... loading ...
پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے قبل زمانۂ جاہلیت کے دور میں معصوم لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا ، مرد کی اس سفاکیت کے پیچھے جو عوامل کارفرما تھے ان میں خاص کر عورت کو اپنے سے کم تر اور حقیر سمجھا جانا تھا جبکہ اسے بیاہ کر دوسرے مرد کے سپرد کرنے جیسے عمل کو اْس معاشرے کے مرد اپنی توہین اور باعث شرمندگی سمجھتے تھے ، نیز خاندان کی جائداد میں حصہ دینا بھی اس زن دشمن سماج کو بالکل پسند نہ تھا ، جس کی وجہ سے وہ لوگ اپنی معصوم اور کم عمر بچیوں کو زندہ ہی دفن کر دیا کرتے تھے اور اس قبیح حرکت کو وہ قابل فخر عمل اور ذاتی تسکین و راحت کا ذریعہ سمجھتے تھے ، صدیوں پرانی یہ رسم آج کے جدید ترین دور میں بھی مختلف شکلوں اور انداز میں موجود ہے ۔
قدیم معاشروں میں تو یہ غیر قانونی اور سفاکانہ معاملات چلتے ہی تھے تاہم آج کے اکیسویں صدی کے جدید ترین دور میں بھی، جہاں آئین اور قانون موجود ہو، جہاں انصاف فراہم کرنے کے لیے روزانہ عدالتیں لگتی ہوں، جہاں انسانی حقوق کے لیے لڑنے والی لاتعدادتنظیمیں موجود ہوں ،لیکن پھر بھی وہاں غیرت کے نام پر اور جائیداد ہتھیانے کے لیے عورت کا قتل اس معاشرے کے سخت اور خود سر ہونے کی عکاسی کرتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کو مال مویشی سے کم تر اور حقیر سمجھا جاتا ہے ، طاقت غرور اور تکبر کے نشے میں چور آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسے سخت گیر مرد موجود ہیں جو اپنی انا اور خودسری کے سامنے ہر قسم کی اخلاقیات اور قوانین کو بالائے طاق رکھ کر عورت کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں یہ بدکے ہوئے اور بھٹکے ہوئے مرد خود کو ریاست کے قوانین سے مبرا اور بری الذمہ سمجھتے ہیں اورحوا کی معصوم بیٹی کی جان لینا قابل فخر کارنامہ سمجھتے ہیں ، تعزیرات پاکستان کے مطابق کاروکاری قتل کے زمرے میں آتا ہے ، اور جو شخص بھی اس جرم میں ملوث پایا جاتا ہے اسے قانون کے مطابق سات سال قید یا پھر سزائے موت دی جاتی ہے ۔
آج کے جدید دور میں بھی ہمارے معاشرے میں اس ظلم اور سفاکیت پر مبنی رسوم و روایات کا پایا جانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم و شعور کی کمی اور ناخواندگی کا عنصر بہ درجہ اتم موجود ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس بے رحم اور سفاکانہ رسم کے خلاف کھل کر نہیں بولتا ۔پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بھی خواتین کی زندگی آسان نہیں ہے جہاں ہر روز جنسی تشدد ، عصمت دری ، مانی ، ونی اور کاروکاری جیسی رسم و رواج کی بھینٹ حوا کی بیٹی کو سرعام چڑھا دیا جاتا ہے اور ایک چھوٹی سی غلطی ، شک یا کاری کا جھوٹا الزام لگا کر یا پھر دیگر مقاصد کے حصول ‘جن میں خاص کر جائیداد کا ہتھیانا بھی شامل ہے ، کی خاطر اپنی ہی معصوم بہنــ‘ بیٹی، بہو اور بیوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ قدیم رسوم و روایات اور جہالت پر مبنی یہ سفاکانہ حربے صدیوں سے عورت کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں ۔اکثر ان رسومات کی بھینٹ خواتین ہی چڑھتی ہیں اور مرد اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ زن دشمن یہ سماج سیاہ کاری یا گناہ کا ثبوت حاصل کیے بغیر ہی یا تحقیق کیے بغیر ہی معاشرے میں اپنی عزت و ناموس بچانے کی خاطر یا زمانے کے لعن طعن سے بچنے کے لیے اپنی بہن ‘بیٹی بہو اور بیوی کو اس فرسودہ اور المناک درندگی کی بھینٹ چڑھا کر معاشرے میں سرخرو ہونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ، وہ عورتیں جن کا غیرت کے نام پر کسی نام نہاد پنچایت میں موت کا پروانہ جاری کر دیا جاتا ہے ‘ایسی عورتوں میں سے بس چند ایک ہی اپنی جان بچا پاتی ہیں اور خوش قسمتی سے ہی انہیں بروقت کوئی مضبوط اور دیر پا سائبان میسر ہو پاتا ہے ورنہ یا تو یہ دکھیاری قتل کر دی جاتی ہیں یا پھر یہ بیچاری قریہ قریہ، نگر نگر، بستی بستی، شہر شہر اپنی جان بچانے کی تگ و دو میں مضبوط پناہ گاہ کی تلاش میں سرگرداں خاک چھانتی پھرتی نظر آتی ہیں ۔لیکن افسوس ایسی دکھیاری عورتوں کو ہمارا معاشرہ بادل ِنخواستہ یا ذاتی اغراض و مقاصد کے تحت ہی قبول کر پاتا ہے ۔ہر سال دنیا کے تیس سے زائد ممالک میں ہزاروں عورتوں کو ان ہی کے خاندان کے مردوں کے ہاتھوں عزت و آبرو اور غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ قتل جائیداد کے حصول یا خاندانی جائیداد کے حصے میں بہن‘ بیٹی کے حصے کو ہتھیانے کے لیے ان پر کارو کاری کا الزام لگا کرکیا جاتا ہے۔ یہ قبیح اور المناک رسم پاکستان ، بھارت ، سری لنکا ، بنگلہ دیش ، اور بعض عرب ممالک میں بھی خاصی حد تک پھیل چکی ہے ۔ پاکستان میں یہ رسم بلوچستان ، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں عام ہے ، پنجاب میں غیرت کے نام پر قتل کالا کالی ، خیبر پختونخوامیں طور طورہ ، بلوچستان میں سیاہ کاری اور سندھ میں یہ رسم کارو کاری کہلاتی ہے ۔ ان علاقوں کے رسم و رواج کے مطابق ان کے خاندان کی گمراہ یا مشکوک عورت اور اس کے شریک جرم کا قتل جائز اور احسن اقدام سمجھا جاتا ہے مگر اس طرح کے معاملے میں اکثر عورت ہی گولی کا نشانہ بنتی ہے اور مرد صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن بعض اوقات مرد بھی اس بہیمانہ ظلم اور درندگی کا نشانہ بن جاتا ہے ۔
ایسی ہی ایک دلخراش اور المناک داستان سندھ کے شہر جامشورو سے تعلق رکھنے والی باہمت خاتون شبیراں بی بی کی بھی ہے ۔ شبیراں بی بی کے سگے بھائیوں نے پہلے اس کے شوہر کو اس کے اور اس کے معصوم بچوں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا اور قتل کو خودکشی کا رنگ دے کر بہن کو یہ حکم دے کر خاموش رہنے کی دھمکی دی کہ اگر زبان کھولنے کی کوشش کی تو تجھ پر کارو کاری کا الزام لگا کر قتل کر دیا جائے گا ، اور اس سفاکانہ قتل کے بعد اس کے سگے بھائیوں نے اپنی سگی بیٹی و بھتیجی کو منصوبہ بندی کے تحت ایک دور کے رشتے دار کی قیمتی جائیداد ہتھیانے کے لیے کاروکاری کا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کر دیا ۔اور پھر یہ غموں کی ماری دکھیاری ماں شبیراں بی بی خود کو خاموش نہ رکھ سکی اور انصاف کے حصول کے لیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔خود کو قتل کر دیے جانے کے خوف کے ساتھ ساتھ یہ خاتون انصاف کے حصول کے لیے طویل عرصے سے در در کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے ، اس مظلوم اور بے قصور ماں کے چار بچے بھی ہیں جن میں ایک بیٹی اور دو بیٹے ذہنی معذور ہیں ، باپ کے سائے اور شفقت سے محروم یہ بچے روز جی جی کر مرتے ہیں اور جان کی امان کی خواہش کے ساتھ انصاف کے حصول اور کسی مضبوط سائبان کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔
کوئی اس دکھوں کی ماری ماں اور اسکے معصوم اور معذور بچوں کا داد رساں اور غم گسار بن جائے ‘اسی آرزو کو سینے سے لگائے شبیراں بی بی نے ایک معروف غیر سرکاری انسانی حقوق کی تنظیم ” اجرک سوشل ویلفیئر سوسائٹی ” کے توسط سے روزنامہ جرأت سے رابطہ کیا ۔ ملاقات کے دوران اپنے اوپر ٹوٹے غموں کے پہاڑ کی المناک داستان ہچکیوں کے ساتھ سناتے سناتے دکھیاری ماں نیم بے ہوش سی ہو گئی ، اس نے نمائندہ جرأت کو بتایا کہ اس کے بچے اور وہ اپنے شوہر اللہ ڈنو کے ساتھ سندھ کے شہر جامشورو کی غریب آباد کالونی جامشورو پھاٹک قمبرانی محلے کے ایک مکان میں رہائش پذیر تھے ‘اس کے چار بچے ہیں جن میں ایک بیٹی اور دو بیٹے ذہنی معذوری کا شکار ہیں ۔ ایک اندھیری رات میرے دو سگے بھائی غلام عباس جو کہ محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر ہے‘ اورعلی نوازاپنے تین نامعلوم مسلح ساتھیوں کے ساتھ گھر آ گئے ، علی نواز جو کہ میرا بڑا بھائی ہے اپنی 12 سالہ بیٹی رضوانہ کا رشتہ میرے بڑے بیٹے 20 سالہ الطاف حسین کے ساتھ کرنے کے لیے زور دینے لگا ، جس پر میرے شوہر اللہ ڈنو نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کا رشتہ تمہاری بیٹی کے ساتھ نہیں کروں گا ، میرے بھائی یہ بھی زور دے رہے تھے کہ جس مکان میں ہم رہ رہے ہیں وہ مکان بھی میری بیٹی کے نام کرو اور اپنے بیٹے کا رشتہ بھی میری بیٹی کے ساتھ کرو ، یہ مکان میرے شوہر کی ملکیت ہے ، میرے شوہر نے میرے بھائیوں کو اس رشتے سے صاف انکار کردیا اور انہیں کہا کہ میں اپنے بیٹے کا رشتہ اپنی مرضی سے کروں گا ، یہ سن کر میرے دونوں بھائی مشتعل ہو گئے اور اللہ ڈنو کے ساتھ بد تمیزی اور بدکلامی کرنے لگے اور نوبت ہاتھا پائی تک آ گئی ۔ اس دوران غلام عباس نے میرے شوہر کو اپنے دونوں بازؤوں میں بری طرح جکڑ لیا جبکہ دوسرے بھائی علی نواز نے ہاتھ میں موجود رائفل کے دستے سے بے دردی سے اس کے سر پر وار کرنا شروع کر دیے، جس سے میرا شوہر زخمی ہو کر گر گیا اس کے سر میں شدید اندرونی چوٹیں لگی تھیں ، تھوڑی ہی دیر میں وہ بے حال ہو گیا اس کے بعد انہوں نے اس کو رسی سے باندھ کر صحن کی چھت کے گارڈر سے گلے میں پھندہ لگا کر لٹکا دیا۔ میرا شوہر کچھ دیر میں ہی بالکل بے حس اور ساکت ہو گیا تھا‘ اس تشدد سے پہلے میرے بھائیوں نے مجھے اور میرے بچوں کو سامنے کمرے میں زبردستی بند کر کے باہر سے تالا لگا دیا تھا ۔اُس وقت میرا بڑا بیٹا گھر پر موجود نہیں تھا ، بہیمانہ تشدد کا یہ منظر میں اور میرے بچے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہے تھے اور رو رو کر انہیں اللہ کے واسطے دے رہے تھے کہ وہ یہ ظلم نہ کریں ، اور ہمیں اور اللہ ڈنو کی جان چھوڑ دیں لیکن جیسے ان کے سر پر خون سوار تھا انہوں نے ہماری ایک نہ سنی اور اس دوران ہی میرے شوہر نے چھت کے گارڈر سے لٹکے لٹکے ہی جان دے دی ، جب میرا شوہر مر گیا تو یہ لوگ میرا کمرہ کھول کر اندر داخل ہوئے اور اللہ ڈنو کی اس موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے مجھے دھمکی دی کہ خبردار جو کسی کو بھی بتایا‘ اگر تم نے زبان کھولی تو تم پر کارو کاری کا الزام لگا کر تمہارے ہی بڑے بیٹے کے ہاتھوں تمہیں قتل کر وا دیں گے ، اس دوران اس واقعے کے بعد میں بے ہوش رہنے لگی اور کئی دنوں تک مجھے ہوش نہ رہا ، غنودگی کی سی کیفیت طاری رہتی‘ محلے کی عورتوں نے مجھے سنبھال رکھا تھا اس دوران میرے قاتل بھائی بھی میرے گھر پر ہی موجود رہے ، کچھ عرصہ بعد جب میرے اوسان بحال ہوئے اور کسی حد تک میں صدمے سے باہر آئی تو مجھے اپنے بچوں اور خاص کر اپنے بڑے بیٹے الطاف حسین کی جان کی فکر لاحق ہو گئی۔ اب مجھے ڈر تھا کہ کہیں اب وہ مجھے اور میرے بچوں کو کوئی سنگین نقصان نہ پہنچا دیں ، میرے بھائیوں نے میرے شوہر کے قتل کو خودکشی کا رنگ دے دیا تھا ، اور مجھے بھی دھمکایا کہ تم بھی لوگوں کو یہ ہی بتاؤ گی کہ اللہ ڈنو نے خودکشی کی ہے ۔ میں اپنی اور اپنے بچوں کی جان کی فکر میں خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔ میری نیم بے ہوشی کے دوران ہی میرے شوہر کی تدفین بھی کر دی گئی تھی ، کچھ عرصہ کے بعد میرے بھائیوں نے میرے شوہر کے قتل کا الزام مجھ پر اور میرے بیٹے الطاف حسین پر لگا دیا اور پولیس کو بیان دیا کہ اللہ ڈنو نے اپنی بیوی شبیراں کو کسی اجنبی مرد کے ساتھ نازیبا حالت میں دیکھ لیا تھا جس کے بعد اس کا شبیراں کے ساتھ جھگڑا ہو گیا اور پھر بات بڑھنے پر ماں بیٹے نے مل کر اللہ ڈنو کو قتل کر دیا ۔ اس بیان کے بعد پولیس میرے بیٹے کو پکڑ کر تھانے لے گئی جس پر میرا تیسرا بھائی اور میرا دیور ندیم تھانے گئے اور پولیس کو بیان دیا کہ الطاف حسین نے اپنے باپ کو نہیں مارا وہ بے قصور ہے جس پر پولیس نے میرے بیٹے کو شام تک تھانے میں رکھ کر چھوڑ دیا ۔ میرے بھائیوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر ذرا بھی زبان کھولی تو تمہارے سامنے ہی تمہارے بچوں کو ذبح کر کے کتوں کو کھلا دیا جائے گا ۔ اس کے بعد میرے بھائیوں نے میرے گھر کے باہر پہرا لگا دیا اور مجھے تنبیہہ کی کہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھنا ، اس دوران کسی اور کو بھی گھر میں آنے کی اجازت نہیں تھی ۔ 20 دِن تک گھر کے باہر پہرا رہا ، اس کے بعد میرے بھائیوں نے اپنے ایک دوست کو میرے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ دیکھ کر آؤ اب اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔وہ آدمی میرے گھر آیا اور قرآن کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ تیرے بھائی تجھے جان سے مارنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں مجھے یقین ہے کہ تم بالکل بے قصور ہو‘ تمہیں اپنی اور اپنے بچوں کی جان کی فکر کرتے ہوئے یہ شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جانا چاہیے، پھر اس شخص نے بڑی حکمت کے ساتھ مجھے‘ میری بوڑھی ماں اور میرے بچوں کو بحفاظت دوسرے شہر رشتے داروں کے گھر پہنچا دیا لیکن کچھ عرصے بعد ہی میرے بھائیوں نے میرا سراغ لگا لیا اور پاس پہنچ کر رشتے داروں کو دھمکی دی کہ شبیراں اور اس کے بچوں کو اپنے گھر سے نکال دو ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا ہم تمہاری بیٹیوں کو اٹھا کر لے جائیں گے جس پر میرے وہ رشتہ دار ڈر گئے اور مجھے اور میرے بچوں کو رات کو ہی گھر سے نکال دیا ۔اجنبی شہر میں میسر ایک جز وقتی سائبان بھی چھن چکا تھا ، اس کے بعد اسی شہر کی ایک مضافاتی بستی میں مَیں نے ایک چھوٹا سا کرائے کا مکان لے لیا اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے میں نے بچوں کو قرآن پاک پڑھانا اور لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران میری بوڑھی والدہ بھی شدید علیل ہو گئیں جنہیں میں نے اپنی دوسری بہنوں کے گھر ماتلی بھیج دیا ۔ یہ میرے اور میرے بچوں پر کڑا وقت تھا، معاشی حالات بہت خراب ہو گئے تھے، ہم لوگ اکثر بھوک سے تنگ آکر سیلانی ویلفیئر سے لائنوں میں لگ کر کھانا کھاتے تھے ، اس کے بعد ایک مشہور انسانی حقوق کی تنظیم کے بارے میں جان کر میں ان کے آفس چلی گئی ۔اس این جی او کے لوگوں نے میری بہت مدد کی اور کچھ ہی عرصے میں انہوں نے ملزمان کے خلاف تھانہ جامشورو میں ایف آئی آر درج کروا دی۔ ایف آئی آر میں میرے دونوں بھائی غلام عباس اور علی نواز کو نامزد کیا گیا اور مدعی میرا بڑا بیٹا بنا ،لیکن بدقسمتی سے ‘بجائے اس کے کہ پولیس ملزمان کو گرفتار کرتی ، پولیس نے اُلٹا میرے قاتل بھائیوں کے ساتھ ساز باز کر کے انہیں روپوش کر وا دیا اور کیس کو بند کر دیا‘ حالانکہ پولیس نے میرا بیان بھی لیا تھا اور میں نے سب کچھ کھل کر بتا بھی دیا تھا لیکن پولیس نے میرے ساتھ کوئی ہمدردی نہ کی اور نہ ہی انصاف کیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد این جی او کی مدد سے اس کیس کو ری اوپن کروایا گیا ۔میں اپنے بچوں کو لے کر حیدرآباد ایس پی آفس بھی گئی اور ایس پی عطا اللہ چانڈیو کے رو برو پیش ہو کر تمام تر حقائق بیان کیے جس پر ایس پی نے یقین دلایا کہ میرے ساتھ مکمل انصاف کیا جائے گا اور ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا‘ تاہم اس کے بعد کچھ نہیں ہوا بلکہ پتہ نہیں ایسا کیا ہوا کہ ایس پی نے میرا فون ہی اٹھانا چھوڑ دیا۔ اسی دوران ایک اور افسوسناک اور بری خبر ملی کہ جامشورو میں اپنے شوہر کی ملکیت جس گھر میں ہم رہتے تھے، جس گھر میں میرے شوہر کا قتل ہوا تھا اس گھر پر بھی میرے ظالم بھائیوں نے قبضہ کر کے اسے کرائے پر دے دیا تھا اور لاکھوں روپے مالیت کا گھر کا سارا سامان بھی لے لیا تھا ۔یہ مکان میرے مرحوم شوہر کے نام تھا ‘ان ظالموں نے میرا اور میرے بچوں کا یہ سائبان بھی ہم سے چھین لیا۔
اسی دوران ایک اور خبر ملی کہ میرے بھائی غلام عباس نے اپنی پندرہ سالہ بیٹی عارفہ کی شادی زبردستی اپنے دوسرے بھائی علی شیر کے بیٹے اٹھارہ سالہ علی حسن کے ساتھ کر دی ہے اس شادی کے لیے لڑکا اور لڑکی دونوں راضی نہ تھے اس شادی کے چھ ماہ بعد ہی ان ظالموں نے ایک اور قیامت ڈھا دی، ہوا یہ کہ ہماری قوم کا ایک دور کا رشتہ دار منٹھار سیہون شریف سے تعلیم کی غرض سے جامشورو آیا ہوا تھا اور ہمارے پرانے مکان کے قریب ہی رہائش پذیر تھا اس کا میرے بھائیوں کے گھر بھی کبھی کبھی آنا جانا تھارہتاتھا۔ علی نواز اور میرے دوسرے بھائیوں کو جب پتہ چلا کہ منٹھار ایک دولت مند آدمی ہے اور اس کی سیہون شریف میں بھاری مالیت کی زرعی زمین بھی ہے اور جامشورو میں ایک لاکھوں روپے مالیت کا مکان بھی اس کے نام پہ ہے یہ جان کر میرے بھائی حرص و لالچ میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے ایک اور گھناؤنا منصوبہ بنانا شروع کر دیا ۔منٹھار کی ایک خوبصورت منگیتر تھی جو کہ سیہون شریف میں ہی رہتی تھی ۔علی نواز اس لڑکی پر اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے نظر رکھ چکا تھا یعنی ایک تیر سے دو شکار کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا منصوبے میں منٹھار کی جائیداد کو ہتھیانا اور اس کی منگیتر کا رشتہ اپنے بیٹے شاہنواز کے ساتھ کرنا تھا چناچہ ان عیار اور ظالم لوگوں نے اپنے ایک اور ناپاک منصوبے پر عمل کرنے کی تیاری شروع کر دی ۔منصوبے کے مطابق غلام عباس کی بیٹی عارفہ جس کی شادی چھ ماہ قبل ہی دوسرے بھائی علی شیر کے بیٹے اٹھارہ سالہ علی حسن کے ساتھ ہوئی تھی ،چھ ماہ کی دلہن عارفہ کو کارو کاری کے الزام میں قتل کر کے اور اس کا الزام منٹھار پر لگا کر اسے قتل کے مقدمے میں پھنسا دیا تاکہ اس کی منگیتر اور جائیداد ہتھیائی جا سکے، واضح رہے کہ منٹھار اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس اپنے شہر جا چکا تھا۔ جولائی 2015کی ایک شام غلام عباس کے گھر پر میرا دوسرا بھائی علی نواز اپنے مسلح ساتھیوں کے ساتھ آیا اور غلام عباس کو کہا کہ تمھاری بیٹی عارفہ کاری ہے اور اس نے منٹھار کے ساتھ سیاہ کاری کی ہے لہذا اب ہمیں عارفہ کو قتل کر دینا چاہیے۔ اس پر غلام عباس نے علی نواز سے کہا کہ میری بیٹی عارفہ پر کاری کا جو الزام لگایا جا رہا ہے وہ بالکل غلط ہے میری بیٹی پاک دامن ہے ،یہ سن کر علی نواز نے میرے دیور ندیم کو بلایا ۔ندیم نے آ کر دس بارہ لوگوں کے سامنے گواہی دی کہ عارفہ نے منٹھار کے ساتھ سیاہ کاری کی ہے جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ اس گواہی کے بعد سب نے غلام عباس کی صفائیوں کو رد کر دیا جس پر طیش میں آ کر غلام عباس نے کہا کہ تو پھر جاؤ تم میری بیٹی عارفہ کے ساتھ ساتھ میری پوری فیملی کو بھی قتل کر دو ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت غلام عباس سمیت سب لوگ نشے میں تھے۔ اس کے بعد تمام لوگ علی نواز کی سرپرستی میں علی شیر جو عارفہ کا سسر ہے ،کے گھر پہنچ گئے اس وقت رات کے آٹھ بج رہے تھے، عارفہ گھر میں ہی موجود تھی ،یہ لوگ دندناتے ہوئے اسلحہ سمیت گھر میں گھس گئے اور نظر پڑتے ہی علی نواز نے عارفہ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے اکیس گولیاں عارفہ کے چہرے اور جسم پر لگیں اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئی۔ معصوم عارفہ اس وقت تین ماہ کی حاملہ تھی ،ان ظالموں نے اس کے حاملہ ہونے کا بھی خیال نہیں کیا ، قتل کرنے کے بعد صبح منہ اندھیرے انہوں نے مولوی بلا کر اور اس کی نماز جنازہ پڑھا کر جیئے شاہ قبرستان میں اس کی لاش کو دفنا دیا۔ شبیراں بی بی نے جرات کو بتایا کہ قتل سے پہلے مقتولہ عارفہ اپنے قتل کیے جانے کے منصوبے سے آگاہ ہوگئی تھی اور اس نے اپنی پھوپھی شبیراں بی بی یعنی مجھے فون کر کے اپنے قتل کیے جانے کے منصوبے سے آگاہ کر چکی تھی جس پر میں نے این جی او کی سربراہ بشرا سید کو اپنی بھتیجی عارفہ کو قتل کیے جانے کے منصوبے سے آگاہ کیا ۔
بشرا سید نے نمائندہ جرات کو بتایا کہ عارفہ کے قتل کے منصوبے کے بارے میں شبیراں بی بی نے مجھے کراچی میں واقع این جی او کے میرے آفس آ کر آگاہ کیا اور عارفہ سے فون پر بات بھی کروائی۔ فون پر عارفہ بہت خوفزدہ اور گھبرائی ہوئی تھی اور خود کو قتل کر دیئے جانے کے خوف کا اظہار کر رہی تھی جس پر بشرا سید کے مطابق اس نے اسے فوری طور پر پولیس 15 اطلاع کرنے کو کہا یا پھر خاموشی سے گھر سے نکل کر کسی بھی طرح کراچی آنے والی کسی بھی بس میں سوار ہونے کا مشورہ دیا تاہم عارفہ نے انہیں بتایا کہ پولیس تو خود اس کے چچاؤں سے ملی ہوئی ہے جبکہ کراچی آنے کے لیے گھر سے نکلنا ناممکن ہے کیوں کہ فیملی جوائنٹ سسٹم ہے اور سارے چچا وغیرہ قریب قریب رہتے ہیں ۔بشرا سید کے مطابق بے بس مظلوم عارفہ کو قسمت نے مہلت نہ دی اور ظالم درندوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئی۔ اس المناک واقع کے بعد اجرک سوشل ویلفیئر سوسائٹی نے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قانون کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا اور پھر بشرا سید اور شبیراں بی بی ڈی آئی جی حیدرآباد خادم حسین کے آفس حیدرآباد پہنچے اور انہیں درخواست دے کر تمام واقعے کی اطلاع کر دی۔ شبیراں بی بی نے جرات کو بتایا کہ بعد میں ان قاتلوں نے عارفہ کے قتل کو ڈکیتی کا شاخسانہ قرار دیا تھا ، تاہم ہمارے حقائق بتانے پر ڈی آئی جی خادم حسین نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کے احکامات جاری کر دیے اور سرکار کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 153/15 تھانہ جامشورو میں عارفہ کے قتل کی ایف آئی آر درج کر دی گئی جس میں تین ملزمان علی نواز ، علی شیر ، اور علی حسن کو نامزد کیا گیا بعد میں تحقیقات میں مزید ملزمان بھی سامنے آچکے ہیں جن میں خاص کر جھوٹی گواہی دینے والا ندیم ، غلام عباس ، پریل ، لطیف اور دیگر مزید ملزمان شامل ہیں۔ اس کیس میں اس وقت سات ملزمان جیل میں ہیں اور چھ ضمانت پر ہیں۔
شبیراں بی بی کا کہنا ہے کہ میں اور اجرک سوشل ویلفیئر سوسائٹی کی سربراہ بشرا سید اس مقدمے میں گواہ ہیں جبکہ حیدرآباد کے مشہور وکیل کے بی لغاری اس کیس میں ہمارے وکیل ہیں جو ہمارے انتہائی کم وسائل اور کمزور مالی حیثیت کے باوجود اس کیس میں ہماری بھر پور مدد کر رہے ہیں۔ شبیراں بی بی کا کہنا ہے کہ اس کیس کی وجہ سے میری اور میرے بچوں کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، ملزمان ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ شبیراں بی بی نے روزنامہ جرات کے توسط سے تمام اعلی حکام اور حکومت سے مدد کی اپیل کی ہے۔
رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...
لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...
پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...