... loading ...
میں نے 1990ء میںعراق کے صدر صدام حسین کے باغیوں سے بھی بات کی تھی ،یہ لوگ صدام حسین کے پاس موجود وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ کے بارے میں بڑی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ صدام حسین کے اہل خانہ کے بارے میں بھی ناقابل یقین کہانیاں بڑے وثوق کے ساتھ سنایاکرتے تھے۔ اس طرح جیسے کہ وہ ان کے عینی شاہد ہوں۔ان لوگوں کی باتیں سن کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتاتھاکہ یہ لوگ من گھڑت کہانیاں سنا رہے ہیں لیکن ان کی ایک خوبی یہ ہوتی تھی کہ ان کی کہانیاں مستقل ایک جیسی ہوتی تھیں یعنی یہ کہانیاں سناتے وقت اس میں ردوبدل بالکل ہی نہیں کرتے تھے اوریہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوںکا بغور جائزہ لئے بغیر ان کہانیوں میں موجود سقم کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتاتھا۔
صدام حسین کے باغیوں کی یہ کہانیاں سننے کے بعد اب مجھے امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مختلف ممالک اور قومیتوں پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات پڑھنے کابھی موقع ملا تو مجھے صدام حسین کے باغیوں کی بیان کردہ من گھڑت کہانیوں اور ڈونلڈ ٹرمپ پرلگائے جانے والے خیالی الزامات میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آیا۔ان دونوںمیں حقائق سے گریز کی ایک ایسی صورتحال موجود ہے جو غورکے بعد ناقابل یقین معلوم ہونے لگتے ہیں ۔صدام حسین کے باغیوں کی بیان کردہ کہانیوں اور ڈونلڈ ٹرمپ پر لگائے گئے الزامات دونوں ہی میں ایک بات مشترک یہ ہے کہ ان دونوں ہی کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔ان دونوں ہی میں بات میں وزن پیدا کرنے اوران کو ناقابل تردید بنانے کیلئے بہت سے ایسے نامور افراد کے نام لئے گئے ہیں کہ عام آدمی تو کجا اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والوں کیلئے بھی جس کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے۔
میں 1980ء میں اپنے اخبار کا نامہ نگار تھا،اس کے بعد روس میں ولادی میر پیوٹن کے برسراقتدار آنے کے ابتدائی برسوں کے دوران بھی میں ماسکو میں اپنے فرائض انجام دے رہاتھا۔اس دوران مجھے بہت سے لوگ ملتے تھے جو کریملن کی اندرونی سیاہ کاریوں کی کہانیاں سنایاکرتے تھے اورحکومت اور سرکاری اہلکاروں کی غلط کاریوں کی تفصیلات بتایاکرتے تھے۔ان کہانیوں میں 1999ء میں رہائشی عمارت پر بمباری سے متعلق اندرونی خبریں بھی شامل ہوتی تھیں۔میرا دل اس وقت ڈوبنے لگتاتھا جب یہ کہانیاں سنانے والے لوگ یہ سمجھنے سے بھی قاصر نظر آتے تھے کہ وہ جوکچھ بتارہے ہیں ان میں بیشتر باتیں ناقابل یقین ہیںاور وہ جن باتوں کے بارے میں یہ ظاہر کررہے ہیں کہ وہ ان کو جانتے ہیں وہ کبھی ہوہی نہیں سکتی تھیںاور اس حوالے سے خود ان کے بیانات اور ان کی باتوں میں واضح تضاد موجود ہے۔یہ لوگ پیوٹن کو ناپسندیدہ اور ظالم ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہتے تھے کہ پیوٹن کی اس سفاکی اور نااہلی سے وہ کیونکر محفوظ رہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر لگائے گئے الزامات میں بھی یہی سقم بدرجہ اتم موجود ہے اوراس سے ظاہرہوتاہے کہ ان پر الزامات مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی ایسی خبریں اوراطلاعات ہیں جن کی کسی بھی طریقے سے تصدیق ممکن نہیں ہے یا جن کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر لگائے گئے الزامات میںکم از کم 7 الزامات ایسے ہیںجن کاکوئی سرپیر نظر نہیں آتا، مثال کے طورپر جون 2016ء میں ایک باوثوق ذریعے کے حوالے سے کہاگیا کہ روسی وزارت خارجہ کے سینئر حکام اور روس کی انٹیلی جنس کاایک اعلیٰ عہدیدار جو کریملن کے اندرونی حلقوں میں بہت فعال بتایاجاتاتھا، نے بتایا کہ روس کی حکومت کم وبیش5سال سے امریکہ کی ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو بر سر اقتدار لانے کی سازشوں میں مصروف تھی۔
روس میں نامہ نگار کی حیثیت سے کام کرنے کاتجربہ رکھنے کی بنیاد پر میں یہ بات اچھی طرح جانتاہوں کہ روس میں اقتدار کی غلام گردشوں میں رسائی رکھنے والا کوئی بھی افسر اس طرح کی بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا کیونکہ اس طرح کے انکشافات کے بعد اس کازندہ رہناممکن نہیںہوسکتااور مختصروقت کے اندر اس کو گولی ماردینے کے احکاما ت جاری ہوسکتے ہیں اور ان احکامات کی سن گن اس تک پہنچنے سے قبل ہی گولی اس کے دماغ کے پار اترسکتی ہے۔یا اس کوطویل عرصے کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جاسکتا ہے۔
یہاںمجھے پھر صدام حسین دور کے وہ لوگ یاد آتے ہیں جو صدام حسین کے پا س موجود وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں تفصیلات کچھ اس طرح بیان کرتے تھے جیسے کہ وہ اس کے عینی شاہد ہوں جبکہ صدام حسین کے دورمیں بھی اندرونی معاملات سے باخبر لوگ کسی دوسرے کو اپنے تجربات بتانے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے اس سے ظاہرہے کہ صدام سے اختلاف رکھنے والے لوگوں تک اس طرح کی اطلاعات پہنچ ہی نہیں سکتی تھیں۔ جہاں تک عام لوگوں میں پھیلی ہوئی کہانیوں کا تعلق ہے تو عام لوگ چونکہ نہ تو ان کی تصدیق کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اس لئے وہ ہر ایسی بات، جس سے ان کے جذبات کوتسکین ملتی ہو،کو درست تسلیم کرکے اسے آگے بڑھانے سے گریز نہیں کرتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اوران کو بدنام کرنے پرکمر بستہ امریکی پریس اور میڈیا بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت میں سامنے آنے والی ہر بات کوکسی تصدیق کے بغیر آگے بڑھانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے ایم آئی 6 کے ایک مبینہ اعلیٰ عہدیدار، جو اخبار کے مطابق جاسوسی کے سرکل میں بہت عظیم تسلیم کیاجاتاہے اورجو 20سال قبل ماسکو میں بھی خدمات انجام دے چکاہے کرسٹوفر اسٹیل کے حوالے سے یہ خبر دی ہے کہ روسی حکام نے ڈونلڈ ٹرمپ کوبرسراقتدار لانے کیلئے سازشیں کیں، اخبار نے یہ خبر دیتے ہوئے یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کیا کہ کرسٹوفر اگرواقعی ایم آئی6 کا اعلیٰ عہدیدار رہا ہے تو اب اس کا روس میں داخل ہونا ہی ناممکنات میں ہے اوراگر اس نے روس میں موجود اپنے سابقہ ذرائع سے کچھ اطلاعات جمع بھی کی ہیں تو بھی ان اطلاعات کے درست ہونے کی تصدیق کرنے کاکوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔
ان حقائق سے ظاہر ہوتاہے کہ صدام حسین کے اندرونی رازوں اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں باوثوق کہانیاں سنانے والوں نے اب پھر کوئی حسین خواب دیکھ لیاہے اور وہ اس خواب کو عام کرکے یعنی لوگوں تک پہنچاکر اس کی تعبیر حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ (بشکریہ انڈیپنڈنٹ)
٭٭
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فیس بک اور ٹوئٹر سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹروتھ نامی سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ٹوئٹر پر طالبان کی موجودگی تو ہے تاہم عوام کے پسندیدہ امریکی صدر...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نوجوان غیر قانونی تارکینِ وطن کو تحفظ دینے کے پروگرام 'ڈریمر کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد ملک بھر میں اس فیصلے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ ڈریمر پروگرام سابق امریکی صدر بارک اوباما نے متعارف کروایا تھا۔امریکی صدر...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر توہینِ عدالت کے ملزم ریاست ایریزونا کے شیرف جو آرپائیو کو معاف کرنے کے بعد ان کی اپنی ہی ریپبلکن جماعت کی جانب سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ایوانِ نمائندگان کے ا سپیکر پال رائن کا کہنا تھا کہ شیروف جو آرپائیو کو معاف نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔صدر ٹرمپ نے شیر...
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ماحول میں آلودگی پھیلانے والے انسانیت دشمنوں کے ساتھ ہیں ۔اپنے اس عمل کے ذریعے انھوں نے تاریخ میں اپنا نام سائنس اور انسانیت کے مخالفین کی فہرست میں درج کرالیاہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو...
امریکا کے موقر اخبارات نے جن میں واشنگٹن پوسٹ اورنیویارک ٹائمز شامل ہیں حال ہی میں ایسی اطلاعات شائع کی ہیں جن سے ظاہرہوتاہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے اپنے اور اپنے بیٹے داماد اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف ایف بی آئی کی جانب سے جاری تفتیشی رپو...
واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کا رائے عامہ کا حالیہ جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسٹرٹرمپ کی مقبولیت اپریل کے 42 فی صد کے مقابلے میں اب 36 فی صد ہے۔واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے تحت کرائے گئے رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزے سے ظاہر ہو ا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کی سطح می...
[caption id="attachment_44317" align="aligncenter" width="784"] خواتین صنعت کاروں پر ہونے والے ڈسکشن میں جب خواتین سے متعلق ٹرمپ کے رویے کا دفاع کیا تو حاضرین نے ایوانکا کیخلاف نعرے لگائے ایوانکا کی اپنے شوہر کے ساتھ وہائٹ ہائوس منتقلی اور ان کو وہائٹ ہائوس میں دفتر اور عملے کی ف...
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اس امکان کا عندیہ دیا کہ شمالی کوریا پر چین سے تعاون کے حصول کے لیے تجارت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؛ اور یہ کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکا شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار اور میزائل پروگرام کے خلاف اپنے طور پر اقدام کر سکتا ہے۔اُنہو...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر ایک خفیہ ایجنسی نے اوباما دور میں وہائٹ ہائوس میں منعقد ہونے والی پر تعیش تقریبات میں خفیہ طریقے سے کروڑوں ڈالر کے خرچ کے حوالے سے تحقیقات شروع کردی ہے۔ سرکاری اخراجات پر نظر رکھنے والی تنظیم ’’فریڈم واچ ‘‘ کے بانی لیری کلے مین نے انکشاف کیا ہے ...
ٹرمپ اپنے سرکاری جہازیوایس ایئر فورس ون میں سفرکررہاتھا۔وہ اپنی کرسی سے اٹھااورباتھ روم گیا۔وہاں سے باہر نکل کراس نے تولیے سے ہاتھ پونچھے اور وہاں موجود ایک خاتون سے کہا کہ یہ تولیہ کھردراہے، نرم تولیہ رکھو،تاکہ ہاتھ جلدی خشک ہوسکیں،اس کے بعدٹرمپ اپنی سیٹ پربیٹھ گیا۔مگریہ واقعہ پ...
امریکاکی خواہش ہے کہ نیٹو میں اس کے اتحادی ممالک بھی اس ادارے کا خرچ برداشت کرنے کے لیے اپنا حصہ ادا کریں، امریکا کی یہ خواہش نئی نہیں ہے بلکہ امریکی حکومت طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہے تاہم کسی امریکی حکومت نے اس پر اتنا زیادہ زور نہیں دیاتھا اور یہ مطالبہ اتنی شدومد کے سات...
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھرامریکی میڈیاپر تنقید کرکے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مغربی میڈیا جھوٹا ہے ۔فلوریڈا پہنچنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام میںانہوں نے کہاکہ نیو یارک ٹائمز۔این بی سی ،اے بی سی ،سی بی ایس اور سی این این جھوٹی خبریں چلاتے ہیں اور میرے نہیں بلکہ امریک...