... loading ...
بھارت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں اسمبلی کے انتخابات آج سے شروع ہونگے جو 7مراحل میں8 مارچ تک جاری رہیں گے جبکہ منی پور میں انتخابات2مرحلوں میں 8 فروری سے شروع ہوگئے ہیں،اگلا مرحلہ 4 مارچ کو منعقد ہوگا۔یہ انتخابات اترپردیش (403 سیٹوں)، پنجاب (117)، گوا (40)، اترکھنڈ (70) اور شمال مشرقی ریاست منی پورمیں 60نشستوں پر ہو رہے ہیں۔منی پور ہر چند کہ چھوٹی ریاست ہے لیکن شورش کے سبب وہاں 2 مرحلوں میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں۔گو ا میں سب سے کم نشستوں پر انتخابات ہیں اس لیے 4فروری کو ابتدائی طور پہ گوا میں انتخابی عمل مکمل کر لیا گیا ہے ۔چیف الیکشن کمیشن نسیم زیدی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخوں اور دوسری تفاصیل کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اتراکھنڈ میں ووٹنگ ایک مرحلے میں ہوگی اور 15 فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔تمام ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی 11 مارچ کو ہوگی۔
یہ ریاستی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اترپردیش اور پنجاب جیسی ریاستوں کے نتائج 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے سمت کا تعین کریں گے۔یہ انتخابات اس لیے بھی اہم ہیں کہ دہلی میں اقتدار میں آنے کے بعد اروند کیجریوال کی جماعت عام آدمی پارٹی پہلی بار پنجاب اور گوا میں انتخابات میں حصہ لیں گے جہاں وہ ایک بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔یہ انتخابات اس لیے بھی دلچسپ ہو گئے ہیں کہ 20 کروڑ سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کی حکمراں جماعت سماج وادی پارٹی آپس کی پھوٹ کا شکار ہے اور جہاں باپ بیٹے آمنے سامنے ہیں۔گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے انتخاب سے متعلق اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ انتخاب ایک سیکولر عمل ہے اور اس میں مذہب کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی امیدوار مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹ مانگتا ہے تو اسے نااہل قرار دیا جائے گا۔جبکہ نسیم زیدی نے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔
انتخابات قریب آتے ہی مختلف سیاسی جماعتوںکے رہنمائوں نے جن میں حکمراں بی جے پی کے رہنمابھی شامل ہیں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھارت کے نامور اور طاقتور مدرسوں کے چکر کاٹنا شروع کردیے ہیں، بھارتی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنومیں واقع دارالعلوم ندوۃ العلما کا دنیا کے مشہور تعلیمی مراکز میں شمار ہوتا ہے اور مسلمانوں میں بہت قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔شاید اسی لیے بی جے پی کے علاوہ بھی تمام سیاسی پارٹیاں ندوہ کے وائس چانسلر سے مدد مانگنے کے لیے سب سے پہلے ان کے پاس پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بہوجن سماج پارٹی کے لیڈر ستیش چندر مشرا اسی ارادے سے گزشتہ دنوں وائس چانسلر مولانا رابع حسنی ندوی سے ملنے مدرسہ پہنچے تھے تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا جا سکے۔
ندوہ میں 5ہزارطالب علم ہیں۔ پہلے تو انڈونیشیا، ملائشیا اور سعودی عرب سے بھی طالب علم یہاں آتے تھے۔خود کو ندوۃ العلما کا خادم کہنے والے ہارون رشید کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برس سے غیر ملکی طالب علموں کویہاں آنے کے لیے ویزا نہیں دیا جاتا۔ہارون کہتے ہیں کہ ندوے کے علما سیاسی معاملات سے دور رہتے ہیں۔ آج تک صرف ایک بار ندوے کے کسی بھی وائس چانسلر یا مہتمم نے کھل کر کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کی مخالفت کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ بعض حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ سے نتائج بہت حد تک متاثر ہوتے ہیں۔
1992 میں جب بابری مسجد شہید گئی، اس وقت یہاں کے وائس چانسلر مولانا علی میاں نے کانگریس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن ظفریاب جیلانی نے ایک دوسرے واقعے کا ذکر کیا جب مولانا علی میاں نے سیاسی مسئلے میں اپنی رائے دی تھی۔جیلانی کے مطابق جس وقت ملائم سنگھ یادو کلیان سنگھ کے ساتھ مل کر انتخابات میں آئے تھے تو مسلمان ان سے کافی ناراض تھے۔لیکن پرسنل لا بورڈ کی ایک میٹنگ کے بعد علی میاں نے باتوں باتوں میں صرف اتنا کہا کہ اس شخص (ملائم سنگھ) کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا، ان کا اتنا کہنا ہی کافی تھا۔
اسلامی تعلیم کا ایک بڑا مرکز دارالعلوم دیوبند بھی ہے۔ اس کا قیام 1866 میں سلطنت برطانیہ کے روز افزوں اثرات اور عیسائی مذہب سے لڑنے کے لیے ہواتھا۔ندوے کے اساتذہ کے مقابلے میں یہاں کے اساتذہ سیاست میں زیادہ دخل رکھتے ہیں۔ لیکن گجرات سے تعلق رکھنے والے مولانا وستانوی کو دیوبند اس لیے چھوڑنا پڑا کیونکہ انھوں نے نریندر مودی کے حق میں بیان دیا تھا۔
بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ لکھنو سے امیدوار ہیں اور انھوں نے گزشتہ روز شیعہ عالم مولانا کلب جواد سے ملاقات کی ہے۔جبکہ حال ہی میں عام آدمی پارٹی کے منیش سیسودیا نے دیوبند کے مولانا خالق سنبھلی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد دیوبند کی طرف سے بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ دیوبند سیاست سے دور رہتا ہے۔
ان کے علاوہ حیدرآباد کا جامعہ نظامیہ بھی مسلمانوں کا ایک قدیمی تعلیمی مرکز ہے۔ انتخابات کا موسم آتے ہی ان تمام مراکز میں سیاسی رہنمائوں کی آمد و رفت بڑھ جاتی ہے۔تاہم فی الحال ستیش چندر مشرا کے علاوہ ابھی دیگر کسی پارٹی کے لیڈر نے مولانا رابع سے ملاقات نہیں کی ہے۔شاید ملائم سنگھ یادو کو وہاں جانے کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ ان دنوں ظفریابجیلانی سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ جیلانی کی رائے بھی مسلم دانشوروں میں اہمیت کی حامل ہے۔ ملائم سنگھ کے وہاں نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ پہلے ہی دیوبند کی حمایت حاصل کر چکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سماجوادی پارٹی کو گزشتہ انتخابات میں مسلمانوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔
عام طور یہ کہا جاتا ہے کہ کانگریس کے لیڈروں کو ندوے جانے یا نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پارٹی اب بھی مکمل طور پر ان کا اعتماد حاصل نہیں کر پائی ہے۔دوسری جانب یہ خیال ظاہرکیا جاتا ہے کہ شیعہ مذہبی رہنما مولانا کلب جواد سے بی جے پی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ کی ملاقات کے بعد شیعہ مسلمانوں کا ووٹ بی جے پی کو جائے گا۔لیکن یہ کہنا توآسان ہے کہ لکھنئو کے مسلمان صرف ظفریاب جیلانی اور مولانا کلب جواد کے کہنے کے مطابق ہی اپنا ووٹ دیں گے،لیکن ایسا ضروری نہیں ہے ،جہاں تک عباس جیلانی کاتعلق ہے تووہ کہتے ہیں کہ اس برادری کا بنیادی مقصد بی جے پی کو روکنا ہے۔ اس کے لیے ووٹنگ سے ایک دن پہلے بھی وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے اور ووٹ اسی کو جائے گا۔
جیلانی کے مطابق لکھنوسے کانگریس کی امیدوار ریتا بہوگنا جوشی ’مقابلے میں نہیں ہیں‘، اس لیے سماج وادی پارٹی کے ابھیشیک مشرا کی حمایت کی جا رہی ہے۔راج ناتھ اور جواد کی ملاقات کو بھی وہ سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ مسلمان کسی بھی صورت میں بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی کو اگر آپ ٹوئٹر پر تلاش کریں تو کچھ مایوسی اور کچھ فرضی اکائونٹ ہی ہاتھ لگیں گے لیکن جن لوگوں کے بل بوتے پر وہ چار مرتبہ بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ بنیں، ان کے پاس سوشل میڈیا پر گزارنے کے لیے زیادہ وقت نہیں۔یہ سماج کا وہ انتہائی غریب طبقہ ہے جسے دلت کہا جاتا ہے، وہ لوگ جنھیں صدیوں سے بھید بھائو کا سامنا رہا ہے اور جن کی آواز بلند کرنے کا بیڑا مایاوتی نے اٹھا رکھا ہے۔اتر پردیش کی تقریباً بیس فیصد آبادی دلت ہے، اور اس کی ایک بڑی اکثریت مایاوتی کا ووٹ بینک مانی جاتی ہے۔ مایاوتی کی ہمیشہ سے کوشش مسلمانوں اور دلتوں کا ساتھ حاصل کرنے کی رہی ہے۔ ریاست میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً دلتوں کے برابر ہی ہے اور اس مرتبہ مایاوتی نے انھیں اپنی طرف راغب کرنے کے لیے 403 میں سے 97 ٹکٹ مسلمان امیدواروں کو دیے ہیں۔
لیکن مسلمانوں کی محبتوں کے دعویدار اور بھی ہیں، خاص طور پر سماج وادی پارٹی، جس کے بانی ملائم سنگھ یادو کو رام مندر کی تحریک کے دوران مولانا ملائم سنگھ کہا جاتا تھا، اور کانگریس جو بابری مسجد کی مسماری تک زیادہ تر مسلمانوں کی پہلی پسند ہوا کرتی تھی۔ مایاوتی کا کام کرنے کا انداز دوسرے سیاستدانوں سے مختلف ہے۔ ان سے انٹرویو حاصل کرنا تقریباً ناممکن مانا جاتا ہے۔ وہ انتخابی جلسوں میں بھی لکھی ہوئی تقریریں پڑھتی ہیں، کوئی شعلہ بیانی نہیں کرتی، بس تقریر پڑھی ہاتھ ہلایا اور ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر دوسرے جلسے کے لیے روانہ ہوگئیں۔ ان کی پارٹی کے ترجمان مشکل سے ہی ٹی وی پر نظر آتے ہیں، انھیں بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے لیکن عام طور پر مانا جاتا ہے کہ وہ ایک موثر ناظم ہیں، ان کے دور اقتدار میں امن و قانون کا سختی سے نفاذ کیا جاتا ہے۔
سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے اتحاد کے بعد ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کا براہ راست نقصان بہوجن سماج کو ہوگا، لیکن ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں، جہاں حلقے چھوٹے ہوتے ہیں اور عام طور پر چند ہزار ووٹوں سے ہار جیت کا فیصلہ ہوجاتا ہے، سہ فریقی مقابلوں میں کوئی پیش گوئی کرنا خطرے سے خالی نہیں۔میڈیا میں اس وقت ذکر سماجوادی پارٹی اور بی جے پی کا زیادہ ہے، لیکن ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اس دوڑ میں بی ایس پی ’ڈارک ہارس‘ ہے، وہ خاموشی سے دوڑ رہی ہے اور اس سے نظر ہٹانا غلط ہوگا۔
ایک طرف بھارت میں انتخابی شیڈول کااعلان ہونے کے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتوںکے رہنما خواب غفلت سے جاگ اٹھے ہیں اور اب مسلمانوں او ر دلتوں کومنانے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دوسری طرف ان انتخابات میں کالے دھن کے استعمال کے حوالے سے بھی ایک طویل بحث چھڑ گئی ہے اور عام طورپر کہاجارہاہے کہ ان انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر کالا دھن استعمال کیاجائے گا،کیونکہ اس کاحساب کتاب اور آڈٹ کرنے کاکوئی طریقہ کار الیکشن کمیشن یا حکومت کے پاس نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کی زیادہ تر آمدن کے ذرائع کا علم نہیں،انڈیا میں نیشنل الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کا کہنا ہے کہ گزشتہ 11 سال میں سیاسی جماعتوں کی تقریبا 70 فیصد آمدنی نامعلوم ذرائع سے رہی ہے۔حال ہی میں دہلی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2004 سے لے کر مارچ2015 تک تمام قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کی کل آمدنی 11،367 کروڑ روپے تھی جس میں سے تقریبا 30 فیصد آمدنی کے ذرائع کا پتہ دیا گیا ہے۔
بھارت میں موجودہ ضابطے کے مطابق اگر کسی سیاسی جماعت کو کسی شخص یا ادارے سے 20 ہزار روپے سے کم کا چندہ ملتا ہے تو ایسی صورت میں اس شخص یا ادارے کے نام کے اندراج کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران بہت سے ماہرین نے اس ضابطے میں فوری طور پر تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس سے انتخابی اخراجات اور سیاسی جماعتوں کے کام کاج میں مزید شفافیت آ سکے۔سابق چیف الیکشن کمشنر شہاب الدین یعقوب قریشی نے اپنے دور اقتدار میں اس کے متعلق سخت تبصرے بھی کیے تھے۔انھوں نے کہا تھا: ہماری تو کوشش رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں کیش (نقد) لینے کے چلن کو بند کریں مگر اس پر بہت کام کرنا ابھی باقی ہے۔
پنجاب میں اکالی دل اور بی جے پی اتحاد کی حکومت ہے،علاقائی جماعتوں میں سماج وادی پارٹی کا ریکارڈ قدرے حیرت انگیز ہے کیونکہ تازہ رپورٹ کے مطابق سماجوادی پارٹی کی کل آمدن کا 94 فیصد جو 766 کروڑ 27 لاکھ روپے ہے اس کے ذرائع کا علم نہیں جبکہ پنجاب کی اہم پارٹی شرومنی اکالی دل کی 86 فیصد آمدن یعنی 88 کروڑ 6 لاکھ روپے کے ذرائع کا علم نہیں۔تاہم سماجوادی پارٹی ان دنوں باپ بیٹے کے درمیان انتشار کا شکار نظر آتی ہے۔ بھارت میں سیاسی جماعتوں اور انتخابات پر نظر رکھنے والے ان دونوں اداروں کے مطابق نامعلوم ذرائع میں کوپن کی فروخت، تاحیات امداد، اور ریل آف فنڈ سے ہونی والی آمدن وغیرہ بھی شامل ہوتی ہیں۔جبکہ سیاسی جماعتوں کی آمدنی کے معلوم ذرائع میں نقد رقم اور جائیداد، رکنیت کی فیس اور بینک سے ملنے والے منافع وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔
رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...
لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...
پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...