... loading ...
کبھی آپ نے سوچا ہے انسان نے بولنا کیسے شروع کیا؟ کس طرح انسان نے اپنے گلے سے نکلنے والی تمام آوازوں کو معنی دیئے؟ کس طرح لفظ گھڑے گئے؟ پھر کس طرح ان الفاظ کو ایک لڑی میں پرو کر، سلیقے سے سجاکر جملے بنائے گئے؟
انسان نے آج سے ہزاروں برس پہلے بولنا شروع کیا تو اس کے پاس نہ تو کوئی لفظ تھا، نہ کوئی زبان تھی، نہ کسی خاص لفظ کے خاص معنیٰ تھے۔آغاز میں جب انسان نے بولنا شروع کیا ہوگا تو آج جیسے الفاظ نہیں نکلے ہوں گے،کچھ اوٹ پٹانگ سی آوازیں نکلی ہوں گی۔ بعد میں کچھ خاص الفاظ کے خاص معنیٰ طے ہوتے گئے،مختلف علاقوں میں انسان نے مختلف زبانیں تیار کر لیں۔ایسا کیسے ہوا ہو گا، اس کی مثال پہ آتے ہیں۔ آج ان کی باتوں پر ہنسی آتی ہے۔ مگر، غور سے سوچئے تو زبان کی ترقی کے ابتدائی دور میں ایسا ہی ہوا ہوگا۔آج بچے پیدا ہونے کے کچھ سالوں کے اندر اندر نہ صرف بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ بلکہ گرامرک کچھ قواعد بھی بغیر پڑھے ہی انہیں یاد ہو جاتے ہیں۔ جیسے کسی واحدکی جمع بنانا۔ مثا ل کے طور پر اردو میںانڈہ کی جمع انڈے ہوگی ،جیسے انگریزی میں ایک کتا ہے تو dog کہیں گے۔بہت کتے ہوں گے تو dogs کہیں گے، یعنی اردو میں صرف یے جوڑنے سے اور انگریزی میں صرف s جوڑ کر جمع بنانے کا ہنر بچوں کو تین چار برس کی عمر میں ہی آ جاتا ہے جبکہ اس وقت تک انہیں گرامر نہیں پڑھائی گئی ہوتی۔اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن کربی نے زبانوں کی پیدائش کے بارے میں تحقیق کی ہے۔ کربی کا کہنا ہے کہ انسان کی زبان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ ہم اس کے ذریعہ ان بہت سی چیزوں کے بارے میں بات کر لیتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے پہلے کبھی سنا بھی نہیں ہوتا۔اب انگریزی کو ہی لے لیجئے۔انگریزی بولنے والے زیادہ تر لوگ تیس ہزار الفاظ ہی جانتے ہیں۔ اتنے چھوٹے دماغی ڈکشنری کی مدد سے انہیں اپنی زندگی میں تقریباً2 ٹریلین خیالوں کو الفاظ میں بیان کرنا ہوتا ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک انسان دن بھر میں اوسطاً 20 ہزار لفظ بولتا ہے۔اب اسے معلوم ہیں صرف تیس ہزار الفاظ جن میں سے بیس ہزار وہ روز انہ استعمال کرتا ہے۔ الفاظ کے اسی ذخیرے سے اسے ساری زندگی کام چلانا ہوتا ہے۔اس کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کو مختلف طریقے سے پرو کر روز نئے جملے گھڑتاہے تاکہ نئے خیالات کو بیان کیا جا سکے۔ ہو سکتا ہے کہ جب بھی آپ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولیں تو ہر بار پرانے الفاظ کی مدد سے نئی بات کہیں۔ اب دیکھئے ناں! انٹرنیٹ پر ایک دم نئی طرح کی زبان بولی جا رہی ہے تاہم الفاظ میں نیا پن نہیں صرف ان کے پرونے کا طریقہ بدل گیا ہے۔ سائمن کربی کا کہنا ہے کہ ہر لفظ کے اپنے معنی ہوتے ہیں، چھوٹے چھوٹے ان الفاظ کو ایک خاص طور پر پرو کر کہنے پر اس کے بڑے معنیٰ نکلتے ہیں، تمام زبانیں ایسے ہی تیار ہوئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر کسی بھی زبان کے جو اصول ہم آج جانتے ہیں، وہ بنے تو کس طرح؟ کس نے طے کئے وہ قواعد؟ ہر زبان میں گرامر کے قواعد الگ الگ ہوتے ہیں۔تو وہ ہمیں جینیاتی طور پر تو ملتے نہیں،پھر بچے اتنی جلدی کسی زبان کے بنیادی اصول کس طرح سیکھ لیتے ہیں؟اسے سمجھنے کے لیے سائمن کربی نے کچھ طالب علموں کو ایک نئی زبان سیکھنے کی تجویز دی، انہیں کہا گیا کہ اسکے لفظ اوٹ پٹانگ ہوں گے انہی سے نئی زبان بنانی ہے۔سائمن کی ٹیم نے کچھ اوٹ پٹانگ خاکے بنائے ،پھر طالب علموں نے ان کے عجیب سے نام رکھ دیئے۔ طالب علموں کے ایک بیچ سے آغاز کرتے ہوئے سائمن اور ان کی ٹیم نے کچھ دنوں بعد طالب علموں کی دوسری ٹیم بلائی، پھر اگلا بیچ آیا اور اس طرح ہر جانے والی ٹیم، نئے طالب علموں کو کچھ نئے الفاظ، ان سے بننے والے جملے بتاتے ہوئے گئی۔ سائمن یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند ماہ میں اوٹ پٹانگ الفاظ کی ایک نئی زبان تیار ہو گئی تھی۔سائمن کے مطابق اگر ہم کچھ خاص آوازوں کو الفاظ کا روپ دے دیں۔پھر ان الفاظ کے کچھ معنی طے کر دیں تو ان الفاظ سے نئے اورکئی طرح کے جملے گھڑے جا سکتے ہیں۔یہی انسان کی ’’آواز ‘‘کے’’ زبان‘‘ میں تبدیل ہونے کا ذریعہ رہا ہو گا۔ جب ہزاروں سال پہلے انسان نے آواز کو الفاظ میں ڈھالنا شروع کیا پھر نسل در نسل لفظ بنتے گئے۔ ان الفاظ سے طرح طرح کے جملوں بنتے گئے۔ آغاز میں لوگوں کو وہ آوازیں، وہ لفظ اوٹ پٹانگ ہی لگے ہوں گے مگر جب ان کے معنیٰ طے ہو گئے تو ہر آواز لفظ میں اور بہت سے الفاظ مل کر جملے میں تبدیل ہو گئے اور اس طرح انسان باتیں کرنے لگا۔