... loading ...
( سالکان ِراہ کے لیے سلسلہ گاڈ فادریہ کے اذکار و وظائف کا نایاب مجموعہ)
پچھلے دنوں ایک شعر مطالعے میں آیا تو طبیعت میں عجب جولانی آئی۔ شعر تھا ع
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھرہوا سے میری دشمنی رہی
سپریم کورٹ آف پاکستان میںتین عدد آئینی درخواستیں بحوالہ29/2016، 30/2016اور03/2017 جنہیں عرف عام میںPanama Papers Scandal کہتے ہیں ،کیا دائر ہوئیں، ملک کے طول و عرض میں الزامات کا ایک سونامی برپا ہوگیا۔درخواست دہندہ عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرکے ملکی سرمایہ اپنے اہل خانہ کے نام آف شور کمپنیوں کے ذریعے منتقل کیا۔انہوں نے اس حوالے سے قوم سے اور قومی اسمبلی میں خطاب میںجھوٹ بولا۔شیخ رشید اور” غریبِ“ جماعت اسلامی سیدنا سراج الحق کا مشترکہ استدلال تھا کہ اس جھوٹ کی روشنی میں وزیر اعظم آئین کی دفعات باسٹھ اور تریسٹھ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔یوں وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ان کے استدلال کو سپریم کورٹ کے مقدمہ کی سماعت میں مصروف پانچ رکنی بینچ کے دو سینئر جج صاحبان نے تسلیم کیا ۔باقی ماندہ تین جج صاحبان نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے مزید تفتیش کی راہ نکالی۔جو ایک باعزت سربراہ¿ مملکت کے لیے سر تا سر ایک مقام ذلت و مزید رسوائی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے کے اختتام پر فرمایا کہ
It is further held that upon receipt of the reports, periodic or final of the JIT, as the case may be, the matter of disqualification of respondent No. 1 shall be considered
عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس ٹیم کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں جواب دہندہ نمبر ایک یعنی وزیر اعظم کی عہدے سے نااہلی کا فیصلہ تب تک موقوف کیا جائے۔فیصلے میں عوام کی دل چسپی اس قدر زیادہ تھی کہ 20اپریل 2017 کو اس کی اشاعت کے بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اسے ملنے والےHits کی وجہ سے کریش کرگئی۔گوگل کوعام طور پر اس مشکل کا سامنا بھارتی پورن اداکارہ سنی لیونے(لیونے کا نام آپ یاد رکھیں کیوں کہ گاڈ فارد کو امریکامیں ویٹوکورلیونے پکارا جاتا تھا) اور پاکستان کی خاک بر سر خوں بہ داماں ماڈل ایان علی کے حوالے سے ملنے والیHits سے ہوتا رہا ہے۔
امریکا میں 1969میں ایک تہلکہ خیز ناول شائع ہوا تھا جسے Mario Puzo نے ‘The Godfather’ کے نام سے لکھا تھا۔تین سال بعد اس پر ایک معرکةالآرا فلم بھی ہالی ووڈ میںاسی نام سے بنی تھی۔ Albert S. Ruddy جنہوں نے یہ فلم بنائی تھی وہ رضامند نہ تھے کہ فلم کے ڈائریکٹر کے طور پر Francis Ford Coppola کو اور مین اداکار کے طور پر Marlon Brando اور Al Pacinoکو لیتے۔یہ سب ان دنوں ناکامی کی دھول چاٹتے تھے۔مارلن برانڈو کو گاڈ فادر کے مکالمے ادا کرتے وقت منہ میں ٹشو پیپر کا ایک گولا بنا کر رکھنا پڑتا تھا۔فلم کے حقوق چونکہ ناول کی اشاعت سے پہلے ہی حاصل کرلیے گئے تھے اس لیے ماریو پزو کو رقم بھی کل اسی ہزار ڈالر ہی ملی۔ نیویارک کی مافیا کا اصرار تھا کہ وہ فلم دیکھ کر اس کے ریلیز ہونے کی اجازت دیں گے۔منظوری ملی تو سب کے وارے نیارے ہوگئے۔بعد میں فلم میں دکھائے گئے اس خاندان کی دنیائے جرائم سے دنیائے سیاست میں داخلے کے سفر پر مزید دو فلمیں گاڈ فادر ٹو اور گاڈ فادر تھری بنیں۔ آخرالذکر فلم کا ایک ڈائیلاگ بھی بڑا قیامت خیز ہے جب اس گھرانے کا ایک چشم و چراغ Vincent Mancini امریکا کے ایک بڑے مافیا ڈان Lucchesiسے ملتا ہے جس کا امریکی سیاست اور عدلیہ میں بڑا اثر و رسوخ ہے تو وہ لوچیسی کو کہتا ہے کہ تمہارے پاس دولت اور سیاست ہے جن کی مجھے کوئی سمجھ نہیں تو لوچیسی اسے جواب دیتا ہے تمہارے پاس گن ہے۔اس پر لوچیسی اسے سمجھاتا ہے کہ
Finance is a gun. Politics is knowing when to pull the trigger
(اصل بندوق تو سرمایہ ہے۔سیاست اس ہنر کا نام ہے کہ ٹریگر کب دبانا ہے۔)
کراچی کے ڈان عزیر بلوچ سے لے کرصدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے عہدوں پر فائز رہنے والوں کے اقوال،افکار اور اطوارِ سیاست کا جائزہ لیں تو جرائم،سرمایہ اور سیاست کا یہ گٹھ جوڑ بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے کیوں کہ اقتدار کی بلندیوں پر جاکر جرم ،سرمایہ،مذہب اور سیاست ایک ہی گھر کی بہو بیٹیاں بن جاتے ہیں۔مذکورہ بالا نکتہ ماننے میں اگر آپ کو کوئی تامل ہے تو آپ پال ولیمز کی کتاب آپریشن گلیڈیو پڑھ لیں۔یہ کتاب ان سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھاتی ہے کہ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر کس طرح رومن کیتھولک چرچ،سی آئی اے اور اٹلی سے امریکاتک پھیلی ہوئی مافیا نے سرد جنگ کو یورپ میں جاری رکھنے اور امریکا کے سیاہ فام افراد میں ہیروئین کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ جمع کیا۔کس طرح وہ اس سرمائے سے جمی جمائی حکومتوں کو اُتھل پتھل کردیتے تھے۔
آمدم برسر مطلب! یہاں سپریم کورٹ کے فیصلے کی بات ہورہی تھی جس میں درج ایک جملے سے حکومت سر کھجانے پر مجبور ہوگئی اور رانا ثناءاللہ کو سپریم کورٹ کے فیصلے میں گاڈ فادر کے صفحہ¿ اول پر درج جملہ سیخ پا کر گیا کہ
Behind every great fortune there is a crime. Balzac
( ہر کامیاب خوشحالی کی پشت پر ایک بہت بڑا جرم چھپا ہوتا ہے)
ماریو پوزو نے امریکی ذہانت اور اختصار کا سہارا لے کر بالزاک کا یہ قول سادہ اور دل نشین بنادیا۔ورنہ فرانسیسی مصنف بالزاک نے یوں لکھا تھا کہ
The secret of a great success for
which you are at a loss to account is
a crime that has never been found
out, because it was properly
executed)
( ہرعظیم کامیابی جس کے حصول کا کوئی قابل قبول ثبوت فراہم نہ کیا جاسکے اور جس کا کھوج لگانا بھی کارِ دشوار ہو وہ جرم کے ارتکاب میں مہارت کی نشاندہی کرتا ہے)
رانا ثنااللہ کی” اِچھا “تھی کہ جج صاحبان اس رسوائے زمانہ حوالے کی بجائے قرآن پاک،احادیث مبارکہ یا اہل سلوک کا کوئی قول نقل کرتے تو فیصلے کی تقدیس میں اضافہ ہوجاتا۔اس جملے سے انہیں دکھ پہنچا۔
گاڈ فادر جب شائع ہوا تو ناول انگریزی میں ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کم ہی پڑھا گیا۔اس کا اردو ترجمہ بھی بہت بعد میں شائع ہوا۔فلم کی ریلیز نے البتہ پاکستان کی دنیائے جرائم و سیاست پر گہر ا اثر ڈالا۔مافیا کے ہاں دشمنوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سبق شاید پہلے پہل اس فلم کو ہی دیکھ کر سیکھا گیا۔ستمبر 1982 میں اس کا پہلا شکار ایک مہاجر رہنما ظہورالحسن بھوپالی بنے۔ انہیں ان کے حلقہ¿ انتخاب میں دس ممبران کے ایک ڈیتھ اسکواڈ نے ایاز سموں کی قیادت میں کراچی کے علاقے جیکب لائنز میںکلاشنکوف سے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔اس واردات سے ایک سال قبل چودھری ظہور الہی کو لاہور میں بالکل اسی انداز میں ہلاک کیا گیا تھا۔جیسا کہ گاڈ فادر کے مختلف مناظر میں جابجا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ سیاست میں تشدد کی باقاعدہ آمیزش میں اس فلم کی” تعلیمات“ کا بہت بڑا حصہ ہے۔اس کو دیکھ کر ہی کرمنلز کو واردات کے نت نئے طریقے سمجھ میں آئے۔اس کے بعد تو گویا ٹارگٹ کلنگز کی ایک قطار لگ گئی کیا نام لیں مفتی شامزئی،شیخ الحدیث مولانا عبدالمجید دین پوری جو مولانا اکرم ندوی السلامہ انسٹیٹیوٹ کیمبرج یونی ورسٹی کے پائے کے حدیث کے بحر العلوم کے شناور تھے۔بے چارے اپنی دوسری اہلیہ کے گھر کا خرچ چلانے دارالعلوم بنوری ٹاؤن سے ایک اور مدرسے میں معمولی اجرت کے لیے درس حدیث دینے نرسری کراچی کے پاس مدرسے میں جارہے تھے کہ انہیں گرفتار شدہ وصی حیدر اور اس کے گروپ نے 2013 میں شہید کردیا۔وہ راہ حق کی طرف گامزن تھے اس لیے ہم ان کے لیے لفظ شہید” دھڑلے“ سے استعمال کرتے ہیں۔
اس نوعیت کی ہلاکتوں میں آخری بڑا نام مشہور قوال امجد فرید صابری کا ہے۔جنہیں23جولائی 2016 کی دوپہر لیاقت آباد نمبر دس کراچی میں گھات لگا کر ماردیا گیا۔(جاری ہے)