... loading ...
ماحول حیات کو اقدار کا مسئلہ درپیش ہے، اور مآل ہستی کو حق و باطل کا قضیہ لاحق ہے۔ اول کا تعلق نفس سے ہے جو خیر و شر کی آماجگاہ ہے اور دوسرا شعور سے متعلق ہے جو حق و باطل کا گھر ہے۔ اقدار کے بغیر انسان شر کا آلہ ٔ کار بننے سے اور باطل کا بندہ بننے سے نہیں بچ سکتا۔ خیر و شر کا سوال بنیادی طور پر مذہبی سوال ہے اور ہدایت کے بغیر حل نہیں ہو سکتا، اور حق و باطل کے تناظر سے باہر یہ ویسے ہی بے معنی ہے۔ خیر و شر کے امتیازات کا دھندلا جانا یا ختم ہو جانا ’’تلبیس‘‘ ہے، اور حق و باطل کے امتیازات کا دھندلا جانا یا ختم ہو جانا ’’دجل‘‘ ہے۔ آج تلبیس اور دجل کا عہد ہے، جس میں بطور مسلمان ہم اپنی اقدار کے بارے میں متزلزل ہو چکے ہیں۔ ہماری اقدار اب ہماری انفرادی، سماجی یا اجتماعی حیات کا راستہ نہیں رہیں، بلکہ ہم نے انہیں نہایت آلاتی اور مفاداتی تزویرات کا پردہ بنا لیا ہے۔ ہم عصر معاشرے اور تاریخ میں ہماری اقدار کا مسئلہ فوری توجہ اور تفصیلی تجزیے کا متقاضی ہے۔
گزارش ہے کہ اقدار اور ’’صورت حال‘‘ الگ الگ چیزیں ہیں، یعنی دی گئی مذہبی اقدار اور ان کا بیان ایک الگ چیز ہے، اور معاشرتی اور تاریخی صورت حال ایک الگ چیز ہے۔ مذہبی حقائق اور اقدار کا براہ راست مخاطب انسان ہے، معاشرتی اور تاریخی صورت حال نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقدار وغیرہ اس صورت حال پر ایک judgement ضرور فراہم کرتی ہیں۔ انسان چونکہ ’’معاشرتی اور تاریخی صورت حال‘‘ کے براہ راست تجربے کا حامل ہوتا ہے، اس لیے یہ judgement اصلاً اس کے تجربے پر وارد ہو کر اس کی تشریط کرتی ہے اور بالواسطہ صورت حال سے متعلق ہوتی ہے۔ لیکن اقدار کسی ’’معاشرتی اور تاریخی صورت حال‘‘ کا تجزیاتی فہم فراہم نہیں کرتیں، کیونکہ اقدار مجمل ہوتی ہیں، اور علم مفصل۔ معاشرے، تاریخ اور نیچر کا فہم درست معلومات اور نظری علم سے فراہم ہوتا ہے۔ جدید معاشرے کی معاشی، سیاسی اور ثقافتی ساختیں جدید انسانی عمل سے پیدا ہوئی ہیں، اور صاف ظاہر ہے کہ یہ عمل بھی کچھ ’’اقدار‘‘ کی اساس پر ہی آگے بڑھ رہا ہے، یعنی اس عمل نے جن اقدار پر چل کر یہ ساختیں پیدا کی ہیں، وہ ان اقدار سے قطعی مختلف ہیں جنہیں ہم مذہبی اقدار کے طور پر مانتے ہیں۔ ہم اپنی اقدار سے ان جدید ساختوں پر کوئی judgment تو دے سکتے ہیں، لیکن ان کا تجزیہ اور فہم ان اقدار سے فراہم نہیں ہو سکتا۔ ان اقدار کو رہنما بنا کر ہم اپنے عمل کو معاشرے اور تاریخ میں سامنے لا سکتے ہیں، لیکن عین اس عمل کو معاشرے اور تاریخ میں جدید انسانی عمل کی ساختوں کا چیلنج درپیش ہے، اور ان کے سامنے ہمارے اقداری اعمال بالکل کمزور اور بے حیثیت ہو گئے ہیں۔
انسانی شعور و نفسِ انسانی اور ہمارے حقائق و اقدار کے مابین زمانی حالات سے بُعد ممکن اور واقع ہے۔ اور انہی حالات کی وجہ سے ہماری اجتماعی اقدار اور معاشرہ و تاریخ میں بُعد ممکن اور واقع ہے۔ ہم عصر صورت حال میں ہر سطح پر، یعنی انفرادی، سماجی اور اجتماعی سطح پر، ہماری دینی اقدار اور معاشرہ و تاریخ میں زبردست دوری اور فاصلہ پیدا ہو چکا ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ معاشرہ و تاریخ جدید انسانی عمل سے ایک نئی ساخت پیدا کر چکے ہیں جو مذہبی اقدار سے پیدا ہونے والی سماجی اور تاریخی ساخت سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ انسان اور انسانی معاشروں کو اس صورت حال کا پیش آنا ایک معمول ہے، کوئی حیرت اور اچنبھے کی بات نہیں۔ جدید تاریخ میں بھی مسلمان معاشروں کو اس صورت حال کا سامنا ہے۔ جب اقدار اور تاریخ میں فاصلہ اس قدر ہو جس کا ہمیں سامنا ہے تو وہ اقدار کے لیے نزعی صورت حال ہوتی ہے۔ اس کا حل بہت سادہ ہے کہ یا تو اقدار کو تاریخ کے مطابق بنا لیا جائے، یا تاریخ کو اقدار کے مطابق بنا لیا جائے۔ اقدار کو تاریخ کے مطابق بنا لینے کا سادہ مطلب ہے مذہبی اقدار سے دستبردار ہو جانا، اور زمانے کے سفر میں چلنے اور ڈھلنے کے باوجود مسلمان شعوری سطح پر اس فیصلے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف، تاریخ کی گردن مروڑ کے اسے اپنی اقدار کے مطابق بنانا کارے دارد ہے اور ہماری نکبت تامہ میں ایک واہمہ بن گیا ہے۔
اس صورت حال میں ہمیں اپنی اقدار اور معاشرے اور تاریخ سے ان کے تعلق کو ازسر نو زیر بحث لانے کی ضرورت تھی، اور یہ کام ہم شروع نہ کر سکے۔ ہم نے ایک اور کام کیا۔ گزشتہ تین سو سال سے ہماری ہٹ اور رٹ ایک ہی چلی آتی ہے کہ جدید معاشرتی اور تاریخی ساختیں عین ہماری اقدار کے مطابق ہیں۔ اور افسوس کہ یہ نتیجہ ہمارے تجربے کے علی الرغم ہے۔ یعنی جدید معاشرہ اور تاریخ ہمارے عمل سے تو پیدا نہیں ہوئے، لیکن ہماری اقدار کے عین مطابق پیدا ہوئے ہیں! ایسی چیستاں تو سوفسطائیوں کے تصور سے بھی باہر تھی، اور یہی چیستاں ہماری واحد اساسِ علم ہے۔ اب تو نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ ہماری اقدار معاشرے اور تاریخ سے غیرمتعلق ہو چکی ہیں، اور سیکولر لوگوں کا خیال ہے کہ اب معاشرے اور تاریخ کی ساخت ایسی ہو چکی ہے کہ ان اقدار کا تحقق بھی ممکن رہا۔ ہمیں ان کا مستقل مشورہ یہی ہے کہ ان اقدار ہی کو ترک کر دیا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اقدار اور جدید معاشرے اور تاریخ میں ایک زبردست بُعد پیدا ہو چکا ہے اور ان کی مابینی کھائی نہایت مہیب ہو گئی ہے۔ سادہ بات یہ ہے کہ خلافت ہماری اجتماعی اور سیاسی اقدار کا عنوان ہے اور تقویٰ ہماری انفرادی اور معاشرتی اقدار کا۔ ہماری متداول سیاسی اقدار میں عدل اجتماعی کو کسی طرح کی مرکزیت حاصل نہیں، اور تقویٰ مکارم الاخلاق سے منقطع ہے۔ عدل کے بغیر نظمِ اجتماعی کو داخلی استحکام اور فلاح نصیب نہیں ہو سکتی، اور مکارم الاخلاق کے بغیر دینی معاشرت قابل تصور نہیں۔ ہم نے عدل کو قانون بنا دیا ہے اور تقویٰ کو عبادات تک محدود کر دیا ہے۔ یہ دونوں صورتیں ہماری اقدار اور تاریخ کے مابین جس تعلق کو ظاہر کرتی ہیں، وہ اقدار کی پسپائی کا ہے۔
اپنی اقدار کو موجودہ تاریخی حالات میں زیر بحث لانا اب کوئی بہت کارآمد سرگرمی نہیں رہی، کیونکہ اس میں ایک نہایت سنگین نوعیت کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔ اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم عصر تاریخ کے بارے میں ہمارے تجزیوں اور ہمارے تاریخی تجربے میں کوئی ربط باقی نہیں رہا۔ ہمارے علمی طنبورے سے جو آوازیں برآمد ہوتی ہیں، وہ ہمارے تاریخی تجربے کی آہ و بکا میں غائب ہو جاتی ہیں۔ ہمارا ذہن ہم عصر معاشرے، تاریخ اور عالمگیر سسٹم کو کسی بھی علمی اور فکری تناظر میں زیربحث لانے سے انکاری ہے اور وہ صرف ایک ہی بات کہنا اور سننا چاہتا ہے کہ جدید عہد اور اس کے سارے اجزا ہماری اقدار کے عین مطابق ہیں۔ تاریخی حالات معروضی اور سفاک تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں، جس کے بغیر عمل کا راستہ نہیں بن سکتا، اور ہر طرح کا معروضی تجزیہ عمومی مایوسی اور بد دلی کو جنم دیتا ہے۔ اقدار عمل کے مقاصد تو متعین کرتی ہیں، ان کے لیے راستہ فراہم نہیں کرتیں۔ راستہ معاشرے اور تاریخ میں علم اور فراست سے بنانا پڑتا ہے۔ خود غرضانہ سادگی اور حریصانہ سادہ لوحی میں عمومی مایوسی اور بد دلی سے بچنے کے لیے ہم نے ایک گہری حالتِ انکار کو طرزِ زندگی کی شکل دے دی ہے۔ وعظ انفرادی اصلاح کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے لیکن کسی تاریخی صورت حال کے فہم اور اس سے نمٹنے کے لیے ارادے کو وسائل فراہم نہیں کرتا۔
اقدار کا اعادہ یاد دہانی کے لیے ضروری ہے، لیکن اس سے وہ فرد یا تاریخ سے متعلق نہیں ہو جاتیں، اور اس کے لیے نفسی اور تاریخی رکاوٹوں کی طرف دھیان دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر اقدار اور ہم عصر صورت حال میں بُعد پیدا ہو جائے تو انہیں انسانی شعور سے متعلق رکھنے کے لیے علم کی ضرورت ہوتی ہے، اور تاریخ سے متعلق رکھنے کے لیے ارادے کی۔ جب اقدار اور تاریخ میں فاصلہ بہت بڑھ جائے، تو اس فاصلے کو پاٹنے کے لیے دو چیزیں لازم ہو جاتی ہیں، بڑا ذہن اور بڑا ارادہ۔ بڑا ذہن تاریخ کی شب ظلمت میں وہ راستے تلاش کر لیتا ہے جن پر اقدار سے پیدا ہونے والا عمل سفر کر سکتا ہے۔ اور بڑا ارادہ تاریخ کے بھیرو کی نکیل تھامنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ہمارا گھر آنگن ان دونوں سے خالی ہے، لیکن آغاز تو ہو سکتا ہے کہ کم از کم اخلاقی اور معاشرتی اقدار پر کاربند ہو کر اس عہد بے اماں میں اپنے راستوں کی تلاش کا کام ازسر نو شروع کیا جائے۔
٭٭