... loading ...
ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست مفتی صاحب ہیں ۔ انہوں نے چند روزقبل ایک موضوع پرفتوی جاری کیا۔مگرفتوی لینے والے صاحب نے فتوی وصول کرنے کے بعدگزارش کی کہ حضرت مفتی صاحب کوئی راستہ نکالیں ’’والدہ صاحبہ ہرحال میں عمرہ پرجانے کے لیے تیارہیں ،ان کی ٹکٹیں بھی ہوچکی ہیں ۔اورمجھے دفترسے ان تاریخوں میں چھٹی نہیں مل رہی ہے بلکہ مجھے اس سال چھٹی ملنے کے اب کوئی امکانات نہیں ہیں ۔ایسی صورت میں اماں جان کی خواہش ہے کہ وہ محلے کے ایک گروپ کے ساتھ عمرہ پرچلی جائیں ۔اس لیے آپ کوئی ’’راستہ ‘‘نکالیں ۔ قارئین!ذرا آپ مسئلہ اوراس کاجواب پڑھیں پھر بات کرتے ہیں ۔(سوال) ایک خاتون بغیرمحرم کے حج وعمرہ کے لیے جاتی ہے ، کہاجاتاہے کہ اکیلی عورت حج وعمرہ پربغیرمحرم نہیں جاسکتی لیکن یہی عورت اکیلے یورپ، امریکا ودیگرملکوں کاسفرکرتی ہے ۔ الغرض یہی عورت ہرسفربغیرمحرم کے کرتی ہے، صرف حج وعمرہ کے لیے ہی محرم لازم ہے ؟
لیکن سعودی گورنمنٹ کی پالیسی کے تحت صرف ۴۵سال سے بڑی عمرکی عورت کوبغیرمحرم کے ویزاجاری کیا جاتاہے ،وہ اس سلسلے میں یہ کہتے ہیں کہ جب عورت اکیلے امریکا، یورپ اور دیگر ممالک کاسفرکرسکتی ہے تووہ حج وعمرہ بھی اکیلے آکر کرسکتی ہے لیکن یہ کہ سفرکاگناہ ہوگا،مگرحج وعمرہ ادا ہوجائے گا۔علماء کرام اس بات کی وضاحت فرمائیں ۔
یہ کہ میں آپ سے یہ پوچھناچاہ رہی ہوں کہ میرے پاس محدودرقم ہوجس سے میں حج وعمرہ کرسکتی ہوں تاکہ میں کسی حج وعمرہ گروپ یا کسی فیملی کیساتھ جاسکتی ہوں ۔
(الجواب )نبی کریم ﷺنے عورت کوتین دن یااس سے زیادہ سفرمحرم کے بغیرکرنے کی ممانعت فرمائی ہے اور تین دن سے مراد ۴۸میل یااس سے زیادہ مسافت ہے ،سفرچاہے حج وعمرہ کاہویاکوئی اور سفر ہو، حکم یہی ہے ۔
حدیث شریف ملاحظہ ہوں :
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا:کوئی شخص عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے (یعنی اجنبی مردعورت کسی جگہ تنہا جمع نہ ہو)اورکوئی عورت محرم کے بغیرسفر نہ کرے۔
لہٰذاصورت مسئلہ میں محرم کے بغیرکسی قسم کا(سفرشرعی )کرناجائز نہیں ہے،اگرسائلہ کے پاس خود حج کرنے کے پیسے ہیں لیکن ساتھ جانے والے محرم کاخرچہ برداشت کرنے کے پیسے نہیں ہیں توسائلہ پرحج فرض ہوچکاہے لیکن جب تک محرم میسرنہ ہویامحرم کاخرچہ برداشت کرنے کاانتظام نہ ہوتب تک حج اداکرنافرض نہ ہوگا،ایسی صورت میں اگرزندگی میں محرم کے ساتھ حج کرلیاتوبہتر،ورنہ موت سے پہلے حج بدل کرانے کے لیے وصیت کرکے جانالازم ہوگاتاکہ ورثاء اس کے ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں سے اس کے لیے حج بدل کرادیں ۔نیزجیسے محرم کے بغیرسفرجائز نہیں اسی طرح کسی اجنبی فیملی کا رکن بن کرسفرکرنابھی جائز نہیں ۔
اب آتے ہیں موضوع کی طرف، اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم جس دورمیں جی رہے ہیں یہاں اسلامی خلافت قائم نہیں ہے ۔دنیامیں اس وقت ایک بھی ملک ایسانہیں ہے جہاں شریعت کے اصولوں کے مطابق نظام حکومت چلایاجاتاہے ۔سعودی عرب اورایران بھی اس تنقید اورحقیقت میں شامل ہیں ۔اس لیے جب کوئی نیک بزرگ مذہبی احکامات کوان کی اصل حالات میں پیش کرتاہے تب ہماراپہلامطالبہ یہ ہوتاہے کہ ہمیں حل چاہیے جس کامطلب یہ ہوتاہے کہ ہمیں اصول نہیں چاہیے، ہمیں حل چاہیے۔ اورپھرایک ایسی بحث کاآغازہوتاہے جس کا اختتام اس بات پرہوتاہے کہ اسلام توہرزمانے کے لیے آیاتھاپھریہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام 21 ویں صدی میں قابل عمل نہ ہو؟یہ سوال تودرست ہے مگراصول کی بات یہ ہے کہ اسلام کے مطابق ہمیں اپنے آپ کو ڈھالناہے۔۔یااسلام کو اپنے مطابق چلاناہے؟ جب رسول ﷺ نے کفار مکہ کے سامنے اسلام پیش کیاتوکیاکفارنے خود کو بدلا تھایااسلام کی پیوند کاری کرنے کامطالبہ کیا تھا؟ آج ہم خود کوبدلنے کے بجائے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام کوبدلا جائے اس کی پیوندکاری کی جائے تاکہ ہمارے روزوشب میں کسی طرح فٹ آجائے۔ اسلام ہمیں ہماری چوبیس گھنٹے کی زندگی میں کسی طرح نہ روکے، نہ ٹوکے بلکہ وہ ہماری ہرعیاشی اوربدمعاشی کاساتھ دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے ۔ہرمسئلے کے حل کے لیے پیوند کاری کے ماہر حضرات اکثر یہ بات دہراتے ہیں کہ اسلام بہت آسان ہے، اسلام کسی چیزسے منع نہیں کرتا۔سوال یہ ہے کہ جب اسلام کسی چیز سے منع نہیں کرتا تو اسلام کرتاکیاہے؟یہ ایک بہت بڑامسئلہ ہے کہ امریکا، یورپ کی حیثیت مسلمان ممالک کے مقابلے میں کیاہے؟ بعض ترقی زدہ حضرات فرماتے ہیں کہ امریکاو یورپ میں اسلام پاکستان سے زیادہ محفوظ ہے ۔اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ وہاں پردہ کیاجاسکتا ہے، اسلامک سینٹرز ہیں ، امریکاویورپ مسلمانوں کواسلامی احکامات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دیتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگرامریکا میں اذان کی اجازت ہے توامریکا میں تومندرکی گھنٹیاں بجانے کی بھی اجازت ہے۔ امریکا میں تو عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی مکمل آزادی ہے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیاکہ امریکا میں اسلام محفوظ ہے ؟اگرکوئی امریکی اپنی مرضی سے مسلمان ہوسکتا ہے تووہی امریکی 2سال بعداسلام سے عیسائی بھی توہوسکتا ہے ؟تب اگر مسلمان کہیں کہ ہمارے مذہب میں اس کی سزاقتل ہے توکیاامریکا کاآئین جوکہ انسانی حقوق سے ہدایت لیتاہے ،وہ اس بات کومانے گا؟نہیں وہ کہے گاکہ ہرانسان کوحق حاصل ہے کہ وہ جوچیزچاہے اختیار کرے لہٰذاکل وہ اسلام کوخیرسمجھتاتھا آج اسے عیسائیت سے خیرمل رہاہے تویہ اس کاحق ہے۔اسی طرح امریکا میں صرف پردہ کرنے کی آزادی نہیں ہے بلکہ امریکا اوریورپ میں کپڑے اتارنے کی بھی مکمل آزادی ہے۔ وہاں اگرپردہ محفوظ ہے توننگ پن بھی محفوظ ہے ۔اگرمسلمان وہاں کہیں کہ نہیں یہ توغلط ہے، تو یورپ اورامریکا ان سے کہیں گے کہ جیسے پردہ کرنے کی آزادی ہے ایسے ہی کپڑے اتارنے کی بھی آزادی ہے، آپ کی مرضی آپ کون سی آزادی استعمال کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ خیرکوئی چیز نہیں ہے۔ ہر انسان کوانسانی حقوق یہ اختیار دیتاہے کہ وہ اپنا خیر خود خلق کرے۔ 17ویں صدی کے بعدامریکا اور یورپ میں ہرانسان ایک دائرے کے اندرخود اپنا خدا ہے۔ انسانی حقوق کی نظر میں پانچ وقت کانمازی اورطوائفوں کولانے لے جانے والا دونوں ایک جیسی عزت کے قابل ہیں ، ان دونوں کے حقوق برابرہیں ۔بلکہ انسانی حقوق ،امریکا اوریورپ کی نظر میں ایک باپردہ عورت اورSunny leone ، kate winsletدونوں برابر ہیں ۔ Sunny leoneجوحرام کاری کرتی ہے امریکاو یورپ اورانسانی حقوق کاعالمی منشوراس عمل کواس عورت کاخودپسندکئے گئے خیرکادرجہ دیتے ہیں ۔اسی طرح انسانی حقوق کاعالمی منشوریہ آزادی بھی دیتاہے کہ کوئی عورت چاہے تواسلام کی تبلیغ کرے ۔انسانی حقوق کے عالمی منشورکی نظرمیں خیرکچھ نہیں ہے ،ہدایت کچھ نہیں ہے، ہر انسان آزاد ہے اورخوداپناخداہے، ریاست کے لیے تمام شہری یکساں عزت کے قابل ہیں ۔ ریاست کسی ایک کے خیرکوکسی دوسرے کے خیر پر ترجیح نہیں دے گی۔اب ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم آج تک ان مباحث کوسمجھے بغیریورپ اورامریکا میں خیرتلاش کررہے ہیں ۔اسی طرح آج کی جدید دنیا کا خدا سرمایہ ہے۔ اگرسرمایہ 45سال کی عمرکی عورتوں کوبغیرمحرم سفر کی اجازت دینے سے بڑھتاہے توایک جدیدریاست جس کامقصد زیادہ سے زیادہ سرمائے کاحصول ہو، وہ یہ کام کرگزرے گی ۔اب ظلم یہ ہے کہ اسلامی ریاست نہیں ہے ، نہ ہی اسلامی ریاست کی رٹ ہے ۔ دنیامیں نہ ہی کوئی خیربغیرجبرکے نافذ ہوسکتا ہے ،نہ ہی کوئی شر بغیر جبر کے نافذ ہوسکتا ہے ۔یہ آج جس دنیامیں ہم سب غلامی کی زندگی جی رہے ہیں ،کیااس دنیاکے نظام کو جبر کے بغیرنافذنہیں کیاگیا؟پھراسلام کو بزور قوت نافذکرنے پرتنقیدکیوں کی جاتی ہے؟ کیاکورٹ کے فیصلوں پرعملدرآمدکروانے کے لیے ریاست اپنی رٹ کا استعمال نہیں کرتی؟ مگر مذہبی معاملات میں لوگ آزاد ہیں ،دل کرے تومان لیں ، نہ کرے تونہ مانیں ۔ایسے میں لوگ سوال کرتے ہیں کہ اچھا۔۔اسلامی حکومت آجائے گی تب کون سااسلام نافذ ہوگا؟ بریلویوں کا،دیوبندی کا ،یا الحدیث کایاشیعہ کا، میں ان سے سوال کرتاہوں کہ جب اسلامی انقلاب آئے گاتووہ کون ہوگا جو اسلامی فوج کے سامنے کھڑاہوکریہ سوال کرے گا کہ تم کون سااسلام لائے ہو؟کیا لوگ سعودی عرب سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے پاس کون سااسلام ہے؟ کسی کی جرات ہے کہ کوئی ریاض میں کھڑے ہوکربغاوت کرے؟کسی میں جرات ہے کہ تہران میں کھڑے ہوکرسرکاری احکامات کاانکار کرے؟ کسی میں جرات ہے کہ اسلام آباد میں کھڑا ہوکر اس نظام کونہ مانے ؟جب یہ نظام کئی سالوں سے چل رہے ہیں تووہ اسلامی نظام کیسے نہیں چلے گا؟یہ ساری گفتگو رِٹ کے نہ ہونے کانتیجہ ہے جب رٹ قائم ہوجائے گی تب صرف حکم چلے گااورتمام لوگ صالحین کی طرح صرف اطاعت کریں گے ۔جیسے آج دوسرے نظاموں کی کررہے ہیں ۔تب جو کوئی بھی اسلام چلے گا لوگ اس پرعمل کریں گے ۔لہذاجس روزاسلامی حکومت قائم ہوجائے گی اس روزاسلام پرعمل ہوگا، تبصرے نہیں ۔
٭٭…٭٭