وجود

... loading ...

وجود

لفظ کہاں سے آئے

اتوار 26 فروری 2017 لفظ کہاں سے آئے

کبھی آپ نے سوچا ہے انسان نے بولنا کیسے شروع کیا؟ کس طرح انسان نے اپنے گلے سے نکلنے والی تمام آوازوں کو معنی دیئے؟ کس طرح لفظ گھڑے گئے؟ پھر کس طرح ان الفاظ کو ایک لڑی میں پرو کر، سلیقے سے سجاکر جملے بنائے گئے؟
انسان نے آج سے ہزاروں برس پہلے بولنا شروع کیا تو اس کے پاس نہ تو کوئی لفظ تھا، نہ کوئی زبان تھی، نہ کسی خاص لفظ کے خاص معنیٰ تھے۔آغاز میں جب انسان نے بولنا شروع کیا ہوگا تو آج جیسے الفاظ نہیں نکلے ہوں گے،کچھ اوٹ پٹانگ سی آوازیں نکلی ہوں گی۔ بعد میں کچھ خاص الفاظ کے خاص معنیٰ طے ہوتے گئے،مختلف علاقوں میں انسان نے مختلف زبانیں تیار کر لیں۔ایسا کیسے ہوا ہو گا، اس کی مثال پہ آتے ہیں۔ آج ان کی باتوں پر ہنسی آتی ہے۔ مگر، غور سے سوچئے تو زبان کی ترقی کے ابتدائی دور میں ایسا ہی ہوا ہوگا۔آج بچے پیدا ہونے کے کچھ سالوں کے اندر اندر نہ صرف بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ بلکہ گرامرک کچھ قواعد بھی بغیر پڑھے ہی انہیں یاد ہو جاتے ہیں۔ جیسے کسی واحدکی جمع بنانا۔ مثا ل کے طور پر اردو میںانڈہ کی جمع انڈے ہوگی ،جیسے انگریزی میں ایک کتا ہے تو dog کہیں گے۔بہت کتے ہوں گے تو dogs کہیں گے، یعنی اردو میں صرف یے جوڑنے سے اور انگریزی میں صرف s جوڑ کر جمع بنانے کا ہنر بچوں کو تین چار برس کی عمر میں ہی آ جاتا ہے جبکہ اس وقت تک انہیں گرامر نہیں پڑھائی گئی ہوتی۔اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن کربی نے زبانوں کی پیدائش کے بارے میں تحقیق کی ہے۔ کربی کا کہنا ہے کہ انسان کی زبان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ ہم اس کے ذریعہ ان بہت سی چیزوں کے بارے میں بات کر لیتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے پہلے کبھی سنا بھی نہیں ہوتا۔اب انگریزی کو ہی لے لیجئے۔انگریزی بولنے والے زیادہ تر لوگ تیس ہزار الفاظ ہی جانتے ہیں۔ اتنے چھوٹے دماغی ڈکشنری کی مدد سے انہیں اپنی زندگی میں تقریباً2 ٹریلین خیالوں کو الفاظ میں بیان کرنا ہوتا ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک انسان دن بھر میں اوسطاً 20 ہزار لفظ بولتا ہے۔اب اسے معلوم ہیں صرف تیس ہزار الفاظ جن میں سے بیس ہزار وہ روز انہ استعمال کرتا ہے۔ الفاظ کے اسی ذخیرے سے اسے ساری زندگی کام چلانا ہوتا ہے۔اس کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کو مختلف طریقے سے پرو کر روز نئے جملے گھڑتاہے تاکہ نئے خیالات کو بیان کیا جا سکے۔ ہو سکتا ہے کہ جب بھی آپ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولیں تو ہر بار پرانے الفاظ کی مدد سے نئی بات کہیں۔ اب دیکھئے ناں! انٹرنیٹ پر ایک دم نئی طرح کی زبان بولی جا رہی ہے تاہم الفاظ میں نیا پن نہیں صرف ان کے پرونے کا طریقہ بدل گیا ہے۔ سائمن کربی کا کہنا ہے کہ ہر لفظ کے اپنے معنی ہوتے ہیں، چھوٹے چھوٹے ان الفاظ کو ایک خاص طور پر پرو کر کہنے پر اس کے بڑے معنیٰ نکلتے ہیں، تمام زبانیں ایسے ہی تیار ہوئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر کسی بھی زبان کے جو اصول ہم آج جانتے ہیں، وہ بنے تو کس طرح؟ کس نے طے کئے وہ قواعد؟ ہر زبان میں گرامر کے قواعد الگ الگ ہوتے ہیں۔تو وہ ہمیں جینیاتی طور پر تو ملتے نہیں،پھر بچے اتنی جلدی کسی زبان کے بنیادی اصول کس طرح سیکھ لیتے ہیں؟اسے سمجھنے کے لیے سائمن کربی نے کچھ طالب علموں کو ایک نئی زبان سیکھنے کی تجویز دی، انہیں کہا گیا کہ اسکے لفظ اوٹ پٹانگ ہوں گے انہی سے نئی زبان بنانی ہے۔سائمن کی ٹیم نے کچھ اوٹ پٹانگ خاکے بنائے ،پھر طالب علموں نے ان کے عجیب سے نام رکھ دیئے۔ طالب علموں کے ایک بیچ سے آغاز کرتے ہوئے سائمن اور ان کی ٹیم نے کچھ دنوں بعد طالب علموں کی دوسری ٹیم بلائی، پھر اگلا بیچ آیا اور اس طرح ہر جانے والی ٹیم، نئے طالب علموں کو کچھ نئے الفاظ، ان سے بننے والے جملے بتاتے ہوئے گئی۔ سائمن یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند ماہ میں اوٹ پٹانگ الفاظ کی ایک نئی زبان تیار ہو گئی تھی۔سائمن کے مطابق اگر ہم کچھ خاص آوازوں کو الفاظ کا روپ دے دیں۔پھر ان الفاظ کے کچھ معنی طے کر دیں تو ان الفاظ سے نئے اورکئی طرح کے جملے گھڑے جا سکتے ہیں۔یہی انسان کی ’’آواز ‘‘کے’’ زبان‘‘ میں تبدیل ہونے کا ذریعہ رہا ہو گا۔ جب ہزاروں سال پہلے انسان نے آواز کو الفاظ میں ڈھالنا شروع کیا پھر نسل در نسل لفظ بنتے گئے۔ ان الفاظ سے طرح طرح کے جملوں بنتے گئے۔ آغاز میں لوگوں کو وہ آوازیں، وہ لفظ اوٹ پٹانگ ہی لگے ہوں گے مگر جب ان کے معنیٰ طے ہو گئے تو ہر آواز لفظ میں اور بہت سے الفاظ مل کر جملے میں تبدیل ہو گئے اور اس طرح انسان باتیں کرنے لگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر