... loading ...
بہت سے مسئلے توصرف جدیدقومی ریاست کوسمجھ لینے سے حل ہوسکتے ہیں۔ مگرہمارے یہاںاس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ جب تک مرض کاعلم نہ ہو، آپ کسی کاعلاج کیسے کرسکتے ہیں؟ایک قومی ریاست میں سب سے زیادہ عزت کے قابل چیزکیاہوتی ہے ؟یہ ایک اہم سوال ہے ۔جب ہم قومی ریاست کے اندر مذہب کے نفاذکی بات کرتے ہیںتووہ دیوانے کے خواب کے سوامزیدکیاہوسکتا ہے ۔آج پوری دنیاایک عالمی گائوںکی صورت اختیارکرچکی ہے ۔ ایک ادارہ ہے اقوام متحدہ ،دنیامیںہرآزادملک خودچل کراس اقوام متحدہ کے پاس آتاہے اوراس کی رکنیت حاصل کرتاہے۔ اقوام متحدہ جب کسی ملک کواپنارکن بناتا ہے تواس پرکچھ پابندیاں بھی لگاتاہے ۔یہ پابندی اںدراصل ایک نئے غلامی کے دورکاآغازہوتی ہیںمگران پابندیوںکے نتیجے میں جوغلامی کاطوق ان رکن ممالک کے گلے میںڈلتاہے اسے رکن ممالک غلامی نہیںعظیم آزادی تصورکرتے ہیں۔اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک نے انسانی حقوق کے عالمی منشورپردستخط کئے ہیں اوراقوام متحدہ سے وعدہ کیاہے کہ ہرملک اپنے اندرانسانی حقوق کے عالمی منشورکونافذ کرے گا۔
انسانی حقوق کاعالمی منشورکیاہے؟ اس کواتنی عزت کے قابل کیوںسمجھاجاتاہے ؟ اس میں ایسی کیاخصوصیات ہیںکہ دنیاکے ہرملک کو اس کے نفاذکا پابند بنایاجاتاہے ؟ یہ تمام سوالات اوران کے جوابات کاحصول بہت اہمیت کا حامل ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی منشورکی روشنی میں پیداہونے والاانسان ترقی پسنداورآزادانسان تصورکیاجاتاہے ۔ایساتصورکیاجاتاہے،دراصل یہ انسان نہ توآزادہوتاہے اورنہ ہی ترقی یافتہ ۔ترقی صرف ایک دھوکا ہے ۔کیوں کہ میں کتناترقی یافتہ ہوں،اس بات کافیصلہ مجھ سے زیادہ ترقی یافتہ انسان کرے گا۔میںمہینے میں 2لاکھ کماتا ہوں۔ تو میں مہینے میں 5لاکھ کمانے والے کے مقابلے میں غریب ہوںاورماہانہ 50ہزارکمانے والے سے ترقی یافتہ ہوں۔5لاکھ کمانے والا10لاکھ کمانے والے کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ہے ۔ دنیا کا سب سے امیرآدمی 5سال تک دنیاکاامیرترین انسان رہاہے تووہ اس کے مقابلے میں غریب ہے جو20سال تک دنیاکاامیرترین آدمی رہاہے ۔ ترقی کرناآج ایک لاحاصل خواب ہے ۔
قدیم تہذیبوںمیں مال کمایاجاتاتھا،اپنے آپ کوسہولت دینے کے لیے۔ فرعون کے پاس بہت دولت تھی اوروہ اس دولت کواستعمال کرتاتھا، اس دولت کے بل پرعیاشیاںکرتاتھا۔ایک مرتبہ فرعون نے دولت حاصل کرلی پھرفرعون نے سکون سے اس دولت کوخرچ کیا۔مگرآج کے ترقی یافتہ فرعون قدیم تہذیبوںکے فرعون سے بھی زیادہ گندے فرعون ہیں۔آج کسی ارب پتی کے پاس اگر50ارب روپے ہوں تو بھی وہ ہروقت اس فکرمیں غرق رہے گاکہ یہ 50ارب 100ارب کب اورکس طرح ہونگے ؟اوراگر50ارب 30ارب ہوگئے توہوسکتا ہے اس امیرآدمی کودل کادورہ پڑجائے ۔آج دولت کمانے کامقصد صرف عیاشی نہیں بلکہ اس دولت میں مسلسل اضافہ اصل مقصد ہے ۔اگرآپ کسی جدیدتعلیم یافتہ اورحساب کتاب کے ماہرانسان کوبتائیں کہ میرے پاس 2کروڑ ہیں، اب میں صبح شام عبادت کروںگااور ان 2کروڑکے ختم ہونے تک کچھ نہیںکروںگا، توآج کاجدیدپڑھالکھاانسان آپ کوسمجھائے گاکہ یہ عمل سراسرغلط ہے ۔ اگرمیرے پاس 2کروڑہیںتواگلے دوسالوںمیں یہ 2 کروڑ 4 کروڑ ہونے چاہییں۔پھراگلے 2سالوںمیں6، اسی طرح اگرمیری دولت میںاضافہ ہوتارہے تویہ اصل زندگی کامزہ ہے۔ اگردوکروڑ5سال بعد 1 کروڑ 80لاکھ رہ جائیںتومیں نقصان میں جارہا ہوں، اورمیںغریب انسان کہلائوںگا۔ اس لیے آج دولت اس لیے کمائی جاتی ہے کہ اس سے مزیددولت کمائی جاسکے ۔اس لیے آج کاانسان سرمائے کامالک نہیں سرمائے کاغلام بن جاتاہے ۔سرمایہ انسان کوقابوکرلیتاہے اوراس کوچلاناشروع کردیتاہے ۔اوریہ سب جدیدقومی ریاستوںمیں ہوتاہے ۔ایک قومی ریاست سے سب سے آخر میں جوقدراورجوچیزنکل کرسامنے آتی ہے اس کانام سرمایہ داری ہوگا۔
مثلاًپاکستان ایک قومی ریاست ہے ۔ تو پاکستان میں سب سے عزت کے قابل چیزکیاہے ؟ ترقی۔ سب پاکستان کوایک عظیم ،ترقی یافتہ ریاست بناناچاہتے ہیں ۔ ہم دنیاکی عظیم اور ترقی یافتہ قوموںمیں شامل ہوناچاہتے ہیں۔اب ترقی سرمایہ داروںاورسرمائے کے بغیرممکن نہیں، جب کسی ملک میں سرمایہ دارآتے ہیںتوصرف پیسہ نہیں لاتے بلکہ اپنے ساتھ ایک مکمل اخلاقیات بھی لاتے ہیں۔اس لیے یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ قومی ریاست کامذہب سے کوئی لینادیناتوہوسکتا ہے مگرقومی ریاست مذہبی ریاست نہیں ہوتی ۔1947ء میں پاکستان آزاد ہوا اور ایک سال بعدجواہرلال نہرواورلیاقت علی خان کے درمیان ایک معاہدہ ہواکہ آج کے بعد اگر کوئی ہندوبھارت آئے گاتووہ ویزالے کرآئے گا۔ اوراگرکوئی مسلمان پاکستان آئے گاتوپاکستان سے ویزالگواکرآئے گا۔یہ کیاہورہاتھا؟صرف ایک سال میں مدینہ جیسی ریاست نے مسلمانوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا، کیوں؟ قومی ریاست ترقی کرتی ہے اورترقی کے لیے آبادی کاکنٹرول ضروری ہوتاہے ۔اس لیے نہ بھارت ہندوئوںکی ریاست ہے ،نہ پاکستان مسلمانوںکی ۔بلکہ یہ کہا جائے کہ پاکستان پاکستانی مسلمانوںکی ریاست ہے ،دنیاکے ہرمسلمان کے لیے پاکستان نے ٹھیکہ نہیںاٹھارکھا۔یہ الفاظ صرف قومی ریاستوںمیں ہی سننے کوملتے ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے دورمیں پاکستانی ریاست نے افغانیوںکواپنے ملک میں جگہ دی اورشوریہ مچایاکہ یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔لیکن یہی جنرل ضیاء الحق بنگلا دیش میں رہ جانے والے محصورین بنگال کولانے پرکبھی تیارنہ ہوئے جبکہ وہ توزیادہ مسلمان بھائی تھے؟ اور انہوں نے توپاکستان کی محبت میں قربانی بھی دی تھی ؟ پھر ان کولانے کے لیے کیوںنہیںکچھ کیاگیا؟کیونکہ ہر افغانی مسلمان بھائی کے بدلے امریکا سے ڈالر آتے تھے، اقوام متحدہ مددکرتا تھا۔ مگربنگالی مسلمان بھائیوںکے ساتھ کچھ نہیںآرہاتھا،اس لیے وہ صرف ’’خرچہ‘‘ تھے، اس لیے قومی ریاست نے نقصان کاسودا آج تک نہیںکیا۔اورپھراب 2017ء میں کل کے افغانی ’’مسلمان بھائی‘‘ آج بوجھ بن چکے ہیںکیونکہ اب ان کے ساتھ ڈالر آنابند ہوچکے ہیںاس لے اب ان مسلمان بھائیوں کا واپس جاناقومی مفاد میںہے ۔ میں واضح کردوںکہ یہ کوئی سازش نہیںہے بلکہ یہ سب کچھ جدیدقومی ریاست کے دستورکے عین مطابق ہورہاہے ۔کسی بھی قومی ریاست کاواحد مقصد سرمائے کے حصول کی کوشش ہوتی ہے، اس کے بعد قومی ریاست کسی بھی خیرکواپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتی ہے ۔اس لیے یہ بات سمجھنے کی اشدضرورت ہے کہ قومی ریاست دراصل سرمایہ دارانہ ریاست ہوتی ہے ۔
٭٭
ایم کیو ایم 1984 میں وجود میں آئی، 85 ء میں بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو فاروق ستار کو میئر بنایا گیا۔ 88 ء میں جب ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدر آباد سے کامیابی حاصل کی تو پھر یہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ ایم کیو ایم کے ’’را‘‘ سے تعلقات ہیں لیکن اس وقت کسی نے اس پر کان نہی...
انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کے انخلاکو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کوبھی اس انخلا میں سہولت فراہم کرنے میں ملوث قرار دیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 76 صف...