... loading ...
افغان حکومت ملک کے اندر امن قائم کرنے اور حکومت کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ یہ حکومت شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ افغان حکومت امریکا اور نیٹو افواج کے حصار میں قائم ہے ۔ بیرونی افواج کاآج انخلاء ہوتا ہے تو اگلے لمحے اشرف غنی، حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور دوسری افغان حکومتی شخصیات، عسکری حکام اور وہ تجزیہ کار جو ہمہ وقت پاکستان کے خلاف زہر اُگل رہے ہیں، افغان سرزمین پر نظر نہیں آئیں گے۔ دراصل افغان حکومت نے امریکا کی ناک کے نیچے بھارت کی سرپرستی و رہنمائی اور ہدایات پر پاکستان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ گویاسرحدوں کی پامالی و خلاف ورزی کو افغان فورسز نے معمول بنا رکھا ہے، اور یہ اوچھی حرکتیں بلاشک و شبہ بھارت کی شہہ پر کی جاتی ہیں۔ اب کی بار تو افغان فورسز نے حد ہی کردی،نہ صرف پاک افغان سرحد پر گولیاں برسائیں بلکہ سرحدی شہر چمن کے زیرو لائن پر واقع دیہاتوں حتیٰ کہ شہر چمن تک کو نشانہ بنایا ۔اس اوچھی حرکت کے لیے افغان فورسز نے 5مئی کی صبح یعنی فجر سے پہلے تین یاچار بجے کے وقت کا انتخاب کیا ۔زیادتی و تجاوز کا یہ بہیمانہ سلسلہ 13گھنٹوں تک جاری رکھا ۔ پاک فوج تدارک نہ کرتی تو افغان فورسز کا ارادہ یقینی طور پر پاکستان کی حدود میں گھسنے اور پیش قدمی کا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ مردم شماری کا عمل پاکستانی حدود میں پاکستان ہی کی دو آبادیوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں ہورہا تھا اور اعتراض افغان فورسز کو تھا اور حملہ کرکے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا دھجیاں اُڑائیں۔ دس پاکستانی شہری قتل کردیے ۔جن میںخواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ چالیس سے زائد زخمی کردیے ۔ یہ بڑے افغانیت اور پشتونیت کے علمبردار بنے پھرتے ہیں اور نشانہ پشتون عوام ہی کو بنایا۔ ہزاروں خاندانوں نے چمن شہر اور قرب و جوار کے محفوظ علاقوں میں پناہ لی۔ جب جوابی وار دیکھا تو پسپائی بھی اختیار کرلی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت اور افواج نے اب بھی ان سے رعایت کا مظاہرہ کیا وگرنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاک فضائیہ کو ان کی سرکوبی کا حکم دیا جاتا تاکہ جن جن اسلحہ اور گاڑیوں کے ساتھ افغان فورسز آئی تھیں کو فضائیہ نابود کرتی اور ان کی فورسز کو بھاگنے نہ دیتی۔ افغان فورسز کی جانب سے یہ تجاوز و زیادتی ایسے وقت ہوئی کہ جب پاکستان کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے جس میں ملک کی تقریباً تمام ہی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے، نے کابل کا دورہ کیاتھا اور چھ گھنٹوں پر مشتمل طویل ملاقات افغان صدر اشرف غنی سے ہوئی۔ اطلاعات ہیں کہ افغان صدر اور دیگر حکومتی ذمہ داران نے اصول مہمانداری و آداب سفارت کاری کا لحاظ بھی ملحوظ نہ رکھا یعنی وفد سے نامناسب لہجے میں مخاطب ہوئے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ نے الگ افغانستان کا دورہ کیا۔ افغان حکومت اپنی ناکامی و نا اہلیت کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ دیکھا جائے توافغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔کیونکہ وہاں حکمرانی امریکا کے بعد بھارت کی قائم ہے ۔ اور یقینی طور پر یہ حملہ بھارت کے کہنے پر ہوا ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ کو اس ننگی جارحیت کی بھنک تک نہ پڑی ہوگی ۔ یہ سب کچھ افغان آرمی اور سرحدی فورسز کے چند آفیسروں کے ذریعے کرایا گیا ۔ پاکستان نے افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرلیا، ان سے احتجاج کیا۔ اس کے برعکس افغان حکومت نے کابل میں متعین پاکستان کے سفیر کو طلب کرکے ایک اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا (6مئی) ۔ یعنی ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔ افغان حکومت نے بعینہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کا طرز عمل اپنا رکھا ہے۔ بھارت کی ایماء پر بنگلہ دیش نے پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا۔ اس حکم پر افغانستان نے بھی لبیک کہا ۔نیز اشرف غنی نے پاکستان کے دورے کی دعوت مسترد کردی، دیکھا جائے تو یہ فیصلہ اشرف غنی کا اپنا نہیں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی افغانستان سے ملحق سرحد محفوظ نہیں ہے ۔ کالعدم جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے اعترافات اور انکشافات کے بعد توکوئی دلیل و منطق پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی ۔پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی تمام تر دیکھ بھال بھارت افغانستان میں کررہا ہے۔ انہیں ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہیں۔ یہ مسلح جھتے افغانستان کے اندر کہیں بھی آجاسکتے ہیں۔ افغان حکومت ایک طے شدہ پالیسی کے تحت افغان عوام میں پاکستان مخالف رجحان پیدا کر رہی ہے۔اس مقصد کے لیے افغان میڈیا کو بھی مامور کیا گیا ہے ۔ سوافغانستان جانے والے اس وفد میں محمود خان اچکزئی بھی شامل تھے۔ محمود خان اچکزئی کی جماعت کا سرے سے مؤقف ہی یہی ہے کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کرتا ہے ۔ چناںچہ ا گرحتمی رائے یہ ہو تو کیا اس طرح پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا ہو سکتا ہے ؟ اصولی طور پر توہونا یہ چاہیے کہ اصل حقائق بیان کیے جائیں، خواہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں۔ قصور اگر پاکستان کا ہے تو ضرور اس خامی کو اُجاگر کیا جانا چاہیے اور اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے تو اس پر خاموشی قطعی انصاف نہیں ۔ ایک نابغہ روزگار پشتون رہنما ء کی چھ مئی کو چمن میں ہونے والی پریس کانفرنس مبہم الفاظ پر مشتمل تھی ۔ جس میںیہ مؤقف اپنایا کہ ’’محض ایک گائوں کی مردم شماری کے لیے 9 افراد کو شہید اور47کو زخمی کرنے اور لوگوں کو بے گھر کرنے کے حق میں نہیں۔‘‘ اس سے یہ معنی اخذہوتا کہ پاکستان ہی اپنے9شہریوں کو مروا نے کی وجہ بنا ہے ،افغان فورسزکو اشتعال دلایاہے۔اگر مراد یہ نہیں تھی تو بات صاف کی جانی چا ہئے تھی تاکہ کوئی ابہام نہ رہتا۔ سوال یہ ہے کہ جس گائوں میں مردم شماری ہورہی تھی کیا وہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ہے یا افغانستان کے ؟ اگر پاکستان کے زیر انتظام ہے تو کیا افغان فورسز کو مردم شماری روکنے اور بھاری اسلحہ سے حملے کا حق حاصل ہے ؟ یقیناً افغان فورسز نے پاکستانی شہریوں کا قتل عام کیا۔ چناں چہ اس جارحیت پر صاف اور واضح الفاظ میں افغان فورسز اور حکومت کی مذمت کرنی چاہیے تھی ۔گویا مبہم مؤقف پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش ہے۔ البتہ عوامی نیشنل پارٹی کے ر کن اسمبلی انجینئر زمرک اچکزئی نے افغان فورسز کے اس فعل کو نہ صرف بزدلانہ قرار دیا بلکہ پاکستان سے مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی ہی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے واقعہ سے پہلے کشیدگی ختم کرانے کی اپنے طور پر کوشش کی تھی ۔اصغر خان اچکزئی نے بجا طور پر کہا کہ’’ دونوں ممالک دوستانہ تعلقات قائم رکھیں اور ایک دوسرے کی سلامتی و خود مختاری کو یقینی بنا ئیں ۔پاکستان اور افغانستان کے مسائل کا حل مذاکرات ،ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے ،اعتماد اور عدم مداخلت کی پالیسی میں پوشیدہ ہے ۔ اس کشیدگی کا فائدہ دوسرے اٹھائیں گے جس کا ادراک پاکستان اور افغانستان کو بخوبی ہے ۔‘‘ افغان فورسز کی ا س غیرسنجیدگی و حماقت سے خود افغانستان کو نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ علاوہ ازیںسرحد کی بندش سے لاکھوں عوام کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ آئی جی ایف سی میجر جنرل ندیم احمد انجم نے کتنی اچھی بات کہی کہ انہیں افغان فورسز کو نقصان پہنچانے کی کوئی خوشی نہیں ۔ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے اس حملے کو افغانستان کی نادان شرارت کہا، کہ اپنی اس نادانی پر افغان فورسز کو شرمندگی ہونی چاہیے ۔ ‘‘ افغان حکومت اچھی طرح جان لے کہ ان کی نادان شرارتوں کا فائدہ بھارت کو تو پہنچتا ہوگا مگر خود ان کے لئے نقصان اور گھاٹے کا سودا ہے۔