... loading ...
چند روز قبل مجھے ایک دوست کے ہمراہ لاہور پولیس کے ایک آفیسر کے پاس جانے کا اتفاق ہوا، موصوف کے چپڑاسی نے پہلے تو ہمیں حسب روایت روکا اور کہا کہ اندر میٹنگ ہو رہی ہے اس لیے آپ ابھی انتظار کریں۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور اپنی عادت کے مطابق چپڑاسی کو کہا کہ حضور اپنے صاحب کو بتائیں کہ باہر آپ سے ملنے کے لیے کچھ لوگ انتظار کر رہے ہیں ، خیر چپڑاسی نے جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا اور مجھے ایسا تاثر دیا جیسے پورے دفتر کا نظام مذکورہ پولیس آفیسر نہیں بلکہ وہ چلا رہے ہیں۔ اس دوران ایک اور پولیس آفیسر آئے اور اپنے ایک دوست کے ہمراہ سیدھے موصوف کے کمرے میں چلے گئے اس کے بعد مجھے سمجھ آگئی کہ سی سی پی او لاہور کیپٹن امین وینس کی طرف سے چٹ سسٹم ختم کرنے اور ہر شخص کے لیے دروازے کھول دینے کے ڈرامے کا سین یہاں بھی چل رہا ہے۔ مجھے پٹھان والا واقعہ یاد آگیا جس میں ایک شخص نے دفتر کے دروازے پر سیکورٹی کی ڈیوٹی پر مامور پٹھان سے پوچھا کہ میں اندر جا سکتا ہوں ؟ اس نے کہا کہ بالکل نہیں جا سکتے اس شخص نے کہا کہ وہ دوسرا شخص تو آپ کے پاس سے گزر گیا اس کو تو آپ نے نہیں روکا اس پر خان صاحب بے ساختہ بولے کہ اس نے کوئی مجھے پوچھا ہے۔ میں بھی اسی فارمولے کی بنیاد پر آگے بڑھا، میں دروازہ کھول کر اندر چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ مذکورہ آفیسر اپنے دوست کے ساتھ پولیس کی نئی وردی پہنے کھڑے ہو کر اپنی سلفیاں بنانے میں مصروف تھے اور ان کو میری موجودگی کی بھی ذرا بھر شرم نہیں آئی، انہوں نے میرے سامنے کسی خاتون کو کال کی اس کو کہا کہ میری جان میں نے اپنی تازہ تصویر نئی وردی کے ساتھ آپ کو بھیجی ہے ذرا چیک کریں، میں کیسا لگ رہا ہوں اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ میری بیوی کا خیال ہے کہ پولیس کی پہلی وردی ہی ٹھیک تھی اس سے مجھے تو اندازہ ہو گیا کہ جس محترمہ کو تصویر بھیجی جا رہی ہے وہ اس کی کم از کم بیوی نہیں ہے ، خیر موصوف میرے بیٹھے بھی تقریباً آدھے گھنٹہ تک اس تفریح میں لگے رہے، بعد ازاں موصوف مجھ سے مخاطب ہوئے اور مجھے کہنے لگے کہ آپ کے ساتھ ڈکیتی کی جو واردات ہوئی تھی اس کے ملزمان تو ابھی تک نہیں پکڑے گئے البتہ پچھلے ہفتے 5 دیگر سینئر صحافیوں کے ساتھ بھی وارداتیں ہو چکی ہیں ،کیا کریں وارداتوں میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔سی سی پی او لاہور سمیت اعلیٰ افسران آپ کی واردات سمیت باقی صحافیوں کے ساتھ ہونے والی وارداتوں کے بارے میں پوچھتے تو ہیں مگر ان کو ہمارے مسائل کا شاید کم علم ہے کہ ہم کس طرح نظام زندگی چلا رہے ہیں۔ مذکورہ پولیس آفیسر کے رویے سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ لاہور میں آئے دن سینئر صحافیوں کے ساتھ وارداتیں معمول کیوں بنتی جا رہی ہیں اور اس میں پولیس کا کیا کردار ہے ۔ اس کے بعد موصوف نے ایک دو اپنے کلاس فیلوز اور دوستوں کو اِدھر اُدھر کالز کیں، اتنے میں ان کا چپڑاسی اندر آیا اس نے ایم ایم عالم روڈ کے ایک مہنگے ریسٹورنٹ سے منگوایا گیا لنچ ان کے سامنے رکھا، موصوف نے مجھے بھی کھانے کی بار بار دعوت دی مگر میں اٹھ کر چلا آیا لیکن جب میں آفس سے نکل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ مذکورہ آفیسر کا وہی چپڑاسی ایک دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر چند سائلوں سے لین دین کر رہا تھا، مجھے سمجھ آگئی کہ بہت سے دیگر دفاتر کی طرح اس دفتر کو بھی پرانا تجربہ کار چپڑاسی اور ریڈر چلا رہا ہے ۔اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ خود نئے بھرتی ہونے والے اے ایس پی ، اسسٹنٹ کمشنرز اور نئے ججز کے دفاتر میں جا کر بغور جائزہ لیں تو آپ کو وہاں پر پرانے ریڈرز اور چپڑاسیوں کا راج نظر آئیگا جو نئے افسران کے دفتر سے لیکر گھر کے خرچ تک اور دیگر معاملات زندگی کا اہتمام بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ کرتے ہیں اور روزانہ افسران کے لیے جیب خرچ کا اہتمام بھی کرنا ان کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ قارئین! اپنے اسی تلخ تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے چپڑاسی اور وزیر کا ایک قصہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں جس کو پڑھ کر یقیناً آپ بھی میری طرح اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ہماری بیورو کریسی اور نظام حکومت کا زیادہ تر حصہ تجربہ کار اور ماہر چپڑاسی ہی چلا رہے ہیں، قصہ کچھ یوں ہے کہ…
ایک نالائق شخص وزیر مواصلات بن گیا۔ وہ اتنا نالائق تھا کہ اسے رشوت وصول کرنے کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔ اس کے پاس ایک ٹھیکیدار آیا اور ایک فائل پر منظوری کے عوض بیس لاکھ روپے رشوت دینے کا وعدہ کیا۔ وزیر نے آئو دیکھا نہ تائو‘ جھٹ سے فائل منگوائی اور اس پر Approved لکھ دیا۔ اب فائل منظور ہو گئی مگر ٹھیکیدار کہیں نظر ہی نہیں آیا۔دو چار دن انتظار کرنے کے بعد وزیر بہت پریشان ہوا کہ اب کیا کرے؟ اسی اثنا میں اس کے چپڑاسی نے اپنے وزیر کا اُترا ہوا چہرہ اور طبیعت کی بے کلی دیکھ کر اندازہ لگایا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ وہ وزیر کے پاس آیا اور رازداری سے کہنے لگا‘ حضور! ہوں تو میں چپڑاسی مگر کافی عرصہ سے یہ وزارت میں ہی چلا رہا ہوں۔ آپ مجھے اپنی پریشانی کی وجہ بتائیں‘ میں کوئی حل نکال دوں گا۔
وزیر نے بتایا کہ اس طرح میں نے فائل اپروو کر دی ہے مگر اب ٹھیکیدار ہاتھ نہیں آرہا۔ چپڑاسی نے کہا فائل واپس منگوا لیں۔ وزیر نے کہا اب اس پر کٹنگ کس طرح کروں؟ چپڑاسی نے کہا، جناب! پریشان نہ ہوں‘ کوئی کٹنگ نہیں ہو گی۔ فائل واپس آئی۔ چپڑاسی نے کہا آپ اس Approved سے پہلے Not لکھ دیں۔ مقصد پورا ہو جائے گا اور کوئی کٹنگ وغیرہ بھی نہیں ہو گی۔ وزیر نے ایسا ہی کیا۔ اب ٹھیکیدار کو پتہ چلا تو بھاگا بھاگا آیا اور بیس لاکھ روپے کا بریف کیس پیش کیا اور اپنی کوتاہی کی معافی بھی مانگی ، اب پیسے لینے کے بعد وزیر مزید پریشان ہو گیا اور پھر چپڑاسی کو بلایا کہ اب کیا کروں؟ چپڑاسی بولا جناب عرصہ ہوا یہ وزارت میں ہی چلا رہا ہوں۔ آپ نے فائل پر جہاں Not لکھا ہے وہاں ”ٹی‘‘ کے بعد ”ای‘‘ لگا دیں۔ یعنی Not کو Note بنا دیں۔ اب یہ ہو گیا Approved Note، وزیر نے ایسا ہی کیا اور من کی مراد پائی۔ شنید ہے کہ بہت سے محکمے وزراء نہیں چپڑاسی چلا رہے ہیں کیونکہ ان کا تجربہ اور ذ ہا نت بہت سے وزراء سے بہتر اور زیادہ ہے۔ خدا جانے وہ کونسا وقت آئے گا جب ہماری جان ان چپڑاسیوں سے چھوٹے گی اور پاکستان کو صحیح معنوں میں بہتر لوگ اور دیانتدار بیورو کریسی میسر آئے گی۔