈی پی گروتھ مقرر کردیا گیا۔ این ای سی کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ رواں سال کے ترقیاتی پروگرام کے لیے 15 مئی 2017ء تک 556 ارب روپے جاری کیے گئے۔ تاہم اس میں سے خرچ کی جانیوالی رقم کم ہے۔
وزیراعظم محمد نواز شریف نے این ای سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے معاشی اعشاریے بہت بہتر ہوئے ہیں اور بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیاں اس کو تسلیم کرتی ہیں۔ وزیراعظم کے اس دعوے کی تصدیق معروف عالمی جریدے اکانومسٹ نے بھی یہ کہتے ہوئے کی ہے کہ ’’پاکستان کی ترقی کا حجم 300بلین ڈالرز تک بڑھ گیااورپاکستانی معیشت تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھونے لگی ہے، اکانومسٹ نے یہ رائے کس بنیاد پر قائم کی ہے یا یہ رائے کیا مقاصد حاصل کرنے کے لیے شائع کی یہ ایک راز ہے، جس کا انکشاف وقت گزرنے کے بعد ہی ہوسکے گا۔پاکستان کی معاشی ترقی5.3 فیصد سالانہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ زرعی شعبے میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہتری آئی ہے۔ مالی سال 2016ء اور 2017 ء میں پاکستانی حکومت نے جی ڈی پی ٹارگٹ کو بھرپور طریقے سے پورا کیا ہے۔جس کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں تاہم اس کے باوجود برآمدات کے شعبے میںبہتری کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ وزیراعظم نے اجلاس میںدعویٰ کیا کہ پاکستان نے رواں سال میں 5.28 فیصدترقی کی جو شرح حاصل کی ہے وہ قابل تعریف ہے اوراس طرح پاکستان تیزی سے معاشی ترقی کرنیوالے ممالک کی صف میں شامل ہے۔ وزیراعظم نے اس اجلاس میں پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک کی ترقی کے لیے ہم آہنگی کے ساتھ کام کررہی ہیں۔ سی پیک کے منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد ہورہا ہے۔ بجلی کے حصول کے لیے ایل این جی، کوئلہ، پن بجلی، شمسی اور ہوا کے ذرائع متوازن انداز میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ انفرااسٹرکچر ترقی کے لیے ہم سڑکوں اور کمیونی کیشن نیٹ ورک پر توجہ دے رہے ہیں۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی ترقی میں سب کی خوشحالی ہے یہ سیاست کی نذر نہیں ہونی چاہیے۔ اس پر سب کو متحد ہونا چاہیے لیکن اس اتحاد کو قائم کرنے اور مضبوط ومستحکم بنانے کی ذمہ داری حکومت پر ہی عاید ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ شریف برادران اپنے ان سیاسی بغل بچوں اور بڑبولوںکو لگام دیں اور ان کو نکیل ڈالیںاور انہیںدوسرے سیاسی رہنمائوں کے خلاف یاوہ گوئی اور بڑھکیں مارنے سے روکیں۔ بصورت دیگر اتحاد کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ملکی ترقی کے لیے تمام اکائیوں کا متحد ہونا ضروری ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں قوم نے کسی ایک پارٹی کو مینڈیٹ نہیں دیا۔ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن)‘ سندھ میں پیپلزپارٹی اور خیبر پی کے میں تحریک انصاف نے حکومت بنائی۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کو عددی برتری حاصل تھی اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کی۔ مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مابین اختلافات عروج پر رہے ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک اعتبار سے یہ اختلافات ذاتی دشمنی تک پہنچے ہوئے ہیں‘ کوئی پارٹی دوسری پارٹی کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ۔ ہر پارٹی دوسری کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی ہے۔ یہ پارٹیاں خصوصی طور پر مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے اقتدار کی بھی دشمن ہیں۔ قومی مفادات کے پیش نظر چند مشترک نکات پر بھی اتفاق کرنے پر تیار نہیں‘ سوائے مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے۔ اختلافات کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں سیاست میںجس طرح کے اختلافات پائے جاتے ہیں‘ وہ جمہوریت کے لیے زہرقاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایسے حالات میں وزیراعظم نے صوبوں کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ خیبر پی کے اور سندھ کو سی پیک پر مطمئن کیا‘ ان کے تحفظات دور کیے اور سی پیک کی شفافیت کا یقین دلانے کے لیے ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو چین لے جا کر اقتصادی راہداری کے منصوبہ سازوں کے سامنے بٹھادیا۔ سرکاری حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ پرویز خٹک اور مرادعلی شاہ چین سے مطمئن ہو کر واپس آئے‘ اب دونوں فاضل وزرائے اعلیٰ سی پیک کی نہ صرف حمایت کررہے ہیں بلکہ وکالت بھی کریں گے جبکہ ابھی تک اس دعوے کی کوئی حقیقت سامنے نہیں آئی ہے۔
قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی شمولیت ضروری ہوتی ہے اس طرح کونسل کے اجلاس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو شرکت کی دعوت دینا حکومت کا فرض تھا اور یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے اپنا یہ فرض پوراکیا ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس دعوت کو قبول کیا اوردونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس میں شرکت کے لیے وقت نکالا، اس پر یہ دونوں یقینی طورپر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ جو معاملات ایک ساتھ بیٹھ کر طے ہو سکتے ہیں‘ وہ دھرنوں‘ جلسوں‘ مظاہروں سے اور سڑکوں پر آکر نہیں ہوسکتے۔
قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں بجٹ کے حوالے سے جو بھی اعلانات کیے گئے وہ بادی النظر میں خوش آئند ہیں۔ ایسے
اجلاسوں میں عموماً حالات کا مثبت رخ اور روشن پہلو ہی دکھایا جاتا ہے تاہم عالمی اداروں کی طرف سے ملکی معیشت کی مضبوطی کا اعتراف بہتری کی عکاسی کرتا ہے۔ اجلاس میں آبی ذخائر کے حوالے سے کوئی تجویز نظر نہیں آئی۔ آبی ذخائر میں کالاباغ ڈیم اہم ترین ہے۔ وزیراعظم نے تمام صوبوں کی قیادت کو ایک اجلاس میں شرکت پر آمادہ کرلیا ، کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر ان کو قائل کرنا چنداں مشکل نہیں ہے، اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے دوران جو اعدادوشمار سامنے آئے‘ ایسے اعدادوشمار کو عموماً ’’گورکھ دھندا‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت پر اعدادوشمار میں ٹمپرنگ کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ آئندہ ہفتے پیش ہونیوالے بجٹ میں قوم حکومت سے حقیقی اعداد وشمار کی توقع رکھتی ہے۔
اگلے سال کے بجٹ کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا انتخابی بجٹ کہا جا سکتا ہے۔ حکومت نے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے ہیں‘ سی پیک اہم ترین ہے جس کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔ اگر 2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) جیت کر تسلسل جاری نہیں رکھتی تو ایسے منصوبوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آمریت کے سائے میں چلنے والی (ق) لیگ کی حکومت کے دوران بھی کوئی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں تاہم اس کے بعد خالصتاً جمہوریت کے دور میں کئی منصوبے تلپٹ ہوگئے۔ بجلی کا نہ ختم ہونیوالا بحران اس کے بعد کی حکومت کے لیے بھی سوہان روح ہے۔ اگرعوام مسلم لیگ (ن) کی اس ناقص کارکردگی کی وجہ سے اسے مسترد کرتے ہیں اور اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی جگہ اگر کوئی اور پارٹی برسراقتدار آتی ہے تو موجودہ حکومت کے شروع کیے ہوئے بہت سے منصوبوں کی تکمیل کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی تاہم یہ ہو سکتا ہے کہ آنے والی نئی حکومت عوامی ریلیف کے بعد زیرتکمیل منصوبوں میں مزید تیزی لے آئے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے شروع کردہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے 2018ء کا ہدف مقرر کیا ہے تاکہ انہیں اپنی کامیابی کے طورپر عوام کے سامنے پیش کرکے الیکشن میں کامیابی حاصل کرسکے ،اس اعتبار سے اگلے مالی سال اور اس کے لیے خصوصی بجٹ اہمیت کے حامل ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے بارے میں مزدور دوست ہونے کا تاثر عنقا ہے۔ ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں اسے ’’جیب گھٹ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ گورننس کو عدلیہ باربار تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔ ملازمتیں ضرور دی گئی ہوں گی مگر بیروزگاری کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ مہنگائی میں کمی کے حوالے سے جاری ہونیوالے اعداد و شمار قابل اعتبار نہیں۔
ہر سال بجٹ کے بعد منی بجٹ کئی بار پیش کیے گئے۔ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار سابق حکومت کو قرار دیا جاتا ہے۔ 4 سال میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا۔ موجودہ حکومت ہر الزام سابق حکومت پر ڈال کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ دن رات ایک کرکے نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بلکہ بجلی کے نرخوں میں کمی بھی ضروری ہے۔ منی بجٹ کی روایت کو ختم کرنا ہوگا۔ حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کا بہترین موقع پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی مارکیٹ کے مطابق کمی تھی مگر ایک حد تک قیمتیں کم کرنے سے حکمران طبقے کی جان جاتی نظر آئی۔ اب حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو اپنی مقبولیت کے لیے استعمال نہیںکرسکتی بلکہ پوری دنیا میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے باوجود اس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ حکومت کے لیے ایک اور منفی پہلو ہوگا جس کی بنیاد پر وہ مختلف حلقوں سے لاکھوں ووٹوں سے محروم ہوسکتی ہے۔
ملک کا سب سے بڑا اور گمبھیر مسئلہ دہشت گردی اور اس کے بعد بدترین کرپشن ہے۔ دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن اس کا سہرا حکومت کے سر نہیں بلکہ پاک فوج کے سرجاتاہے جس نے اپنی ٹھوس پالیسیوںکے سر ذریعے سر ہتھیلی پر رکھ ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ پاکستان سرمایہ کاروں کے لیے عمومی کشش رکھتا ہے مگر دہشت گردی آڑے آرہی تھی اور جیسے جیسے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آرہی ہے غیر ملکی سرمایہ بھی پاکستان کی طرف رخ کررہے ہیں اور اب دہشت گردی میں کمی کے باعث سرمایہ کاری کے پاکستان میں بہترین مواقع پیداہوچکے ہیں‘ جنہیں مکمل طور پر بروئے کار لایا جانا چاہیے۔
موجودہ حکومت خاص طورپر شریف برادران اپنے آپ کو مسٹر کلین کے طورپر پیش کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں وہ کسی بھی شعبے میں اپنے اس دعوے کے مطابق کام کرتے نظر نہیں آتے جس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ نیب جو پاکستان میں احتساب کا سب سے بڑا ادارہ ہے اس کی کارکردگی پر بھی سپریم کورٹ برہم دکھائی دیتی ہے۔ اس ادارے کے پاس میگا کرپشن کے ڈیڑھ سوکیسز ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کی طرح پڑے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے عوام کو ان کے انتخابی نعروں کے تناظر میں کڑے احتساب کی امید تھی مگر ایسا چار سال میں تو ممکن نہیں ہوسکا البتہ ایک سال بھی اس کارخیر کے لیے کافی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی ایک سال میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ اگر وہ ناکام رہے تو عوام کسی اور پارٹی سے امیدیں وابستہ کرلیں گے۔ اگر ایک سال جانفشانی اور شفافیت سے کام کیا تو ویژن 2025ء کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...