... loading ...
2016 ءکے اواخر میں شامی فوج روس کی مدد سے شام کے اہم شہر اور باغیوں کے گڑھ حلب سے باغیوں کوماربھگانے اور حلب پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی،لیکن حلب سے باغیوں کے پسپا ہونے کے باوجود کم وبیش 48 لاکھ شامی پناہ گزین اب بھی تحفظ کے احساس کے ساتھ باوقار انداز میں زندگی گزارنے کے وسائل سے محروم ہیں۔شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی کیفیت کی وجہ سے بڑی تعداد میں شامی عوام کو اپنی جان بچانے کے لیے اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر مختلف ممالک میں نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا اس نقل مکانی کی وجہ سے اس وقت ایک اندازے کے مطابق ترکی میں رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی تعداد 28 لاکھ ہے جبکہ لبنا ن میں بھی کم وبیش 10لاکھ اوراردن میں 6لاکھ56 ہزار شامی پناہ گزین موجود ہیںجبکہ مختلف یورپی ممالک نے بھی مجموعی طورپر 8 لاکھ84 ہزار 461 شامی پناہ گزینوں کو مختلف پناہ گزین کیمپوں میں پناہ دے رکھی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا میں شام سے باغیوں کے فرار کی خبریں تو مسلسل آرہی ہےں لیکن باغیوں کے قبضے اور مسلسل جنگ کی کیفیت کی وجہ سے شام میں دربدر ہونے والے شہریوں کی حالت زار پر کوئی توجہ دینے کو تیار نظر نہیں آتا،میڈیا اس حوالے سے حقائق کو مجرمانہ طورپر چھپانے کی کوشش بھی کررہاہے اور میڈیا میں اس جنگ کی وجہ سے اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ جانے پر مجبور ہوجانے اور شام چھوڑ کر کہیں اور پناہ لینے کے لیے شہروں سے نکلنے سے روک دیے جانے والے شامی باشندوں کی حالت زارکی عکاسی کرنے سے بھی گریز کیاجارہاہے۔2016 ءتو گزر گیا اور 2017ءکے آغاز کو بھی اب ایک ماہ سے زیادہ ہوگیاہے لیکن ابھی تک شام کے ان لٹے پٹے اور شکستہ حال لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کامستقبل کیاہوگا؟
اعدادوشمار کے مطابق دسمبر2016ءتک کم وبیش 63 لاکھ شامی باشندے خود اپنے وطن میں بے گھر تھے، یعنی جنگ کی وجہ سے ان کے مکان کھنڈر بن چکے، ان کے کاروبار تباہ ہوچکے تھے اور وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر جابجا پناہ لیے ہوئے تھے اور فاقہ کشی جیسی کیفیت سے دوچار تھے۔جبکہ شام سے باہر دیگر ممالک میں پناہ لینے والے شامی پناہ گزین بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے کیونکہ ان میں سے بیشتر کو مقامی آبادیوں کی جانب سے منافرت کاسامناہے، جبکہ اب ان کا اپنے گھروں کو واپس آنا بھی آسان نہیں ہے اس لیے کہ نہ تو ان کے پاس واپسی کے وسائل ہیں اور نہ ہی وطن واپسی پر ان کی آبادکاری اور بحالی کا کوئی انتظام اب تک دیکھنے میں آیاہے۔
جون2016ءمیں اردن نے شام سے ملنے والی اپنی سرحد مکمل طورپر بند کردی تھی اور شامی پناہ گزینوں کااردن میں داخلہ ناممکن ہوگیاتھا اردن کی حکومت نے سرحد بند کرنے کی وجہ اپنے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات قرار دیاتھا۔اردن کی جانب سے سرحد بند کیے جانے کی وجہ سے 75 ہزار سے زیادہ شامی باشندے اردن اور شام کی سرحد پر پھنس کررہ گئے تھے اور انہیں اس حالت میںرقبان اورحدالت کے کیمپوں میں کم وبیش 6 ماہ گزارنا پڑے تھے۔
اردن نے 2012ءکے اوائل میں ہی شام سے پناہ گزینوں کے اردن میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔اس پابندی کاشکار شام میں مقیم وہ فلسطینی باشندے تھے جن کے عزیز واقارب اردن میں موجود نہیں ہیں،اس کے علاوہ اردن میں داخلے کی مستند دستاویزات نہ رکھنے والوں کے لیے بھی اردن میں داخلہ ممنوع قرار پایاتھا،جس کے بعد اردن کے شمال مشرقی علاقے رقبان کے سرحدی شہر میں پناہ گزینوں کی خیمہ بستیاں آباد ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے ظاہرہوتاہے کہ رقبان میں 2014ءمیں ہی پناہ گزینوں کے90 کیمپ قائم ہوچکے تھے۔جبکہ ستمبر کے آخر تک ان کی تعداد 8ہزار295 ہوچکی تھی۔جبکہ جون سے اگست2016ءکے دوران صرف ایک مرتبہ ان کو امدادی سامان مہیا کیاگیاتھا۔
جہاں تک لبنان کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ اب شامی پناہ گزینوں کے لیے لبنان میں کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ لبنان میں صدارتی انتخاب میں مضبوط صدارتی امیدوار مائیکل اون نے برملا اس کا اظہار کردیاہے اور اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران میں اپنی تقریروں میں براہ راست شامی پناہ گزینوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں متنبہ کیاہے کہ وہ لبنان سے اپنا بستر بوریا سمیٹنے کی تیاری کریں ،لبنان کے دوسرے رہنماﺅں نے بھی ان پناہ گزینوں کے لیے شام ہی میں محفوظ علاقے قائم کرنے کی تجاویز پیش کی ہیں۔جبکہ اس طرح کے زونز کے حوالے سے تاریخ بہت کربناک ہے کیونکہ اس طرح کے کیمپ ایک طرح کے انتہائی حساس جنگی اور فوجی کیمپ بن جاتے ہیں جنہیں کسی بھی اعتبار سے محفوظ قرار نہیں دیاجاسکتا۔
ترکی نے بھی شامی پناہ گزینوں کی یلغار کو روکنے کے لیے شام سے ملنے والی اپنی سرحد پر 2014ءمیں ہی دیوار تعمیر کرنا شروع کردی تھی اورشام سے ترکی میں داخل ہونے کے 19 راستوں میں سے 17 کو مکمل طورپر بند کردیاتھااور شامی پناہ گزینوں کو ترکی میں داخلے سے روکنے کے لیے باقاعدہ طاقت کااستعمال شروع کردیاتھا۔اگرچہ بین الاقوامی برادری لبنان، اردن اور ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کو اپنے گزر بسر کے لیے کام کرنے، محنت مزدوری کرنے کاحق دینے کے لیے دباﺅ ڈال رہی ہے لیکن ان تینوں ملکوں کی حکومتیں اس پر تیار نظر نہیں آتیں۔ان کااستدلال یہ ہے کہ ان کے اپنے شہریوں میں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے ایسے میں وہ شامی پناہ گزینوں کو اپنے شہروں میں ملازمتوں کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں2017ءبھی شامی پناہ گزینوں کے لیے کسی خاص امید کامرکز ثابت ہوتانظر نہیں آتا اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ شامی باشندوں کو اس وقت تک اسی طرح دربدری اور فاقہ کشی جیسی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑے گا جب تک کہ شام میں مکمل امن قائم نہیں ہوجاتااور شام کے تمام معاملات پر شام کی حکومت کی گرفت مضبوط بلکہ مضبوط تر نہیں ہوجاتی اور یہ کب ہوگا اس حوالے سے فی الوقت کوئی پیش گوئی کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
٭٭٭
(بشکریہ خلیج ٹائمز؛۔ترجمہ ایچ اے نقوی)