... loading ...
حکومت کے پاس کوئی دل ہی نہیں اس لیے دل کے معاملے میں بھی وہ مجرمانہ غفلت کی شکار دکھائی دیتی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں غیر معیاری اسٹنٹس کی فروخت سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت میں ایسے معاملات سامنے آئے ہیں کہ ہر دل، درد سے تڑپ اٹھا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ طب کی دنیا میں اتنی ترقی ہورہی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی مریضوں کو غیر معیاری اسٹنٹس لگائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے اسٹنٹس دل کے مریضوں کو لگائے جارہے ہیں جو سرے سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے منظور شدہ نہیں۔ اس ضمن میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے دس دنوں کے اندر ملک میں استعمال ہونے والے رجسٹرڈ اسٹنٹس کے حوالے سے معلومات طلب کر لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹنٹ کا معاملہ جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ غریب اور متوسط آدمی مہنگے اسٹنٹ کیسے خریدے گا۔ قانونی معیارپر پورا اترنے والے والی اسٹنٹ درآمد کرنے والی کمپنیوں کو فوراً رجسٹر ڈ کیا جائے۔ ہماے نزدیک یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے جتنا کہ یہ اب تک معزز عدالت کے زیرسماعت آیا ہے یا پھر ذرائع ابلاغ میں زیر بحث رہا ہے۔ اس وقت ملک میں 68 اسٹنٹ رجسٹرڈ ہیں۔ جبکہ 37 کمپنیوں کی درخواستیں رجسٹریشن کے مراحل میں ہیں۔ اگر ان 37 کمپنیوں کے متعلق کوئی فیصلہ بھی کرلیا جائے تو مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کیونکہ پہلے سے ہی 68 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اصل معاملہ بدانتظامی کا نہیں بدنیتی کا ہے۔ اسٹنٹ کی خرید وفروخت اوپر سے نیچے تک ایک کاروبار ہے جس میں مریض ڈاکٹر سے لے کر کمپنیوں اور حکومت تک سب کی مشق ستم کا ایک حصہ ہے۔ اس پورے معاملے میں کہیں پر بھی دل کے مریض کو ایک “مریض “کے طور پر نہیں بلکہ منڈی کی نفسیات سے ایک” کنزیومر” کے طور دیکھا جاتا ہے۔ یہ پورا ایک کاروبار ہے جس میں اسٹنٹ کی اصل قیمت دل کے مریض کی خریداری تک مختلف منافع خور ہاتھوں سے ہوتی ہوتی چند ہزار سے لاکھوں روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک کمپنی اپنے اسٹنٹ کی زیادہ سے زیادہ خریداری چاہتی ہے۔ گویا وہ دنیا میں دل کے زیادہ سے زیادہ مریض دیکھنا یا بنا نا چاہتی ہے۔ اس کے لیے وہ دل کے معمولی سے معمولی مسئلے کے شکار لوگوں کو دل کے آپریشن اور اسٹنٹ کی خریداری تک خود دھکیلتے ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر اس پورے عمل میں اسٹنٹ کی خریداری پر منافع کا حصہ دار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے حقائق سامنے آچکے ہیں اور اِسے ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ گویا اس پورے کھیل میں ایک کمپنی پہلے اپنے اسٹنٹ کو مارکیٹ کرنے کے لیے حکومت کی سطح پر بے پناہ دولت خرچ کرتی ہے اور پھر اِسے مریضوں کو استعمال میں لانے کے لیے ڈاکٹرز کو پرکشش پیشکشیں کرتی ہیں تاکہ وہ اس کی فروخت کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنائے۔ ابھی اس اسٹنٹ کے معیاری اور غیر معیاری ہونے کی بحث چھوڑ دیجیے۔ اس طرح حکومتوں کو خوش رکھنے اور ڈاکٹرز کو دی جانے والی “رشوت” ملا کر قیمت میں شامل کردی جاتی ہے اور یوں چند ہزار کا اسٹنٹ لاکھوں روپے کی قیمت تک پہنچ جاتا ہے۔ چونکہ دل کے مریض کے حوالے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا اس لیے مریض کے اہلِ خانہ کو “بلیک میل” کرنے کی ڈاکٹر کے پاس گنجائش بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اسٹنٹ کی رجسٹریشن سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسٹنٹ جتنے رجسٹرڈ کیے گئے اور جتنے بعد میں بھی کر لیے جائیں ، تب بھی یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اس ضمن میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اسٹنٹ کا فیصلہ کوئی مریض کے اہل خانہ نہیں کرتے کہ کون سا اسٹنٹ زیادہ بہتر ہے اور کون سا اسٹنٹ معیاری اور رجسٹرڈ نہیں ہے۔ یہ تمام فیصلے عام طور پر ڈاکٹر کرتے ہیں۔ کیونکہ ننانوے فیصد سے بھی زائد معاملات میں مریض کے اہلِ خانہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اسٹنٹ کس بلا کا نام ہے؟ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اسٹنٹ کی خریداری کا فیصلہ وہ کربھی سکتے ہیں یا نہیں؟ انہیں رجسٹرڈ کمپنیوں اور معیاری اور غیر معیاری اسٹنٹ کا بھی کچھ علم نہیں ہوتا۔ اس عالم میں یہ سارے فیصلے “ڈاکٹر” کی صوابدید پر ہوتے ہیں اور وہ اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کے بڑھتے گھٹتے بھاو¿ کے طور پر اسٹنٹ کی خریداری کا فیصلہ کرتا ہے۔ جو کمپنی زیادہ “حصہ” دے گی اسی کمپنی کا اسٹنٹ وہ استعمال میں لاتا ہے۔ اس پورے عمل میں حکومت یا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کہیں پر بھی فعال دکھائی نہیں دیتی۔ کیونکہ وہ اپنا حصہ پہلے سے ہی لے کر الگ ہوچکی ہوتی ہے۔ اس پورے عمل کا مشاہدہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر زیر گردش وہ ویڈیو دیکھ لی جائے جس میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیا لوجی کے سربراہ ڈاکٹر صاحب ایک محفل میں سگریٹ ، شراب اور خواتین کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ اس ویڈیو کو منظر عام پر لانے والے دراصل یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح اسٹنٹ کا کاروبار رنگین ماحول میں منافع بخش طریقے پر ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک اسٹنٹ کی رجسٹریشن کو مسئلہ بنانے کے بجائے کمپنیوں ، حکومت اور ڈاکٹر کے مابین منافع بخش تال میل کو توڑنا چاہئے۔ اس ضمن میں کسی بھی ادویہ ساز کمپنی کے کسی بھی نمائندے کو ڈاکٹر سے ملنے پر پابندی لگادینی چاہئے اور اگر ایسا کوئی ایک واقعہ بھی رپورٹ ہوجائے تو مذکورہ ڈاکٹر پر تاحیات پابندی لگادینی چاہئے۔مریض کو مریض سمجھنا چاہئے ، کنزیومر نہیں اور ڈاکٹر کو ڈاکٹر ہونا چاہئے دوکاندار نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ یہ سوچیں کہ انہیں کبھی روزِ آخرت اللہ کو منہ دکھا نا ہے کہ نہیں۔ انہیں مریضوں کے ساتھ اس لوٹ مار کی اجازت دیتے ہوئے کچھ خدا خوفی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
٭٭
سندھ میں گریڈ18کے افسر مہدی علی شاہ کی بھی ایک تاریخ ہے وہ آج کل ضلع کورنگی میں ڈپٹی کمشنر کے طورپرکام کررہے ہیں مگروہ براہ راست گریڈ17میں کس طرح اسسٹنٹ کمشنر بنے؟ اس کی طویل اوردلچسپ کے علاوہ متنازع تاریخ ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ بینظیربھٹو جب دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں تو سیشن جج آ...
جب یہ سطور آپ کی نظروں سے گزریں گی تو عدالتِ عظمیٰ کے سامنے زیر سماعت پاناما لیکس کی بنا ء پر شروع ہونے والے کیس کی سماعت کا وقفے کے بعد دوبارہ آغاز ہوچکا ہوگا۔ جنوبی امریکا میں واقع ریاست پانامہ میں ٹیکس بچانے کے لئے قائم کی جانے والی آف شور کمپنیوں کو رجسٹر کرنے والے ادارے ’...
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے سندھ کے علاقے گھوٹگی کے رہائشی علی حسن مزاری کی درخواست پر تین سالہ بچی کو ونی کرنے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے جرگے کی تفصیلات طلب کر لی ہیں ۔ جرگے نے علی حسن مزاری پر تین لاکھ روپے جُرمانہ عائد کرتے ہوئے اُس کی تین سالہ بچی کو ونی ...
عدالت عظمیٰ کی گزشتہ دو سماعتوں سے یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ پاناما لیکس کے حوالے سےsupreme court عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت مقدمہ کوئی خطرناک موڑ بھی لے سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں 7 دسمبر کو (بروز بدھ) ہونے والی سماعت میں تحریک انصاف کو پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن ک...
اگر بارِ خاطر گراں نہ گزرے اور جان کی امان عطا ہو تو عرض بس اتنا ساکرنا تھا کہ جن لوگوں نے بہت بڑے بڑے منہ کھول کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کے بچوں ، رشتے داروں اور دیگر ساتھیوں کے مالی معاملات کے عدلیہ کے پاس جانے پر بغلیں بجائی تھیں اور اسے اپنی فتح پر محمول کیا تھا ،...