... loading ...
راولپنڈی کی لال حویلی کے مکیں شیخ رشید احمد نے جب سے’’ اپنی ‘‘ سیاست شروع کی ہے اُس وقت سے لے کر اب تک انہوں نے خود کو سیاست میں ’’ اِن ‘‘ رکھا ہوا ہے۔اُن کی سیاسی کہانی مدو جزر اور پلٹنے، جھپٹنے سے عبارت ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود راولپنڈی کے دو انتخابی حلقوں سے باہر نہیں نکل سکے۔ وہ پاکستانی سیاست کے اُس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو 1985 ء کی غیر جماعتی پارلیمان کی پیداوار ہونے کے حوالے جنرل ضیاء الحق مرحوم کی باقیات کا حصہ کہلاتا ہے۔
شیخ صاحب ایک طویل عرصے تک پسماندگی اور درماندگی کے شکار لوگوں کو دوسرے سیاستدانوں کی طرح سبز باغ دکھا کر خوب تالیاں بجواتے رہے ہیں۔عوام دیر تک ان کی باتوں میں کھوئے رہتے تھے۔ ڈھول بجتے ، بھنگڑے اور دھمالیں ڈالی جاتیں، اور لوگ بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے تھے۔۔۔۔پھر شیخ صاحب نے سیاسی استخاروں کا سلسلہ شروع کر دیا ،عوام نے سمجھا کہ وہ بھی ’’ پیر پگاڑہ ‘‘ کی طرح ’’ جی ایچ کیو ‘‘ سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ ایسی سوچ رکھنے والوں سے ہمیں اس لیے اختلاف تھا کہ ’’ ہونے ‘‘ سے پہلے ’’نا ہونا‘‘ ضروری ہوتا ہے۔
مجھے جناب مجیب الرحمن شامی کے یہ الفاظ اکثر یاد آتے ہیں ’’شیخ صاحب کو جو بات ممتاز ہی نہیں بہت ممتاز کرتی ہے وہ عوامی نفسیات سے ان کی واقفیت ہے۔اس موضوع پر سمجھیے وہ ’’ پی ایچ ڈی ‘‘ ہیں۔ گلی محلوں میں پیدا ہوئے ہیں۔یہیں پروان چڑھے اور یہیں اب تک رہ رہے ہیں۔ اس لیے ان کو اچھی طرح معلوم ہے عوام کیا چاہتے ہیںاور کس طرح سوچتے ہیں۔ان کی خوشیاں کیاہیں اور غم کیا ہیں۔کون سا غبارہ ان کو دیا جائے تو وہ خوش رہیں گے اور کون سا رنگ نظر آئے تو اُداس ہو جائیں گے۔اس ایک بات نے انہیں بے پناہ عوامی مقرر بنا دیا ہے۔شیخ صاحب فلسفہ نہیں جھاڑتے، شاعری نہیں کرتے، گنگا اور جمنا میں دہلی زبان نہیں بولتے وہ جہلم اور چناب کے پانیوں میں بھیگے ہوئے لہجے میں بات کرنا جانتے ہیں ‘‘۔
میری کم مائیگی نے شیخ رشید کے لیے شامی صاحب کی اس ’’سند ِ امتیاز ‘‘ کو اپنے ان خیالات کی تائید سمجھاکہ اس ملک کے عوام کے ساتھ ہمیشہ سے ’’ ہاتھ ‘‘ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ہر کوئی قوم کو بہلا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے ’’ جنابِ شیخ ‘‘ کے اُستادِ محترم شورش کاشمیری مرحوم کے یہ اشعار بھی بے اختیار یاد آنے لگتے ہیں
بہت قریب سے دیکھا ہے رہنماؤں کو
بہت قریب سے کچھ راز پائے ہیں میں نے
کہوں تو گردشِ لیل و نہار رُک جائے
کچھ ایسے زخم عقیدت میں کھائے ہیں میں نے
شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ میں اپنے دماغ سے کام لیتا ہوں جبکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں زبان سے کام لیتا ہوں‘‘ ۔۔ ہمیں ’’جنابِ شیخ‘‘ سے جہاں اور بہت سے اختلافات ہیں وہاں ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ وہ شیخ ہونے کے ناطے دماغ اور زبان دونوں سے کام لیتے ہیں۔اب تک کی سیاست انہوں نے زیادہ تر زبان کے سہارے ہی کی ہے۔ہمیں کچھ لوگوں کی اس بات سے بھی بالکل اتفاق نہیں ہے کہ شیخ رشید احمد سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کو بے وقوف بنایا کرتے تھے کیوںکہ بے وقوف بننے کے لیے جمالی صاحب کا عقلمند ہونا ضروری تھا۔
شیخ صاحب جہاں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بدلتے رہتے ہیں وہاں ان کے بنیادی سیاسی نظریات بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔مسلم لیگ ن کے پہلے دو ا دوارِ حکومت میں میاں نواز شریف سے قربت اور مسلم لیگ ق کے دور میں جنرل پرویز مشرف کی نیازمندی نے انہیں بہت سی تبدیلیوں سے رُوشناس کیا۔شیخ صاحب ماضی میں سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور شورش کاشمیری مرحوم کے جلسوں میں نعرے لگاتے اور تقریریں کرتے ہوئے ’’ جلسہ جلسہ اور جلوس جلوس کھیلتے تھے ‘‘ لیکن جنر ل پرویز مشرف کے دور میں جب ریلوے کے وزیر بنائے گئے تو یہ کہتے سُنے جاتے تھے کہ ’’ انگریز انگریز ہے ‘‘۔پہلے وہ شورش کاشمیری کے شعر پڑھ کر جھومتے تھے بعد میں وہ گولڑہ ریلوے اسٹیشن پر قائم ریلوے میوزیم میں رکھی انگریز دور کی پنلسین کی گولی کی تعریف کرتے نظر آتے تھے۔
وقت کے ساتھ بدلنے کا ہنر جاننے والے شیخ صاحب آج کل جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ ماضی میں وہ جس عمران خان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیا کرتے تھے انہیں اب قوم کی آخری اُمید قرار دے رہے ہیں۔ ان کے ہر لحظہ بدلتے سابقہ رنگوں کی طرح ہمیںان کے اس نئے روپ پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ شیخ صاحب پھلجھڑیاں چھوڑنے، تمسخر اُڑانے، فقرے اُچھالنے اور طعنے دینے کے لیے پہلے مسلم لیگ ن ، بعد میں مسلم لیگ ق اور مشرف کے جرنیلی اقتدار کی ضرورت رہے ہیں۔وہ جس جماعت اور حکمران کے ساتھ بھی رہے ’’ خلوص ‘‘ کے ساتھ رہے۔گئے دنوں میں جب پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر اور اس کے جاہ پرست ٹولے کے امریکا کے سامنے عاجزانہ طرزِ عمل نے ملتِ پاکستان کو آزمائش و ابتلا میں مبتلا کیا ہوا تھا اور قائدِ اعظم ؒکے بعد سب سے زیادہ محترم و معظم شخصیت محسنِ پاکستان اور ان کے رفقاء ڈی بریفنگ کے نام پر قیدِ قفس اور توہین آمیز رویے کا شکار تھے، ان دنوں شیخ صاحب قوم کو انتہائی وثوق ، یقین اور اعتماد کے ساتھ بتایا کرتے تھے کہ ’’ آنے والے دنوں میں جو قدم بھی اُٹھا یا جائے گا وہ پاکستان کے اہم اور حساس ترین اثاثوں کے تحفظ کی خاطر ہوگا۔ لاکھ کوشش اور چاہنے کے باوجود مجھے راولپنڈی کے صحافی نواز رضا کی یہ تحریر نہیں بھولتی کہ ’’ جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں بارہویں پی ٹی وی ایوارڈ کی تقریب میں نامور ایٹمی سائنسداں محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان اگلی نشست پر بیٹھے تھے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد ان کے پاس آئے اور کہا ’’ڈاکٹر صاحب آپ کی نشست پیچھے ہے براہ کرم آپ وہاں چلیں جائیں‘‘ ڈاکٹر صاحب کوئی ردِ عمل ظاہر کئے بغیرپچھلی نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔جمگاتی روشنیوں میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی یہ بے توقیری نہیں دیکھی جا سکتی تھی‘‘۔۔۔۔۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جن دنوں وہ صدارتی کیمپ کے ترجمان تھے تو کہا کرتے تھے ’’ جنرل پرویز مشرف انہیں وردی میں بہت اچھے لگتے ہیں ‘‘۔۔ایک طرف تو شیخ صاحب کو ’’ صدرمملکت کی فوجی وردی من بھاتی تھی دوسری طرف وہ ایسے بیانات دیتے تھے جو پاکستانی فوج پر عدم اعتماد کے مظہر اور پاکستانی قوم کے اعتماد کے قاتل محسوس ہوتے تھے۔ جون 2003 ء میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’ اگر پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت دی جائے تو ہم ایک حد تک ہتھیاروں میں کمی پر تیار ہیں۔ تاہم پوری طرح خود کو غیر مسلح یا ایٹمی ہتھیاروں کو رول بیک نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔‘‘شیخ صاحب آج تک اپنے اُس تشویش ناک انٹرویو کی وضاحت نہیں کر سکے۔ ابھی تک وہ قوم کو نہیں بتا سکے کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت کس سے مانگ رہے تھے۔پاکستان کا ہر شہری پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے اپنی فوج کی طرف دیکھتا ہے۔ہمیشہ سے پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کی واحد ضمانت پاک فوج اور اس کی دفاعی قوت رہی ہے۔کوئی بھی قوم اپنی بقاء، تحفظ اور سلامتی کی جنگ اپنے بل بوتے پر لڑسکتی ہے کسی بیرونی طاقت کی ضمانت نے کبھی کسی قوم کا دفاع نہیں کیا۔جو قوم اپنا تحفظ خود نہیں کر سکتی وہ تاریخ میں صرف عبرت کے نشان کے طور پر زندہ رہتی ہے۔
ہماری دعا ہے کہ شیخ رشید کی نئی تبدیلی ان کی سیاست کا تضاد نہیں ارتقاء ثابت ہو ۔ کہا گیا کہ وہ ’’ پی ایچ ڈی ‘‘ نہ ہونے کے باجود بہت کچھ ہیں۔
ہمارے خیال میں ہمارے ہاں ’’ پی ایچ ڈی ‘‘ ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح ہمارے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور سائیں قائم علی شاہ بھی ’’ ڈاکٹر ‘‘ ہیں صرف اسی پر اکتفا نہیں ہے وزیر اعظمم میاں نوازشریف بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے حامل ہیں، جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے ان کا معاملہ دیگر ہے کیونکہ وہ برطانیہ کی یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ کے چانسلر رہ چُکے ہیں اور ماضی میں کئی سال تک پی ایچ ڈی سمیت بہت سی ڈگریاں جاری کرتے رہے ۔۔۔۔۔ شیخ صاحب کی سیاست میں پی ایچ ڈی کی ’’خیالی‘‘ ڈگری اُس روز سے پس منظر میں چلی گئی ہے جب عدالت ِ عظمیٰ کے ایک فاضل جج صاحب نے انہیں وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔۔
یہ ساری باتیں مجھے پی ایس ایل کے فائنل میچ کے موقع پر لاہور ریلوے اسٹیشن پر شیخ رشید احمد کی طرف جوتا اُچھالنے کی خبر سن کر شدت سے یاد آئیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مجھے بھی اس واقعہ کا بالکل پتا نہیں تھا شیخ صاحب کی طرح مجھے بھی ’’ میڈیا کے ذریعے سے معلوم ہوا تھا ‘‘۔۔۔
٭٭