... loading ...
سوال یہ ہے کہ شر کی تعریف کیونکر کی جا سکتی ہے؟ سادہ تعریف یہ ہے کہ شر المیہ ہے۔ المیے سے مراد ایسی صورت حال ہے جس میں فعلِ انسانی اور اس کے نتیجے میں نسبتِ تام پیدا ہو جائے، اور وہ سلبی ہو۔ یعنی انسانی فعل کا انتہائے تکمیل پر لایعنی اور بے ثمر ہونا ثابت ہو جائے، اور تاریخ ہی، جو فعل کی بساط ہے، انسان پر اس کے فعل کی لغویت، بے معنویت اور بے ثمری کو واضح کر دے۔ المیاتی صورت حال میں شر ایک ایسا حتمی فعل بن جاتا ہے جس کا وبال فاعل کو بھی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ انسانی فعل کا نتیجہ خیز ہونا ایک تاریخی عمل ہے، لیکن اگر وہ اس کے مآل ہستی کو ظاہر کر دے، جو فنا ہے، تو وہ تقدیری ہو جاتا ہے۔ انسانی عمل جزئی ہے، لیکن المیے میں یہ اپنی پوری ابعاد کے ساتھ ظاہر ہو کر تقدیری تکمیل حاصل کر لیتا ہے۔ المیے کا معنی ہے انسانی عمل کا اپنی اٹھائی ہوئی گرد میں گم ہو جانا۔ موت المیہ نہیں ہے، المیہ ایک خاص قسم کی موت ہے، جہاں انسانی عمل کا حاجبِ فنا ہونا، حیات کا بے معنی ہونا، اور ہستی کا بے ثمر ہونا تجربے میں بھی آ جائے اور مشاہدے میں بھی ممکن ہو۔
گزشتہ میں عرض کیا تھا کہ خیر و شر کا تعلق براہ راست انسانی احوال اور افعال سے ہے۔ فعل انسانی چونکہ ظاہر اور معروضی چیز ہے، اس لیے اس کی تعریف و تعین ضروری ہے۔ انسانی فعل حرکت کی ایک قسم ہے، اور ہر حرکت کی طرح فعلِ انسانی بھی اجزا کا مجموعہ ہے۔ جزئی ہونے کی وجہ سے انسانی فعل پر تحدیدات وارد ہیں، جن میں سے فعل کی ساخت، اس کے زمانی اور مکانی تعینات اور اس کا نتیجہ اہمیت کے حامل ہیں۔ جزئی ہونے کی وجہ سے انسانی فعل میں کمال اور عدم کمال کا مسئلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے، کیونکہ ایک ہی طرح کا انسانی فعل نہ صرف مختلف افراد میں بلکہ ایک ہی فرد میں بھی اپنے اپنے زمانی اور مکانی تعینات میں کمال یا عدم کمال کا پہلو لیے ہوتا ہے۔ پھر انسانی فعل میں کوشش اور صلاحیت کا فرق بھی واقع ہو جاتا ہے۔ زمان و مکان کا ظرف انسانی فعل کا محاط (container) ہے، اور یہ محاط کبھی خالی نہیں ہوتا۔ سادہ لفظوں میں زمان و مکاں کے محاط کے تین معروف نام ہیں: معاشرہ، تاریخ اور دنیائے نیچر۔ انسانی فعل ان تینوں میں مؤثر ہے۔ انسانی فعل کی ساخت ایک لازمی داخلی جہت رکھتی ہے جسے عام طور پر ارادہ یا نیت کہا جاتا ہے، اور جو فعل کے مطلوب ہدف کا بیان ہے، اس لیے انسانی فعل اصلاً آلاتی ہوتا ہے، کیونکہ جزئی ہے، اور خود مقصد نہیں ہوتا، بلکہ کسی مقصد تک پیش رفت کا ذریعہ ہوتا ہے، جو ارادے اور نیت کے طور پر فعل سے الگ اور باہر ہوتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا کہ انسانی فعل جزئی اور آلاتی ہوتا ہے اور ایک خاص زمانیات اور مکانیات رکھتا ہے۔ زمان و مکان کے ظرف میں انسانی افعال کی تعداد کثیر اور ان گنت ہے۔ اجزا کی دنیا پیچیدگی سے عبارت ہے، اور پیچیدگی معاشرے، تاریخ اور نیچر کی دنیا کا خاصہ ہے۔ پیچیدگی اجزاء کی باہمی تغیر پذیر اور غیر مستقل نسبتوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اس لیے پیچیدگی اجزا کی دنیا کا مسئلہ ہے، انسانی شعور کا نہیں جو عموماً کلیات، مسلّمات، بدیہیات اور معلومات میں کام کرتا ہے۔ مذہب میں حقائق اور اقدار کا بیان بہت سادہ ہوتا ہے اور انسانی شعور کی بنیادی فطرت سے رعایتیں رکھتا ہے جبکہ معاشرے، تاریخ اور نیچر کی دنیائیں نہایت پیچیدہ ہیں اور وہ جن اجزا پر مشتمل ہیں، ان کی باہم نسبتیں علم سے قائم ہوئی ہیں۔
بطور مسلمان ہمیں جو بات سمجھنے میں دشواری پیش آ رہی ہے وہ یہ ہے ہدایت کا بیان سادہ ہے، لیکن معاشرہ، تاریخ اور نیچر سادہ نہیں ہے۔ پھر یہ کہ ہدایت کچھ صریح بیانات اور متعین عملی نمونوں پر مشتمل ہے جو بالکل fixed ہیں، جبکہ معاشرہ، تاریخ اور نیچر ہر لمحہ تغیر پذیر ’’صورت حال ‘‘کے نام ہیں جو اپنے اجزا اور کل میں تغیرپذیر ہیں اور ازحد پیچیدہ ہیں۔ ہماری اقدار اس ’’صورت حال‘‘ سے مخاطب نہیں ہیں، براہ راست انسان سے مخاطب ہیں اور اس سے مطالبہ امتثال امر کا ہے، اور وہ کسی بھی معاشرتی، تاریخی اور نیچری صورت حال سے براہ راست متعلق نہیں ہیں۔ لیکن اس میں کیا شک ہے کہ ہماری دینی روایت میں ایسے حقائق یقیناً مذکور ہیں جو کسی نہ کسی ’’صورت حال‘‘ کی خبر بھی دیتے ہیں اور ان پر حکم بھی ہیں، لیکن وہ ’’صورت حال‘‘بالعموم تقدیری یا تکوینی ہوتی ہے، اور ایسی خبر کا تعلق ایمانیات سے ہے، اقدار یا عمل سے نہیں ہے۔
ان گزارشات کا مقصد اس امر کی طرف توجہ دلانا ہے کہ انسانی عمل کی بنیاد کوئی نہ کوئی قدر ہوتی ہے، بھلے اس کی کوئی بھی تعریف کی جائے، اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، بھلے وہ دنیوی ہو یا غیر دنیوی، اور اس کی ایک خاص ساخت ہوتی ہے۔ اور انسانی عمل چونکہ جزئی ہوتا ہے، اس لیے اس میں شراکت ممکن ہوتی ہے اور یہ انفرادی اور اجتماعی ہو سکتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی افعال ہی معاشرے، تاریخ اور نیچر کی ساخت متعین یا تبدیل کرتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا کہ انسانی فعل معاشرے، تاریخ اور نیچر میں مؤثر ہے۔ نیچر میں انسانی فعل کے مؤثر ہونے سے جو ساختیں پیدا ہوئی ہیں، وہ مکمل طور پر مادی ہیں، اور معاشرے اور تاریخ میں ظاہر ہونے والی ساختیں میکانکی اور تجریدی ہیں۔
جدید معاشرے، ہم عصر تاریخ، اور معاصر نیچر کی جو ساخت ہے وہ گلوبل ہے اور انسانی افعال سے متعین ہوئی ہے۔ ان افعال کی بنیاد میں ’’اقدار‘‘ کارفرما ہیں، اور ان افعال کے کچھ اہداف ہیں۔ یہ بات تو قابل بحث بھی نہیں کہ انسانی فعل میں نیت اور ارادہ بہت اہم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جدید انسانی معاشرہ، جدید انسانی تاریخ اور نیچر میں وقوع پذیر مادی اور مقداری تبدیلیاں جن انسانی افعال سے پیدا ہوئی ہیں، تو کیا وہ ‘‘اقدار’’ یا تصورات یا نیات سے خالی ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ کون سی اقدار ہیں جنہوں نے ان تمام انسانی افعال کی ساخت متعین کی ہے جن کے مجموعے کا نام ہم عصر دنیا ہے؟ ہماری گزارش یہ ہے کہ جدید عہد کی زمانی تقویم اور مکانی تحدیدات اور ان میں ظہور پذیر ہونے والے انسانی افعال کی ساخت جدیدیت نے متعین کی ہے، یعنی جدید عہد میں معاشرے، تاریخ اور نیچر کی مجموعی ساخت جدیدیت سے حاصل شدہ ’’اقدار‘‘ کے اطلاقات سے پیدا ہوئی ہے۔ اور یہ اقدار ہماری دینی اقدار سے مکمل مغائرت رکھتی ہیں۔ یعنی جدید دنیا ہماری اقدار اور ان سے پیدا ہونے عمل کے نتیجہ میں تشکیل پذیر نہ ہوئی ہے اور نہ ہو رہی ہے۔
اس صورت حال کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہماری مذہبی اقدار جدید دنیا سے غیرمتعلق ہو رہی ہیں، یا بہت حد غیرمتعلق ہو چکی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ معلوم نہیں ہیں۔ وہ یقیناً معلوم اور معروف ہیں کیونکہ ان کے متعلق اور غیر متعلق ہونے کا فیصلہ بھی عین اسی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی کلیت میں معلوم ہیں۔ ہمیں آج جس سوال کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہم اپنی مذہبی اقدار کو ہم عصر دنیا سے متعلق کر سکتے ہیں؟ اگر ہمیں یہ معلوم ہی نہ ہو کہ جدید معاشرہ کیا ہے، جدید تاریخ کیا ہے اور نیچر کے حالات کیا ہیں، تو آسانی ہی آسانی ہے۔ ذہن اپنی سطح پر دنیا سے مکمل طور پر منقطع ہو گیا ہو، اور نفس دنیا سے مکمل طور پر مغلوب ہو گیا ہو، اور ارادہ و عمل کے مطالبات باقی ہوں، تو افراد اور معاشروں کے لیے خطرناک صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔
آخر میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اقدار کا ’’معلوم‘‘ ہونا اور ان پر ایمان ہونے کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ معاشرہ، تاریخ اور نیچر بھی معلوم ہیں، کیونکہ جزئی ہونے کی وجہ سے ان کی معلومیت مفصل ہے اور اس کے ذرائع اقدار نہیں علم ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی اقدار کو تاریخ سے یا تاریخ کو اپنی اقدار سے کیسے متعلق کریں؟
٭٭