... loading ...
اگر بات کو نہایت مختصر اور خلاصتاً کہنا چاہیں تو یہ کہ مذہب دو چیزوں کا مجموعہ ہے: ایک حقائق اور دوسرے اقدار کا، اور یہیں سے ایمان اور عمل صالح کے دو بنیادی ترین مذہبی مطالبات پیدا ہوتے ہیں۔ حقائق کا تعلق اصلاً عالم غیب سے ہے، اور اقدار کا تاریخ سے اور یہ بالواسطہ انسان ہے، یعنی انسان حقائق اور اقدار کا براہ راست مخاطب ہے۔ حقائق انسان سے ”عالم نامعلوم“ کے بارے میں کچھ بیانات کو مان لینے کا مطالبہ ہے، اور اقدار ”عالم معلوم“ میں کچھ ہدایات و احکام پر عمل کرنے کا مطالبہ ہے۔ حقائق انسان کے ماننے اور جاننے کی اساس اور ان کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا مطالبہ رکھتے ہیں کیونکہ ماننے اور جاننے کا کام باہم غیرمتعلق نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ مذہبی حقائق کا براہ راست مخاطب انسانی شعور ہے اور ان حقائق کو خبرِ غیب کے طور پر “مان” لینے کے مطالبات بھی انسانی شعور ہی سے ہیں۔ چیزوں کو ماننے اور جاننے کے ساتھ ساتھ، دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا دوسرا اہم ترین مسئلہ ہر گھڑی درپیش عمل کا ہے۔ مذہبی اقدار انسان سے ایک خاص ہیئت میں عمل کے کچھ قطعی مطالبات رکھتی ہیں، اور ان مطلوبہ اعمال کی نوعیت تاریخی اور غیر تاریخی دونوں طرح کی ہے۔ مذہبی حقائق اور اقدار کی گہری اور مفصل نسبتوں کو نظرانداز کیے بغیر، یہ کہنا ضروری ہے کہ حقائق اور اقدار باہم عین یک دیگر نہیں بلکہ غیر یک دیگر ہیں، کیونکہ انسانی شعور اور عمل غیر یک دیگر ہیں، عین یک دیگر نہیں ہیں۔ مذہبی حقائق، انسانی شعور اور علم کے موضوع کو فی الحال مو¿خر کرتے ہوئے، اقدار کے حوالے سے کچھ گزارشات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں، اور ہم یہاں ”اقدار“ کو وسیع ترین مفہوم میں استعمال کر رہے ہیں۔
انسانی زندگی میں عمل ناگزیر اور اس کی نوعیت فوری ہے، اور یہ قابل التوا نہیں۔ عمل کی ناگزیریت کے باعث اقدار کا سوال بھی ہر گھڑی روبرو اور ناگزیر ہے۔ عمل میں اقدار کی ضرورت فوری اور نوعیت ایمرجنسی کی ہوتی ہے۔ چونکہ عمل کے بغیر انسانی زندگی ممکن نہیں ہے، اس لیے انسان کو درپیش عمل کے لیے کوئی نہ کوئی بنیاد بھی لازمی درکار ہے۔ عام طور انسانی عمل کی بنیاد تین ذرائع سے فراہم ہوتی ہے: مفاد، مزاج، اور قدر۔ چونکہ مفاد اور مزاج کو انسانی عمل کی بنیاد بنا کر انسانی معاشرے کو انتشار سے محفوظ رکھنا ممکن نہیں رہتا، اس لیے کسی متبادل اساس کے لیے انسان تاریخ اور مذہب کی طرف دیکھتا ہے، اور وہاں سے ”اقدار“ اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاریخ یقیناً ہستی اور حیات کے طویل انسانی تجربے اور بصیرت کا ذخیرہ ہے، اور انسان اس تاریخی تجربے اور بصیرت سے اقدار کشید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاریخ سے ”اقدار“ اخذ کرنے کی انسانی کوشش دَوری ہے، اور اس میں مزاج اور مفاد ”تاریخی تجربے“ اور ”تاریخی بصیرت“ کے ناموں سے تجلیل حاصل کرتے ہوئے پھر سے انسانی عمل کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ مزاج اور مفاد کو عمل کی بنیاد بنانا اور ”تاریخی تجربے“ اور ”تاریخی بصیرت“ سے عمل کی اساس فراہم کرنا ایک ہی بات ہے۔ اس میں بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ انسان خود ہی اپنے عمل کے لیے اقدار متعین کر سکتا ہے اور حالات کے مطابق ان میں رد و بدل بھی کر سکتا ہے۔
وسیع تر معنوں میں اقدار کا مسئلہ خیر و شر کے سوال سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ کانٹ کے بقول human condition یعنی انسانی احوالِ ہستی radical evil سے مملو ہیں۔ یعنی شر انسانی حالات کی بُنت میں داخل ہے یا اس میں ایسے گندھا ہوا ہے کہ اسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ شر کا انسانی احوال میں ساری ہونا اور حالات میں جاری ہونا ناگزیر اور بدیہی امر ہے۔ خیر و شر کے گہرے شعور اور احساس کے ہوتے ہوئے بھی انسانی عمل کے لیے ممکن نہیں کہ وہ شر کا مکمل اظہار نہ بنے۔ انسان کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسانی عمل کو شر کا مکمل اظہار بننے سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟ اس کا واحد جواب یہ ہے کہ مفاد اور مزاج کو عمل کی اساس اور مقصود بننے سے روک دیا جائے، اور اقدار سے عمل کی اساس اور مقصود فراہم کیا جائے۔ انسانی اعمال کے لیے اقدار کی ضرورت متفق علیہ ہے لیکن ان کی نوعیت، ذرائع اور منابع پر اختلافات بہت بنیادی اور مکمل ہیں۔
”فطری دنیا“ شر سے خالی اور ”انسانی دنیا“ شر سے مملو ہے۔ انسان رہتے ہوئے ان حالات اور احوال سے کوئی مفر نہیں۔ خیر و شر کے مسئلے سے چھٹکارے کا واحد راستہ عین اس ”دنیا“ سے چھٹکارا ہے جو شر کی آماجگاہ ہے۔ اس معاملے میں مذہبی آدمی اور غیر مذہبی آدمی کا تجربہ اور نتیجہ بھی ایک ہی ہے، اور محرکِ عمل بھی ملتا جلتا ہے، لیکن طریقہ¿ کار قطعی مختلف ہے۔ اگر انسان مذہبی حقائق کو تسلیم کر لے، اور اپنے اعمال کو دینی اقدار پر قائم کر لے، تو وہ دنیا سے ”رستگاری“ حاصل کر سکتا ہے۔ عمل صالح تاریخی قوتوں کے علی الرغم دنیا سے غیریت اور اس سے ایک طرح کا انقطاع ہے، کیونکہ یہ اپنی اساس اور عواقب میں دنیوی نہیں ہے۔ جدید انسان بھی شر سے مملو عین اسی دنیا سے ”رستگاری“ چاہتا ہے، لیکن اقدار کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی ہیئت ہستی کو تبدیل کر کے اس مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے، اور وہ حل یہ ہے کہ “دنیا” سے “نیچر” کی طرف منتقل ہوا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا کو خیر و شر کی آنکھ سے نہ دیکھا جائے، اور حیات و ہستی کو amoral مان لیا جائے، اور خیر و شر کی بات بیک کرنے کو ہی شر قرار دیا جائے اور اس تقدیر پر مذہب اور مذہبی آدمی شر ہے۔ پھر amoral ہونے کا آدرش صرف دو صورتوں میں قابلِ حصول ہے۔ ایک یہ کہ جدید انسان خود کو مکمل طور پر naturalize کر لے، یعنی خود کو ”دنیا“ سے ”نیچر“ میں منتقل کر لے، اور حیاتیاتی دنیا کے ماڈل پر اپنی انفرادی اور اجتماعی حیات کو استوار کرے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ خود کو مکمل طور پر mechanize کر لے، یعنی مادی نیچر کے قوانین کی بنیاد پر اپنی حیات و ہستی کی تشکیل کرے۔ جدید انسان نے ان دونوں کے حصول کی بیک وقت کوشش کی ہے۔
عرض یہ ہے کہ naturalization جدید انسان کی ”شریعت“ اور mechanization جدید انسان کا ”تصوف“ ہے۔ پہلی صورت میں نامیاتی فطرت میں پایا جانے والا حیوان اس کا آئیڈیل ہے، اور دوسری صورت میں نیچر کے میکانکی اصول اس کا آئیڈیل ہے۔ بقائے اصلح وغیرہ کے حیاتیاتی افکار ”فطرت“ سے ”سائنسی“ طور پر اخذ کر کے انہیں انسان کے انفرادی اور اجتماعی عمل کی بنیاد بنانے کوشش کی گئی۔ اور جدید انسان کے عمل اور رویوں میں میکانیت مشین کے ماڈل سے حاصل ہوئی۔ مزاج کے تتبع میں حیوانیت اور مفاد کے تعاقب میں میکانیت کا غالب آ جانا لابدی ہے۔ مذہب اور مذہبی اقدار سے انکار کے بعد، خیر و شر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدید انسان کے پاس یہی دو راستے ہیں، اور ان دو راستوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ انسان ہونے سے دستبردار ہو جائے، اور ایک “نیا انسان” بننے کی کوشش کرے۔ اس دستبرداری کے ساتھ خیر و شر کا مسئلہ “حل” تو نہیں ہوتا، لیکن ختم بھی نہیں ہوتا۔ پوسٹ ہیومن، پوسٹ ٹرتھ، اور نیو نارمل وغیرہ کی باتیں اسی تناظر میں سمجھی جا سکتی ہیں، کیونکہ خیر و شر کا مسئلہ اقدار کے بغیر حل نہیں ہوتا اور اقدار مذہب کے سوال کو مرنے نہیں دیتیں۔
اقدار کا سوال انسان کی فطری اور مطلق آزادی سے جڑا ہوا ہے اور اگر انسان کو یہ مطلق آزادی میسر نہیں تو اقدار کا سوال ہی بے معنی ہے۔ انسان کی اس مطلق آزادی کو جناب احمد جاوید صاحب کے ایک قول کہ ”انسان اپنا غیر ہے، عین نہیں“کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ متبادر مفہوم یہ ہے کہ آنجناب ”انسان“ کے جس تصور کو درست سمجھتے ہیں وہ اس کا غیر ہے، عین نہیں۔ لیکن یہ مراد بھی نہایت واضح ہے کہ انسان اپنا عین بھی ہے اور غیر بھی ہے۔ انسان کا اپنا ”غیر“ یا ”عین“ ہونا فطری نہیں ہے، ارادی ہے، یا سادہ لفظوں میں انسان ”قدرتی اور تاریخی“ طور پر اپنا عین ہے اور ”ارادی“ طور پر اپنا غیر ہے۔ مطلق انسانی آزادی سے مراد انسان کا یہی اختیار ہے کہ کیا وہ اپنا عین ”رہنے“ کا فیصلہ کرتا ہے یا غیر ”بننے“ کا۔ اگر انسان اپنے مفاد اور مزاج کی ترجیحات پر اقدار سے دستکش ہونے کا فیصلہ کرے تو وہ اپنا عین ہے اور اس کا وجودی سفر مزاج اور مفاد کی قطبیت میں ہی طے ہوتا ہے، اور اگر وہ دینی اقدار کو اختیار کرنے کا فیصلہ کر لے تو اپنا غیر ہے۔
انسان کی مطلق آزادی سے مراد یہی سوال ہے کہ کیا انسان اپنے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے؟ یعنی کیا انسان کے لیے کوئی ”جگہ“، کوئی ایسا ”موقف“ قابل تصور ہے کہ جس میں وہ اپنے بالمقابل ہو کر اس سوال کا سامنا کر سکے؟ یعنی کیا ”میں“ خود سے باہر نکل کر اپنے سامنے موجود ایک دوسری ”میں“ کے لیے اقدار کا انتخاب کر سکتا ہوں؟ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ”میں“ خود کا عین بن کر اقدار پر نظر ڈالتی ہے تو اقدار کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایسی صورت میں اس کا انتخاب مزاج اور مفاد ہی کی توسیع ہو گی۔ اقدار کا مسئلہ ”اپنا غیر“ ہونے کی جگہ پر کھڑے ہو کر ہی حل ہو سکتا ہے۔ اپنے بھی خلاف شہادت دینے کی جو الوہی تلقین ہے، وہ انسان کے لیے اپنا ”عین“ بن کر قابل تصور نہیں، صرف اپنا ”غیر“ بن کر ہی ممکن ہے۔ یہ ترفع انسان کو کسی عمل اور فکر سے نصیب نہیں ہوتا، صرف ہدایت سے ممکن ہے۔
اقدار کے مسئلے پر عموماً دو موقف سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ اقدار اضافی ہیں اور انسانی تجربے اور بصیرت سے حاصل ہوں گی اور زمانے کے ساتھ بدلتی چلی جائیں گی۔ تجربے اور بصیرت کی یافت کو اقدار کہنا محض تکلف ہے، کیونکہ یہ عین مفاد اور مزاج کو عمل کی بنیاد بنانے کی تزویرات ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اقدار غیراضافی اور مطلق ہیں، اور عطا شدہ ہیں۔ اول الذکر موقف سیکولر اور غیرمذہبی ہے، جبکہ مو¿خر الذکر مذہبی موقف ہے۔ اقدار کا مسئلہ اس وقت تک لاینحل ہے جب تک انسان خیر و شر اور حق و باطل کے بارے میں کوئی بنیادی ”موقف“ اختیار نہ کر لے۔ اور یہ بنیادی موقف سیکولر اور مذہبی ہونے کا ہی ہے۔ سیکولر ”اقدار“ بنیادی طور پر قانونی اور تنظیمی نوعیت کے ضوابط کی تفصیلات پر مشتمل ہوتی ہیں جنہیں عام طور پر ”تنظیمی اخلاقیات“ بھی کہا جاتا ہے۔ تنظیمی اخلاقیات دراصل سیاسی طاقت کی ایک فرع ہے، اور انسانی عمل کی سنگین کراہت کو شائستگی اوڑھائے رکھنے کا مفصل طریقہ¿ کار ہے۔
خیر و شر کے معاملے میں مذہبی موقف دو ٹوک ہے۔ ”سیئآت اعمالنا“ کا منبع ”شرور انفسنا“ ہے، اور انسان کے پاس کوئی ذریعہ یا طاقت ایسی نہیں ہے جو اُسے شر کا مکمل آلہ کار بننے سے روک سکے۔ نفس انسانی کے اسی شر سے بچنے کے لیے انسان کو اقدار کی ضرورت ہے۔ اور جب انسان اقدار کو تسلیم کر لیتا ہے، تو اسے ان اقدار کا عین بننے کی جدوجہد درپیش ہوتی ہے اور جو امتثال امر اور تائید الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔ حضور علیہ الصلوة و السلام کی سکھائی ہوئی دعاو¿ں میں سے ایک ہے کہ ”اے اللہ! مجھے طرفة العین کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا“۔ اللہ کی نصرت کے بغیر انسان کا ”شرور انفسنا“ سے بچنا محالات میں سے ہے۔ انسان اگر اپنا عین ہے تو شر سے مملو نفس کا اور حق سے انکاری عقل کا عین ہے، اور جدید انسان اسی آئیڈیل سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفس کے شر سے محفوظ رہنے اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔(جاری ہے)
٭٭