وجود

... loading ...

وجود

دارالفسادسےردالفسادتک

پیر 27 فروری 2017 دارالفسادسےردالفسادتک

جنرل ضیاءالحق نے 5جولائی 1977ءکو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو ان کے سامنے بھٹو کی دیوہیکل شخصیت ان کا راستہ روکے کھڑی تھی۔ سندھ کے وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو کا گمان تھا کہ وہ دوبارہ بر سر اقتدار آکر ضیاءالحق کو ایسی سزا دیں گے کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ وہ ضیاءالحق کی لمبی مونچھوں سے اپنے جوتے کے تسمے بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ بدگمانیاں بڑھتی گئیں ،ایک قبراوردوانسان آمنے سامنے تھے۔ فوج کی طاقت نے ضیاءالحق کو فتح سے ہمکنار کیا۔ انہوں نے 4اپریل 1979ءکو فخر ایشیا اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر قبر میں اتار دیا۔ ضیاءالحق مردہ بھٹو سے بھی خوفزدہ تھا۔ چنانچہ گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں رات کے اندھیرے میں دفنانے کے باوجود پنجاب رجمنٹ کے ایک سپاہی امیر محمد کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ بھٹو کی قبر میں چونا اور پانی ڈال دیا جائے تاکہ نعش جلدی تحلیل ہوجائے اور ایک ہڈی بھی باقی نہ بچے۔ آج یہی مردہ بھٹو جب اپنی قبر سے مخاطب ہوتا ہے اور جلسے جلوس،ریلیوں میں پیپلز پارٹی کے موجودہ قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری گونج دار آواز میں”جئے بھٹو“ کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو عوام جوش و جذبات میں دیوانے ہوجاتے ہیں اور بے اختیار رقص کرنے لگتے ہیں‘ جئے بھٹو کا نعرہ غریب عوام کی پہچان اور وڈیروں‘ سرمایہ داروں کے اقتدار کی جان ہے‘ اس نعرے میں اتنی قوت توانائی ہے کہ سندھ کے وڈیرے اس نعرے کے بغیر اپنی اسمبلی سیٹوں کو خطرے میں سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران پیپلز پارٹی سے رشتہ توڑنے والے آج بھی رجوع کررہے ہیں۔ بڑے بڑے دعووں اور الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ پیپلز پارٹی سے رشتہ توڑ کر جانے والے آج پھر قطار لگا کر پی پی پی میں شمولیت کے لیے زور لگا رہے ہیں۔ کراچی کے علاقے لیاری سے ایم این اے منتخب ہونے والے سردار نبیل گبول کہتے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم چھورنے کے بعد گزشتہ ایک سال سے پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ رابطے میں تھے اس دوران خود عمران خان نے انہیں تین مرتبہ پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی لیکن انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کو ترجیح دی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک ایم این اے عبدالحکیم بلوچ نے تو ن لیگ کی سیٹ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پی پی کے ٹکٹ پر کراچی کے علاقے ملیر سے یہ سیٹ پھر جیت لی‘ اب تک جام مدد علی‘ امتیاز شیخ‘ فیصل صالح حیات‘ نادراکمل لغاری اورعرفان اللہ مروت سمیت کئی پارٹی چھوڑ کر جانے والے واپس بلاول ہاو¿س میں حاضری اور”زرداری باپ بیٹے“ سے ملاقات کرکے مشرف بہ پیپلز پارٹی ہوچکے ہیں‘ دیہی سندھ کی سیاست پیروں اور پیپلز پارٹی کے گرد گھومتی ہے۔ اس محاذ پر تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں ناکام ہوچکی ہیں۔ پیر صاحب پگارا کی سربراہی میں فنکشنل مسلم لیگ کہیں کہیں فعال ہے۔ شنید ہے کہ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان جلد ہی پیر پگارا سے ملاقات کرنے والے ہیں‘ ان کے قریبی ساتھی شاہ محمود قریشی تھر پارکر ڈویژن کے دورے اور جلسے کررہے ہیں۔ سندھ کی نوجوان قیادت حلیم عادل شیخ ان کے ہمراہ ہیں۔ تھر پارکر میں ان کے مریدوں کا وسیع حلقہ موجود ہے۔ 2018ءکے عام انتخابات میں پی ٹی آئی یہاں سے سیٹیں نکالنے کی کوشش کرے گی۔ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کا حلقہ بھی پی ٹی آئی کا ساتھ دے رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی اپنے دورے کے دوران ہندوو¿ں کے شو مندر بھی گئے ہیں۔ اس علاقے میں ہندو آبادی کی کثیر تعداد موجود ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے کہا کہ پیپلز پارٹی چھوڑنے والوں کی دوبارہ شمولیت سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ سب چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ عوام ان کی اصلیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ سندھ میں اب عمران خان کا دور شروع ہونے والا ہے۔ پی ٹی آئی کے اس دعوے سے قطع نظر بلاول بھٹو زرداری پارٹی کی تنظیم سازی پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔ دیہی سندھ میں تعلقہ ٹاو¿ن اور ضلع کی سطح پر کارکنوں سے رابطہ کرکے انہیں پارٹی کے ساتھ شامل رکھنے کی جدوجہد کی جارہی ہے۔ دیہی سندھ کی سیاست میں ایس ایچ او‘ مختار کار اور پٹواری کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ سندھ حکومت کے دست و بازو ان اداروں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی میں ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی فارمولے پر عمل ہورہا ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کی نظریں مردم شماری اور خانہ شماری پر بھی ہیں۔ خدشہ ہے کہ نئی حلقہ بندیوں سے شہری علاقوں کی نشستیں بڑھ گئیں یا دیہی سندھ میں پی ٹی آئی فنکشنل لیگ اور این پی پی وغیرہ نے موثر سیاسی اتحاد بنالیا تو مردم شماری کے تنائج پیپلز پارٹی کے خلاف بھی آسکتے ہیں جس کی وجہ سے سندھ میں اقتدار کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ پنجاب‘ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان پہلے ہی ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ سندھ کی انتخابی سیاست میں آصف زرداری کے سابق دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا‘ سابق اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور ان کے ایم پی اے بیٹے حسنین مرزا کا وزن کسی نئے سیاسی اتحاد میں ڈال دیا گیا تو پیپلز پارٹی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے‘ سردار نبیل گبول نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد ذوالفقار مرزا پر الزام لگایا ہے کہ لیاری گینگ وار انہوں نے بنائی تھی اور عذیر بلوچ کو آگے لانے میں ذوالفقار مرزا کا بڑا اہم کردار تھا جبکہ نبیل گبول خود ایک دور میں لیاری کے سابق ڈان عبدالرحمان بلوچ المعروف رحمان ڈکیت کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے اور اس کردار کو طاقتور بنانے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خوف میں مبتلا صدر ضیاءالحق مرحوم کے 11سالہ دور اقتدار نے سیاست‘ جرائم اور کرپشن کو بہت نزدیک کرکے”مافیاوں“ میں تبدیل کردیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد”افغان جہاد“ اور سوویت یونین سے جنگ کا دور شروع ہوا تو فنڈز کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے لیے ہیروئن اور کلاشنکوف کی سپلائی اور فروخت عام کی گئی۔ ان دنوں ایک امریکی جاسوس چارلی ولسن پاک افغان سرحدی علاقے میں بہت فعال اور متحرک تھا۔ 1979ءسے قبل 65کلو افیم سے ایک کلو ہیروئن تیار ہوتی تھی جرمن کیمسٹوں نے ایسی ترکیب لڑائی کہ چار کلو افیم سے ایک کلو ہیروئن تیار ہونے لگی۔ چارلی ولسن نے اس کی فیکٹریاں پاکستان کے سرحدی علاقے میں لگوادیں۔ اس ہیروئن کی پوری دنیا میں فروخت شروع ہوگئی اور فنڈ برسنے لگا۔ پاکستان کے شہروں‘ دیہاتوں اور دنیا کے دیگر حصوں میں کلاشنکوف بھی بکنے لگی۔ اس راستے سے سوویت یونین سے برسر پیکار مسلح عکسری گروپوں کو فنڈ تو ملنے لگا لیکن حالات خراب سے خراب ہوتے چلے گئے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں تک میں کلاشنکوف کا چلنا عام ہوگیا۔ پاکستان ”دارالسلام“ سے”دارالفساد“ بن گیا۔ قتل و غارت اور ہیروئن نے پر امن پاکستان کو جنگ و فساد کی آماجگاہ بنادیا۔ یہ خوفناک دور 2013ءمیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے پہلے تک جاری رہا۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں پر امن ایجنڈا شروع ہوا۔ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا آغاز ہوا۔ مجرموں کے لیے پھانسی گھاٹ لگ گئے۔ سزائیں شروع ہوئیں۔ جنرل راحیل شریف ریٹائرڈ ہوئے تو مجرموں اور مافیاو¿ں نے پھر سر اٹھانے کی کوشش کی لیکن فوج کے نئے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باوجوہ نے بھی آہنی ہاتھ استعمال کیا۔ آپریشن”ردالفساد“ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دہشت گردوں نے درگاہ لعل شہباز قلندر سمیت لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ وغیرہ میں وقفہ سے سر اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن ریاستی فورسز نے ان کا قلع قمع کرنے میں پھرتی دکھائی ہے۔ دور تبدیل ہوا ہے کہ”زرداری خاندان“ میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔ آصف علی زرداری کی دونوں بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے مرحوم غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کی شدید مخالفت اور مذمت کی ہے۔
عرفان مروت کا کئی مقدمات اور واقعات میں نام آتا ہے سیاست‘ جرائم اور کرپشن نے پاکستان کو”دارالفساد“ بنادیا تھا۔ پاک افواج نے ”ردالفساد“ شروع کرکے حالات بہتر ہونے کی امید پیدا کی ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


آپریشن ردالفساد کے نئے مرحلے کی تیاریاں مکمل، ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اہم فیصلے وجود - هفته 08 جولائی 2017

ملک بھر میں آپریشن ردالفساد کے نئے مرحلے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔اس سلسلے میں فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملک بھر میں دورے بھی شروع کردیے ہیں۔انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق اس حوالے سے فوجی سربراہ کا دورۂ کراچی اور ایپکس کمیٹی کے اجلاس میںشرکت انتہائی اہم تھی۔ جس می...

آپریشن ردالفساد کے نئے مرحلے کی تیاریاں مکمل، ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اہم فیصلے

مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر