وجود

... loading ...

وجود

پشتون عوام زیر عتاب کیوں ؟

بدھ 01 مارچ 2017 پشتون عوام زیر عتاب کیوں ؟

آپریشن ضرب عضب کے بعد فاٹا کی مسلح تنظیمیں کمین گاہوں سے محروم ہو گئیں ۔ان کی قیادت اور جنگجو افغانستان منتقل ہو چکے ہیں جہاں ان جتھوں نے اپنی قوت پھر سے مجتمع کر لی ہے ۔چونکہ انہیں افغانستان میں قیام اور بالخصوص پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں کی اجازت حاصل ہے ،بھارت اور افغان خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کو حاصل ہے ۔ چنانچہ حالیہ دنوں میں ان گروہوں نے یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف شہروں کو ہدف بنا کر کئی بے گناہ شہریوں کو قتل کر دیا،اعلیٰ پولیس حکام و اہلکار نشانہ بنے ۔چونکہ مختلف واقعات میں خود کش حملہ آور کا تعلق افغانستان سے معلوم ہو اہے،چنانچہ پولیس اور تحفظ کے دیگر اداروں کی جانب سے فوری طور پر ملک کے اندر افغان باشندوں کے خلاف حرکت شروع ہوئی ۔ملک کے مختلف حصوں میں ان کی آبادیوں پر چھاپوں اور چھان بین کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔مزدور پیشہ افراد اور تاجروں کو جگہ جگہ حراست میں لیا جا رہا ہے ، اب کی بار سندھ اور پنجاب میں مقامی پشتون تجارت پیشہ اور محنت مزدوری کرنے والے افراد کی پکڑ دھکڑ کا توہین آمیز طرزِ عمل اپنا یا گیا ہے ۔ ان دو صوبوں کی رہائشی آبادیوں ، کاروباری مراکز اور عام شاہراہوں پر پشتون عوام کو روکا جاتا ہے ، جامہ تلاشی ہوتی ہے ، انہیں دکانوں اور ہوٹلوں سے اُٹھا کر تھانوں میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز جاری ہو چکی ہیں کہ جس میں پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں پشتون تاجروں اور مزدوروں کو انتہائی تضحیک اور توہین کے ساتھ حراست میں لیا جاتا ہے ۔ ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں ، مکوں اور گھونسوں کے ساتھ گھسیٹا جاتا ہے ، تن کے کپڑے پھاڑے جاتے ہیں ، یہ سب وہاں کی پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس اہلکار کر رہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام میں اس غیر اخلاقی ، غیر انسانی اور خلافِ قانون رویے و سلوک پر برہمی بلکہ انتہائی غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا اظہاربھی ہو رہاہے ۔یعنی افغان مہاجر تو نشانہ ستم تھے ہی اب مقامی پشتون عوام پر بھی ہاتھ ڈالا گیا ہے ۔تاجروں کا انتہائی متعصبانہ انداز میں اندراج کیا جاتا ہے ۔صوبہ سندھ کی اُن آبادیوں تک کو استثنا نہیں دی گئی جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی وہاں سکونت اختیار کر چکی تھیں۔ یہ بات ہماری معلومات میں ہے کہ حراست اور بے عزتی کے خوف سے مقامی پشتون گھروں سے باہر نکلتے ہوئے کتراتے ہیں ۔اس توہین کا اُن صاحب حیثیت لوگوں کو بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کی وہاں عشروں سے بڑی بڑی زمینداریاں اور کاروبار ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کو سوچنا چاہئے کہ یہ سلوک جو ملک کے باشندوں سے روا رکھا گیا ہے ، کیا انہیں زیب دیتا ہے اور کیا اخلاق و تہذیب سے عاری ان اقدامات اور حربوں سے پشتون عوام کے دلوں میں نفرت پیدا نہیں ہو گی؟ یقینا یہ طرز عمل پنجاب اور سندھ حکومت کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گا ۔سیاسی جماعتوں کو اس عمل کا نوٹس لے لینا چاہئے ، بطور خاص بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتیں ان دو صوبوں سے وضاحت طلب کریں اور فوری طور پر ان کو سخت تنبیہ کی جائے ۔ سچی بات یہ ہے کہ ان اقدامات سے نسلی، قومی اور علاقائی بنیادوں پر نفرتوں کے پھیلنے کا اندیشہ پایا جاتا ہے ۔
اسی طرح یہ امر بھی مسلّم ہے کہ ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے، دہشت گردوں کی سرکوبی اور عوام کے تحفظ کے لیے بلا شبہ ہر حربہ استعمال ہونا چاہئے مگر یہ سمجھنا کہ ہر افغان باشندہ دہشت گرد ہے، قطعی غلط ہے ۔افغان باشندے بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستان میں رہائش پذیر ہیں جن کے قیام میں حکومت پاکستان نے مزید توسیع بھی کر دی ہے ۔لہذا انہیں پاکستان کے اندر رہائش اور روزگار کے حقوق حاصل ہیں۔البتہ غیر قانونی تارکین کو پاکستان میں داخل نہ ہونے دیا جائے ۔اور جو بغیر دستاویزات کے پاکستان میں مقیم ہیں اُن کو واپس اپنے ملک افغانستان بھیجا جائے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ افغان مہاجرین کی عزت نفس مجروح کرنے سے گریز کیا جائے ۔یہ لوگ رضا و خوشی سے پاکستان نہیں آئے تھے ۔ دیکھا جائے تو افغان عوام پاکستان کے محسن ہیں ، ان افغانوں کی قربانیاں تھیں کہ روس افغانستان سے آگے نہ بڑھ سکا ، پاکستان نے افغان مجاہدین کا ساتھ اسلام یا انسانیت کے ناطے نہیں دیابلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی بقاء و سلامتی کا خطرہ لاحق تھا ۔گلبدین حکمت یار نے کہا تھا کہ پاکستان افغانوں کی مدد سے پہلو تہی نہ کرے کیونکہ اگر افغان روس کو افغانستان کے پہاڑوں اور دروں میں روکنے میں ناکام ہوئے تو پاکستان سرخ افواج کواپنے میدانوں میں روک نہیں سکے گا ۔آج کا افغانستان پاکستان کی سول و عسکری قیادت کی غلطیوں کا نتیجہ ہے ۔روس کے جانے کے بعد خود مختار افغان حکومت کا راستہ روکنے میں پاکستان کی پالیسیاں شامل تھیں۔بعد ازاں طالبان کی حکومت کے خلاف امریکا کا ساتھ دے کر ایک اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا گیا ۔ایک فرد واحد پرویز مشرف اس نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کا سہولت کار بنا ،اور افغانستان پر بد ترین جنگ مسلط کر دی۔ہزاروں لاکھوں افغانوں کا جدید ترین ہتھیاروں سے قتل عام کیا گیا ۔ امریکا کا تابعدار بن کر پاکستان حاصل تو کچھ نہ کر سکا ،البتہ ملک کو ٹارگٹ کلنگ ،خود کش بم حملوں اور بد امنی کے تحفے ضرور ملے۔ادارے ہر پگڑی ،داڑھی والے مقامی و غیر مقامی پشتونوں کو شک کی بنا پر بے عزت کر رہے ہیں۔ شاہراہوں اور چوراہوں پر تشدد اور نفرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔بلوچستان میں مردم شماری کی آڑ میں ایک الگ مسئلہ کھڑا ہے ۔دنیا کی ہر برائی ان افغانوں کے سر تھوپی جاتی ہے ۔بعض لکھاری قومیت اور نسل کی بنیاد پر نفرت پھیلا رہے ہیں ۔مردم شماری کے ایشو پر عوام کے درمیان قائم بھائی چارے کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔اور اس آگ پر برابر تیل چھڑکا جا رہا ہے ۔بلوچستان کی تقسیم کی باتیں چل پڑی ہیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ بولان پشتونخوا کی تقسیم کی حد ہے ۔تو کوئی پکار اُٹھتا ہے کہ پشتون الگ صوبے کا مطالبہ ضرور کریں مگر ان کی حد جلو گیر یعنی کچلاغ تک ہے ۔بلا شبہ حکومت ٹکرائو کی اس فضاء کی ذمہ دارہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ افغان باشندوں کے پاکستانی دستاویزات منسوخ کرے جو انہوں نے مختلف اوقات میں حاصل کر رکھے ہیں تاکہ ان کا مردم شماری میں اندراج نہ ہو۔ کچھ جماعتیں اس بات پر اڑی ہیں کہ افغانوں نے سرے سے پاکستانی دستاویزات حاصل ہی نہیں کئے ۔حالانکہ یہ دعویٰ و استدلال بھی مبنی بر انصا ف نہیں ۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں، لاکھوں افغان پاکستانی دستاویزات کے حامل ہیں ۔افغانستان کے حالات پاکستان پر اثر انداز ہیں جس کی ایک الگ تفصیل ہے ۔
سر دست یہ کہنا مقصود ہے کہ فاٹا کی مسلح تنظیمیں اور ان کے سربراہ پاکستانی ہیں ۔کراچی میں تین عشروں سے جاری ٹارگٹ کلنگ اور بھتا خوری میں ملوث سب کے سب مقامی لوگ ہیں ۔بلوچستان کی شورش مقامی افراد اور تنظیموں کی برپا کی ہوئی ہے جو اب تک ہزاروں معصوم جانیں نگل چکی ہے ۔لشکر جھنگوی مقامی افراد پر مشتمل تنظیم ہے ۔ سول ہسپتال میں وکیلوں پر دھماکہ کرنے والا حملہ آور مقامی شخص تھا، اعوان یعنی پنجابی تھا ۔اور اس دھماکے کے تمام سہولت کار مقامی افراد تھے ۔گزارش یہ ہے کہ پشتون عوام کو زیر عتاب نہ بنایا جائے ۔یہ حکمت ِ عملی ملک کے اندر دہشت گردی کے خلاف نہ صرف جنگ کو متاثر کر سکتی ہے بلکہ عوام کے درمیان نسلی، قومی و علاقائی تعصبات کا موجب بنے گی۔
٭٭


متعلقہ خبریں


ایم ڈی واٹر بورڈ کراچی کے لاکھوں لوگوں کو پیاسا مارنے پر تُل گئے وجود - پیر 13 فروری 2017

عروس البلاد کراچی ایشیاکے ان چند شہروں میں شمار ہوتا ہے جس کی آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس شہر کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کسی ادارے نے نہیں کی۔ اس شہر میں آبادی کس حساب سے بڑھ رہی ہے؟ شہر عمارتوں کا جنگل بن رہا ہے؟ ٹھیلے سڑکوں پر گاڑیوں سے زیادہ ہوگئے ہیں‘ زمین...

ایم ڈی واٹر بورڈ کراچی کے لاکھوں لوگوں کو پیاسا مارنے پر تُل گئے

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر