... loading ...
کئی مرتبہ جموں و کشمیر کے حکمران مثبت اقدام اٹھاتے توہیں مگر عمل نہ کرنے کے باعث وہ سو فیصد درست ہونے کے باوجود عوام الناس پر ایک فیصد بھی اثر نہیں چھوڑتے ہیں ۔اس کے دو سبب ہیں ایک حکم جاری کرنے کے بعد خود اس پر عمل نہ کرنا دوم رعایا کو احکام پر عمل کرانے کے لیے دعووں کے برعکس صرف دھمکیاں دینا۔جس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے ۔سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم جس ریاست میں رہتے ہیں یہاں پانچ معروف مذاہب کے پیروکار ہیں ۔ایک مسلمان، دوم ہندؤ،سوم سکھ، چہارم بودھ اور پنجم پانچ سو سے کم’’رجسٹرڈ عیسائی ‘‘جن کے ہاں شادی بیاہ اور اس خاص موقع پر مہمان نوازی کے لیے بالکل جداگانہ طریقے رائج ہیں ۔حکومت نے گیسٹ کنٹرول جاری کرتے ہو ئے اگر سبھی مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کی رعایت کرتے ہو ئے یہ جاری کیا ہوتا تو یقیناً اس کا نتیجہ اچھا ہی مرتب ہوتا جبکہ سچائی یہ ہے کہ اس طرح کے شوق اس سے پہلے بھی کئی حکمرانوں نے پورے کئے ہیں مگر حاصل کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس لیے کہ قوانین کو وضع کرنا نہ ہی کمال ہے اور نہ ہی کسی سماجی برائی کو روکنے کے لیے حتمی اور آخری حل ہے۔سماجی برائی ختم کرنے کے لیے قانون بنانے سے قبل عوام الناس میں اس برائی کے خلاف ہمہ گیر’’ بیداری مہم‘‘ چلانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کے نقصانات سے واقفیت دلانے اور سماج پر اس کے برے اثرات مرتب ہونے کے تمام تر پہلو سامنے لانے کی ضرورت ہوتی ہے قانون بنانے سے پہلے اس کے لیے لٹریچر تیار کرناواجب ہوتا ہے ،ٹیلی ویژن چینلزاور ریڈیو پر ماہرانہ انداز میں مؤثر پروگرام کرانے لازمی ہوتے ہیں، ریاست میں رہنے والے اپنے شہریوں کے مذہبی علماء کے ذریعے اس کے خلاف اجتماعات اور سیمنارز منعقد کراکے عوامی مزاج قانون کے حق میں موڑنا ضروری ہوتا ہے اور کمال جموں و کشمیر کے حکمرانوں کا یہ ہے کہ وہ گیسٹ کنٹرول کے نفاذ کا اعلان اب تک کئی مرتبہ کرنے کے باوجود اس میں نہ کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ان کے کامیاب ہو نے کے امکانات ہیں ۔اس طرح کے قوانین کو صرف الفاظ کے پھیر بدل کی حد تک ہی محدود تصور کیا جا سکتا ہے ۔
ریاست جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے جنہیں چودہ سو برس قبل نبی کریم ﷺ نے تمام تر آدابِ مہمانی اور میزبانی سکھائے تھے۔ افسوس ہم نے اپنی میراث گم کردی اور آج ہمیں اس کی مسخ شدہ صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور گیسٹ کنٹرول کی باتیں ان سے سننا پڑتی ہیں جن کے وجود میں سب سے زیادہ فقدان کنٹرول کا ہی ہے ۔دنیا میں کوئی قانون تب تک مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کے نفاذ کے لیے سب سے پہلے حکمران ہی اس پر عمل نہ کریں ۔ہمارے حکمران ریکارڈ قانون شکن ہیں اور پوری قوم اس سے واقف ہے تو پھر ان کے بتائے ہو ئے قانون پر عمل کیسے ہوگا ؟ہمیں حکمرانوں کی جانب دیکھنے کے بجائے یہ دیکھنا ہے کہ فضول خرچیوںاور رسوماتِ بد نے ہمیں کہاں کھڑادیا ہے ؟کہ ہزاروں غریب اور نادار بیٹے اور بیٹیاں طویل مدت تک نکاح کے مقدس رشتے میں بندھنے سے معذور رہتے ہیں۔حالانکہ نکاح اور رشتہ ازداوج میں منسلک ہونے کے لیے ولیمہ کوئی شرط نہیں ہے ۔نکاح بغیر ولیمہ کے بھی مکمل اور مستحکم ہو تا ہے ۔البتہ دعوت ولیمہ کرنے سے لوگوں کومعلوم ہوجاتا ہے کہ ولیمہ کرنے والے مرد نے نکاح کیا ہے، لہٰذا اس پر کو ئی شک نہیں کر سکتا ہے کہ نامعلوم وہ کون سی اور کیسی عورت کے ساتھ رہ رہا ہے او ر دعوت ولیمہ کرنے میں بیوی کی عزت افزائی کااظہار پایا جاتا ہے ،دوستوں پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی دعوت کرنے سے خوشی کالطف دوبالا ہوجاتا ہے،شادی خانہ آبادی یعنی نئے گھر کے آغاز پر مل کر اظہار محبت اور برکت حاصل کی جاتی ہے ،بہت سے نادار ، بھوکے اور مفلس لوگوں کوکھانا مل جاتا ہے اور وہ بھی اس خوشی میں شریک ہوجاتے ہیں ۔
اسلامی شریعت میں غیر محرم مردوعورت بلا نکاح ایک دوسرے کے لیے حرام ہیں اور اللہ تعالیٰ نے نکاح میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ نکاح ہوتے ہی یہی مردوعورت ایک دوسرے پر حلال ہو جاتے ہیں ۔نکاح میں مہر واجب ہے اور ولیمہ مسنون ہے اور اگر ولیمہ کسی وجہ سے ممکن نہیں ہو پائے تو بھی نکاح پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا ۔نکاح کے بعد مرد اور عورت تسکین کے لیے ایک دوسرے پر حلال ہو جاتے ہیں ۔ولیمہ جہاں ’’اظہار مسرت ‘‘ہے وہی’’جدید رشتے‘‘ کے اعلان کا ایک سبب بھی ہے ۔جس کے لیے شریعت نے ابھارا تو ضرور ہے پر قر ض لیکر اپنے آپ کو پریشان کرنے کی حماقت کا ارتکاب کرنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ اس کو فضول خرچی کے دائرے میں لا کر ایسا کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے ۔اب جہاں تک ولیمہ کے نبویؐ طریقہ کا تعلق ہے وہ کتابوں میں بالکل واضح تو ہے پر ہم عمل کرنا نہیں چاہتے ہیں ۔’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر زرد رنگ لگا ہوا دیکھا۔آپ ؐ نے فرمایا’’یہ کیا ہے؟‘‘عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کے رسول ﷺ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے مساوی سونا دے کر نکاح کیا ہے۔آپ ؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے ‘ولیمہ ضرور کرو خواہ ایک بکری ہی ہو۔‘‘ (بخاری ومسلم)مطلب ایک بکری اگر پکا کر دعوت ولیمہ دی جائے گی تو وہ ولیمہ ہوگا ۔رہے وہ ’’متکبر اور نمودونمائش‘‘والے لوگ جو سماج کے غریبوں کا خیال رکھنے کے بجائے صرف ’’گندی تسکین نفس‘‘کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں ان کی دعوتوں میں شمولیت سے حضورﷺ نے منع فرمایا ہے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر و مباہات والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے‘‘(ابواداؤد،مشکوٰۃ)
ہمارے ہاں جہاں جہیز نے غریب بیٹیوں کا جینا دوبھر کردیا ہے وہیں شادی کے موقع پر سبھی رشتہ داروں اور دوستوں حتیٰ کہ لیڈروں اور علماء کو مدعو کر کے ان کے لیے وسیع دسترخوانوں کا اہتمام کرنا ’فرضِ عین‘ سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس کی مثال نبی پاکﷺ کے دور مبارک میں نہیں ملتی ہے بلکہ احادیث اور سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے صحابہؓ کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ ان مواقع پر جشن اور بھنگڑوں سے پرہیز کرتے ہوئے بسااوقات ایسی سادگی کے ساتھ نکاح انجام دیتے تھے کہ کئی روز بعد صحابہ اور حضورؐ کو معلوم ہوتا تھا کہ فلاں صحابی نے شادی کی ہے۔ اس کی مثال حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی شادی دی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ان کے لباس پر زردی دیکھی تو ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟انہوں نے کہا میں نے کھجور کی ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے پر ایک خاتون سے شادی کر لی ہے۔ آپ ؐنے فرمایا’’ولیمہ کرو چاہیے ایک بکری ہی کا کرو‘‘۔ (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:5515)
خود نبی کریم ﷺ نے اپنے نکاح پر سادگی کو اختیار کر کے اُمت کے لیے مثالیں قائم فرمائیں ۔حضرت صفیہؓ کے ساتھ جب آپؐکا نکاح ہوا تو آپ اس وقت خیبر سے واپس تشریف لا رہے تھے تو آپؐ نے ولیمہ کیا جس میں کھجور،پنیراور گھی کا ملیدہ بنا کرصحابہ کو جمع کر کے ان کی تواضع کی گئی، نہ گوشت تھا اور نہ روٹی۔ یہ چوں کہ سفر کا واقعہ ہے ، مجاہد صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ساتھ گئی تھی جو خیبر میں آباد یہودیوں سے جہاد کرنے کے لیے آپ کے ساتھ گئی تھی تو آپ نے اس میں ان کو شریک فرمایا۔(صحیح البخاری،النکاح،باب البناء فی السفر،حدیث:9515۔)یہ ولیمہ بھی آپؐنے صحابہؓ کے تعاون سے تیار کیا تھا، چوں کہ آپ سب سفر میں تھے اورآپؐ خیبر فتح کرکے مدینہ واپس آرہے تھے ، راستے میں آپ نے یہ نکاح فرمایا تھااور آپ نے صبح صحابہ سے فرمایا:جس کے پاس جو چیز بھی ہے،وہ لے آئے، آپ نے چمڑے کا ایک دسترخوان بچھادیا ، کوئی کھجور لے آیا،کوئی پنیر لے آیااور بعض سَتو، ان سب کو ملا کر ملیدہ بنا لیا گیا،یہی رسول اللہ کے ولیمے کا کھانا تھا۔(صحیح البخاری،حدیث:174)یہی حال صحابہ ؓ کے ولیموں کا بھی معلوم ہوتا ہے ۔انتہائی سادہ اور اپنی حیثیت کے مطابق اور فضول خرچی سے مکمل اجتناب ۔
چند ایک نمونے ہم نے نبی کریم ﷺکی سیرت طیبہ سے لیکر سرورعالم ﷺ کی اپنی شادیوں اور ولیموں کی عملی تصویر پیش کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ امت مسلمہ کو گیسٹ کنٹرول بہت پہلے ملا ہے ۔کاش! اس نے اس کو فراموش نہ کیا ہوتا ۔حضورﷺ اور ان کے وصال کے بعد صحابہؓ کے دور میں سب سے سستا اور سہل کام نکاح جبکہ بے حیائی سب سے دشوار کام معلوم ہوتا تھا ۔نکاح میں ان عملی روکاٹوں کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ ہمارے سماج میں نکاح مہنگا جبکہ بے شرمی کے سارے کام سستے ہو گئے ہیں ۔لاکھوں لڑکے اور لڑکیاں عمر ڈھلنے کے باوجود بھی شادی کے لیے تیار ہی نہیں ہو پاتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس منگنی سے لیکر ولیمے تک وہ ہزاروں کے اخراجات اٹھانے کی سکت ہی نہیں ہوتی ہے جن کے پورا کرنے سے ان کے چہروں پر خوشی اور مسرت کی لہر دوڑتی۔المیہ یہ کہ بعض بے شرم لڑکی والوں کو لمبی فہرستیں تھما دیتے ہیں کہ دولہے کے ساتھ اتنے سو مہمان آپ کے گھر دھاوا بول کر کھانے کے دسترخوان پرٹوٹ پڑیں گے ۔اس سے بھی حیرت کی بات یہ کہ اس سارے میں ہمارا پورا سماج غرق ہے ۔اس لیے کہ یہاں جو لڑکے والا ہے وہی لڑکی والا بھی ہے البتہ اب صرف باری کے انتظار میں یہ ظلم ڈھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی جاتی ہے ۔
گیسٹ کنٹرول کا حکم جاری کرنے والے اس کا آغاز خود سے کر کے مثال قائم کریں جبکہ ان کے ہاں شادی کی دعوتیں کم سے کم ایک ہفتے تک جاری رہتی ہیں اور گوشت اور سبزیاں اتنی وافر مقدار میں پکائی جاتی ہیں کہ پھر کھانے والے بھی نہیں ملتے ہیں اور رات کے اندھیروں میں وہ دریاؤں میں پھینک دی جاتی ہیں ۔اصل مرض ہمارا یہی ہے کہ ہم دوسروں کو نصیحت کرتے ہو ئے اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں حالانکہ پہلے ہمیں اپنے آپ کو ہی یاد رکھنا چاہیے تھا ۔گیسٹ کنٹرول پر حکم نامہ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ کھانے کے علاوہ جہاں کہیں بھی جہیز کی شکایت ملے وہاں لڑکے کے ساتھ ساتھ مطالبہ کرنے والے سسر اور ساس کو بھی جیل بھیج دیا جائے اور گیسٹ کنٹرول کے حکم جاری ہونے سے لیکر اب تک کئی لوگوں کو اس کی زد میں لانے کی شدید ضرورت تھی مگر نتیجہ حسبِ سابق وہی ہے جو کچھ اس طرح کے قوانین کا ہم نے دیکھا ہے کہ قانون تو بنائے جاتے ہیں مگر زمینی سطح پر ان کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ہے ۔گیسٹ کنٹرول کو ذہن میں نہ رکھتے ہو ئے بھی اگر ہمارا سماج خود سے تبدیلی کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور یہ فیصلہ کرتا کہ جہاں کہیں بھی اس طرح کی دعوت ہو ہم اس کا بائیکاٹ کریں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ۔اس کی ابتداء علماء کو کرنی چاہیے اور وہ ایک اجتماعی حکم نامہ بشکل فتویٰ جاری کردیں کہ جہاں کہیں بھی اسراف اور غیر شرعی طریقوں کی شادی ہوگی ہم نہ وہاں شرکت کریں گے نہ ہی نکاح کرانے میں کوئی معاونت کریں گے اور پھر ریاست گیر سطح پر تمام ائمہ اور خطباء سے اس فتوے کی تائید و توثیق کراکے انہیں اس کا پابند کیا جائے تو میرا خیال ہے یہ ایک واحد مؤثر صورت ہو سکتی ہے ورنہ گیسٹ کنٹرول جاری کرنے کے باوجود زمینی حالات جوں کے توں ہی رہیں گے اور عوام الناس میں اس طرح کے قوانین جاری کرنے سے قوانین بھی مذاق بن جائیں گے ۔