وجود

... loading ...

وجود

اندھاپن

هفته 18 فروری 2017 اندھاپن

مشہور کہاوت ہے کہ ’’آنکھیں خود کو دیکھنے میں اندھی ہوتی ہیں‘‘۔ افسوس ہمارا معاشرہ بے سمت ہو چکا۔ دوسروں کی غلطیوں کے لیے ہم ’’جج‘‘ اور اپنے جرائم کے بھی ہم ’’وکیل‘‘ بن جاتے ہیں۔دہشت گردی کے مسئلے پر یہ سارے زاویے پوری طرح ہمارے انفرادی ، قومی اور سرکاری رویوں کی وضاحت کرتے ہیں۔بات اس سے بھی کچھ بڑھ کرہے۔
ہمارے حافظے اب ماند پڑتے جاتے ہیں۔ وہ نہ’’ ڈرنے وڑنے ‘‘ والے جنرل(ر) مشرف کے عہد میں ہمیں کہا گیا تھا کہ پالیسیوں میں اُلٹی زقند بھرنے سے کچھ بھی نہ ہوگا۔پھر افغانستان سے لے کر بھارت تک قومی حکمت عملی کا ہر چہرہ بگاڑ دیاگیا۔ یہاں تک کہ حامد کرزئی کو افغانستان کی صدرارت سپرد کرتے ہوئے ہمیں یہ ’’چورن‘‘ بیچا گیا کہ اُن کی پوری زندگی پاکستان میں گزری ہے۔ پھرکابل کے اُس چغہ پوش نے افغانستان کو مکمل بھارت کے حوالے کردیا۔ اور اب وہی افغانستان پاکستان کے اندر جاری دہشت گردی میں بھارت اور ہمارے اپنے ہاتھوں کی جنبش سے اپنے دروبست سنوارنے والے سفاک ’’طالبان‘‘ کے درمیان ایک سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔ لاچاری کا عالم یہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی پر افغان حکومت پاکستان مخالف بیانات دیتی ہے۔پاکستان کو اس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ ذمہ دار ٹہراتی ہے۔ مگر پاکستان اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے تمام ثبوتوں کے باوجود افغانستان پر انگشت نمائی کرنے کے قابل تک نہیں رہا۔ ایک طرف امریکا ہے جو افغانستان کے خیمے میں اونٹ کی طرح گُھسا بیٹھا ہے جس کی بارگاہِ نیاز میں ہماری سیاسی اور عسکری اشرافیہ کی نہ جانے کیوں جبینیں ہمہ وقت جھکی رہتی ہیں۔ اور دوسری طرف بھارت ہے جو امریکا کے ساتھ تعلقات کی گہرائی میں عالمی ، علاقائی اور مقامی سطح پر ایک قائدانہ کردار کی تلاش میں ہے۔پاکستان کے پاس اس میان و درمیان میں کھینچنے کے لیے بہت کم رسیّاں رہ گئی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی رسیّاں بچانے میں کوئی دلچسپی بھی باقی نہیں رہ گئی۔کیونکہ پاکستان میں سیاسی اور عسکری تقسیم کا معاملہ اس قدر خوف ناک ہو چکا ہے کہ سیاسی اشرافیہ، عسکری غلبے سے بچنے کے لیے اپنے حقیقی دشمنوں تک کو نظرانداز کرنے کی ذہنیت پال رہی ہے۔ بھارت اسی نفسیات میں دھماچوکڑی مچاتا ہے۔ افسوس ہماری آنکھیں اپنے عیوب کو دیکھنے میں اندھی ہو چکیں۔
دہشت گردوں نے پانچ دنوں میں ملک کے چاروں صوبوں کو اپنا ہدف بنایا مگر سیاسی اشرافیہ کے پاس الگ الگ صوبوں کے لیے الگ الگ حل ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہم الگ الگ صوبوں کے لیے الگ الگ لاٹھیاں رکھتے ہیں۔ سندھ کو رینجرز کے ہاتھوں ہانکا جائے گا۔ مگر پنجاب میں الگ قواعد لاگو ہوں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال ہوا کہ پنجاب میں جاری دہشت گردی کی لہر پر قابو پانے کے لیے رینجرز کی خدمات کیوں نہیں لی جاتی؟ اُن کا جواب تھا کہ سی ٹی ڈی زبردست کام کررہی ہے۔ اُنہوں نے دہشت گردی کے ذمہ دار چھ لوگوں کو ابھی مار گرایا ہے۔ جی ہاں اس سے مراد’’ پولیس مقابلہ‘‘ ہی ہے۔ جس کے متعلق پاکستان میں عامی کو بھی شک نہیں ہوتا کہ یہ مقابلے نہیں بلکہ تحویل میں رکھے افراد کو کسی مناسب موقع پر گولیاں مارنا ہوتا ہے۔ مگر اس سے قطع نظر اگر یہ بات درست ہے تو پھر جتنے آدمی پنجاب کی سی ٹی ڈی نے مارے ہیں، اُس سے کہیں زیادہ بندے تو یہاں ایک ایس ایس پی راؤ انوار نے کھڑکا دیے ہیں۔راجہ عمر خطاب کا ذکر ابھی موقوف رکھیے۔ کیا اس دلیل پر سندھ میں رینجرز کے کردار کو ختم نہ ہوجانا چاہئے۔ مگر ظاہر ہے کہ ہم اپنے گناہوں کے سب سے بڑے وکیل ہیں۔
دہشت گردی کا عفریت اب بے قابو ہو تا جاتا ہے۔ افغانستان کی سرکاری سرپرستی کے ثبوت اداروں کے پاس موجود ہے۔ ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر افغان سفارت کار وزارت خارجہ کے بجائے جی ایچ کیو طلب کیے جاچکے ہیں۔ مگر اس کے متوازی پاکستانی سیاست کا ایک مکروہ میلان ہے۔ پاکستان کے اندر اس نوع کی سرگرمیوں کو سیاست دان اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ اگر چہ وہ خود بھی یہ کام اپنے طور پر صاف ستھرے اور قابل اعتبار وانحصار طریقے سے کرنے کے لیے راضی بھی نہیںہوتے۔ پھر خلاء میں چیزیں معلق بھی نہیں رہ سکتیں۔ سیاست دانوں کا حال یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے سے عملاً اپنے آپ کو دور کرچکے ہیں۔ اور اس معاملے کی تمام تہہ داریاں وہ فوج کے حوالے کرچکے ہیں۔ پھر ایسا کیوں نہیں ہوگا کہ وہ بھارت اور افغانستان کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں رکھنے پر مُصر نہ ہو۔ دہشت گردی کے تمام ڈانڈے وہیں سے تو جاملتے ہیں۔ سیاسی حکومتیں چاہتی ہیں کہ وہ بھارت کے حوالے سے اب ایک نیا سیاسی بیانیہ تخلیق کریں اور دفاعی نقطۂ نظر کے پُرانے موقف کو پیچھے دھکیل دیں۔اس کے لیے جس شفافیت،فعالیت اور حمایت کی ضرورت ہے وہ کہیں پر موجود ہی نہیں۔ سیاسی حکومتوں کا ماجرا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اپنا آبائی حلقہ سہون شریف ہے جہاں وہ آج تک پچاس بستروں کا ایک اسپتال تک نہیں دے سکے۔ مراد علی شاہ نے سندھ کی باگ دوڑ سنبھالتے ہوئے اپنی شفافیت پر کچھ عرصے اِصرار کیا تھا مگر اب وہ بھی سوالات کے نرغے میں آچکے ہیں۔ یہ کیسی بے حمیتی ہے کہ وزراء اور مشیروں کی سہولتوں پر ابھی وزیراعلیٰ نے بارہ کروڑ روپے پھونکے ہیں۔اُنہوں نے اونچا بولنے کی شوقین ڈپٹی اسپیکر شہلارضا کے گھر کی تزئین وآرائش کے لیے چھیانوے لاکھ تیرہ ہزار روپے دان کر دیے۔ اگر یہی رقم سہون ، بھٹ شاہ اور رانی پورمیں اسپتالوں کی تعمیر پر خرچ کردی جاتی تو پچاس بستروں کے درمیانے درجے کے تین اسپتال وجود میں آجاتے۔دراصل غلط ترجیحات اور بے سمتی نے ہمیں دہشت گردوں سے پہلے ہی مار ڈالا ہے۔
سیاسی حکومتوںکے پاس اپنی بالادستی کے لیے مہذب دنیا کی دلیلیں ہیں مگر اس بالادستی کے لیے مہذب دنیا جس نوع کے سیاست دانوں کی نسل تیار کرتی ہے۔ اُن کے لیے اخلاقیات اور جواب دہی کے جو معیارات رکھتی ہیں ، اُسے پورا کرنے کے لیے یہ نسل تیار ہی نہیں۔ ذرا ان سیاست دانوں کی گفتگو تو ملاحظہ فرمائیں ، اُن کی لیاقت خود ہی ، خود پر ماتم زدہ دکھائی دیتی ہے۔ کوئی قرینہ ، سلیقہ اور طریقہ یہ اختیار کرنے کو تیار ہی نہیں۔ سندھ کے قدرے قرینے کے آئی جی کو اپنی ’’مبینہ ایمانداری‘‘ اب وزیراعلیٰ سندھ کے پاس رہن رکھنی پڑی ہے۔پنجاب کا تھانیدار حمزہ شہبار کی صوابدید تلے دبا رہتا ہے۔ آخر یہاں شرم آتی کسے ہے؟دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پہلے خود کو تولنا ،ٹٹولنا اور پرکھنا پڑے گا۔ مگر آنکھیں خود کو دیکھنے کے لیے اندھی ہوتی ہیں۔کوئی کیسے کسی سے اُمید باندھے؟؟؟
٭٭


متعلقہ خبریں


دہشت گردی کے نتیجے میں عالمی معیشت کو90ارب ڈالرکا دھچکا وجود - اتوار 18 جون 2017

انسٹیٹیوٹ فار اکنامک اینڈ پیس نے گلوبل ٹیررازم انڈکس-17 2016 جاری کردیا جس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2015 میں عالمی معیشت کو دہشت گردی کے وجہ سے 89 ارب 60 کروڑ کا نقصان ہوا ہے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 15 فیصد کم ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق دہشت گردی کی وجہ سے سب سے زیادہ عراق کی...

دہشت گردی کے نتیجے میں عالمی معیشت کو90ارب ڈالرکا دھچکا

کّؤوں کی رہنمائی عبید شاہ - بدھ 22 فروری 2017

کہتے ہیں کہ وقت حادثوں کی پرورش کرتا ہے پھر وہ قطرہ قطرہ وقت کی صراحی سے ٹپکا کرتے ہیں مگر گزشتہ ہفتے تو یوں لگا جیسے اس صراحی میں یکایک کوئی بڑا چھید ہو چلا ہے، حادثات بلکہ سانحات کا پورا ریلہ ہی بہہ نکلا۔ فروری کے دوسرے اور تیسرے ہفتے کے درمیان مجموعی طورپر پاکستان میں قومی ذرا...

کّؤوں کی رہنمائی

دہشت گردی کا طوفان ضلع شکارپور نیا وزیرستان ؟ وجود - منگل 21 فروری 2017

آج سے دو سال قبل سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر ابراہیم جتوئی جب اپنے گھر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھنے لگے تو اس وقت عوام کے رش میں دھماکا ہوگیا۔ خودکش حملہ کرنے والا ماراگیا۔ مگر شکارپور کے عوام کے لیے یہ حیرت کی بات تھی‘ کیونکہ سندھ میں صدیوں سے مذہبی انتہاپسندی کا وجود ہی نہیں رہا۔ سندھ ...

دہشت گردی کا طوفان ضلع شکارپور نیا وزیرستان ؟

دہشت گردی کی نئی لہر مختار عاقل - پیر 20 فروری 2017

پاکستان میں اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ فورسز کے درمیان جنگ خوفناک خون آشامی کے ساتھ لڑی جارہی ہے۔ پاک فوج کے سابق سربراہان جنرل (ر) پرویز اشرف کیانی اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں یہ جنگ یکساں رفتار سے جاری رہی‘ بم دھماکے ‘ خودکش حملے اور تخریب کاری کو عروج ‘سابق صدر مملکت آصف علی ز...

دہشت گردی کی نئی لہر

دہشت گردوں کی سرپرستی،افغان سفارتکار جی ایچ کیو طلب شہلا حیات نقوی - هفته 18 فروری 2017

پاکستان میں خودکش حملوں کا تازہ سلسلہ7 فروری کو بنوں سے شروع ہواتھا۔ پاکستانی حکام کے مطابق کالعدم تحریک طالبان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار کی دہشت گردی کی کارروائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس کے خلاف پاکستان نے افغانستان سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔گزشتہ 15 روز پاکستان پر بہت گراں ...

دہشت گردوں کی سرپرستی،افغان سفارتکار جی ایچ کیو طلب

دہشت گردی کی جنگ اور ہمارا بیانیہ۔۔۔۔۔ رضوان رضی - پیر 09 جنوری 2017

امریکیوں نے پاکستانی معاشرے کے اندر موجود ایسے تمام عناصر کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا جنہوں نے افغانستان میں ان کی شکست میں کسی نہ کسی طور حصہ ڈالا تھا ،طاقت اور خدائی کا غرور اس فہرست کو پھیلاتے پھیلاتے وہاں تک لے گیا کہ اگر کسی پاکستانی نے ڈیورنڈ لائن کے اس طرف امریکیوں کی پٹائی...

دہشت گردی کی جنگ اور ہمارا بیانیہ۔۔۔۔۔

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر