وجود

... loading ...

وجود

حوالگی

جمعه 17 مارچ 2017 حوالگی

انگریزی زبان کے لفظ Rendition کے دنیا ئے شاعری و موسیقی میں تو معنی بہت دلنشین ہوتے ہیں یعنی صوتی ادائیگی مگر قانون اپنے بیانیے میں چونکہ کتابوں میں تو بالکل ہی اندھا اور نو نان سینس ہوتا ہے لہذا وہاں اس کے معنی ایک تحویل سے دوسری تحویل میں کسی فرد یا جائداد کی حوالگی کے ٹہرتے ہیں۔ Extradition یعنی ایک ملک سے کسی ملزم کی دوسرے ملک حوالگی اسی تبدیلی زنداں کا نام ہے۔
ان دنوں برطانیہ کی عدالت میں سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے دور کا ایک مقدمہ بڑی خاموشی سے اوراقِ انصاف پلٹ رہا ہے۔اس میں ایک طرف تو دو پاکستانی رحمت اللہ اور احمد دلشادشامل ہیں ۔ان دونوں کو ملزم بناکر برطانیہ نے عراق سے بگرام (افغانستان )پہنچا دیا ۔ ایک طرف تو یہ معصومین ناک میں گرم ریت بھردینے والے جرمانے کے دعوے کے ساتھ تاج برطانیہ سے طالب داد رسی ہیں تو دوسری طرف برطانیہ کی بے رحم اسٹیبلشمنٹ کے قوی ہیکل ادارے ایم آئی سکس، ایس اے ایس اور ان کی وزارت دفاع و قانون۔ یہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ ہی تو ہے جس نے سولہویں صدی سے دنیا کو اُتھل پتھل کررکھا ہے اور جسے ہر فساد فی الارض کی جڑ سمجھا جاتا ہے ۔چاہے وہ اسرائیل کا قیام ہو، چاہے 1916 میں ریت میں کھینچی ہوئی سائیکس پکو لائین کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کی ظالمانہ تقسیم ہو، چاہے سی آئی اے اور موساد کی تربیت۔چاہے دنیا کی پہلی استحصالی کارپوریشن اور بینک کا قیام ،سبھی کی پشت پر آپ کو برطانوی اسٹیبلشمنٹ دکھائی دے گی۔اس سلسلے میں یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ سن 2009 میں برطانوی وزیر اعظم گورڈن برائون نے سر جان چل کاٹ کو عراق میں برطانیہ کی لاحاصل شمولیت کے اسباب اور دیگر عوامل پر ایک انکوائری رپورٹ مرتب کرنے کا فریضہ سونپا۔چل کاٹ رپورٹ کا شائع ہونا تھا کہ برطانیہ میں مظاہروں کی لہر امڈ آئی۔ اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اپنے مقتدر اداروں کی جھوٹی رپورٹوں کے سہارے جنگ میں آنکھ بند کرکے کودنے کا اعتراف بھی کیا اور قوم سے معافی بھی مانگی لیکن ساتھ ساتھ کمال ڈھٹائی سے جنگ میں برطانیہ کی شمولیت کو امر لازم اور اپنے فیصلے کو درست قرار دیا ۔ دنیا نے اسے مگر مچھ کے آنسو سمجھا ۔ چار پیشے ایسے ہیں کہ اس میں صحیح وقت پر معافی مانگ لی جائے اور ندامت اور گریز کا پیمان کرلیا جائے تو یہ اتنے بُرے نہیں : یہ پیشے ہیں سیاست دانوں کا، طوائفوں کا، سرکاری افسر کا اور صحافت کا۔ٹونی بلیئر نے اس گریزاں معافی کا اظہار اس وقت کیا جب چل کاٹ کمیشن انہیں راندۂ درگاہ قرار دے چکا تھا۔
عدالت ِعالیہ میں جیسے جیسے ایک بھیانک حقیقت برطانوی اداروں کی کارکردگی سے پردہ اٹھا رہی ہے، وہیں برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے سلمان اکرم راجہ اور اکرم شیخ قسم کے وکیل یہ ضد کررہے ہیں کہ کاروائی کو اِن کیمرہ رکھا جائے۔ اس کی تشہیر سے گریز کیا جائے۔قانون کے پیشہ ور ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ عدالت ان اداروں کی مزید تضحیک سے اور عوامی اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچانے کی خاطر ان کی استدعا مان لے گی۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ برطانیہ کی ایس اے ایس کے ایک دستے نے فروری 2004 میں بغداد کے ایک گھر پر بھارتی ادارے را کی کانا پھوسی کا سہارا لے کر ایک گھر پر ایک بڑا آپریشن بنام آسٹن کا آغاز کیا اور چھاپہ مارا ۔اطلاع یہ تھی کہ پاکستانی کی ایک جہادی تنظیم لشکرطیبہ عراق میں اتحادی فورسز پر مختلف حملوں میں شامل ہے ۔اس حملے میں دو افراد مارے گئے مگر باقی دو افراد جو گرفتار ہوئے ان میں سے ایک کا پاسپورٹ پاکستانی اور نام احمد دلشاد کا تھا۔ فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق احمد دلشاد مشرق وسطیٰ کے القاعدہ سے حربی روا بط کا اہم سربراہ تھا۔اس حملے اور گرفتاری سے ایس اے ایس کو امریکا سے اپنی بے پایاں محبت ،مہارت اور وفاداری کا ثبوت دینا تھا۔ جس مقام پر ان دو مشتبہ افراد کو رکھا گیا تھا وہاں انہیں بے پایاں اذیت دی گئی۔ یہاں اور بھی ملزمان قید تھے اور انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے ان مقید ملزمان پر ہونے والی پرتشدد کاروائیوں کا تفصیلی احوال مختلف فورمز پر بیان بھی کیا۔

برطانیہ نے احمد دلشاد کو بعد میں امریکا کے حوالے کردیا جہاں سے وہ بگرام افغانستان پہنچادیا گیا۔حوالگی کے وقت احمد دلشاد نے بہت احتجاج کیا کہ وہ احمد دلشاد نہیں بلکہ ایک فراڈیا پاکستانی تاجر امانت اللہ علی ہے۔اس کے پاس دو پاسپورٹ ہیں مگر اس کا اصل پاسپورٹ بنام امانت اللہ بحق سرکار ان دنوں ضبط ہے اور اس کا کسی جہادی تنظیم سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔وہ کسی حملے میں اس لیے شامل نہیں کہ وہ اتحادی فورسز کی عراق میں آمد اور قیام کا بہت بڑا حامی اس لیے ہے کہ انہوں نے یہاں سنی راج ختم کیا اور اس کے ہم مسلک اہل تشیع کو صدام کے مظالم سے نجات دلائی اور وہ براستہ ایران عراق آیا ہے۔ لشکر طیبہ خالصتاً اہل سنت کی جماعت ہے اور اس میں کوئی اہل تشیع شامل نہیں۔
امریکیوں تو ایک عرصے بعدامانت اللہ علی کی صداقت پر یقین آگیا مگر برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے مختلف عالمی تنظیموں کے مطالبے پر جو عراق سے گمشدہ افراد کے معاملے پر سرگرم تھیں کھل کر اصرار کیا کہ عراق سے گرفتار کسی بھی قیدی کو برطانوی افواج نے امریکا کے حوالے نہیں کیا۔یہ ایک سازش کے تحت الزام لگایا جارہا ہے۔جب دوسرے قیدی کا نام ظاہر ہوا کہ احمد دلشاد کے علاوہ ایک اور پاکستانی رحمت اللہ کو بھی برطانوی دستوں نے امریکیوں کے حوالے کیا تھا اور وہ بھی بگرام ائیر بیس کے قید خانے میں موجود ہے تو برطانوی وزیر دفاع نے کھلے عام اپنی غلطی کا اعتراف کیا لیکن اپنی اس ضد پر دیگر وزراء کے ساتھ قائم رہے کہ احمد دلشاد اور رحمت اللہ لشکر طیبہ کے جہادی لیڈر ہیں۔ دس سال بگرام کی جیل میں رہنے کے بعد یہ دونوں قیدی رہائی پاکر پاکستان لوٹا دیے گئے۔یہاں آن کر احمد دلشاد نے تین دستاویزات کا کھوج لگایا ۔جن میں صرف ایک یعنی شناختی کارڈ ا س کے گھر پر پہلے سے موجود تھا۔فیصل آباد سے اپنے اسکول کی مدد سے اس نے اپنا سن 1965 والا برتھ سرٹیفیکٹ بھی بنوالیا۔اب تک اس کا اہل تشیع ہونے کا دعویٰ تحریر ی ثبوت کا محتاج ہے مگر برطانیہ کی اسٹیبلشمنٹ بضد ہے کہ یہ دونوں سنی ہیں اور لشکر طیبہ کے ممبر ہیں جب کہ برطانیہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے یہ سار ا فساد اداروں کی نالائقی اور Mistaken Identity(جعلی شناخت) کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اب یہ دونوں معصومین برطانیہ سے اپنی غیر قانونی حراست کے خلاف ہرجانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔عدالت میں سرکار کے فراہم کردہ اُن کی وکیل مایا لیسٹر اور قدامت پسند ممبر پارلیمنٹ اینڈریو ٹائیری نے یہ اعلان کرکے پورے اسٹیبلشمنٹ کو اور بھی شرمندہ کردیا ہے کہ سرکاری ملازم کا جھوٹ بولنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر اس حوالے سے پارلیمنٹ کے سامنے جو مختلف وزراء نے جھوٹ بولا وہ انہیں ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر کردینے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ عوام کسی بھی جھوٹے اور مکار نمائندے کو جو اپنی ہی پارلیمنٹ کے سامنے جھوٹ بولے ،کس طرح اپنے مفادات کے تحفظ کے معاملے میں قابل بھروسہ سمجھ سکتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم Reprieve کے عرب وکیل جو ان دونوں کے مقدمے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ برطانوی عدالت، امریکا،عراقی عوام ،قابل بھروسہ پاکستانی دستاویزات سب سچ بول رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ اور مکاری کا الزام تنہا ایم آئی سکس پر آتا ہے جس نے اپنے غیر ملکی دوستوں کی فراہم کردہ جھوٹی اطلاعات کو آسمانی صحیفہ سمجھا۔ ان سب متنازع حقائق کی روشنی میں جب یہ مقدمہ آہستہ آہستہ قدم بڑھائے گا تو امکان ہے کہ خفیہ ٹرائل کی بنیاد پر ایم آئی سکس اور اس کے باجی ادارو ں ) Sister Conncerns) کا کراچی پولیس کے محاورے میں آسان ترجمہ) میں مندرجہ ذیل پانچ سوالات پوچھے جائیں
۱۔ مدعا علیہ لشکر طیبہ کا القاعدہ کا افسر رابطہ احمد دلشاد ہے کہ امانت اللہ علی سکنہ فیصل آباد،پنجاب پاکستان والے۔
۲۔مدعا علیہ کا تعلق اہل سنت و الجماعت ہے سے ہے کہ اس کے اصرار کے عین مطابق ملت جعفریہ سے۔
۳۔کیا ہر وہ اطلاع جو کسی دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کے کارندے بشمول بھارت کی را کے کانا پھوسی کی صورت میں بہم کرتے ہیں اس پرحرافۂ کہن ایم آئی سکس اسکول کی لڑکیوں کی سی معصومیت سے یقین کرلیتی ہے؟
۴۔کیا دستاویزی ثبوت بمعہ معاہدہ حوالگی لغو اور بے بنیاد ہے اور شناخت و مسلک کی اصل حقیقت صرف ایم آئی سکس کو ہی معلوم ہے؟
۵۔اگر عدالت ثبوتوں کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ رحمت اللہ اور امانت اللہ علی اور درست ہیں تو سزاوار کون ہوگا اور ہرجانہ کون ادا کرے گا؟
دور کہیں تمام تر امید افزا پیش رفت کے بعد بھی لندن کے ایک کونے میں سمٹے رحمت اللہ اور امانت اللہ علی وہ شعر یاد کرتے ہیں جو پروین شاکر نے خفیہ ایجنسیوں کے لیے کہا تھا کہ ع
میں سچ بولوں گی اور پھر بھی ہار جائوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
٭٭


متعلقہ خبریں


بریگزٹ کے بعد برطانیہ کو سنگین مسائل کاسامناہوگا ایچ اے نقوی - جمعه 24 فروری 2017

برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے شروع ہونے والی مہم کے دوران یہ تاویل پیش کی جارہی تھی کہ یورپی ممالک کے تارکین کی بے تحاشہ آمد کے سبب برطانیہ کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات رونماہورہے ہیں اور برطانوی شہریوں کیلیے روزگار کے مواقع میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ یورپی یونین سے علی...

بریگزٹ کے بعد برطانیہ کو سنگین مسائل کاسامناہوگا

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر