... loading ...
کسی قوم پرعذابِ الٰہی کی بدترین شکل یہ ہے کہ وہ فکر صحیح سے محروم ہوجائے۔ زمانہ، جو اپنی کڑیوں میں باہم پیوست ہے ،کی اُلٹ پھیر نے ہمیں کہاں لا پھینکا ہے! آدمی کرب سے سوچتا ہے کہ کیا یہ ہمارا دن ہے ؟ نہیں ،ہرگز نہیں۔”ویلنٹائن ڈے “مغرب کی بانجھ زمین پر خاندانی اقدار کی موت کا ایک مرثیہ ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں ،کچھ بھی نہیں۔
ابھی کچھ سال قبل ہم اس نام سے ہی ناواقف تھے۔ پاکستانی اخبارات میں ”کورئیر سروس“ کے اشتہارات نے ”ویلنٹائن ڈے“ کا تعارف کرایا۔ ایک اجنبی معاشرے میں یہ دن کوئی خوشیوں کا پیغام لے کر نہیں اُترا تھا۔اس معاشرے میں موسم بہار کومنانے کے اپنے اہتمام اورآداب تھے۔ تب غربت کے سمند رمیں امارت کے کچھ پرشکوہ جزیروں کے اندر،اندوہِ وفا کے شکار چندبچوں اوربچیوں نے اس دن کا استقبال کیا تھا۔ کچھ بچے اوربچیاں جن کا تہذیبی پس منظر ان کے گردوپیش سے دُھندلاچکا اورایک دن جورات سے کہیں زیادہ تاریکیوں میں لپٹا ہوا تھا اور تاریکیوں کے چمگاڈوروں کوہی صرف راحت پہنچا سکتاتھا۔ اٹھارہ کروڑ کی قوم پرمگر یہ دن ایسے مسلط ہو ا کہ نئی کونپلوں کے لئے گویا پیام زندگی بن گیا ہواورپھولوں نے اپنے رنگوں کواس دن سے مستعار لے لیاہو۔
روشن خیال اعتدال پسندی کی آوارہ ہواﺅں میں بکھری ہوئی زندگیوں کے مچلے اور کُچلے ہوئے جذبوں کی بارگاہ ِبے نیاز میں نیاز مندانہ گزارش ہے کہ یہ دن ہمارا نہیں ،مغرب کا ہے اورمغرب خود بھی اس کی علمی ،عقلی ،عملی ، تاریخی اورسماجی بنیادوں کو کھوج رہا ہے۔ یوم محبت کے طورپر 14فروری کومنایا جانے والا یہ دن بے شمار تاریخی روایتوں سے لتھڑاہواہے۔ ایک عیسائی صوفی ویلنٹائن سے موسوم یہ دن تاریخ اوررسوم کے تختہ¿ مشق پرتحریف درتحریف کی مشقِ ستم سے گزرکر اب ایک حیاباختہ رسم میں ڈھل چکا ہے۔ تاریخ کے ایک مرحلے پرکہا گیا کہ سینٹ ویلنٹائن نے اس دن (14فروری) روزہ رکھاتھا اور عقیدت مندوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کریہ دن ہی اس کے نام کردیا۔ اسرائیلیات کی طرح خرافات پرمبنی ایک روایت کے مطابق ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار محبت کا ایک دیوتا ”کیوپڈ “تھا جومحبت کے تیرنوجوان دلوں پرچلاتاتھا۔ تاریخ کی کچھ اورشہادتیں اگر معتبر سمجھی جائیں توقدیم رومن تہذیب کے ایامِ عروج میں بھی ویلنٹائن ڈے کے آثار وشواہد ملتے ہیں مگراسے منانے کی وجوہات مختلف نظر آتی ہیں۔
قدیم رومن تہذیب میں14فروری کا دن رومن دیوی دیوتاﺅں کی ملکہ جونو کے احترام میں بطور یوم تعطیل منایا جاتا تھا۔ اہلِ روم سے متعلق قدیم روایتوں میں ملکہ جونو کوشادی کی دیوی بھی قرار دیاجاتاتھا۔ جبکہ اگلے ہی روز یعنی 15 فروری کواہلِ روم جشن زرخیزی کااہتمام کرتے تھے تب پورا روم متنوع میلوں سے سج جاتا تھا مگر اس دن کی سب سے اہم رسم کے مطابق لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دیے جاتے تھے۔ پھروہاں موجود نوجوان باری باری برتن سے پرچی نکالتے ۔اس طرح نوجوان کو پرچی میں تحریر جس لڑکی کا نام بھی نکلتا وہ بطور ساتھی مل جاتی۔ اسی طریقہ کار کے تحت لڑکے اور لڑکی کے درمیان مستقل بندھن کی صورت پیدا ہوتی۔ تاریخ کی اِٹھلاتی لہراتی شاہراہ کے ایک موڑ پرشہنشاہ کلاڈیس دوم کے عہدے سے متعلق ایک روایت بھی ملتی ہے جب شہنشاہ کوعین جنگ کے دنوں میں مرد فوجی میسر نہیں آرہے تھے کیونکہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں کوچھوڑکرجنگوں میں کودنے کے لئے تیارنہیں تھے ۔کلاڈیس نے ا س مشکل سے نکلنے کے لیے شادیوں پرپابندی عاید کردی تب سینٹ ویلنٹائن نے خفیہ طورپر نوجوان جوڑوں کی نہ صرف شادیوں کا اہتمام کیا۔ بلکہ انہیں اس کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ شہنشاہ کے حکم پرسینٹ ویلنٹائن کوگرفتار کرلیاگیا اور اسے 14 فروری کی اسی تاریخ میں قتل کردیاگیا۔ یہ واقعہ کس عیسوی سال میں پیش آیاتھا اس پراختلافات ہے۔ بعض روایتیں ،269ءاوربعض270ءعیسوی پراصرار کرتی ہیں اس طرح14فروری کی تاریخ اہلِ روم کے لئے سینٹ ویلنٹائن کی موت، جشن زرخیزی اورملکہ جونو کے باعث احترام کا سبب بن گئی۔
تاریخ کی صدیوں زمانوں اورقوموں پر محیط تحقیق سے خالی اورکھوکھلی روایتیں14 فروری کی تاریخ کوکسی ایک ”سینٹ ویلنٹائن “ سے بھی مخصوص رہنے نہیں دیتیں۔ مثلاً سینٹ ویلنٹائن نامی ہی ایک شخص کا ذکر برطانیا کے حوالے سے بھی ہوتاہے۔ جوبشب آف ٹیرنی تھا اور جسے عیسائیت پرایمان کے جرم میں14فروری ، 269ءکوسولی پر چڑھا دیا گیا تھا۔ سینٹ ویلنٹائن کی اسی روایت کے ساتھ یہ واقعہ منسوب ہے کہ بشپ آف ٹیرنی (سینٹ ویلنٹائن)کواپنے ایام اسیری میں جیلرکی بیٹی سے محبت ہوگئی اوروہ اسے خطوط لکھنے لگا۔ عیسائیت کی اس مذہبی شخصیت کے یہ عجیب وغریب محبت نامے ہی تاریخ میں ”ویلنٹائن “کہلائے۔ ڈبلیو لیرتھ کی ”اے ہسٹری آف ویلنٹائن“نامی کتاب اس بے ہودہ رسم کے زمانی تاریخ کے غیر منطقی قصوں کا غیرمعمولی حال سناتی ہے۔ چوسرنے ویلنٹائن پرسب سے پہلی نظم ”پارلیمنٹ آف فاﺅلز “ کے عنوان سے غالباً 1382ءمیں لکھی ۔ مگرویلنٹائن کے حوالے سے تمام روایتوں کی پوری تاریخ کا جوہری مطالعہ کیاجائے توآشکار ہوتاہے کہ عیسائی دنیا میں ویلنٹائن ڈے کوئی حیاباختہ تصور نہیں تھا۔ بلکہ یہ اپنی تاریخ میں ایک مقدس دن کی صورت میں ابھرتا ملتاہے۔ ویلنٹائن نام کے تین مختلف سینٹ میں سے دوکے سرقلم کردیے گئے تھے اورا سکا سبب ان سینٹ کی طرف سے اپنے دین کی پیروی تھی ان میں سے کسی نے اپنی کچلی ہوئی خواہشات کورقص وسرور کی محفلوں سے پورا کرنے کے لئے یہ قربانی نہیں دی تھی۔
لیکن اب ویلنٹائن ڈے کے شریر پیرہن میں نفسِ انسانی کی ساری سرمستیوں اورآوارگیوں نے پناہ لے لی۔ بے حیائی نے مسرت کا جامہ زیب تن کرلیاہے۔ اوچھاپن،شوخی کی تعبیر لے کراٹھلا رہا ہے۔ انسانی طبیعت میں پائی جانے والی سرشاری کی ناگزیر کیفیت کوبدمستی کاعذربنالیاگیاہے ۔بے لباسی کوجامہ فطرت ،بے خودی کوتقاضائے فطرت ،جذبات کے بھونچال کو نتیجہ¿ فطرت اورحیا باختگی کومراجعتِ فطرت کے بے ہودہ جواز دیے جارہے ہیں۔ مغرب خاندان کے ادارے سے محروم ہوکرانسانی جذبات کی توازن ساز قوت کوبھی کھوبیٹھا ہے۔چنانچہ اس کے جذبات ہرحدعبور کرکے ہیجان میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ وہ گناہ کی تلاش کوسائنس سمجھ بیٹھا ہے اوراپنی ہیجانی خواہشوں کی تکمیل میں نئی نئی دریافتوں کے لیے اپنے ذہن کومسلسل تھکارہا ہے مگراس کے باوجود اس کے پاس خوشیوں کے ایام، مواقع اورمراکز باقی نہیں رہے۔ چنانچہ مغرب اپنے ہیجانی جذبات کی تکمیل کے لیے تیوہاروں اوررسوم کا سہارا لے رہا ہے۔ ویلنٹائن ڈے بھی ایسے ہی ایک سہارے کی تلا ش میں رسم کی شکل اختیار کرگیا مگرسینٹ ویلنٹائن کے ناموں پر مغرب نے اس دن ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیاہے کہ اب خود ان کی اپنی تاریخ اس پرکھٹی قے کرنے لگی ہے ۔ہمارے معاشرے کواس تاریخ و تہذیب اورمسائل سے کوئی نسبت نہیں۔ ہمارا معاشرہ اپنی بدترین حالت کے باوجود اپنے خاندانی نظام کے ساتھ اب تک محفوظ ہے۔اب بھی یہاں”محبت“کونکاح کے روحانی پیکر میں ڈھال دیا جاتاہے۔اب بھی ہمارے جذبات کے طیورآوارہ ہواﺅں میں تادیر پرواز نہیں کرپاتے۔ اب بھی ہماری خواہشات سے اٹھنے والے بے سمت گردوغبارکا صحرا بہت تھوڑا ہے۔ اب بھی ہمارا ہرگھرخوشیوں کا گہوا رہ ہے جہاں غم کوآدھا اورخوشیوں کودُگنا کرنے والے انتہائی قابل احترام رشتے پائے جاتے ہیں۔ اب بھی ہماری خوشیاں چند تیوہاروں، چندرسوموں اورچندہنگاموں میں محصور نہیں ہے۔یہ خوشی ہرروز خاندان میں انگڑائی لے کربیدار ہوتی ہے۔اسے کسی ویلنٹائن ڈے کی ضرورت نہیں۔غربت کے سمند رمیں امارت کے جزیروں میں آباد مٹھی بھرلوگ اپنے بچوں اوربچیوں کوان کے حقیقی تہذیبی پسں منظر سے دورنہ لے جائیں توخوشیوں کے لیے اُنہیں بھی ویلنٹائن ڈے کا انتظار نہیں کرناپڑے گا۔ کاش وہ سمجھ سکیں یہ ہمارا دن نہیں،مغرب کا ہے ۔اورکسی قوم پر عذاب الٰہی کی بدترین شکل یہ ہے کہ وہ فکر صحیح سے محروم ہوجائے۔
٭٭
آج چودہ فروری ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے مغربی دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی مغربی معاشرے کی نقالی کے زیر اثر لوگ اہتمام کے ساتھ ” ویلنٹائن ڈے “ کو منانے لگے ہیں ۔ خود کو ماڈرن سمجھنے اور ظاہر کرنے کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہمارے معاشرے کے اس مٹھی بھر جنونی گروہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے ...