... loading ...
اب اورجنازے اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے ہم میں ۔کشمیر گزشتہ دو سو برس میں کئی بار جلا،اس کے گام و شہرکو کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا ۔اس کی عزتیں لوٹی گئیں۔ اس کے بزرگوں کو بے عزت کیا گیا ۔اس کی بیٹیاں لا پتہ کر دی گئیں ۔اس کی اکثریت کے جذبات کو بوٹوں تلے روندا گیا ۔اس کی اقلیت کو وطن سے بے وطن اور گھر سے بے گھر کر دیا گیا ۔اس کے جنگلات میں نایاب خوشبوداردرختوں کوکاٹ کر ہندوستان کی تمام صاحب حشمت گھروں کو معطر کیا گیا ۔اس کے پانیوں سے ڈیم تعمیر کر کے ہندوستان کے لاکھوں گھروں کو روشن کیا گیا مگر خود اس کا گھر ہمیشہ تاریک رہا ۔اس کا نایاب نیلم دنیا بھر میں نیلام ہوا مگر بھکاری سمجھ کر چند ٹکے اور سکے ہی اس کے کٹوری میںپھینکے گئے ۔سفید’’ شیروانی میں ملبوس اسمگلروں ‘‘کے ذریعے اس کے جنگلات کی ناپید جڑی بوٹیوں کو تلا ش و تحقیق کے نام پر چوس کرجب مغرب میں دادو تحسین اور کروڑوں ڈالر حاصل کئے گئے تو اس کے مزدور کی مزدری بھی بڑے سیٹھ صاحب کھا گئے اور تو اور ایک سابق وزیر اعلیٰ نے چند کروڑ روپیوں کے خاطر اس کے دریاؤں اور نہروں میں کھدائی کا ٹھیکا بھی دلی کے ایک مہاجن کو دیکر چار لاکھ مزدوروں کے پیٹ پر لات مارنے کی شرمناک کوشش کی۔ خدا بھلا کرے جموں کی ہائی کورٹ جسٹس اور وہاں کی ہندو برادری کا جنہوں نے سازش کا بروقت توڑ کر کے اس پر پابندی لگانے میں کامیابی حاصل کی جبکہ ایک کشمیری مسلمان جج نے مزدوروں کوآج ،کل یا پرسوں کے ’’لفظوں کے ہیرپھیر ‘‘ میں تب تک پریشان رکھا جب تک جموں کورٹ کے حکم نامے کی کاپی جناب کے میز پر نہیں پہنچائی گئی ۔
کشمیر کے نباتات ، جمادات و جمالات پر ہاتھ صاف کیا جا رہا ہے اور خود کشمیری باشندگان کو بھکاریوں کی راہ پر ’’غیروں اور اپنوں‘‘نے ڈال دیا ہے حتیٰ کہ اس کی عزت و آبرو اور جان و مال تک کو خطے کی بڑی طاقتوں نے اپنے لیے حلال کر رکھا ہے ۔یہ سب ہم سہہ رہے اور شاید مستقبل میں بھی سہنے کے لیے تیار ہو جاتے مگر جس ’’مسئلہ‘‘نے یہاں کے دانشمندوں اور دانشوروں کو بے چینی اور اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے وہ ہے ہماری ’’جاری نسل کشی‘‘۔جو انتہائی غیر محسوس طریقے پر ہمیں اندر ہی اندر ختم اور بربادکرتی جا رہی ہے ۔تین ایٹمی قوتوں میں گھری ایک کمزور اور مظلوم قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ان کا قصور کیا ہے ؟ان کے بچوں سے لیکر اسی سال تک کے بوڑھوں کو کس جرم کی سزا میں قتل کیا جارہا ہے۔سکھوں کے قبضے سے نجات کے بعدتقسیم برصغیر کے وقت1947ء کی ہری سنگھ کے قبضے والی ریاست میں خون کی ندیاں بہا دی گئیں جس کا اثر اب تک پورے جموں خطے میں صاف نظر آتا ہے کہ ضلع جموں ،ادھم پوراورکٹھوعہ میں اکثریتی فرقہ اقلیت میں تبدیل ہوگیا اوراس عددی تبدیلی نے خطے کے سیاسی اور مذہبی شناخت تک کو متاثر کرکے خطے کے خدوخال ہی متاثر کر دیئے۔پھر وقفے وقفے سے غیر محسوس انداز میں جموں میں غیر ریاستی باشندوں کی رہائش سے لیکر اب مشرقی پاکستان کے مہاجرین کے لیے ’’ ڈوموسائلِ اسناد‘‘تک کے شرمناک ظالمانہ مراحل نے دلی کے ساتھ ساتھ کشمیری ہندنواز حکمران طبقے تک سب کو ننگا کردیا ہے اور آزادی پسند قیادت کے اس دعویٰ کو تقویت فراہم کی ہے کہ دلی اور ان کے کشمیری ہمنوا ریاست کے سیاسی، مذہبی اور جغرافیائی شناخت کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت کے خواب کی تکمیل چاہتے ہیں ۔
1987ء میںجمہوریت اور سیاست سے مایوس سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں نے ’’عسکری جدوجہد‘‘کا فیصلہ کر کے آزاد کشمیر کا رخ کیا ۔وہاں سے ہتھیاروں کے علاوہ ’’تربیت یافتہ نوجوان مجاہدین‘‘کی بڑی تعداد کشمیر پہنچنی شروع ہو گئی ۔کشمیر عملی طور پر میدان جنگ بن گیا ۔فوج پر حملوں میں ان کا مالی اور جانی نقصان ہونے لگا اور اس کے ردعمل میں جو قیامت کشمیریوں پر ڈھائی گئی وہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق کچھ اس طرح ہے ۔
گمشدہ افرادتقریباََ آٹھ ہزار سے بھی زیادہ ہیں،مقتولین کی تعداد:94610،حراستی ہلاکتیں 7078، بیوائیں: 22831، یتامیٰ: 107603، گرفتاری کے بعد تشدد کے شکار: 139612، عصمت ریزی کی شکار خواتین: 10828، تعمیرات جو مکمل طور تباہ ہوئیں: 107740۔ نقصانات اس سے کئی گنا زیادہ ہیں مگر یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو انٹرنیٹ پر صرف ’’میڈیا رپورٹوں‘‘ سے حاصل کر کے جمع کی گئی ہیں۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے مالی جانی نقصانات کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں البتہ مظفر آباد کی ایک جواں سال قلمکار حفصہ مسعودی نے ذاتی کوششوں سے 1990ء سے لیکر 2002ء تک شہداء اور مجروحین کی تعداد جمع کی ہیں جن کے مطابق شہداء کی تعداد1667اور مجروحین کی تعداد 5829 ہیں۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ آر پار کشمیر میں شہداء کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ کم ہے البتہ اگر لاپتہ اور گمنام قبروں میں دفن افراد کو اس میںشامل کیا جائے تو یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔
اعدادو شمار کے بعد آپ خطے میں 1947ء سے اب تک کی ہلاکتوں کا ایک پہلو اور بھی دیکھئے کہ مقتولین کی نوے فیصد سے بھی زیادہ تعداد بیس سے لیکر چالیس کی عمر والے نوجوانوں کی ہے گویا اس کا اثر ہم پر صرف گزشتہ ستر برس میں اس قدر برا پڑا ہے کہ ہم نے پانچ نہیں کم سے کم پندرہ لاکھ انسانوں کو کھو دیا ہے جو ہماری قومی آبادی کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے ۔ دلی اور پاکستان کے شدید سیاسی اختلافات میں کشمیری قوم بری طرح پھنس چکی ہے یہ ان سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرنابھی چاہیں تو بھی الگ نہیں کر سکتے ہیں ۔دو قومی نظریہ کے پس منظر میں لگے زخم ابھی تک ہرے بھرے ہیں اور ان پر مرہم رکھنے کی تمام تر کوششیں رائیگاں جاتی ہیں ۔جب بھی سیاسی اختلافات کے پس منظر میں دو ممالک کے بیچ ماحول خراب ہو جاتا ہے اور بندوقوں کے دھانے کھلتے ہیں تو اس کا شکار بھی دونوں جانب رہنے والے کشمیری ہی بنتے ہیں ۔ہر سیز فائر کے بعد جب بھی سرحدوں پر جنگ چھڑتی ہے تو کشمیری بے موت مارے جاتے ہیں ۔ایک طرف وادی کشمیر میں موت کا رقص جاری ہے تو وہی دوسری جانب سرحدوں پر رہنے والے جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر کے انسان خوف و دہشت کے ماحول میں گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور کئے جا چکے ہیں ۔
عسکریت کے آغاز کے ساتھ ہی جہاں دلی والوں کو کشمیریوں کو مارنے کا کھلا لائسنس فراہم ہو چکا ہے، وہی ’’نامعلوم بندوق‘‘نے ہمارے ہزاروں چراغ بھی گل کر دئیے ۔ایک طرف سرحدی جھڑپوں اورگولہ باری میں ہم ہی مارے جاتے ہیں ،وہیں دوسری طرف وادی کشمیر سے لیکر کشتواڑ اور پونچھ، راجوری تک ہم ہی نشانے پر ہیں ،جہاں ہم غیروں کے ہاتھوں نہیں مارے جاتے ، وہاں ہم مختلف ناموں پرخود ایک دوسرے کو ہی مارتے ہیں ۔دلی کی بے رحمی اور قساوت قلبی عیاں ہیں ۔ان کے دلوں میں ہمارے لیے نرمی و شفقت موجود نہیںہے ۔’’آنتک واد اور دہشت گردی‘‘ کے نام پر ہمیں جانوروں کی طرح مارنا ان کے لیے باعث فخر بن چکا ہے حالانکہ اب ہم میں اور جنازے اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے۔ جاری نسل کشی نے ہماری ماؤں ،بہنوں اور بزرگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔کشمیری اس ظلم میں یک طرفہ پسے جا رہے ہیں ۔جرم ان کا صرف یہ ہے کہ یہ اپنا وہ حق مانگتے ہیں جو دنیا کے تمام مذاہب و ملل اور نظریات میں مسلمہ اور تسلیم شدہ ہے ۔بد قسمتی سے جہاں کشمیری علاقائی طاقتوں کی قہر سامانیوں سے مظلوم ہے وہیں علاقائی طاقتیں اپنے اختلافات اور دشمنیوں کا بدلہ بھی انہیں تختہ مشق بنا کر لیتے ہیں ۔
رہے دلی والے، یہ خدا جانے کس مٹی کے بنے ہیں جو کشمیر کو ایک سانس میں ’’اٹوٹ انگ‘‘بھی قرار دیتے ہیں اور دوسرے ہی سانس میں ان کے ساتھ ’’مفتوحین‘‘جیسا سلوک بھی کرتے ہیں ۔جنگ بندی کے لیے دلی والے تیار نہیں ہیں کہ کہیں دلی کی ناک نہ کٹ جائے۔رہے کشمیری۔۔۔ انھوں نے جب جنگ بندی کی تو دلی نے اس کو آگے بڑھانے کے لیے موافق ماحول فراہم نہیں کیا ۔جنگ گزشتہ اٹھائیس برس سے جاری ہے اور اس جنگ میں یک طرفہ طورپر کشمیری ہی ایندھن بنتے جا رہے ہیں ۔بین الاقوامی برادری کو کشمیر سے اس لیے دلچسپی نہیں ہے کہ کشمیر کوئی عراق، کویت ،قطر،دبئی یا مشرقی تیمور نہیں ہے ۔جہاں انہیں پنجے گاڑھتے ہی تیل کوڑیوں کے دام میں مل جاتالہٰذا انھوں نے کشمیر کو سالانہ ،ششماہی،سماہی ،پندرہ روزہ یا پاکستان کی طرح ہفتہ وار ’’بریفنگ یا بیانات ‘‘تک محدود کردیا ہے ۔رہا عالم اسلام وہ کہیں ہے ہی نہیں ،ان کو امریکا اور برطانیہ نے ’’رفاعی ریاستوں ‘‘میں تبدیل کر کے رکھا ہے ۔ان کی ساری تگ و دو مغربی ممالک کی خوشنودی کے علاوہ بعض تجارتی اوررفاعی کاموں سے آ گے نہیں بڑھتی ہے لہذا ان سے کسی مدد و نصرت یا مداخلت کی امید رکھنا کار عبث ہے۔گھوم پھر کے معاملہ پھر کشمیر میں آکرہی اٹک جاتا ہے ۔
کشمیری لیڈر شپ اور عوام منقسم ہے ۔جموں اورلداخ مکمل طور پرہم سے الگ ہیں، سوائے جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں کے ۔آزاد کشمیر سے لیکر وادی کشمیر تک مسلمان مختلف طبقوں اور نظریوں میں منقسم ہیں ۔ہم ایک آواز میں ایک لائحہ عمل کے تحت آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کشمیر کا کیس کبھی خالص مذہبی ، خالص سیاسی اور خالص انسانی نظر آتا ہے مگر کبھی کبھار نظریاتی تصادموں کا میدان بھی ۔کشمیر میں جاری نسل کشی کا اگر چہ ہر شخص کو بخوبی ادراک ہے مگراس کے لیے یک جاں ہو کر اس کے روکنے پر فریقین کو مجبور کرنے کے لیے جس عزم و ہمت کی ضرورت ہے اس کا دور دور تک کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے ۔ کشمیری اگر اسی طرح مرتے اور کٹتے رہے تو اس کا اثر ہمارے اوپر مستقبل بعید نہیں قریب میں پڑے گا ۔اگر بالفرض پاکستان اور ہندوستان اسے روکنے میں ناکام ہو جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ اٹھائیس برس میں وہ ناکام رہے تو کیا کشمیری اس ’’اسٹیٹس کو‘‘کو مزید برداشت کر پائیں گے ۔اگر ہمارا نسلی صفایا اسی طرح جاری رہا اور ہمارے ادھ کھلے پھول اسی طرح کچل دئیے گئے تو کیاہم آزادی انسانوں کے برعکس نباتا ت و جمادات کے لیے مانگ رہے ہیں ۔نئی دہلی کے وزارت عظمیٰ کے دفتر میں براجمان ’’سنگھی برادران‘‘ کی ہمدردی اور انسانیت نوازی ہم نے کھل کر 2016ء میں دیکھی ہے کہ کشمیریوں کے لیے چاند لانے کی باتیں کرنے والے ’’سنگدل باتونی‘‘سیاستدان ’’پیلٹ اور پاواگنوں‘‘پر پابندی کے وعدے کے باوجود بھی عمل نہیں کر سکے۔
ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ دلی والے ہمیں کسی بھی طور کوئی نئی رعایت دیں گے۔برسراقتدار طبقے کی دریا دلی کا عالم یہ ہے کہ گجرات اور مظفر نگر کی سڑکوںاور گلی کوچوں میں ان کے ناموں کی دھوم ہے لہذاوہ کشمیری مسلمان نسل کو بچانے کے لیے کوئی اقدام کیوں کریں گے؟ ایک صورت باقی رہتی ہے کہ خود کشمیر کی مخلص آزادی پسند قیادت اس’’نسل کشی‘‘کو روکنے کے لیے کوئی نیا لائحہ عمل سامنے لائیں۔ جس کو دیکھ کر دلی والے بے بس ہو کر ماننے پر مجبور ہو جائیں ۔دلی والوں نے فی الحال سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ کشمیری عسکری اور سیاسی قیادت کا اسٹینڈ بھی متوازن اور واضح ہے اس لیے کہ جن نقاط پر 2010ء میں پارلیمانی کمیٹی نے سفارشات پیش کی تھیں ان پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔2016ء میں قیادت نے جب ہندوستان کو 2010ء کے وعدوں کے ایفا کی کہانی یاد دلائی تو دلی والے سٹپٹا گئے اور انھیں یاد آیا کہ ہم ہی باربار وعدہ خلافی کے مرتکب ہو تے ہیں ۔پنجاب اور یوپی کے انتخابات کے بعد 2017ء میں سیاسی پیش رفت کے امکانات روشن ہیں مگر ان کے ماحول بنانے کے لیے قیادت کو آج ہی سے کام شروع کرنا ہوگا ۔دلی کے لیے کشمیر میں نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی ایک مبہم اور مجمل قسم کا دباؤ پیدا ہوچکا ہے اس سے قیادت کو بھر پور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ایک ہماری نسل کشی کی روک تھام ہو، دوم مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت ہو ۔
٭٭
کشمیری پاکستانیوں سے سینئر پاکستانی ہیں کہ پاکستان کا قیام14 اگست 1947 کو وجود میں آیا اس سے قبل تمام لوگ ہندوستان کے شہری تھے جو ہندوستان سے ہجرت کر کے جب پاکستان میں داخل ہوئے وہ اس وقت سے پاکستانی کہلائے لیکن کشمیریوں نے 13 جولائی1947کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے ریا...
اکتوبر2015ء میں جب کشمیر میں تاریخی معرکے لڑنے والے ابوالقاسم عبدالرحمن شہادت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز ہوئے توابوالقاسم شہیدکے قافلہ جہاد سے متاثر برہان مظفروانی نامی ایک چمکتا دمکتاستارہ جہادی افق پرنمودارہوا۔اس نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔ برہان وانی ایک تو با...
امریکا نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے دورۂ امریکا کے موقع پر بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے مسلح رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو ’خصوصی طورپر نامزد عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا ہے۔بھارت نے جہاںامریکا کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے، وہیں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ...
پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک آج ہر جگہ ایک ہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ آخر فوج اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے’’ہتھیار بندمجاہدین‘‘کو گھیرنے کے بعدکشمیر کی نہتی عوام انہیں بچانے کے لیے اپنی زندگی کیوں داؤ پر لگا دیتی ہے ؟حیرت یہ کہ عوام کچھ عرصے سے تمام تر تنبیہات ...
جس دن اہلِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں اور مظفر وانی شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک ایک نیا جنم لے چکی ہے،عین اُسی دن بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی امریکا یاترا کوپدھاریں گے۔ جہاں اہلِ نظر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں یکسانیت ڈھونڈنے میں مصر...
ایجنٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر یہ دنیا کی اکثر زبانوں میں اس قدر بولا جاتا ہے کہ گویا ہر زبان کا لفظ ہو ۔اس کی وجہ شاید صرف یہ ہے کہ اس لفظ کو ہر شخص بلا کم و کاست اپنے دشمن کے لیے استعمال کرتا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی انسان رہتے ہیں ان کے ارد گرد صرف ان کے دوست ہی نہیں بستے ہیں ب...
فدائین نے رنگروٹہ کے اس فوجی کیمپ پر دھاوا بولا جس میں ایل او سی اور پاکستانی علاقے پر بلااشتعال فائرنگ کی منصوبہ سازی ہوتی تھی ،ذرائع۔درجنوں بھارتی فوجی زخمی۔3فدائین کی شہادت کی بھی اطلاعات ۔بھارتی فوج مظالم سے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کرسکتی ،حریت رہنما ۔۔۔مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی...
میں 16سال7مہینے سے اپنے وطن ،اپنے گا ؤں ،اپنے محلے ،اپنے گھر ،اپنے رشتے ،اپنے دوستوں اور اپنے ہم وطنوں سے دورجوانی کا سفر طے کرکے بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔یہ دوری کتنی تکلیف دہ ہے اس کا بہتر اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں،جو ایسے حالات سے یا تو دوچار ہوئے ہوں یا دوچار ہیں ۔کئ...
8 جولائی 2016ءسے اب تک ہم پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے ،دنیا کے لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس انھیں سنانے کے ذرائع بالکل معدوم ہیں۔خبروں کی ترسیل کے تیز ترین ذرائع دلی کے پاس ہیں۔ سینکڑوں نیوز چینلز کے مالکان اُن کے غلام ہیں۔معروف نیوز ایجنسیاں ان کی مرضی سے چلتی ہیں ۔ا...
28فروری2002ء جب گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے اور بی جے پی ،شیو سینا،بجرنگ دل کے غنڈوں نے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی۔ اورمحتاط اندازے کے مطا بق ایک لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا ۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے...
کالم کے عنوان پر بعض لوگ مسکرانے پر اکتفا کریں گے ،بعض قہقہے بھی لگا سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے اپنی توہین سمجھ کر ،نا زیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے راقم کو ریاست دشمن بھی قرار دے سکتے ہیں۔لیکن میری گزارش ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے کی صرف میں ہی گستاخی نہی...
امام الانبیاء جناب محمد عربی ﷺ کی اپنی اولاد میں صرف بیٹیاں ہی زندہ رہیں بیٹے حضرت ابراہیمؓ کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا۔ بیٹیوں میں سب سے پیاری سیدۃالنساء حضرت فاطمۃالزھرارضی اللہ عنہا تھیں ۔ان کا نکاح آپﷺ نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے کیا۔ان کی اولاد میں حضرت حسن وحضرت حسی...