... loading ...
سندھ کی آبادی بے تحاشہ بڑھ رہی ہے اور وسائل سکڑتے جارہے ہیں۔ وہ تو سپریم کورٹ اور پاک فوج کو داد دینی چاہیے کہ مردم شماری کے کام کا آغاز ہوگیا۔ فوج کی شمولیت سے امکان یہی ہے کہ آبادی کا درست تخمینہ لگایا جائے گا تاکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوسکے۔ صوبائی وزیر برائے محکمہ بہبود آبادی میر ممتاز حسین جاکھرانی نے بتایا ہے کہ سندھ آبادی میں اضافے کے تناسب سے دوسرے نمبر پر ہے صوبے کی آبادی میں سالانہ 349فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ روزانہ 7ہزار افراد ملک کے مختلف شہروں اور 3ہزار اندرون سندھ سے روزگار‘ ملازمت‘ مختلف کاموں اور علاج کے سلسلے میں کراچی آتے ہیں۔ ان دس ہزار افراد کی آمد سے خوراک اور شہری سہولتوں کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان نوواردوں میں سے روزگار کے لیے آنے والے اسی شہر میں بودو باش اختیار کرلیتے ہیں جبکہ قدرتی افزائش بھی پانچ فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ کراچی میں رینجرز اور پاک فوج کی کوششوں سے امن و امان قائم ہونے کے بعد شہر سے نقل مکانی بھی رک گئی ہے۔
گزشتہ دنوں کوئٹہ سے ایک دوست جو خیر سے سرکاری افسر بھی ہیں‘ نیپا کی ٹریننگ پر کراچی آئے‘ انہیں رات 2بجے نیپا ہاسٹل جانے کے لیے ٹیکسی میں سوار کرایا تو دل میں وسوسے اٹھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد فون پر رابطہ کرکے منزل پر پہنچنے کا دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بخیرو عافیت گلشن اقبال میں واقع ہاسٹل پہنچ چکے ہیں ،کراچی کے حالات میں یہ خوشگوار تبدیلی آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے آئی ہے۔ رینجرز اور اس کے ساتھ پولیس نے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے جرائم پیشہ افراد اور مافیاؤں سے جنگ لڑی ہے۔ جانیں قربان کی ہیں‘ تب جاکر کراچی کے حالات بدلے ہیں۔ دبئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں رات دو بجے بھی سونا اچھالتے ہوئے سڑک پر چلتے رہیں لیکن کوئی نہیں لوٹے گا۔ کراچی کے حالات بھی بدلے ہیں‘ رینجرز نے کراچی کے عوام اور تاجروں کو امن‘ چین اور سکون دیا ہے۔ سندھ حکومت بار بار اس کے اختیارات روک کر اپنی من مانی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن پھر پاپولر پبلک ڈیمانڈ پر اختیارات بحال کرنا پڑتے ہیں۔ رینجرز اور ضلعی انتظامیہ نے حال ہی میں اندرون سندھ ڈاکوؤں اور مجرموں سے ہتھیار ڈالوائے ہیں۔ انہیں باعزت زندگی گزارنے اور ان میں شریف شہری کا اعتماد بھی بحال کیا ہے۔ یہ 56ڈاکو بالائی سندھ میں دہشت کی علامت بنے ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں شہباز رینجرز سکھر میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں سیکٹر کمانڈر رینجرز کرنل امتیاز حسین ،کمشنر محمد عباس بلوچ اور دیگر افسران سمیت سراج کلپر بگٹی بھی شریک ہوئے۔ ڈاکوؤں نے اسلحہ‘ راکٹ لانچر‘ دستی بم ،جی تھری اور کلاشنکوف رائفلیں اور دیگر گولہ بارود بھاری مقدار میں رینجرز کے حوالے کیا ہے۔ رینجرز اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ڈاکوؤں کو قومی پرچم‘ سندھی ٹوپی اور اجرک پیش کی گئی اور انہوں نے قومی پرچم ہاتھوں میں اٹھا کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ اس سے قبل بھی 16سے زائد خطرناک جرائم پیشہ افراد رینجرز کے آگے جدید ہتھیار ڈال چکے ہیں۔
بالائی سندھ میں امن و امان کے لیے یہ طریقہ بڑا کارگر ثابت ہورہا ہے اور درجنوں خطرناک جرائم پیشہ افراد ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں۔ کراچی میں بھی اس طریقے پر عمل ہونا چاہیے۔ اندرون سندھ اور کراچی کے لیے الگ الگ پالیسی سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ 2007ءمیں سابق صدر مملکت پرویز مشرف نے بھی ایک این آر او نافذ کیا تھا۔ اس کے ذریعے ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد افراد کو معافی ملی تھی جن میں بے نظیر بھٹو‘ آصف زرداری سمیت ایم کیو ایم کے رہنما اور کارکن بھی شامل تھے۔ ان میں سے اکثر پر قومی دولت لوٹنے اور اربوں روپے سمیٹنے کا الزام تھا لیکن ان سب کو معاف کردیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کو بھی ایسے این آر او کی تلاش ہے لیکن فوجی قیادت اصولوں کی ڈگر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ فوج کے ترجمان نے ڈان لیکس کی رپورٹ بھی مسترد کردی ہے اور اسے نامکمل قرار دیا ہے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں سابق وزیر اطلاعات پرویزرشید اور وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے نام شامل نہیں ہیں، مبینہ طور پر ان دو شخصیات کا بھی ڈان میں شائع ہونے والی خبر میں اہم کردار رہا ہے‘ پرویز رشید کو پہلے ہی وزارت سے فارغ کیا جاچکا ہے۔وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر طارق فاطمی اور پرنسپل انفارمیشن افسر محکمہ اطلاعات حکومت پاکستان راؤ تحسین علی خان کو قربانی کے بکرے بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ فوج کو اصل کرداروں کے خلاف کارروائی درکار ہے‘ یہی وجہ تنازعہ ہے۔ پاکستان کے عوام کا مقدمہ یہ ہے کہ ہمیں ہماری لوٹی ہوئی رقم لوٹا دو۔ یہ ایک دو لاکھ روپے نہیں‘پانچ ہزار ارب روپے کا مسئلہ ہے۔ یہ پیسہ لوٹ کر بیرون ملک لے جایا گیا ہے۔ پاکستان کے نام پر اربوں ڈالر کے قرضے لے کر پاکستان سے باہر منتقل کردیے گئے‘ سرکاری فنڈز اور وسائل کی بے رحمی سے لوٹ مار کی گئی ہے ۔کتنے ہی این آر او ہوجائیں‘ عوام کو اپنی لوٹی ہوئی دولت چاہیے۔ یہ ”لُٹ دا مال“ پاکستان کی معیشت میں شامل ہو جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ پھر تیزی سے بڑھتی آبادی کا”ایٹم بم“ بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا بلکہ قومی تعمیر و ترقی میں کام آئے گا۔