... loading ...
ففتھ کالم انگریزی زبان کی اصطلاح میں ایسے چھوٹے سے گروپ کو کہا جاتا ہے جو کسی محصور بستی یا مملکت کو اندر رہ کر پوشیدہ طور پر یا اعلانیہ نقصان پہنچاتا ہے۔)
اخباری کالم کو ہم صحافت کا ٹویٹ سمجھتے ہیں۔اچھا لکھا ہو تو بقول علامہ اقبال مرغ خوش نوا کی مانند شاخ پر بیٹھا ، کوئی دم چہچہایا، اڑ گیا والی بات ہوتی ہے۔ اگلی صبح شہرزاد پوچھتی ہے تو حاکم وقت عیاری سے جواب دیتا ہے کہ شب مذکور کا ذکر ہی کیا، رات کے ساتھ، رات کی بات گئی۔لکھنے والا ہمارے جیسا نووارد مشق ستم ہو تو اس کے کالم کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو جنرل ضیاالحق کے نزدیک آئین کی تھی کہ بقول محمدشاہ رنگیلے کے’’ ایں دفتر بے معنی غرق مئے ناب اولیٰ۔(اس بے معنی دستاویز کو پہلے تو شراب میں غرقاب کرو)۔
کالم کی ایک شیلف لائف ہوتی ہے۔اس کا دورانیہ حیات مئے ۔فلائی نامی مکھی جتنا ہوتا ہے یعنی چوبیس دن۔ اسی لیے اسے ‘one-day insects’ بھی کہا جاتا ہے۔لکھنے والوں کی اقسام بھی دنیا بھر میںاسی کی طرح 2500 کے قریب ہیں۔ دور حاضر میں کاغذ پر چھپے ہوئے اخبار کو آپ اہل بساط و حاملینِ اقتدار کے لیے حرم میں داخل ایک ایسی کنیز عجولہ و ضائفہ سمجھ لیں جسے ٹی وی اور شوشل میڈیا جیسی ہر دم رواں، پیہم جواں،حرافۂ ہائے سہل کار نے ثانوی حیثیت سے بھی نیچے کے کھنڈر خانے میں دھکیل دیا ہے۔
کالم نگار سوئی سے کنواں کھودتا ہے۔پاکستان میںWritten Word تو ایک طویل عرصہ سے بے وقعت ہے۔کالم نویس اگر پیشہ ور صحافی ہو اور ارباب بست و کشاد کے مطلب کی باتیں لکھتا ہو تو کبھی کبھار ایک لفافہ یا بیرونی دورہ مل جاتا ہے۔اس میں اب ٹی وی کے لنگر باز Anchor Persons ان کی مسابقت پر اُتر آئے ہیں جو ادھر اُدھر سے باتیں پوچھ کر،نکتہ ہائے گفتگو جمع کرکے جیسے تیسے کوٹ ٹائیاں پہن کر کیمرہ آن ہوتے ہی حالات حاضرہ کے ابن خلدون بن جاتے ہیں۔بات میں وزن ڈالنے کے لیے ہراساں، اردو میڈیم میک اپ والی تیز اور پہلے سے فیڈ کیے ہوئے سوالات سے کلبلاتی بے چاری میزبان بھی بٹھالیتے ہیں۔ایک پینڈو قسم کے اینکر جنہیں مفلر پہننے کا بہت شوق تھا وہ تو بے چاری کو بہ آواز بلند ڈانٹ بھی دیتے تھے۔
پچاس کی ابتدا سے نوے کی انتہا تک اخباری کالم نویسوں کی ایک شان تھی۔وہ صرف کالم لکھتے تھے۔کالم لکھنے کا ارادہ حیدرآباد سے آئے ہوئے مفلوک الحال ایک نوجوان کا بھی تھا۔ شاید کچھ عرصہ انہوں نے طبع آزمائی بھی کی۔انہیں بعد میں جنرل رانی کا سایہ عاطفت مل گیا اور بندے باہر بھیجنے کا دفتر انہوں نے ہوٹل میٹروپول کے ایک کمرے میں قائم کرلیا۔ کام چل نکلا تو دولت کے ساتھ ساتھ فاطمہ ثریا بجیا کے ایک ڈرامے کی ہیروئن کو حبالۂ عقد میں باندھ لیا۔ممکن تھا وہ یہ شوقِ کالم نگاری یوں ہی جاری رکھتے مگر ایک دن میٹروپول میں اپنے دفتر آتے ہوئے ان کی نگاہ پاکستان کے مشہور کالم نویس ابراہیم جلیس پر پڑی جو پی آئی بی کالونی کراچی کے بس اسٹاپ پر پسینے میں شرابور کھڑے تھے۔انہوں نے انہیں کار میں بٹھایا اور دل میں تہیہ کیا کہ وہ زندگی بھر اخبار نویسی کو
روزی کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔
آج کے لوگوں کو مجید لاہوری، ابراہیم جلیس،رئیس امروہوی،جمیل الدین عالی ، مدیرتکبیر محمدصلاح الدین ، اعجاز حسین بٹالوی، انگریزی میں ایچ کے برکی ، زیڈ اے سلہری، حسین نقی ، خالد حسن، میجر ابن الحسن کے نام بھی یاد نہ ہوں مگر یہ اپنے وقت کے بڑے کالم نگار تھے۔ ان میں اول الذکر دو کو چھوڑ کر یہ سب وہ لوگ تھے جن کے کالم پڑھ کر زیڈ اے بھٹو وزیر اعظم پاکستان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ان میں ایک کالم نگار برکی کو تو انہوں نے قومی اسمبلی کی گیلری میں دیکھ کر Barking Burki بھی کہا تھا۔ حسین نقی نے جب نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے پر جشن لاڑکانہ کا احوال سن کر پنجاب پنچ میں Larkana by Night والا کالم سقوط مشرقی پاکستان کے المیے کے تناظر میں لکھا تو ایوانِ اقتدار میں تھرتھلی مچ گئی تھی۔ ان کا ہفتہ وار اخبارPunjab Punch بند کردیا گیا۔
رئیس امروہوی کے کالم میں جانے کیا کیاکچھ ہوتا تھا۔ ان کالموں میں اردو قاری کو ایک طرح کی Pulp Psychology اور مابعد اطبعیات کا زود ہضم چورن سستے داموں مل جایا کرتا تھا۔ اس میں Ouija board (وہ تختۂ مشق جس کے ذریعے نوجوا ن اور بچے اپنے ا عزا و اقربا کی آوارہ ارواح سے سوال جواب کرتے ہیں) سے لے کر شمع بینی ،ہپنا ٹائزم سب ہی کچھ شامل ہوتا تھا۔ رئیس امروہو ی صاحب کو ان کے چھوٹے بھائی جون ایلیا کے کسی دوست نے بتادیا تھا کہ اسرار احمد المعروف بہ ابن صفی کے مشورے سے آئی ایس آئی بنائی گئی تھی ۔ اب آئی ایس آئی امریکا کی سی آئی اے کی طرز کا ایک پروگرام شروع کرناچاہتی ہے جس میں وہ Psychics اور Remote Viewers for Espionage کے ماہر افراد کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہتی ہے۔کراچی کے لڑکے لڑکیاں چونکہ خوش گفتار اور معاملہ فہم ہوتے ہیں لہذا ممکن ہے کہ آئی ایس آئی اس پروگرام کی ساری بھرتیاں گولی مار، انچولی، ناگن چورنگی اور عزیز آباد سے کرے۔وہ اس کام میں تندہی سے اپنے کالموں کے ذریعے تربیت نوجوانانِ زیرک میں لگ گئے۔ حضرت امرہوی ہر اتوار ایک کالم جنگ اخبار میں لکھا کرتے تھے جنہیں پڑھ کر ان کے قارئین باقی چھ دن سمجھنے میں لگا دیتے تھے۔کراچی شہر کی آدھی پاگل عورتیں ان سے رہنمائی لیتی تھیں ۔
سننے میں آیا کہ خود رئیس امروہی کا کراچی شہر کے جناتوں کی آدھی آبادی سے واسطہ تھا ۔انہیں کے مشورے سے وہ ہر ہفتے بلاکسی کوالیفکیشن کے بعوض مطالعہ مفت تقسیم کیا کرتے تھے۔جن نوجوانوں کی بھرتی کا ہم نے ذکر کیا وہ بعد میں ایک پارٹی میں شامل ہوئے۔یہ پارٹی ایک امگی ہوئی شام کو شور مچاتے ٹریفک کی ہڑاہڑی میں دس نمبر لیاقت آباد کے ایک گھر کی چھت پر پندرہ بیس افراد کی باہمی مشورے سے بنی تھی اس میں اہم افراد میں ایک تو اختر حسین رضوی تھے۔ جو مہاجر مارکسسٹ تھے،جی ایم سید کے قریبی ساتھی اور ان کی کتاب جسے میں نے دیکھا کے مترجم ۔جی ہاں وہی پارٹی جو بظاہر آپ کو ہر ٹی وی ٹاک شو میں جوہی چاولہ کی طرح گاتی ہوئی سنائی دیتی ہے کہ ٹوٹ گئی، ٹوٹ کے میں چُور ہوگئی، وے چوہدری نثارا! تیری جھوٹی ضد سے مجبور ہوگئی۔۔۔۔۔/// ہمارے چند بیانات پر اتنا کھڑاک اور وہ جو مودی کا یار سلامتی کا ذمہ دار وہ کم بخت اجیت دوال، امرا جاتی میں گشتابہ، تبک ماز اور روغن جوش ویزہ آن آمد پروگرام کے تحت پگڑی بدل بھائی کے ساتھ گھٹکا کر گیا ان کے لیے لامکاں اور ہمارے لیے مٹھا رام ہاسٹل۔
انگریزی میں لکھنے والوں میں سب سے مالدار مرنجان مرنج اور بے باک تو جناب ارد شیر کائوس جی تھے۔ہمارے دوست مگر ہم ان پر ایک جدا کالم لکھیں گے۔کلیم عمر کے کالم وائی ایل(یوسف لودھی ) کے کارٹون سے جگمگا اٹھتے تھے۔ جو خود بھی بہت اچھا لکھتے تھے ارد شیر کائوس جی کے بعد وہ اور کپتان ایاز امیر سب سے سشتہ انگریزی لکھا کرتے تھے۔ انگریزی میں خالد حسن کے کالم بہت دل چسپ ہوتے تھے۔ وہ امریکا منتقل ہوگئے تھے اور ان کی تحریر پر وہاں کی معاشرت کی سبک ساری غالب آگئی تھی ۔ شاہین صہبائی صاحب بھی عمدہ کالم نگار ہیں۔ ان کی انگریزی بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے مغل اعظم کے اردو مکالمے۔ وہ اپنے بوجھل تجزیوں سے موضوع کو بار برداری کا اونٹ بنادیتے تھے۔ ان کا ویب میگزین سائوتھ ایشیا ٹریبونل مشرف کی ناک میں دم کیے رکھتا تھا۔ اس میں سب سے خطرناک لکھاری ہمارے مشفق و مرشد فیڈرل سیکرٹری ڈاکٹر ظفر الطاف تھے جنہیں کالم لکھنے کا چسکا فرنٹیئر پوسٹ کے ایڈیٹر ظفر صمدانی اور ڈان کے رئوف کلاسرا نے ڈالا۔روف کلاسرا بہت دلیر اور ان دنوں منکسر المزاج نوجوان ہوا کرتے تھے۔انگریزی کا تین سو الفاظ کا جو Essay انہیں امتحان میں لکھنا ہوتا تھا اس کی انگریزی نصف سے بھی کم الفاظ پر مک جاتی تھی۔وہ کامران خان سے بہت متاثر تھے جن پر ان دنوں نیوز انٹیلی جینس یونٹ کی وجہ سے امریکی صحافی باب ووڈ وارڈ کا اثر غالب تھا۔بطور فیڈرل سیکرٹری ظفر الطاف کو کالم لکھنا بہت بھاری پڑتا تھا۔ اپنی بے باک گفتگو کی وجہ سے ان کے بیورو کریسی کے اندر اور باہر بہت دشمن تھے ۔وہ ان کالموں کے حصے سیاق و سباق سے جدا کرکے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے کان میں پھونکا کرتے تھے۔
جب جنرل پرویزمشرف نے سائوتھ ایشیا ٹریبون کی وجہ سے شاہین صہبائی کے قریبی عزیزوں کو گرفتار کیا گیا تو ایک تنظیم یا صحافی ایسا نہ تھا جو ان کی مدد کو آتا ۔ بس ڈاکٹر ظفر الطاف اور رئوف کلاسرا مدد کو آئے ۔ بے چارے کورٹوں میں ضمانت کے لیے بہت ہراساں رہتے تھے۔
کیسا صلہ اور کہاں کی ستائش اب کالم لکھتے ہیں تو راجندر کرشن جی کا وہ مصرعہ بہت یاد آتا ہے کہ ع خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے۔اردو پاکستان کی دیگر علاقائی زبانوں کی زبوں حالی دیکھ کر ایسا لگتا کہ وہ جوہر کر رہی ہیں( طبقۂ اشرافیہ ہندو خواتین کی وہ اجتماعی خودکشی جو وہ بادشاہ کی شکست اور فاتحین کے ہاتھوں ذلت کے خوف سے کرلیا کرتی تھیں)۔اخبارات کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کا سب سے مقتدر روز نامہ جس سے ایک لیک جڑ گئی ہے ،اپنے عنفوان شباب میں جب اتنے ٹی وی چینلوں کی بھرمار نہ تھی کل تیس ہزار چھپتا تھا۔فیض و فراز کی کتابیں پی ٹی وی اور انٹرنیٹ کی آمد سے پہلے بھی پہلے ایڈیشن میں کل ہزار چھپتی تھیں حتی کہ شہاب نامہ بھی صاحب تحریر کے اثر و رسوخ کے باوجود بھی پہلے پہل دس کروڑ کی آبادی میں کل ایک ہزار ہی چھپا تھا۔سو ہم محترمہ زہرہ نگاہ کے الفاظ میں یہ کالم یوں ختم کرتے ہیں کہ ع
زہرہ ؔنے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
حالانکہ دریں اثناء کیا کچھ نہیں دیکھا ہے
پر لکھے تو کیا لکھے اور سوچے تو کیا سوچے
کچھ فکر بھی مبہم ہے کچھ ہاتھ لرزتے ہیں
ابھی ہم اپنی ہی فکر میں گم تھے کہ بے چارے پاکستان کے نمبر ون چینل کے نمبر ون پروگرام کے نمبر ون اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی میڈیا سے کنارہ کرلیا۔ان کی تو خیر ہے وہ تو جہاں میں اہل ایماں کی طرح مانند خورشید جیتے ہیں۔اس چینل سے ڈوبیں گے تو کہیں اور بر آمد ہوجائیں گے مگر وہ جو میزبان تھیں وہ بقول مومن خان مومن ع تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلے!!!
٭٭