وجود

... loading ...

وجود

ان نڈرلبرلزسے ہی کچھ سیکھ لیں

پیر 06 مارچ 2017 ان نڈرلبرلزسے ہی کچھ سیکھ لیں

ایک چھوٹاخط پڑھیں پھربات کرتے ہیں۔آنٹی میری عمر20سال ہے میں سبزیاں کھاتی ہوں۔حقوق نسواں یعنی عورتوں کے حقوق کی علمبردارہوں اورتھوڑی سی پاگل ہوں۔جذباتی ہوجاتی ہوں۔میں کسی پربھروسا نہیں کرپاتی۔ میں چاہتی ہوںکہ مجھے کوئی لڑکامیری ان تمام باتوںکے باوجوداپنائے مگرآنٹی میں ایک بات مزیدکہناچاہتی ہوںکہ میں ساری زندگی جس لڑکے کے ساتھ گزارناچاہتی ہوں اس سے شادی نہیںکروںگی۔میںاس لڑکے کے ساتھ شادی جیسے تعلقات ضروررکھناچاہتی ہوں مگرمیں اس کے ساتھ شادی نہیں کرناچاہتی۔مہربانی فرماکرآنٹی آپ اپنے تجربے کی روشنی میں میری مددکریں۔
ایک چھوٹاساخط مزیدپڑھیں۔آنٹی میں18سال کاہوں ہم 6دوستوں کاگروپ ہے ،میرے سوامیرے تمام دوستوں کی گرل فرینڈز ہیں جن کے ساتھ وہ سب خوب اچھاوقت گزارتے ہیں،مزے کرتے ہیں،گھومتے ہیں اورزندگی سے لطف اندوزہوتے ہیں۔مگرآنٹی میرے پاس کوئی لڑکی نہیں ہے، میں اکیلاہوں۔میں جب اپنے دوستوں میں جاتاہوں تووہ سب اپنی اپنی لڑکیوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔جس سے مجھے اچھانہیں لگتا۔آنٹی مہربانی فرماکرمجھے بھی ایک لڑکی تلاش کردیں تاکہ میںبھی اس لڑکی کے ساتھ وقت گزارسکوںاورآنٹی اس معاملے میں صرف آپ میری رہنمائی کرسکتی ہیں۔
اب آجاتے ہیں اصل موضوع کی طرف یہ جواوپردو خطوط کاخلاصہ آپ نے ابھی پڑھاہے ،یہ پاکستان کے انگریزی اخبارمیں شائع ہوتے ہیں۔اس انگریزی اخبارمیں ایک سلسلہ آتاہے ۔جس میں لوگ اپنے سماجی مسائل کے حل کے لیے ایک آنٹی سے مشورہ کرتے ہیں اوررہنمائی لیتے ہیں۔یہ صرف دوتحریریں چاول کے دودانے ہیںجوآپ کے سامنے رکھے ہیں،پوری دیگ میں کیاکیاہے اگروہ سب لکھناشروع کروںتوشاید شائع ہی نہ ہوسکے ۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے انگریزی اخبارمیں2017ءمیں شائع ہونے والے دوخطوط کاخلاصہ ہے ۔ان خطوط سے آپ اندازہ کرلیں کہ ہمارے ملک میں نئی نسل اورجدیداسکولوںکالجوںسے پڑھ کرنکلنے والی نسل کی ذہنی حالت کیاہے ؟یہ مہنگے اسکولوںمیں پڑھنے والے بچوںکے خطوط ہیں۔دوسرے لفظوںمیں یہ جدیداورآئیڈیل تعلیم کے حامل بچے ہیں،جدیداسکول سے نکلنے والے بچے ایسے ہی ہونگے ۔دوتصور خیرایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔چاہے اس کوآج کوئی مانے یانہ مانے ۔مگریہ کڑواسچ ہے ۔مگراس سے بھی بڑی ایک بات ہے وہ یہ کہ یہ خطوط پاکستان کے انگریزی اخبار کے اتوارکے ایڈیشن میں شائع ہوئے ہیں۔ان اخبارات کے مالکان دلیر،بہادر،نڈر،حوصلہ مند،لبرل ہیں۔یہ کوئی سازش نہیںہے۔ یہ ان اسلام پسندوںاوردینی سیاسی جماعتوںکے لیے لمحہ فکریہ ہے جو ہر بات میں حکمت عملی حکمت عملی کاروناروتے رہتے ہیں۔ وہ دیکھ لیںکہ لبرلزتمام حکمت عملیوںکی پرواہ کیے بغیر اپنا عقیدہ بیان کرتے ہیں ۔ان تمام مذہبی لوگوں اوردینی سیاستی جماعتوںکے لیے سیکھنے کاموقع ہے جوخودکواسلامی نظام کاداعی بتاتی ہیں۔مگرقربانی دینے کے لیے تیارنہیںہیں۔وہ اس نظام کے اندرسے تبدیلی لانے کاخواب دیکھتی ہیں۔وہ یہ خطوط پڑھ کرمعاشرے کی نبض سے اندازہ لگالیںکہ آنے والے دورمیں ان کامقابلہ کس ترقی کی ماری قوم سے ہونے جارہاہے ۔ان انگریزی اخباروںمیں جوکچھ شائع ہوتاہے وہ لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ۔عورتوںکی ننگی تصویریںشائع ہوتی ہیں۔اگرکسی کونہیںیقین توانگریزی اخباردیکھ لے ۔اب یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ آج 2017ءمیں ننگاپن کیاہے ؟ جب خیرکاپیمانہ بدل جائے اصول بدل جائے تواُلٹی تصویرسیدھی دکھائی دینے لگتی ہے ۔صرف پیمانہ بدلنے سے سب کچھ بدل جاتاہے ۔ اسلامی تہذیب اوراسلامی علمیت میں ننگاپن کیاہے ۔ ایک چھوٹاساواقعہ پڑھ کراندازہ لگائیں ۔ہمارے ایک استادصاحب نے اپنے بچپن کاواقعہ سنایاکہ ایک روزوہ اپنے گھرکی گیلری میں کھڑے تھے کہ پڑوس والی گیلری میں ایک خاتون بغیربازوکی قمیض پہنے چائے کاکپ ہاتھ میں تھامے کھڑی تھیں۔استادصاحب جواس وقت 5یا7سال کے تھے انہوںنے جب اس خاتون کودیکھاتوچلانے لگے۔آنٹی ننگی آنٹی ننگی۔آنٹی اس صورتحال کے لیے تیارنہ تھیں لہذاوہ فورااندرکمرے میں بھاگی اوراپنے شوہرسے شکایت کی کہ پڑوسیوںکالڑکابدتمیزہے۔متاثرہ آنٹی اوران کے شوہرچندہی لمحوںمیںاستادصاحب کے دروازے پرتھے ۔جب متاثرین نے استادصاحب کے والدین کوساراواقعہ سنایاتواستادصاحب کے والد صاحب نے فورااستادصاحب سے کہا کہ وہ آنٹی سے معافی مانگیں۔مگرقبل اس کے ،کہ وہ معصوم بچہ آنٹی سے معافی مانگتابچے کے داداحضور کی زوردارآوازسنائی دی خبردارجوہمارے پوتے سے کسی نے معافی کامطالبہ کیا۔ہمارے پوتے نے کیاغلط کیاہے ؟ہماری تہذیب، ہماری روایت اورہمارے مذہب میں ایسے لباس میں ملبوس خاتون کوہم ننگاہی کہتے ہیں۔ہمارے پوتے نے جوکیاوہ اس نے اپنے گھرکی اورخاندان کی تربیت کے بل بوتے پرکیاہے، اوربالکل صحیح کیا ہے اگرمحترمہ آپ کوبُرالگاہے توآپ مکمل لباس پہن کربالکونی میں تشریف لایاکریں۔ہماراپوتاہرگزہرگزمعافی نہیں مانگے گا۔
انگریزی اخبارمیں مگر ان خاتون سے زیادہ مختصر چیتھڑوںکوپہنی خواتین کی تصوریں شائع ہوتی ہیں۔اور یہ سب اس ملک میں ہورہاہے جہاں 1950ءمیں پنجاب یونیورسٹی کی لڑکیاں تصویربنوانے پراحتجاج کرتی تھیں۔اور جہاں 1950ءمیں پنجاب یونیورسٹی میں پہلی مرتبہ اسپورٹس ویک تمبوقناتیں لگاکرکروایاگیاتھا ۔صرف 60سالوںمیں معاشرے نے کیسی کروٹ لی ہے ؟تصورکریں اگلے 60سالوںبعدہم کہاںہونگے ؟اورجن اسلامی جماعتوںسے آج اس مذہبی عوام سے ووٹ نہیںلیے جاتے وہ اگلے 60سالوںبعدکیسے ووٹ لےں گی ؟یاتویہ مذہبی جماعتیں نہیںرہیں گی یایہ مذہبی نہیںرہیںگی ۔اورترکی کی طرح اسلام کی پیوندکاری کرتے کرتے اسلام کی اصل شکل ہی بدل ڈالیںگی۔
آج امریکا ویورپ کے لیے نہ سعودیہ کااسلامی ماڈل قابل قبول ہے نہ ایران کا،آج جدیددنیاکوصرف ترکی کااسلام پسندہے۔ لہذااسلام پسندجماعتیں کچھ ہوش کے ناخن لیں۔یہ لبرل جتنے بھی برے ہوں۔مگریہ اپنے عقیدے کے لیے قربانی دے رہے ہیںاوریہ دن بدن مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔تصورکریں کہ 18کروڑمسلمان آبادی والے ملک میں انگریزی اخبارات کیاکیاخرافات چھاپ رہے ہیں۔کیاان اخبارات کے مالکان کوڈرنہیں لگتاکہ اس ملک میں لاکھوں مدرسے ہیں۔ مسجدی ںہیں۔امام بارگاہی ںہیں۔یہاںکے مسلمان اسلام کے لیے جان دیناجانتے ہیں۔پھربھی لبرل کس دلیری سے اپناموقف پیش کرتے ہیں۔اورکتنی بہادری سے اپنے عقیدے کااظہارکرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے مذہبی لوگ بھی لبرل ہوتے جارہے ہیں۔ان مذہبی لوگوںکے بچے بھی انہی اسکولوںمیںپڑھتے ہیں،جہاںکی فیس سے چندہ چرچ کوبھی جاتاہے۔ان کے گھروں میں بھی ٹی وی دیکھاجاتاہے ۔ اورٹی وی توسرمایہ داورںکاسب سے بڑامحافظ ہے ۔مذہبی لوگوںکی خواتین بھی دن کاایک بڑاحصہ گھرسے باہرگزارتی ہیںگوکہ وہ یہ وقت مذہب کے فروغ کے کاموںمیں لگاتی ہیں مگراس کی وجہ سے جومارکیٹ ان مذہبی لوگوںکے گھروں میں آتی ہے وہ کوئی مسئلہ نہیں سمجھاجاتا ۔پاکستان میں صرف لبرل عورتیں نہیں مذہبی عورتیںبھی بچوںکواپنادودھ نہیںپلاتی ہیں،جبکہ دودھ پلانے کاحکم اللہ پاک نے قرآن مجید میں دیاہے ۔ مذہبی آدمی بھی امیرہوناچاہتاہے ۔جبکہ ہمارے بنی نے خوداختیاری فقراختیارکیااورساری زندگی غریبوںکی طرح سادگی سے گزاری ؟پورے پاکستان میں رسول ﷺجیسی زندگی گزارنے والاایک مذہبی آدمی دیکھیں تومجھے ضرور اطلاع دیجئے گامیں اس کے ہاتھ چوموںگا ۔ آج ترقی کرنالبرل اورمذہبی دونوںکاآئیڈیل ہے ۔ پھرہماراامریکاسے جھگڑاکیاہے؟صرف یہ کہ وائٹ ہاﺅس میں ہم کیوںنہیںہیں؟وائٹ ہاﺅس میں اگرصرف ہمیں ہی بیٹھناہے تویقین کریںیہ گورے ہم سے اچھاوائٹ ہاﺅس چلارہے ہیں۔گزشتہ 50سالوں میں انتہائی نیک مخلص اورہمدردمسلمان رہنماﺅں نے جس طرح ترقی کوقبول کیاہے ۔اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔یہ نیک اوراسلام سے محبت کرنے والے اشخاص اگریہ سمجھتے ہیںکہ وہ الیکشن جیت کرحکومت میں آکراصل اسلام عوام پرنافذ کرینگے تووہ مصرکے مرسی صاحب سے کچھ سیکھ لیں۔ہرمذہبی رہنماءکی تقریراٹھاکرسن لیںوہ قرآن پاک کی آیت سے بات شروع کرکے اختتام ایسی دنیادینے کے وعدوںپرکرتے ہیںجوامریکا بے چارا بھی نہیں دے سکا۔کیااسلامی تحریکوں کے قائدین اپنی تقریروںمیں لوگوں کوپانچ وقت کی نماز،روزے ،زکوة اورحقوق العبادپرجمع کررہے ہیں؟نہیں نہیںیہ نیک اورمخلص حضرات عوام کودودھ اورشہدکی نہریںنکالنے کے وعدو ں پرجمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔یہ عوام کے ساتھ اس ماںاوربچے کامعاملہ کررہے ہیںجوبچے کوکڑواسیرپ دینے کے لیے اسے آسمان پرچڑھا کریاپری آئی کاکہہ کربچے کامنہ کھلواتی ہے اورسیرپ کا چمچ منہ میںڈال دیتی ہے ۔مگر بچہ ایک ہی مرتبہ اس دھوکے میں آتاہے ۔ہمارے نیک اورمخلص مذہبی رہنما بھی مسلسل عوام کوبہترین دنیادینے کے وعدوںپرجمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اگرکسی نے دنیاہی لینی ہے تووہ مذہبی آدمی کی دونمبردنیاکیوںلے گا؟وہ جب دنیاکی عیاشیاں ہی لیناچاہتاہوگاتووہ لبرل کی سچی کھری اورمکمل دنیاکیوں نہ لے گا؟ابھی بھی کچھ نہیں گیااب بھی وقت ہے ہرخیر کے لیے قربانی دیناپڑتی ہے ۔یہ بات نیک لوگ ان نڈرلبرلزسے ہی سیکھ لیں۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر