وجود

... loading ...

وجود

ہماری غلط پیش گوئی

هفته 11 فروری 2017 ہماری غلط پیش گوئی

اپنی کوئی بھی پیش گوئی غلط ثابت ہو جائے تو اس کا اعتراف کرنا چاہیے اور قارئین سے معذرت بھی کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہ ڈاکٹر قیامت کی طرح اگلے دن نئی پیش گوئی کے ساتھ نیا لچ تلنے پہنچ جایا جائے اور اگر کوئی بے پر کی دستیاب نہ ہو تو اداکارہ میرا کی طرح اداکاری چھوڑنے کا اعلان کرکے ریٹنگزلینے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ اس لیے ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ ہماری ایک عدد پیش گوئی غلط ثابت ہوچکی ہے۔اس پیش گوئی کا تعلق میں محمد نواز شریف کے ترقیاتی منصوبوں سے تھا۔ ہم نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی ، اور واپڈاکی سرکاری ویب سائیٹس پر دستیاب منصوبوں کی دی گئی مجوزہ تاریخ ہائے تکمیل سے یہ اندازہ لگایا تھا کہ میاں نواز شریف کے اپنے ہاتھوں شروع ہونے والے بجلی اور سڑکوں کے ترقیاتی منصوبے یا پھر گزشتہ ادوار میں شروع ہونے والے (نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹس جیسے ) ادھورے منصوبے ، مارچ ۲۰۱۷ سے تکمیل کے ابتدائی زینے چڑھنا شروع کریں گے ، اور یوں میاں محمد نواز شریف روزانہ ان کے افتتاح کا ’مجمع ‘ لگا کر اپنی ترقی کی معجون بیچا کریں گے اور ان کے متاثرین اس مجمع پر جمہوریت کی تال پردھمال ڈالا کریں گے۔ ذرائع ابلاغ کے لیے ان منصوبوں کے اشتہارات کے منہ کھول دئیے جائیں گے جو دن رات یہ بتایا کریں گے کہ کس طرح ان منصوبوں سے ملک بھر میں ترقی کے دریا نہیں بلکہ وہ ندیاں اور برساتی نالے بھی بہہ نکلے ہیں، جہاں کئی دہائیوں سے ترقی کے پانی کا گزر نہیں ہوا تھا۔لیکن ہماری یہ پیش گوئی غلط ثابت ہو گئی ہے کیوں کہ میاں نواز شریف کی ’اگیتی ‘ ترقی کا سونامی ہمارے اندازے سے قبل ہی اُمڈ آیا ہے اور اب وہ دھڑا دھڑ ، روزانہ کی بنیاد پر، جزوی مکمل یا ادھورے منصوبوں کے دن رات فیتے کاٹنے میں مصروف ہو گئے ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے کا جائزہ لیں تو انہوں نے روزانہ اس طرح کے متعدد منصوبوں کو رونق بخشی ہے اور وہاں پر اپنے ناقدین کو خوب خوب سنائی ہیں۔ بلکہ اس سے ایک قدم آگے جا کر ان کو لعن طعن بھی کر ڈالی کہ ہم نے چوں کہ ان ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد رکھی تھی اس لیے ان کا افتتاح کرنے کا ’’مزہ‘‘ لینے کا حق بھی ہمارا ہے۔ ہمیں اس موقع پر نہ جانے کیوں بچپن میں سنا وہ مشہور و معروف محاورہ یاد آ گیا جو ہم گلی میں اپنے ’تزویراتی‘ مخالفین کے لیے بولا کرتے تھے۔
راجے راجے کھاندے
بلیاں بلیاں جھاکدیاں
(یعنی جو راجے یا اعلیٰ لوگ ہیں وہ عزت سے بیٹھ کرکھانا کھا رہے ہیں جب کہ بلیاں یعنی مخالفین ان کو حریص نظروں سے دیکھ رہی ہیں)
خبردار کسی نے اس محاورے سے کوئی غلط مطلب نکالنے کی کوشش کی تو۔ ہم کوئی سپریم کورٹ کے جج تھوڑا ہی ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیاں ہماری بات کو اپنے معانی و مطالب پہنا کر عوام الناس کو گمراہ کریں۔
میاں صاحب ہماری سیاسی تاریخ کے پہلے سیاست دان ہیں جنہوں نے ہماری ریاست پر ابتدا سے مسلط روایتی ذہنیت (مائنڈ سیٹ) سے بغاوت کرتے ہوئے سیاست کو کشمیر، امریکا ، افغانستان اور اسلام کے روایتی بیانیے سے نکال کر ’ترقی‘ کے بیانیہ کے گرد گھمانے کی کوشش کی۔ نظام کے اندر سے ان کے خلاف شدید بغاوت آئی اور روایتی ذہنیت کے نمائندوں نے دو دفعہ ان کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کیا۔ لیکن یہ ان کی کامیابی ہے کہ ۲۰۱۳ کے انتخابات میں ترقی ہی وہ واحد بیانیہ تھا جس کی بنا پر انتخاب لڑا گیا ، کسی پارٹی نے کشمیر، افغانستان ، امریکا اور اسلام کو اپنے انتخابی نعرے کی صورت میں سامنے لانے کا تکلف نہیں برتا، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں رو بہ عمل مٹھی بھر افراد ، جنہیں اسلام اور پاکستان کے علاقائی کردار و سلامتی سے خدا واسطے کا بیر ہے، وہ میاں نوازشریف کی بلائیں لیتے اور ان کے صدقے واری جاتے پائے جاتے ہیں۔
میاں صاحب نے نوے کی دہائی میں اقتدار کی نورا کشتی میں دو دفعہ چت ہونے کے بعد ایک نتیجہ اخذ کیا کہ کام ہونا چاہیے خواہ اس کی جتنی بھی لاگت آ جائے ، اس لیے میاں صاحب جب بھی برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے بجٹ، آڈٹ، نگرانی جیسی قباحتوں کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا جس بناء پر ان پر بدعنوانی کے الزامات بھی لگے اور بے شمار لگے اور اب یہی معاملات ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے زیر سماعت ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کے ادوار میں ترقیاتی منصوبوں کی قیمتیں کم ازکم تین گنا تک چلی گئیں لیکن ان کے پیشِ نظر واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ کتنی جلدی مکمل ہوتا ہے۔ دیامیر بھاشا اس کی سب سے اعلیٰ مثال ہے کہ کس طرح مخصوص ذہنیت کے لوگ دیامیر ڈیم کا پاؤر ہاؤس گھسیٹ کر بھاشا (کے پی کے) کے مقام پر لے گئے تا کہ دیامیر ڈیم کو دیامیر بھاشا ڈیم ثابت کیا جا سکے ،جس سے اس چار ارب ڈالر مالیت کے منصوبے کی مالیت انیس ارب ڈالر تک چلی گئی ہے اور اس کے بارے میں پیپلز پارٹی دور میں فتویٰ بھی آگیا کہ اس کا ’مالیاتی جواز‘ (اکنامک فزیبیلیٹی) نہیں بن پارہی اور یوں سندھ کی پارٹی کو اسے ڈیم کو پیچھے دھکیلنے کا موقع بھی مل گیا۔ اُس وقت واپڈا پر مسلط ایک بیوروکریٹ شکیل درانی نے بھی اس میں مزید گند ڈالا اور یوں یہ مہینوں میں مکمل ہونے والا منصوبہ دہائیوں تک پھیل چکا ہے۔ لیکن ڈاکٹر شمس الملک جیسے محب وطن چیخ چیخ کہہ رہے ہیں کہ بھارت سے اگر پانی چوری کا مقدمہ جیتنا ہے تو اس منصوبے کو اصل اونچائی تک لایا جائے تو یہ پانچ ارب ڈالر میں اگلے چار سالوں میں مکمل ہوسکتا ہے، لیکن کے پی کے ہر صورت میں اس سے بجلی کی رائلٹی لینا چاہتا ہے اس لیے اس کو زلزلے کی فالٹ لائن پر لے جایا جا چکا ہے، اور دیامیر ڈیم کو دیامیر بھاشا ڈیم رکھنے کی ضد کی جا رہی ہے۔
بہرحال میاں صاحب نے جن منصوبوں کی بنیاد رکھی ، بھلے وہ جتنے بھی مہنگے یا رزائد القیمت ہوں، ان کے افتتاح کا حق میاں نواز شریف کو ہی ہے جو وہ استعمال کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے پسندیدہ صحافیوں کو سامنے بٹھا کر اپنے سیاسی مخالفین کو بے نقط سنا بھی رہے ہیں۔ لیکن میاں صاحب سے عرض کرنا تھا کہ انہوں نے انہی صحافیوں کی موجودگی میں اپنی تیسری ٹرم کی ابتدا میں ہی گڈانی پاؤ ر پراجیکٹ کے جس منصوبے کا افتتاح کیا تھا ، اور وہ ان کی گڈ گورننس کے باعث اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ کسی روز گڈانی تشریف لے جا کر اس منصوبے کے مردے کو دفنا ہی آئیں، اور اگر ممکن ہو تو اس منصوبے کے مردے اور دیگر بہت سے ایسے ہی مردوں پر مٹی ڈالنے کے لیے چوہدری شجاعت حسین جیسی نابغہ روزگار شخصیت کی خدمات حاصل کر لیں ، کیوں کہ مٹی ڈالنے کا جس قدر تجربہ ان کو ہے کسی اور کو نہیں۔ ویسے بھی ق لیگ نامی پارٹی کے باقی سارے رتن تو ان کی کابینہ میں شامل ہو ہی چکے ہیں، تو پھر صرف چوہدری خاندان سے اتنی پرخاش کیوں؟ یہ کام جلدی کر لیں ورنہ چوہدری صاحب اس وقت بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف کے سیاسی مردے کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں ، جو ڈرتا ورتا بھی کسی سے نہیں ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر