... loading ...
ٹھیکے داری نظام میں آسانی یہ ہے کہ آپ خود ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کوئی اور آپ کی جگہ کام انتظام سنبھال لے۔ انتظامی اور سرکاری معاملات میں تو اور بھی مزے ہیں ۔آپ ٹھیکیدار سے کچھ کمیشن پکڑیں اور عوام کو نچوڑنے کا کام ٹھیکے دار کے سپرد کردیں۔ ٹھیکیدار نے پہلے جو کمیشن دیا ‘وہ پیسے پورے کرے گا پھر ٹھیکے کے پیسے پورے کرے گا اور اس کے بعد اپنی جیبیں بھرنا شروع کرے گا اور بھرتا ہی چلا جائے گا۔ وطن عزیز میں تو لگتا ہے سب کچھ ٹھیکیداری نظام کے تحت چل رہا ہے بلکہ شاید پورا ملک ہی ٹھیکے پر چل رہاہے۔ کچرا اٹھانے کا اور پارکنگ کا ٹھیکہ تو کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ چلیں بس اڈے بھی ٹھیکے دار کے حوالے کردیں کوئی بات نہیں ،لیکن یہاں تو ہوائی اڈے تک ٹھیکے پر دینے کی بات ہو رہی ہے۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعدملک کے تین بڑے ہوائی اڈے ٹھیکے پر دینے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کرتے ہوئے بین الاقوامی کمپنیوں سے پیشکشیں طلب کی گئی ہیں۔ حکومت کو شاید اندازہ ہو گیا ہے کہ ہوائی اڈوں جیسے بڑے عوامی مقامات کی دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی اس کے بس کا روگ نہیں ۔اس لیے بیرون ملک کی کسی کمپنی کو ہوائی اڈے ٹھیکے پر دے دو اور خود چین کی بنسی بجاؤ، چین کو چائناوالا چین نہ سمجھا جائے‘ ویسے چائنا کی اپنی ٹھیکیداری ہے جو خوب خوب چل رہی ہے۔ حکومت کے بڑے بڑے دماغ یہ سمجھتے ہیں کہ ہوائی اڈے ٹھیکے پر دینے میں فائدہ ہی فائدہ ہے، حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس اقدام سے جہاں سرکاری خزانے کی آمدنی میں اضافہ ہوجائے گا وہیں بڑے ہوائی اڈوں کا معیار اور انتظام بھی بین الاقوامی نوعیت کا ہوجائے گا۔ یعنی کراچی ایئر پورٹ پر جو قدیمیت، یاسیت اور سوگواری کی سی فضا چھائی رہتی ہے ‘وہ دبئی کے ہوائی اڈے کی طرح رنگوں‘ جدیدیت اور زندگی سے بھر پور ہو جائے گی۔ وفاقی حکومت نے اپنے فیصلے میں یقینی طور پر مالی اور انتظامی حکمت پیش نظر رکھی ہو گی مگر ہوا ئی اڈوںکی نجکاری یا ان کا انتظام کسی بین الاقوامی کمپنی کے حوالے کرنے میں قومی سلامتی ایک اہم نکتہ ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ ایک طرف اقتصادی میدان میں حکومت کی کاوشوں کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے اور دوسری جانب اس طرح کے عجلت پسندی کے اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اقدامات سے ملک میں اور بیرون ملک حکومت کی کوئی نیک نامی نہیں ہوگی۔
ایئرپورٹ کسی ملک کے انتہائی حساس مقامات میں شامل ہیں ،جن کا ملکی سلامتی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ہوائی اڈوں پر مواصلاتی نظام اورحساس آلات بھی نصب ہوتے ہیں ملک میں آنے جانے والی اہم شخصیات کی آمدو رفت بھی ان ہی کے ذریعے ہوتی ہے ،اس لیے بہتر تو یہ ہوگا کہ اگر کسی انتظامی ضرورت کے تحت ایئرپورٹس کو ٹھیکے پر دینا ضروری بھی ہے تو حکومت بین الاقوامی کمپنیوں سے پیشکشیں طلب کرنے کے بجائے ملکی کمپنیوں کو ترجیح دے۔ اگر کوئی ایک کمپنی ہوائی اڈوں کے تمام امور پر عبور نہ رکھتی ہو تو ان ٹھیکوں کو تقسیم کیا جاسکتاہے۔ پورا ایئرپورٹ کسی ایک کمپنی کے حوالے کرنے کے بجائے اس کے مختلف امور ٹھیکے پر دے دیے جائیں ۔مثلا ًعمومی کاموں کانتظام علیحدہ کمپنیوں کو دیا جائے اور ٹیکنیکل کام دوسری کمپنیوں کو دے دیا جائے۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ نجکاری یا ٹھیکیداری ‘دونوں صورتوں میں سول ایوی ایشن کے ملازمین کا مستقبل محفوظ بنایاجائے کیونکہ ریاست کا کام ادارے بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے شہریوں کو روزگار فراہم کرنا بھی ہوتا ہے۔ ٹھیکے دار کمپنیوں کو اس بات کا پابند بھی بنایا جائے کہ وہ مسافروں کو بین الاقوامی معیار کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ ہمارے ایئرپورٹس کسی طور عالمی معیار کے نہیں لگتے ،اس لیے اگر انہیں ٹھیکیداری نظام کے تحت کرنے سے ان کا اور عوام کا کچھ بھلا ہو جائے تو اس میں کسی کو اعتراض نہیں لیکن جو بھی ہو وہ ملکی قوانین کے تحت اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔
٭٭