... loading ...
پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے ڈان نے 6 اکتوبرکو ایک رپورٹ پیش کی جس میں ادارے کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور کالم نگار سرل المیڈا نے 3اکتوبر کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں سول و عسکری قیادت میں ہونے والے مبینہ مکالمے کی تفصیلات کا انکشاف کیا تھا۔ جس کے بعد فوج نے اہم سکیورٹی اجلاس کی خبر کے افشاء ہونے کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے سخت تشویش کا اظہار کیا۔مذکورہ رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ حکومت نے پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے اس مشترکہ اجلاس میں انتہائی محتاط اور غیر معمولی طور پر واضح طریقے سے عسکری قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضا کردیا گیا۔رپورٹ کے مطابق حکومت نے عسکری قیادت سے مطالبہ کیا تھا کہ بعض ایسے گروپس جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ فوج کے زیر سایہ کام کرتی ہیں، ان کے خلاف سول حکومتوں کو دہشت گردی کی روک تھام کے سلسلے میں ایکشن کی اجازت ہونی چاہئے،گفتگو میںبھارت میں پٹھان کوٹ حملے اور اس میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزام کے مطابق پاکستان میں موجود جہادی گروہوں سے تفتیش پر بھی زور دیا گیاتھا ۔فوجی اور سول قیادت نے اس اخباری رپورٹ کی سختی سے تردید کی تھی اوراس طرح کی گفتگو اجلاس سے باہر آنے اور خبر کا حصہ بن جانے پر فوج نے تشویش کا اظہار کیا تھا جس پر تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں سول و عسکری اداروں کے افسران بھی شامل تھے ،یہ خبر اسکینڈل ’ڈان لیکس‘کے نام سے مقبول ہوا ۔
اس سلسلے میں پچھلے کئی دنوں سے تحقیقات مکمل ہونے ، سفارشات کو عوام کے سامنے لانے اور اقدامات کی خبریں اور افواہیں زیر گردش تھیں۔کل جب وزیر اعظم ہائوس سے تحقیقات کے بعض حصوں کی منظوری کی خبر جاری ہوئی اور خارجہ امورمیں وزیر اعظم کے مشیر خاص طارق فاطمی سے عہدہ واپس لینے کا اعلان ہوا تو اسکے بعد حیرت انگیز طور پر پاک فوج کے ترجمان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اسے مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ اعلان انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے ،اس نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں ،جس کے بعد ہلچل مچ گئی۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ فوج وزیر اعظم کے نوٹیفکیشن کو کیسے مسترد کرسکتی ہے جبکہ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات ٹویٹر پرطے نہیں ہوتے اور اس معاملے پر میڈیا نے طوفان کھڑا کیا۔
سرل المیڈا کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق پیر 3 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں کم سے کم دو اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔پہلا یہ کہ (سابق) ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو ایک پیغام دیں گے۔وہ پیغام یہ ہوگا کہ فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دی تھیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کیے جائیں۔یہ فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور(سابق ) ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی زبردست بحث کے بعد کیے گئے۔
سرل المیڈا نے دعویٰ کیا تھا کہ زیر نظر مضمون(6اکتوبرکوڈیلی ڈان میں شائع شدہ) ان شخصیات سے ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جو اس اہم اجلاس میں شریک تھے۔تاہم ان تمام افراد نے آن ریکارڈ بات کرنے سے انکار کیا اور انہوں نے جو باتیں کیں ان کی تصدیق متعلقہ افراد کی جانب سے بھی نہیں کی گئی۔رپورٹ کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس میں سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے وزیر اعظم ہاؤس میں سول و عسکری حکام کو خصوصی پریزینٹیشن دی۔اس اجلاس کی سربراہی وزیر اعظم نواز شریف کررہے تھے جبکہ کابینہ اور صوبائی حکام بھی اس میں موجود تھے اور عسکری نمائندوں کی سربراہی اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کررہے تھے۔سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کی جانب سے حالیہ سفارتی کوششوں کے نتائج کا خلاصہ پیش کیا اور بتایا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے اور حکومت پاکستان کے موقف پر دنیا کے بڑے ملکوں نے بے اعتنائی کا اظہار کیا۔
امریکا کے حوالے سے سیکریٹری خارجہ نے کہا تھاکہ باہمی تعلقات خراب ہوئے ہیں اور اس کے مزید زوال پزیر ہونے کا امکان ہے کیوں کہ امریکا کا مطالبہ ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے۔بھارت کے حوالے سے اعزاز چوہدری نے کہا تھا کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات اور جیش محمد کے خلاف موثر کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔اس کے بعد سیکریٹری خارجہ نے شرکاء کو بتایا تھا کہ چین نے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تاہم ترجیحات میں تبدیلی کا اشارہ بھی دیا۔انہوں نے بتایا کہ خاص طور پر جب چینی حکام نے جیش محمد کے رہنما مسعود اظہر پر اقوام متحدہ کی پابندی کے خلاف تکنیکی اعتراض برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کی تو ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ بار بار ایسا کرنے کی منطق کیا ہے۔
سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد (سابق )ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سول عہدے داروں کے درمیان حیرت انگیز اور غیر معمولی تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں رضوان اختر نے استفسار کیا تھا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید ،لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔(سابق )ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکاء ششدر رہ گئے تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔
اس اہم اجلاس کے متعدد عینی شاہدین کا یہ ماننا ہے کہ سیکریٹری خارجہ کی پریزینٹیشن اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی مداخلت وزیر اعظم نواز شریف کا تیار کردہ منصوبہ تھا تاکہ فوج کو کارروائی کے لیے تیار کیا جاسکے اور اس کے بعد(سابق) ڈی جی آئی ایس آئی کو بین الصوبائی دوروں پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔رپورٹ کے مطابق (سابق) ڈی جی آئی ایس آئی اور سول حکام کے درمیان بحث ہونے کے باوجود معاملہ تلخ کلامی تک نہیں پہنچا۔ قبل ازیں اجلاس میں(سابق) ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ فوج کی پالیسی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اور فوج اس پالیسی کو رائج رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔
تاہم(سابق) آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھااور کہا تھاکہ ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباؤ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔
رضوان اختر نے وزیر اعظم کی ہدایت پر چاروں صوبوں کا دورہ کرنے کی بھی بخوشی حامی بھرلی تھی جہاں وہ آئی ایس آئی سیکٹر کمانڈرز کو تازہ احکامات جاری کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ ان مخصوص اقدامات کا خاکہ تیار کیا جاسکے جو مختلف صوبوں میں اٹھائے جانا ضروری ہیں۔متعدد حکومتی عہدے داروں کے مطابق اجلاس میں سول اور عسکری حکام کے درمیان بحث وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے کھیلا گیا بڑا جْوا تھا جو انہوں نے مزید بین الاقوامی دباؤ کو روکنے کے لیے کھیلا۔
اس کے علاوہ شرکاء نے بتایا کہ (سابق) آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے علیحدہ ملاقاتوں میں وزیر اعظم نواز شریف زیادہ پر جوش نظر آئے اور انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگر پالیسی میں موجودہ حالات کے مطابق تبدیلی نہ کی تو پاکستان کو حقیقی تنہائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومتی عہدے دار اس بات پر منقسم تھے کہ آیا نواز شریف کا کھیلا گیا جْوا کامیاب ہوگا یا نہیں۔ایک عہدے دار نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے عزم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’ہم اپنی ساری زندگی یہ سننے کی دعا کرتے رہے ہیں اب دیکھنا ہے کہ واقعی ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں‘۔ایک اور سرکاری عہدے دار نے کہا تھاکہ ’اقدامات کیے جارہے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کے لیے نومبر تک انتظار کرنا ہوگا کیوں کہ نومبر تک کئی معاملات طے ہوجائیں گے(نومبر میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہوئی )۔فوجی حکام کی جانب سے اس معاملے پر کوئی تبصرہ یا موقف نہ مل سکا۔
اس رپورٹ کے بعد ملک میں ایک طوفان کھڑا ہوگیا تھا کہ ایسے موقع پر جب بھارت نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد شروع کر رکھا ہے ، سرحد پر ہمارے جوان شہید ہورہے ہیں اور عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی عسکری و سول قیادت ایک صفحے پر ہے اور عالمی برادری کے سامنے جمہوری و عسکری حوالے سے اچھا امیج بن چکا ہے ،تو اس وقت ڈیلی ڈان کی خبر نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا،عوام اور سیاسی حلقے اس موقع پر منقسم ہوگئے تھے کہ آیا واقعی صورتحال یہی ہے یا پھر حکومتی و عسکری چپقلش کا ماضی کا قصہ ابھار کر قوم کے بھارت کے خلاف عزائم کو پست کیا جارہا ہے ؟؟بعد ازاں اس اسکینڈل پر تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوئی ،وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید سے حکومت نے استعفیٰ لیا ،پھر تحقیقات کے خاتمے پر گزشتہ دنوں اعلان ہوا کہ تحقیقات میں موجود سفارشات عوام کے سامنے پیش کی جائیں گی۔
پھر تازہ صورتحال یہ پیش آئی کہ کل وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ طارق فاطمی کو ڈان لیکس کے کیس میں برطرف کرنے کا اعلان ہوا اور کچھ مزید سفارشات کی منظوری کا اعلان ہوا تاہم ساتھ ہی فوج کی جانب سے اس اقدام کوناکافی یا خلاف سفارش قراردیتے ہوئے اقدامات کو مسترد کردیا ہے ۔
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ہفتے کے روز ڈان لیکس سے متعلق انکوائری کمیٹی کی سفارشات منظوری دی ہے۔تاہم ‘ڈان لیکس’ کے بارے میں حکومت پاکستان اور فوجی قیادت میں باہمی اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آ گئے جب اس نوٹیفیکیشن کو فوج نے مسترد کر دیا ۔ڈان لیکس میں کب کیا ہوا،ذیل میں ہم آپکے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
6 اکتوبر
روزنامہ ڈان میں سیرل المائڈہ نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کے حوالے سے خبر دی۔ اس خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا ۔
10 اکتوبر
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے ڈان کے اسسٹنٹ ایڈیٹرسرل المیڈاکی خبر کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے ان کی نشاندہی کی جائے۔
جنرل (ر)راحیل شریف نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل رضوان اختر کے ہمراہ محمد نواز شریف سے ملاقات کی۔وزیر اعظم ہاؤس کے پریس آفس کی طرف سے سول اور فوجی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں جو بیان جاری کیا گیا اس میں ملک کے معروف انگریزی اخبار ڈان میں ذرائع کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کے شرکاء اس بات پر مکمل طور پر متفق تھے کہ یہ خبر قومی سلامتی کے امور کے بارے میں رپورٹنگ کے مسلمہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
دوسری طرف سرل المائڈا نے ٹوئٹر پر لکھاکہ مجھے بتایا گیا ہے اور شواہد دکھائے گئے ہیں کہ میرا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔’ انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا: ‘میں آج رات بہت اداس ہوں، یہ میری زندگی، میرا ملک ہے، کیا غلط ہو گیا۔ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ میرا کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ یہ میرا گھر ہے ،پاکستان۔صحافتی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جانے کے حکومتی اقدام کی مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیاکہ ان کا نام ای سی ایل سے خارج کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
13 اکتوبر
وفاقی وزیرداخلہ نے کہا کہ سرل المائڈہ کی ایک اہم اجلاس کے بارے میں خبر سے دشمن ملک کے بیانیے کی تشہیر ہوئی ہے لہٰذا اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ انہی تحقیقات کی وجہ سے سرل المائڈہ کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی گئی ۔
‘وزیراعظم اور بری فوج کے سربراہ نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کی انکوائری ہوگی اور اس فیصلے کے ڈھائی گھنٹے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ اس معاملے کے مرکزی کردار (سرل) نے ملک سے باہر جانے کے لیے نشست بک کروائی ہے۔ اس وقت میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیتا۔’وزیرداخلہ نے کہا کہ اگر ایسے نہ کیا جاتا تو کہا جاتا کہ حکومت نے خود خبر لیک کی اور پھر خود ہی خبر دینے والے کو ملک سے بھگا دیا۔
14 اکتوبر
پاک فوج کے اس وقت کے سربراہ راحیل شریف کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس میں وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس سے متعلق جھوٹی اور من گھڑت خبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
وزیر داخلہ نے اخبارات کی دو تنظیموں کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے مشترکہ وفود سے ایک ملاقات میں سرل المائڈا کے مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ سرل المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق تاہم اس فیصلے سے اس خبر کے بارے میں جاری تحقیقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
30 اکتوبر
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کو انگریزی اخبار ڈان میں قومی سلامتی کے منافی خبر کی اشاعت رکوانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا نہ کرنے پر ان کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ان کے مطابق پرویز رشید کے حوالے سے دستاویزی اور دیگر معلومات سے معلوم ہوا کہ جب انھیں پتہ چلا کہ ایک صحافی کے پاس وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے حوالے سے کوئی خبر ہے تو انھوں نے اس صحافی کو دفتر طلب کیا اور اس سے ملاقات کی۔
7 نومبر
حکومت نے ڈان لیکس کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں بیوروکریٹس کے علاوہ خفیہ اداروں کے اہلکار بھی شامل تھے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق سات رکنی کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا خان کو سونپی گئی جبکہ دیگر ارکان میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز، محتسبِ اعلیٰ پنجاب نجم سعید اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور کے علاوہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کا بھی ایک ایک نمائندہ شامل تھا۔
12 نومبر
وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ اہم اجلاس سے مبینہ طور پر لیک ہونے والی انگریزی اخبار ڈان کی خبر سکیورٹی لیک نہیں تھی۔انھوں نے کہا تھاکہ صحافی سرل المائڈہ ملک واپس آ کر تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔دوسری طرف پاکستان میں حزبِ مخالف کی بڑی جماعتوں نے حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی کو مسترد کر دیا تھا۔
25 اپریل
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ میں کمیٹی کی سفارشات کو وزیر اعظم کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد عوام کے سامنے لایا جائے گا۔تاہم حکومتی حلقوں سے متضاد بیانات سامنے آئے ۔وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘تاحال رپورٹ وزیراعظم کو پیش نہیں کی گئی اور اس حوالے سے میڈیا کی رپورٹس درست نہیں ہیں۔’
29 اپریل
وزیراعظم نے ڈان لیکس سے متعلق انکوائری کمیٹی کی سفارشات منظور کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ امور سے متعلق معاون خصوصی طارق فاطمی سے عہدہ لے لیا گیاہے۔کل وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے انکوائری کمیٹی کے 18ویں پیرے کی منظوری دی ہے۔وزیر اعظم ہاوس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کے خلاف 1973 کے آئین کے ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ظفر عباس اور سرل المائڈہ کا معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سپرد کر دیا جائے جبکہ اے پی این ایس سے کہا جائے گا کہ وہ پرنٹ میڈیا کے حوالے سے ضابطہ اخلاق تشکیل دے۔بعد ازاں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیے گئے اعلامیے کو مسترد کردیا۔انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ‘ڈان لیکس کے حوالے سے جاری کیا گیا اعلان انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ڈان کی خبر کی تحقیقات کا معاملہ کوئی ایشو نہیں تھا، لیکن میڈیا نے ہنگامہ برپا کرکے اسے ایشو بنا دیا۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار نے آئی ایس پی آر کی ٹوئٹس کے حوالے سے کہا کہ ’ٹوئٹس کسی بھی ادارے کی طرف سے ہوں پاکستان کے نظام اور انصاف کے لیے زہر قاتل ہیں، اداروں میں ٹوئٹس کے ذریعے ایک دوسرے کو مخاطب نہیں کیا جاتا، جبکہ ابھی معاملے سے متعلق نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا تو بھونچال کیسے آیا۔انہوں نے کہا کہ ڈان کی خبر کے معاملے پر ابھی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، جسے نوٹیفکیشن بناکر پیش کیا جارہا ہے وہ وزارت داخلہ کی سفارشات تھیں، جبکہ جو سفارشات ملیں ان ہی کی روشنی میں نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔
رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...
لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...
پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...