... loading ...
پنجاب کے دور اُفتادہ علاقے بھکر کی تحصیل کلور کوٹ سے خبر آئی ہے کہ اسسٹنٹ کمشنرنے ایک شخص کے پالتو کتے کو سزائے موت سنا دی ہے ۔ تھانہ کلورکوٹ میں درج مقد مہ نمبر 268/16 میں مدعی محمد انور ولد شاہنواز پیشہ محنت مزدوری، سکنہ اصغر آباد غلاماں، تحصیل کلورکوٹ، ضلع بھکر نے محمد جلیل ولد محمد صدیق قوم راجپوت سکنہ اصغر آباد، تحصیل کلورکوٹ، ضلع بھکر کے بارے میں شکایت کی تھی کہ اُس نے ایک خطرناک قسم کا پالتو کتا رکھا ہوا ہے ۔ اُس کے گلے میں نہ تو پٹہ ہے اور نہ ہی وہ بندھا ہوا ہوتا ہے ۔ وہ پہلے بھی کئی لوگوں کو کاٹ چُکا ہے۔ سائل کا بیٹا امیر حمزہ عمر تقریباً بارہ سال، شام چھ بجے کے قریب مسجد جارہا تھا کہ مذکورہ کتا بکریوں کے ساتھ جا رہا تھا، اُس نے میرے بیٹے کی پنڈلی پر کاٹ لیا ۔ میرے بیٹے کے شور مچانے پر میں اور میرا بھائی محمد اکرم موقع پر پہنچے اور پسرم کو بچایا۔ اُس موقع پر محمد جلیل نے کہا کہ وہ بچے کو انجکشن لگوادے گا اور علاج کروادے گا۔ بعد میں جب میں نے اپنے بیٹے کا علاج کروانے اور انجکشن لگوانے کے لیے اُسے کہا تو اُس نے نہ صاف انکار کر دیا اور دھمکیاں دینے لگا کہ جو چاہے کر لو نہ علاج کرواؤں گااور نہ انجکشن لگوا کر دوں گا ۔۔۔ملزم کے کتے نے پسرم کو کاٹ کر اور ملزم نے علاج نہ کروا کر زیادتی کی ہے ،لہٰذا ملزم کے خلاف فوری طور پر فوجداری مقدمہ درج کیا جائے ۔ اس درخواست پر تھانہ کلور کوٹ پولیس نے 14 اگست 2016 ءکو زیر دفعہ 289 کے تحت مقدمہ درج کر لیا تھا۔
پولیس نے چالان اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں پیش کیا جس پر کتے کو سزائے موت سنادی ہے جس کے خلاف کتے کے مالک اور ایف آئی آر کے ملزم نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بھکر کی عدالت میں اپیل دائر کر دی ہے ۔۔۔
اس وقت پنجاب کے دو اسسٹنٹ کمشنر میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر ہیں جس نے اپنے اختیارا ت کا سارا ملبہ ایک کالج کے پرنسپل پر گرایا ہے، دوسرے اسسٹنٹ کمشنر کلورکوٹ ہیں جنہوں نے ایک کتے کے لیے موت کی سزا کا اعلان کرکے انصاف کا پھریرا لہرایا ہے ۔
اسسٹنٹ کمشنر کلورکوٹ کا فیصلہ اس لیے حیران کن نہیں ہے، کیوںکہ ہمارے ہاں اکثر عجیب اور حیران کن فیصلے ہوتے رہتے ہیں ۔ کلورکوٹ کے محمد جلیل کا کتا جو آزادانہ گھومتا پھرتا تھا ،وہ صرف کئی لوگوں کو کاٹنے کے جرم کا ہی مرتکب نہیں ہوا ۔ بلکہ اس گستاخ کے مختلف لوگوں کو کاٹنے اور بھونکنے کی حرکتوں کی وجہ سے اُس کے علاقے کے لوگوں کی طرح بہت سے سرکاری ادارے اور محکمے بھی متاثر اور بدنام ہوئے ہیں ۔ کُتے کی جانب سے لوگوں کو بے در پے کاٹنے کی وجہ سے یہ راز افشاءہوا کہ ضلع بھکر کے اکثر ہسپتالوں اور مراکز صحت میں کتے کے کاٹے کی ویکسین ہی دستیاب نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمارے ہاں دریا ئے سندھ کے کنارے آباد علاقوں میں موسم گرما میں سیلاب کے دنوں میں ہی اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مراکز صحت پر سانپ کے کانٹے کی ویکسین دستیاب نہیں ہے ۔ یہ ایسے معاملات ہیں جو محکمہ صحت اور انتظامیہ کے علم میں تو ہمیشہ سے ہوتے ہیں لیکن ہمارے علم میں اُس وقت آتے ہیں جب ہم براہ راست متاثر ہوتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ہمارے ہاں ضلع کے بڑے اکلوتے سرکاری ہسپتال میں مریضوں کے لیے بیڈ بطور عطیات جمع کرنے کی مہم زوروں پر تھی ۔ہر سو ضلعی انتظامیہ کے لیے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے تھے کہ ایک رات مجھے تکلیف کے باعث ٹراما سینٹر جانا پڑا ۔ ای سی جی کا مرحلہ آیا تو ٹراما سینٹر ( ایمرجنسی ) میں موجود ای سی جی مشین خراب تھی ۔ سی سی یو لے جایا گیا تو وہاں بھی ای سی جی مشین کے ساتھ ایسی ہی کوئی پرابلم تھی ۔ پالنے والے کو ہماری صحت و سلامتی منظور تھی سو خیر سے واپس آ گئے ۔
ہماری صحت سے متعلقہ واقعہ کا تھانہ کلورکوٹ کی کارکردگی سے براہ راست کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی ان باتوں کی بھی کتے کوسزائے موت سنانے کی چونکا دینے والی خبر سے کوئی نسبت بنتی ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے سائلین اور مظلوموں کے ساتھ تھانہ کلورکوٹ کے نامناسب رویے کی سوشل اور پرنٹ میڈیا پر خاصی تشہیر ہوئی ۔ موت کی سزا کا حکم سننے والے کتے کے کیس کو سامنے رکھتے ہوئے تھانہ کلورکوٹ کے بارے میں تمام افواہوں کی تردید کرنے کے لیے یہ شہادت سوچ کے پردوں پر مچل رہی ہے کہ جو پولیس اگست2016 ءسے لے کر مئی2017 ءتک پالتو کتے کے خلاف دائر مقدمے کی دلجمعی سے پیروی کرسکتی ہے وہ اشرف الخلوقات کےسسز میں کس طرح لا پرواہی کا مظاہرہ کر سکتی ہے ۔ کتے کے مالک نے اپنے پالتو کتے کو موت کی سزا سنائے جانے کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ جانوروں کو سزا نہیں سنائی جا سکتی ۔ اس معاملے میں ہم یہ مشورہ دے کر عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کر سکتے کہ کتے کی بجائے اُس کے مالک کو مناسب سزا دی جانی چاہیے تھی تا کہ وہ اپنے گردو پیش میں رہنے والوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب نہ ہو ۔ بہر حال معاملہ عدالت میں ہی ہے، اب بھکر کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر پر منحصر ہے کہ وہ اپنے سب آرڈینیٹ کی جانب سے سنائی جانے والی سزاءکے حوالے سے اپنے اختیار کو کس طرح سے استعمال کرتے ہیں ۔
جون ایلیا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ” اشرف المخلوقات نے اگر وفا کا ذکر کرنا ہو تو کتے کا حوالہ دیا جاتا ہے “۔ ایسی گہرائی کی با تیںاہل علم ہی کا خاصہ اور پہچان ہوتی ہیں ۔ سوچ ہی رہا تھا کہ سید نصیر شاہ یاد آنے لگے ۔۔۔ان کی باتیں یاد کے شہر کو آباد اور شاد کرتی چلی گئیں ۔ان کی ایک نظم ” بُرا دن تھا “ میرے سامنے تھی ۔
بُرا دن تھا
وہ جس دن میری ماں نے
ایک تختی دھو کے میرے ہاتھ میں دی تھی
میرے بابا نے نرسل کا قلم مجھ کو تھمایا تھا
بُرا دن تھا
میرے اُستاد نے جس دن
کہا مجھ سے الف سے آم بنتا ہے
کہا میں نے الف سے آدمی ، انسان ،اور اللہ اور اُستاد بنتا ہے
میرا ُستاد غصہ سے لرز کر رہ گیا
پھر چیخ اُٹھا تھا
تمہارے قاعدے میں جو لکھا ہے
بس وہی کچھ یاد رکھنا ہے
کتابوں سے زیادہ سوچنا ہے تو چلے جاؤ
بُرا دن تھا
کہ اُس دن مجھ میں یہ احساس جاگا تھا
کتابیں اور قلم کے معلم ہی نہیں سب کچھ
بہت سا علم ان کی سرحدوں سے ماورا بھی ہے
بُرا دن تھا
کتابوں اور اُستادوں پہ مستحکم یقین کے سارے قلعے منہدم ہو کر
گرے اور بن گئے اک ڈھیر ملبے کا
بُرا دن تھا
کہ اُس دن سے تہیہ کر لیا میں نے
جہاں بھر کو بتاؤں گا
الف سے آدمی بنتا ہے اور انسان اور اللہ بھی بنتا ہے
اور اس کے بعد مجھ پر کھل گیا
انسان اور اللہ کا رشتہ
اُسی دن سب حقوق انسان کے بھی ہو گئے روشن
اُسی دن سے میںاِس دن تک
الف انسان کہتا ہوں اور حقوق نسل انسانی کی خاطر
جنگ لڑتا ، زخم کھاتا اور آگے اور آگے بڑھتا جاتا ہوں
بُرا دن تھا
کہ علم و آگہی کے سارے دروازے کھلے مجھ پر
بُرا دن تھا
عذابِ آگہی میں دوسرے لوگوں کو لا پھینکا
بُرا دن تھا
وڈیرے اور سب زردار
ایسے بے سکوں رہنے لگے اطلس کے بستر پر
کہ جیسے بستروں میں ٹاگ ، افعی ، کثر دم کے بسیرے ہوں
بُرا دن تھا
کہ جب سے آج تک
سارے ہی مصنوعی سکالر مجھ سے نالاں ہیں
٭٭….٭٭