... loading ...
ہم اکثریہ باتیں سنتے ہیں کہ نیک لوگ نہیں رہے،اللہ تعالی ہم سے ناراض ہیں ،وغیرہ وغیرہ ۔میں آج آپ کودونیک لوگوں کی کہانی سناؤں گا، یہ نیک لوگ 2017ء میں بھی اپنے ایمان کے ساتھ ناصرف زندہ ہیں بلکہ اپنے ایمان کی قیمت بھی اداکررہے ہیں ۔ اور اس بات پراپنے اللہ پاک سے راضی بھی ہیں ۔ پہلا واقعہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حدیث کے ایک استادصاحب کاہے ۔حضرت کچھ عرصہ قبل ہمارے استادمحترم کے پاس کراچی تشریف لائے تومعلوم ہواکہ حضرت بہت عرصے سے بیمار ہیں ۔ استادصاحب نے حضرت کو شہرکے ایک بہت بڑے ڈاکٹرکے پاس بھیجا۔ ڈاکٹرصاحب نے تفصیلی چیک اپ کرنے کے بعدہمارے استادصاحب کوفون کرکے بتایاکہ ان حضرت کوکوئی بیماری نہیں ہے ۔ ان کوصرف مکمل خوراک نہیں مل رہی ہے جس کی وجہ سے یہ کمزورہوچکے ہیں ۔ہمارے استادصاحب نے ان شیخ الحدیث کوچندروزاپنے گھرمہمان رکھا، ان کی خوب خدمت کی اورایک روز بہانے سے شیخ الحدیث صاحب سے ان کی ماہانہ آمدنی معلوم کی توجورقم سامنے آئی وہ سن کرآپ سب بھی حیران رہ جائینگے ۔شیخ الحدیث صاحب نے بتایاکہ ان کی ماہانہ آمدنی 10ہزارروپے ہے۔ وہ بلوچستان کے ایک مدرسے شیخ الحدیث ہیں اوران کومہینے بعد10ہزارروپے ملتے ہیں جبکہ ان کے 9بچے ہیں ،اس طرح یہ گھرکے 11افرادہیں ۔مگرحیران کن بات یہ ہے کہ شیخ الحدیث یہ تمام صورتحال بتاتے ہوئے نہ رورہے تھے، نہ افسردہ تھے بلکہ مکمل اعتماد کے ساتھ یہ تمام صورتحال بیان کررہے تھے ۔ وہ جتنے روزمہمان رہے انہوں نے ایک روزبھی اپنی مالی حالت کے حوالے سے کوئی مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ چند روز مہمان رہنے کے بعدجب شیخ الحدیث رخصت ہونے لگے تواستادصاحب جوکہ خود ایک یونیورسٹی میں 20گریڈکے آفیسرہیں ، انہوں نے شیخ الحدیث صاحب کو اپنے ایک دوست کے نام خط دیاجوکہ بلوچستان کی ایک یونیورسٹی میں اعلی عہدے پرفائزہیں ۔ شیخ الحدیث یہ خط لے کرمطلوبہ شخص تک پہنچے ۔ انہوں نے خط پڑھاجس میں درج تھاکہ ان شیخ الحدیث صاحب کی نوکری کاکوئی مناسب انتظام کیاجائے تاکہ یہ مالی لحاظ سے مستحکم ہوکرمکمل توجہ سے دین کی خدمت کرسکیں ۔ خط وصول کرنے والے صاحب نے انتہائی اداب واحترام سے شیخ الحدیث صاحب سے چندسوالات کیے جن کے جوابات پاکران صاحب کوحیرت ہوئی کہ اس قدرعالم فاضل شخص اس حالت میں زندگی گزاررہاہے ؟ خط وصول کرنے والے صاحب نے شیخ الحدیث صاحب سے پوچھاکہ حضرت آپ ہماری یونیورسٹی میں ملازمت کرینگے ؟ شیخ الحدیث فرماتے ہیں جی کروں گااگرکوئی مناسب ملازمت ہوئی تو۔ جس پرسوال کرنے والے صاحب نے شیخ الحدیث صاحب کوبتایاکہ ان کے اپنے شعبہ میں ایک حدیث پڑھانے کے استادکی جگہ خالی ہے لہذاوہ شیخ الحدیث صاحب کواس جگہ اپوائنٹ کروادیتے ہیں ۔ شیخ الحدیث صاحب یہ بات سن کرہنسنے لگے ، اوربولے آپ کیوں میرے ساتھ مذاق کررہے ہیں ؟ خط وصول کرنے والے صاحب نے کہا ،نہیں نہیں حضرت میں ابھی وائس چانسلرکے پاس جاؤں گا اورآپ کی نوکری کاحکم لے آؤں گا، آپ ہرگز فکر مند نہ ہوں ، میں سارا کام آج ہی مکمل کروا دوں گا، اورآپ کی ماہانہ تنخواہ 60ہزارہوگی ۔ شیخ الحدیث پھرمسکرائے اورفرماتے ہیں ’’حضرت میں اس وجہ سے نہیں مسکرایاکہ آپ مجھے ملازمت نہیں دلواسکتے ، میں اس لیے مسکرارہاہوں کہ میں حدیث کااستاد ہو کر لڑکیوں اور لڑکوں کو مخلوط مجلس میں حدیث کیسے پڑھاسکتا ہوں ؟ اس کی تواسلام اورشریعت میں گنجائش نہیں ہے ۔ اورمیں اس داڑھی اورعمامے کے ساتھ یہ کام کیسے کروں گا۔ اس لیے میں نے آپ سے کہا کہ آپ میرے ساتھ مذاق تونہیں کررہے ۔
ایک دوسراواقعہ بھی پڑھ لیں ۔ یہ ایک مفتی صاحب ہیں اوراسی کراچی میں رہتے ہیں ۔مفتی صاحب ہمارے ایک بزرگ دوست کے پاس تشریف لائے اوران سے روزمرہ کے معمولات کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے بتانے لگے کہ میں فلاں پرائیوٹ اسکول میں اسلامیات پڑھانے کی نوکری کے لیے گیاتھا۔ مگرمیں نے جب وہاں کامخلوط ماحول دیکھااوربچوں کوناچ گاناسیکھتے دیکھا تو میں وہاں رک نہ سکا جبکہ وہ مجھے 40ہزار تنخواہ دینے پرراضی تھے ۔اسی طرح ایک دواوراسکولوں میں گیا، مگر وہاں بھی غیراسلامی ماحول تھا۔ وہاں اسلامیات پڑھانا ان کے ان غیر اسلامی کاموں کو جواز فراہم کرنا تھا ،اس لیے میں نہیں رکا۔ ہمارے بزرگ دوست نے ان مفتی صاحب سے دریافت کیاکہ آپ کاگزربسرکیسے ہوتاہے ؟ مفتی صاحب نے بتایاکہ وہ محلے کے بچوں کوقرآن پڑھاتے ہیں اور دو تین روز میں ایک فیکٹری سے 2 ہزار کا کپڑا لاتے ہیں ۔ یہ کپڑاان کی اہلیہ محترمہ محلے میں بیچ دیتی ہیں ،اس طرح ماہانہ دس بارہ ہزار آجاتے ہیں ۔ مفتی صاحب نے بتایاکہ ان کوکیماڑی میں ایک مدرسے میں ملازمت ملی تھی مگراہلیہ محترمہ نے منع کردیاکہ آپ لانڈھی سے کیماڑی جایاکریں گے؟ تھک جائیں گے ، آپ گھرکے پاس ہی کوئی ملازمت کرلیں ۔بس آپ گھرکے پاس رہاکریں ہمیں آپ کی ضروت ہے ، پیسوں کی نہیں ۔ ہمارے بزرگ دوست نے گھرسے 25ہزارمنگواکران مفتی صاحب کودیئے کہ حضرت آپ ایک ہی مرتبہ کپڑالے آیاکریں اورتسلی سے دین کی خدمت کریں ، مفتی صاحب پیسے لینے پرراضی نہ تھے۔ بہت اصرارکے بعدانہوں نے اس شرط پررقم رکھی کہ اس کے منافع میں ہمارے بزرگ دوست اپناحصہ لیں گے ۔ اس کے بعدمفتی صاحب کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔وہ کہنے لگے کہ کل میرے ایک عزیزکی شادی تھی، میں نے آج صبح اپنی اہلیہ سے آخری ایک ہزارروپے لیے اورتاج کمپنی کا700روپے والاقرآن مجیدلیاکہ یہ تحفہ میں دوگا، اب میرے پاس صرف تین سوروپے تھے اورمجھے سمجھ نہیں آرہاتھا کہ باقی کامہینہ کیسے گزرے گا۔
یہ دو واقعات بہت کچھ سیکھنے کودیتے ہیں ۔دین کے وارث علمائے کرام ہیں ۔ہمارے پاس جو14سوسال سے اسلام محفوظ ہے، وہ ان علماء کرام کی قربانیوں کی وجہ سے محفوظ ہے ،یہ علماء کرام بغیرکسی سرپرستی کے امت کے ایمان کی حفاظت کرتے ہیں ،یہ کوڑے کھاتے رہے مگرجھکے نہیں ۔
یہ دو واقعات مومن مرداورعورتوں کے واقعات ہیں ۔جہاں آج ہمارے معاشرے میں ہر دوسراآدمی وسائل کاروناروتاہے، وہاں پریہ مومن مرداورعورتیں ایسے ہیں کہ یہ ایمان کی قیمت بھوک افلاس اورخوداختیاری فقر کواپناکردیتے ہیں ۔ان مومن مردوں کے ساتھ ساتھ ان کی ازواج بھی مومنہ ہیں جواپنے شوہروں کودنیاکے لیے تنگ نہیں کرتی ہیں ، وہ ہرروز وسائل کی کمی کارونانہیں روتی ہیں ،اگرعورت صابرہ اورشاکرہ ہو،عورت کوقناعت پسندی کاعلم ہوتوچھوٹے سے گھرمیں تمام خوشیاں اورسکون جمع کرلتی ہے ۔ اگرعورت مومنہ ہوتووہ اپنے مردکی حرام کمائی کوگھرمیں آنے نہیں دیتی اورایسامردبھی نیکی کی طرف چل پڑتاہے ۔ کیونکہ عموما مرداپنی عورت اوربچوں کے لیے ہی دنیاکاہرجائز ناجائز کام کرتاہے تاکہ انہیں خوش دیکھ سکے۔
نیک عورتیں صرف اپنے شوہروں کوگناہوں سے نہیں بچاتیں بلکہ وہ اپنے بچوں کوبھی نیک انسان بناتی ہیں ۔ہمارے بیان کردہ دوواقعات میں ان اشخاص کی بیویاں بلاشبہ صابرہ اورشاکرہ ہیں ، یہ اماں عائشہ کی وارث ہیں ۔یہ عورتیں کبھی یہ نہیں کہتیں کہ اگرآپ دنیاکمانے میں ناکام ہوگئے ہیں توہم گھرسے نکل کردنیالوٹ لائیں ۔یہ عورتیں اپناپردہ قربان کرنے پرراضی نہیں ۔وہ بھوکی رہ کربھی پردے کی حرمت کوبچاتی ہیں ۔ ہرخیرکی ایک قیمت ہوتی ہے ، یہ عورتیں اپنے خیرکی قیمت اداکررہی ہیں جس کاصلہ ان کوجنت میں ضرورملے گا۔ یہ تھوڑاکھا کرصبرو شکراداکرتی ہیں اوراپنے شوہروں کوراضی رکھتی ہیں ، ان کودنیاکی لالچ میں مبتلاء نہیں کرتی ہیں ۔ یہ عورتیں کل بے شک جنت کی حق دارہونگی اورجولوگ پوچھتے ہیں کہ آج کے دورمیں ولی کہاں ہیں ، وہ لوگ جان لیں ۔۔۔یہ ہیں اللہ کے ولی !!