وجود

... loading ...

وجود

کشمیریوں کے بدلتے تیور ‘ذمہ دار کون؟

جمعرات 16 مارچ 2017 کشمیریوں کے بدلتے تیور ‘ذمہ دار کون؟

پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک آج ہر جگہ ایک ہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ آخر فوج اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے’’ہتھیار بندمجاہدین‘‘کو گھیرنے کے بعدکشمیر کی نہتی عوام انہیں بچانے کے لیے اپنی زندگی کیوں داؤ پر لگا دیتی ہے ؟حیرت یہ کہ عوام کچھ عرصے سے تمام تر تنبیہات کو نظرانداز کرتے ہو ئے بلا تاخیر ان مقامات کی طرف نعرے لگاتے ہو ئے پیش قدمی کرتی ہے جہاں فوج نے عسکری نوجوانوں کو گھیر لیا ہوتا ہے ۔5مارچ2016ء کے بلندکشمیر اور رائزنگ کشمیر کے مطابق مصدقہ اطلاع ملنے پر فورسز نے 4مارچ 2016ء کی شام کو تقریباً نو بجے چلی پورہ ہف شوپیاںگائوں کا جونہی محاصرہ کرنا شروع کیاتو عسکری نوجوانوں نے سامنے سے فورسز پر ایک ہتھ گولہ پھینکا اورساتھ ہی گولیاں بھی چلائیں۔ فورسز نے بھی جواب میں گولیاں چلائیں لیکن جنگجو گائوں کے اندر گھس گئے۔ اس کے بعد فورسز نے آناً فاناً پورے گائوں کو سیل کیااورساتھ ہی فوج، سی آر پی ایف اور پولیس کی بھاری نفری یہاں لائی گئی۔ اس کے بعد فورسز نے گھر گھر تلاشی کارروائی کا آغاز کیا۔ فورسز نے دو مکانوں کے گرد گھیرا بڑھا دیا جہاں جنگجوئوں کے چھپے ہونے کا شبہ تھا۔ فورسز نے جنگجوؤں کی حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ڈرون کیمروں کو بھی کام پر لگا دیا جو رات بھر گائوں کے اوپر گردش کرتے رہے۔رات بھر تلاشی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جبکہ اس دوران دو بار فائرنگ بھی ہوئی اور دھماکوں کی آواز بھی سنی گئی۔ صبح گیارہ بجے تک محاصرہ جاری رہنے کے بعد بھی جنگجوئوں کا کوئی اتہ پتہ نہ ملنے کے بعد فورسز نے محاصرہ اٹھا لیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ابھی سیکورٹی فورسز محاصرہ اٹھا ہی رہی تھیں کہ کئی علاقوں سے سینکڑوں نو جوان ہف اور سوگن پہنچ کر فورسز پر زبردست پتھرائو کرنے لگے۔فورسز کی پارٹی جب واپس لوٹ رہی تھی تو ہف کے قریب سی آر پی ایف کی ایک گاڑی الٹ گئی جس سے پانچ اہلکاروں کو معمولی زخم آئے۔اسی بیچ یہاں بھی نوجوانوں کی ٹولیاں پہنچیں اور انہوں نے ان پر پتھرائوکیا۔ جواب میں فورسز نے آنسو گیس کے گولے داغے اور پیلٹ کا بھی استعمال کیا ،ساتھ ہی ہوا میں گولیاں بھی چلائیں، جس کی وجہ سے عنایت احمد نامی ایک نوجوان کے ہاتھ میں گولی لگی جبکہ شوکت احمد نامی دوسرے نوجوان کی آنکھ میں پیلٹ لگے۔ان دونوں کو پہلے پلوامہ ضلع اسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انہیں سرینگر منتقل کیا گیا۔اس کے علاوہ جھڑپوں میں مزید آٹھ نوجوان زخمی ہوئے۔ یہ جھڑپیں تقریباً دو بجے تک جاری رہیں اور فوج کی جانب سے گاڑی اٹھانے اور اسے وہاں سے لے جانے کے بعد ہی ختم ہوئیں۔اس کے ایک روز بعد ترال میں بھی یہی صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب ترال کے مضافات میں ریشی پورہ نامی گائوں میں محصور عساکر اور فورسز کے مابین گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی جس کے دوران وہاں پر مظاہرین کی خاصی تعداد جمع ہوئی جنہوں نے فورسز پر پتھرائو کیا جس کے بعد وہاں شدید جھڑپیں ہوئیں۔اس دوران ترال قصبے میں بھی پر تشدد احتجاج شروع ہوا ۔پولیس کے مطابق محاصرے میں شامل اہلکاروں پر پتھرائوشروع کیا گیاجس کے ساتھ ہی علاقے میں شدیدجھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔ پولیس نے احتجاج اور پتھرائو کرنے والے نوجوانوں پر آنسو گیس کے لا تعداد گولے داغے لیکن اس کے باوجود احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مزید سینکڑوں نوجوان شامل ہو ئے۔مظاہرین اور فورسز کے درمیان تصادم اندھیرا ہونے تک جاری رہااور پتھراؤکرنے والے نوجوان ایک لمحے کے لیے بھی اپنی جگہ سے پیچھے نہیں ہٹے۔ چوبیس گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس تصادم میں دو عسکریت پسنداورایک پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ تصادم میں مقامی فوجی یونٹ کے ایک میجرسمیت 7 اہلکار زخمی ہوئے ، جن میں پولیس اور سی آر پی ایف سے وابستہ جوان بھی شامل ہیں۔
جھڑپ کے خاتمے پرپولیس نے بتایا کہ جھڑپ میں حز ب المجاہدین سے وابستہ حافظ قرآن عاقب احمد بٹ عرف ذیشان ولد عبد الخالق بٹ ساکن نازنین پورہ اور اس کے علاوہ اس کا ایک ساتھی حماس ساکن پاکستان کے علاوہ پولیس کانسٹیبل منظور احمد نائیک ساکن اوڑی سلام آبادجاں بحق ہوئے۔ تصادم میں مقامی فوجی یونٹ 42RRکا میجر ،جموں کشمیر پولیس، آرمی اور سی آر پی ایف کے سات اہلکار بھی بری طرح زخمی ہوئے۔جس جگہ جھڑپ ہورہی تھی وہاں سے تھوڑی دوری پر قریب ایک درجن دیہات کے لوگ جمع ہوئے تھے جو دن بھر فورسز کیساتھ الجھتے رہے۔مظاہرین محاصرہ توڑنے کی کوشش کرنے کے دوران شدید پتھرائو کا سہارا لے رہے تھے جنہیں منتشر کرنے کے لیے شدید لاٹھی چارچ، شیلنگ اور پیلٹ فائرنگ کی گئی جس کے باعث 20مظاہرین مضروب ہوئے جن میں سے بیشتر پیلٹ لگنے سے زخمی ہوئے جن میں 8کو سرینگر منتقل کیا گیا۔ 20زخمی افرادکو ایس ڈی ایچ ترال میں داخل کیا گیا ۔
اسی طرح 9مارچ2017ء کو سرینگر جموں شاہراہ پر اونتی پورہ قصبہ سے ڈیڑھ کلو میٹر دور پدگام پورہ میں فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین ایک خونریز تصادم آرائی میں دو نوجوان جاں بحق ہو گئے۔پورے علاقے میں زبردست احتجاجی مظاہرے اور جھڑپیں ہوئیں۔ادھر ایک طرف تصادم جاری تھا تو دوسری جانب کئی دیہات سے سینکڑوں نوجوان یہاں جمع ہوئے اور انہوںنے فورسز پر چاروں اطراف سے زبر دست پتھرائو کیا۔ جواب میں فورسز نے آنسو گیس کے سینکڑوں گولے داغے تاہم جب مظاہرین منتشر نہیں ہوئے تو فورسزنے مظاہرین پربراہِ راست فائرنگ کی ،فائرنگ کے دوران پندرہ سالہ نویں جماعت کے طالب علم عامر نذیر ولد نذیر احمد وانی ساکن بیگم باغ کی گردن پر گولی لگی اور وہ خون میں لت پت گر پڑا۔ اگرچہ اسے فوراً کاکہ پورہ اسپتال پہنچایا گیا لیکن یہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔اس کی موت کی خبر پھیلتے ہی پورے علاقے میں مظاہروں اور جھڑپوں میں شدت آگئی۔جواب میں فورسز نے گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں کم از کم 9 افراد کو گولیاں لگیں۔ جنہیں سرینگر منتقل کیا گیا جبکہ مزید25 افراد زخمی ہوئے جن کو پیلٹ اور شیل لگے تھے۔ زخمیوں میں سے16 کو کاکاپورہ اسپتال پہنچایا گیا جن میں سے7 زخمیوں جنہیں گولیاں لگی تھیں،کو برزلہ اسپتال منتقل کیا گیا جبکہ 3کو جن میں سے ایک کو گولی اور دو کو آنکھوں کے اندر پیلٹ لگے تھے، ایس ایم ایچ ایس پہنچایا گیا۔ پانچ بجے کے قریب کچھ افراد نے جلال الدین گنائی ساکن ٹہاب نامی نوجوان کی لاش جھڑپ والے علاقے سے ضلع اسپتال لائی۔ لیکن اس کے جسم پر کوئی بھی زخم یا گولی کا نشان نہیں پایا گیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ اس کی موت بے تحاشہ شیلنگ سے اخراج شدہ دھویں کے سبب دم گھٹنے سے ہوئی ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مارچ کی پہلی تاریخ سے لیکر اب تک جن جن مقامات پر فوج اور پولیس نے ’’مجاہدین‘‘کو گھیرنے کی کوشش کی وہاں ایک جیسی صورتحال پیش آئی ۔ان حالات میں جہاں ایک طرف سیکورٹی ایجنسیاں پریشان ہیں وہیں عوامی غیظ و غضب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کوئی 2017ء کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز سے سے یہ معاملہ اسی طرح جاری ہے۔ فوج کے سابق جرنیل’’ جنرل ڈووا‘‘ نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہو ئے یہاں تک کہا تھا کہ جنوبی کشمیر عملاََ ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔رہی حکومت تو اس کی ’’رِٹ کا عالم ‘‘قوم نے 2008ء سے لیکر2016ء تک دیکھ ہی لیا ہے کہ یہ عوامی محافظ کس طرح ’’فول پروف ‘‘ سیکورٹی میں ٹی وی اسکرینوں کے ساتھ چپک کر ’’گھومنے پھرنے کی سہولیات کے فقدان‘‘سے بیزار اپنے مقدر پر روتے ہو ئے نظر آتے ہیں اور ان کی زبانیں کس طرح ایک ہی وظیفہ دہراتے دہراتے گھستی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ہمیں ’’ایک موقع‘‘دو ،ہمارے دور میں مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو سیاست چھوڑ دیں گے وغیرہ وغیرہ ۔مگر وہ عوام چینی یا روسی نہیں ہے جن کے سامنے یہ دہائی دی جاتی ہے وہ اب مین اسٹریم کے ان بیانات سے دق ہو چکی ہے لہٰذا انہیں اپنے غم و غصے کے اظہار کا موقع جب بھی ملتا ہے تو وہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اس کا اظہار کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ 2008ء سے لیکر اب تک جتنے بھی احتجاج ہو ئے وہ پہلے سے زیادہ سخت اور بے قابو نظر آئے ۔
عوامی نفسیات کو سمجھنے میں دلی والے اس لیے ناکام ہیں کہ وہ حالات کے دیانتدارانہ ادراک سے گھبراہٹ اور خجالت محسوس کرتے ہیں کہ عوامی تحریک کو ستر برس تک پاکستان کے سرمڑھنے والے اب اپنی عوام سے کیا کہیں گے کہ کشمیر کی پوری قوم برگشتہ ہے اور آزادی مانگتی ہے ۔1990ء تک پرامن جدوجہد کو خاطر میں نہ لاتے ہو ئے دلی کے لیے 1990ء کی عسکریت سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی کہ یہ چند ’’سر پھرے اوربھاڑے کے ٹٹو‘‘ ہیں جنہیں ہم بہت جلد کچل دیں گے حتیٰ کہ فوج کے بعد اخوان اور ایس او جی نے ان عناصر کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی مگر دنیا 2008ء میں اس وقت حیرت میں ڈوب گئی جب عوام نے خوف سے نجات حاصل کر کے ’’دلی کے منشاء کے عین مطابق‘‘پر امن اور سیاسی طریقوں کو اپنا کر جلسوں جلوسوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا جو آج تک جاری ہے ۔میرا یقین ہے کہ بندوق کے عروج کے دور میں فوجی ہلاکتوں سے خوف زدہ دلی جس طرح ’پر امن اور جمہوری‘طریقوں کی دہائی دیکر شرافت کا درس دیتے نہیں تھکتی ہے وہ آج پر امن نہیں پر تشدد بلکہ صرف بندوق کے طریقہ جدوجہد کی متمنی ہوگی تاکہ بندوق کو عالمی دہشت گردی سے نتھی کرتے ہو ئے بلا خوف و شرم جی بھر کرمن پسند طریقوں سے کچلا جائے مگر 2008ء تحریک کشمیر کے لئے ایک زرخیز سال ثابت ہوا جبکہ دلی کے لئے بدترین بنجر؟
کانگریس کو 66سالہ ’’ضیاعِ وقت‘‘کا فارمولہ اسی کو لے ڈوبا مگر اب نریندر مودی اور اس کی ڈوول ڈاکٹرائین بھرپور قوت اور طاقت سے تحریک کو کچلنے کی درپے یہ سوچتے ہو ئے نظر آتی ہے کہ پچھلوں نے سیکورٹی ایجنسیوں کو کھلا ہاتھ فراہم نہیں کیا تھا ورنہ یہ بانسری کب کی بند ہو چکی ہوتی ۔2016ء کے پورے چھ مہینوں نے یہ ثابت کردیا کہ عوام ہی قوت کا اصل سرچشمہ ہے جس کو کوئی فوج یا طاقت ہرا نہیں سکتی ہے ۔عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ دلی کی جارحانہ پالیسی نے اس کی گود میں ایک لاکھ جنازے ،تیس ہزار بیوائیں،ہزاروں یتیم بچے اور دس ہزار لاپتہ افراد ڈالد ئیے ہیںاب اگر مرنا ہی ہے تو ایک ساتھ کیوں نہیں ۔اس سوچ کے پروان چڑھانے میں اہم ترین رول ’’ دلی کی کشمیریوں کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی ‘‘نے ادا کیا۔اور شاید اسی ’’سر میں سر ملاتے ہو ئے ‘‘ آرمی چیف کے بعد ڈی جی پولیس نے بھی سخت بیانا ت کے بعدعوام کو متنبیہ کیا یہ دیکھیے بغیر کہ کشمیری عوام ستر سال کی دھمکیوں اور تنبیہات سے عادی ہو چکی ہے ۔پھر حیرت یہ کہ پولیس چیف کے ایک پولیس آفیسر کے گھر عساکر کے داخل ہو کر مالی نقصانات پر سخت پریشانی لاحق تو ہوئی مگر کبھی اس عوام کو ان کے ماتحتوں کے ذریعے پہنچائے ہو ئے نقصانات پر نہیں جن گذشتہ اٹھائیس برس سے روز یہی ظلم دیکھ دیکھ کر اب آنکھیں پتھرا گئی ہیں ۔
دلی کا فی الحال من بدلنے کا ارادہ نہیں ہے نا مین اسٹریم کرسی سے بڑھکر کچھ سوچ سکتی ہے ایسے میں کشمیری عوام مایوسی کے گہری کھائی میں گر کر دلی کے ہی انداز میں سوچنے لگی ہے اور وہ ہے دلی کو اپنے طریقوں سے دق کرنا شاید عساکر کو بچانے اور پرتشدد احتجاج کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ اگر دلی کو پرامن طریقے اچھے نہیں لگتے ہیں تو کشمیریوں کو ہی کس حکیم نے پرامن ذرائع استعمال کرنے کا مشورہ دیدیا ہے ۔ورنہ کو ن نہیں جانتا ہے کہ جہاں دوبدو جنگ جاری ہو اس جگہ جانے سے جان کا خطرہ ہے ۔پھر سیکورٹی ایجنسیاں یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ ان کے نزدیک عساکر کی پوزیشن جو بھی ہو مگر وہ عوام کی اکثریت ایک خاص پسِ منظر میں انہیں ’’مجاہدین اسلام ‘‘سمجھتی ہے ،اور یہی وجہ ہے وہ ناصرف انھیں پناہ دیتے ہیں بلکہ اب ایک عرصے سے اپنی جان داؤ پر لگا کران کی جان بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی بھی لگاتی ہے ۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ درست کہا ہے کہ یہاں نوے میں بندوقیں تھیں پر اٹھانے والے کم تھے اور آج اٹھانے کے لئے تیار تو ہیںپر بندوقیں دستیاب نہیں ہیں ۔دلی والوں کے پاس اب بھی موقعہ ہے کہ وہ تکبرانہ روش چھوڑکر براہ راست بات چیت کا آغاز کرے ایسا نا ہے کہ دلی کافی وقت گذرجانے کے بعد جب بات چیت کی حامی بھر لے گی تو یہاں ان کیساتھ بات چیت کے لئے ہی کوئی تیار نا ہو جائے اس لئے کہ کشمیریوں کے بدلتے تیور کی مکمل ذمہ دار دلی ہے عوام نہیں ۔
٭٭


متعلقہ خبریں


شہید برہان وانی بھارت کے لیے زیادہ بڑا خطرہ بن گیا! اشتیاق احمد خان - هفته 08 جولائی 2017

کشمیری پاکستانیوں سے سینئر پاکستانی ہیں کہ پاکستان کا قیام14 اگست 1947 کو وجود میں آیا اس سے قبل تمام لوگ ہندوستان کے شہری تھے جو ہندوستان سے ہجرت کر کے جب پاکستان میں داخل ہوئے وہ اس وقت سے پاکستانی کہلائے لیکن کشمیریوں نے 13 جولائی1947کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے ریا...

شہید برہان وانی بھارت کے لیے زیادہ بڑا خطرہ بن گیا!

برہان وانی کی شہادت ۔تحریک آزادیٔ کشمیر کا سنگ میل بن گئی وجود - هفته 08 جولائی 2017

اکتوبر2015ء میں جب کشمیر میں تاریخی معرکے لڑنے والے ابوالقاسم عبدالرحمن شہادت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز ہوئے توابوالقاسم شہیدکے قافلہ جہاد سے متاثر برہان مظفروانی نامی ایک چمکتا دمکتاستارہ جہادی افق پرنمودارہوا۔اس نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔ برہان وانی ایک تو با...

برہان وانی کی شہادت ۔تحریک آزادیٔ کشمیر کا سنگ میل بن گئی

صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے سے کشمیر ی عسکریت کے گلوبلائزد ہونے کا امکان وجود - جمعه 30 جون 2017

امریکا نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے دورۂ امریکا کے موقع پر بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے مسلح رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو ’خصوصی طورپر نامزد عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا ہے۔بھارت نے جہاںامریکا کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے، وہیں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ...

صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے سے کشمیر ی عسکریت کے گلوبلائزد ہونے کا امکان

کشمیر میں جاری نسل کشی الطاف ندوی کشمیری - جمعرات 23 فروری 2017

اب اورجنازے اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے ہم میں ۔کشمیر گزشتہ دو سو برس میں کئی بار جلا،اس کے گام و شہرکو کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا ۔اس کی عزتیں لوٹی گئیں۔ اس کے بزرگوں کو بے عزت کیا گیا ۔اس کی بیٹیاں لا پتہ کر دی گئیں ۔اس کی اکثریت کے جذبات کو بوٹوں تلے روندا گیا ۔اس کی اقلیت کو و...

کشمیر میں جاری نسل کشی

حافظ صاحب کی نظر بندی۔۔۔۔کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے رضوان رضی - جمعه 03 فروری 2017

جس دن اہلِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں اور مظفر وانی شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک ایک نیا جنم لے چکی ہے،عین اُسی دن بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی امریکا یاترا کوپدھاریں گے۔ جہاں اہلِ نظر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں یکسانیت ڈھونڈنے میں مصر...

حافظ صاحب کی نظر بندی۔۔۔۔کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

کشمیر کاز:ہر ایک کو ایجنٹ قراردینے کی نقصان دہ روِش الطاف ندوی کشمیری - بدھ 18 جنوری 2017

ایجنٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر یہ دنیا کی اکثر زبانوں میں اس قدر بولا جاتا ہے کہ گویا ہر زبان کا لفظ ہو ۔اس کی وجہ شاید صرف یہ ہے کہ اس لفظ کو ہر شخص بلا کم و کاست اپنے دشمن کے لیے استعمال کرتا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی انسان رہتے ہیں ان کے ارد گرد صرف ان کے دوست ہی نہیں بستے ہیں ب...

کشمیر کاز:ہر ایک کو ایجنٹ قراردینے کی نقصان دہ روِش

کشمیری مجاہدین کا فدائی حملہ، 2افسران سمیت 7بھارتی فوجی ہلاک وجود - بدھ 30 نومبر 2016

فدائین نے رنگروٹہ کے اس فوجی کیمپ پر دھاوا بولا جس میں ایل او سی اور پاکستانی علاقے پر بلااشتعال فائرنگ کی منصوبہ سازی ہوتی تھی ،ذرائع۔درجنوں بھارتی فوجی زخمی۔3فدائین کی شہادت کی بھی اطلاعات ۔بھارتی فوج مظالم سے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کرسکتی ،حریت رہنما ۔۔۔مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی...

کشمیری مجاہدین کا فدائی حملہ، 2افسران سمیت 7بھارتی فوجی ہلاک

صبر کے امتحان میں ناکام ہوا۔۔۔تاہم امیدبہار قائم ہے شیخ امین - بدھ 23 نومبر 2016

میں 16سال7مہینے سے اپنے وطن ،اپنے گا ؤں ،اپنے محلے ،اپنے گھر ،اپنے رشتے ،اپنے دوستوں اور اپنے ہم وطنوں سے دورجوانی کا سفر طے کرکے بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔یہ دوری کتنی تکلیف دہ ہے اس کا بہتر اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں،جو ایسے حالات سے یا تو دوچار ہوئے ہوں یا دوچار ہیں ۔کئ...

صبر کے امتحان میں ناکام ہوا۔۔۔تاہم امیدبہار قائم ہے

کشمیر ، جہاں انسانیت شکست کھاگئی الطاف ندوی کشمیری - هفته 19 نومبر 2016

8 جولائی 2016ءسے اب تک ہم پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے ،دنیا کے لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس انھیں سنانے کے ذرائع بالکل معدوم ہیں۔خبروں کی ترسیل کے تیز ترین ذرائع دلی کے پاس ہیں۔ سینکڑوں نیوز چینلز کے مالکان اُن کے غلام ہیں۔معروف نیوز ایجنسیاں ان کی مرضی سے چلتی ہیں ۔ا...

کشمیر ، جہاں انسانیت شکست کھاگئی

مودی سے ٹرمپ تک شیخ امین - اتوار 13 نومبر 2016

28فروری2002ء جب گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے اور بی جے پی ،شیو سینا،بجرنگ دل کے غنڈوں نے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی۔ اورمحتاط اندازے کے مطا بق ایک لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا ۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے...

مودی سے ٹرمپ تک

وطن ہمارا آدھا کشمیر شیخ امین - منگل 01 نومبر 2016

کالم کے عنوان پر بعض لوگ مسکرانے پر اکتفا کریں گے ،بعض قہقہے بھی لگا سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے اپنی توہین سمجھ کر ،نا زیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے راقم کو ریاست دشمن بھی قرار دے سکتے ہیں۔لیکن میری گزارش ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے کی صرف میں ہی گستاخی نہی...

وطن ہمارا آدھا کشمیر

کربلا ،کشمیر اور عالم اسلام الطاف ندوی کشمیری - منگل 25 اکتوبر 2016

امام الانبیاء جناب محمد عربی ﷺ کی اپنی اولاد میں صرف بیٹیاں ہی زندہ رہیں بیٹے حضرت ابراہیمؓ کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا۔ بیٹیوں میں سب سے پیاری سیدۃالنساء حضرت فاطمۃالزھرارضی اللہ عنہا تھیں ۔ان کا نکاح آپﷺ نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے کیا۔ان کی اولاد میں حضرت حسن وحضرت حسی...

کربلا ،کشمیر اور عالم اسلام

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر