... loading ...
یہ ایک سچاواقعہ ہے ۔میں جن صاحب کے بارے میں بات کروں گا، اگر ان کانام درج کردوں توفورابہت سے لوگ پہچان جائینگے ۔اس لیے اصل مسئلے پربات کرتے ہیں ۔ موصوف ایک عہدسازشخصیت ہیں ،اعلی سرکاری اعزازات سے سرفرازہوئے ،ان کے شاگردوں کی تعدادبلامبالغہ ہزاروں میں تھی۔ان کے کئی شاگردآج بہت بڑے بڑے اوراونچے اونچے عہدوں پرفائزہیں ،جس ہستی کامیں تذکرہ کر رہا ہوں وہ ایک سرکاری جامعہ کے پروفیسرصاحب تھے۔انہوں نے ساری زندگی علم بانٹنے میں لگادی۔ اسی وجہ سے ازداواجی زندگی بھی کوئی خاص کامیاب نہ رہی ۔اولاد کے معاملے میں بھی بہت زیادہ خوش نصیب واقع نہ ہوئے ۔ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعدادآج پاکستان کے بڑے بڑے اخبارات میں کام کرتی ہے یااخبارات میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں ۔ پروفیسرصاحب زندگی کی 85 سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل میرے مرحوم دوست بلال جامعی کا چھوٹابھائی جمال جامعی ان کے پاس نیازمندی کے لیے پیش ہوا۔ جمال کیونکہ ایک ذہین اور ہونہار طالب علم ہے ،اس لیے وہ ماضی کے اساتذہ کرام کی خدمت میں بیٹھنااپنے لیے باعث فخر سمجھتا ہے۔جمال نے مجھے پروفیسرصاحب کے جو حالات وواقعات سنائے ان سے میری روح کانپ گئی۔ پروفیسرصاحب کی آنکھوں کی بینائی جاچکی ہے۔ ان کے گھرکوئی ایسانہیں جوان سے دیرتک بات کرے۔ان کی بات سنے ،ان کوکہیں باہرگھمانے لے جائے ۔ان کوحال احوال سنائے ۔الغرض ان کے پاس کوئی ایسارشتہ نہیں ، جس کی مددسے وہ بڑھاپے کے آخری دنوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوسکیں ۔ پروفیسر صاحب نے اپنی اولاد کوخوب پڑھایا۔جس طرح کہ اس شعبے سے وابستہ لوگ اپنے بچوں کو پڑھایا کرتے ہیں ۔اوراس پڑھائی کانتیجہ یہ نکلاکہ ان کی اولاد آج امریکا میں سیٹ ہوچکی ہے ۔وہ ہرمہینے پروفیسرصاحب کے لیے اچھے خاصے پیسے بھیجتے ہیں ، مگروہ پیسے جوں کے توں پڑے رہتے ہیں ۔ کیونکہ ایک 85سال کے بوڑھے انسان کی خواہشات اورضرورتیں کتنی ہوتی ہیں ؟ پروفیسر صاحب کوپیسوں کی نہیں ،کسی مہربان کی ضرورت ہے۔ مگرمہربان دستیاب نہیں ۔پروفیسرصاحب نے جمال سے گزارش کی کہ اگروہ ہرروزپروفیسر صاحب کوصبح آکراخبارسنادے، توپروفیسرصاحب نہ صرف اس کے ممنون ہونگے بلکہ اسے تعلیم کے لیے مددبھی فراہم کرینگے۔جمال نے پروفیسر صاحب سے ایک بہت قیمتی سوال پوچھا۔ اسی سوال کی وجہ سے آج میں نے قلم اٹھایاہے۔جمال نے کہا پروفیسرصاحب ،کیایہ بات درست نہیں ہے کہ، آپ نے جوسرمایہ دارانہ نظام تعلیم، عمربھراپنے شاگردوں کودی تھی اس کے نتیجے میں آج ،آپ کے شاگردبہترین سرمایہ کمارہے ہیں ؟ پروفیسر صاحب نے کہا۔جی بالکل یہ بات صحیح ہے کہ میرے سبھی شاگردآج کامیاب ہوچکے ہیں ۔ تو سر، کیاآج آپ کی تنہائی کی ایک بڑی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ، جس سرمایہ دارانہ نظام تعلیم کی خدمت کرتے رہے، اس سے نکلنے والے آپ کے شاگردوں کے پاس آج، سرمائے کے مقابلے میں آپ کودینے کے لیے وقت نہیں ہے؟اگران کی جگہ آپ نے عمر،کسی مدرسے میں گزاری ہوتی اوروہاں کے بچوں کوتعلیم دی ہوتی توآج ،کوئی شاگردآپ کے پائوں دباتا؟کوئی آپ کے جوتے اٹھاتا؟ اوروہ اس عمل کواپنی آخرت کے لیے نجات کاذریعہ سمجھتے ہوئے یہ تمام اعمال ثواب سمجھ کراورعبادت سمجھ کرکرتے۔ پروفیسرصاحب چندمنٹوں کے لیے گہری سوچ میں چلے گئے۔ پھرایک ٹھنڈی سانس لے کرآبدیدہ آنکھوں سے کہنے لگے۔بیٹے آپ نے درست کہا،میں نے ساری عمرسرمائے کے حصول کے طریقے سیکھائے۔آج میرے شاگرد اس سرمائے کے حصول میں دن رات مگن ہیں ۔مگرمیرے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ۔اوراس عمل کاذمہ دارمیں خودہوں ۔ اپنی تنہائی کاذمہ دارمیں خود ہوں ۔پروفیسرصاحب یہ جملے کہہ کرروپڑے۔ اورروتے ہوئے صحن سے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔یہ ایک سچاواقعہ ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ دل دکھانے والے اور سوچنے پرمجبورکرنے والے واقعات روزہمارے سامنے آتے ہیں ۔جن پرہم کبھی غورہی نہیں کرتے۔یہ قصہ ایک پروفیسرصاحب کانہیں ہے ، یہ قصہ ہراس انسان کاہے جوصرف سرمائے کے اور دولت کے حصول کے لیے اپناآج قربان کر رہا ہے۔ اوروہ اس حقیقت سے بے خبرہے کہ آنے والا کل کس قدرتلخ اورسخت حالت زندگی سے اس کا سامنا ہونے والاہے ؟مرناایک حقیقت ہے ۔ مگر آج بڑھاپے اورمرنے کوکون گفتگوکاموضوع بناتاہے؟ یہ پاناما کیس سے بڑامسئلہ ہے۔ یہ گھر گھر اور ہر فرد کا مسئلہ ہے ۔بڑھاپے کو تو پھر انشورنس والے اپنے فائدے کے لیے اشتہار کے ذریعے یادکروادیتے ہیں ۔مگرمرناتوآج ایک برے خواب کی طرح سمجھا جاتا ہے۔کوئی مرنے کے لطف پربات نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی مرنے کے لیے بہترین راستے کے انتخاب پربات نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی مرنے کے بعدکی منزلوں کے بارے میں گفتگو نہیں کرتا۔ کیاآپ نے کبھی بحریہ ٹائون، ڈی ایچ اے سوسائٹی ،فضائیہ ہائوسنگ اسکیم یا دیگر ہائوسنگ سوسائٹیوں کے اشتہارات میں سنا کہ ’’وسیع وعریض اورچوبیس گھنٹے روشنیوں سے آراستہ قبرستان آپ کے کل کے لیے آپ کا منتظر ہے۔ آج ہی 2,3,4اور6مرلے کے پلاٹ لے کربہترین لوکیشن پرقبرفوری بک کروائیں ‘‘ ۔یہ جملہ اشتہار میں کیوں نہیں آتا؟ یا آسکتا؟ کیونکہ بحریہ ٹائون،ڈی ایچ اے ہائوسنگ سوسائٹی اور فضائیہ ہائوسنگ اسکیم زندگی کے مزے کو، دوبالا کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں ۔اشتہارمیں صرف زمین کے اوپرکی بات کی جاتی ہے ۔زمین کے نیچے کی بات کرنابھی گھاٹے کاسودا ہے۔لیکن کیا ان ہائوسنگ سوسائٹیوں میں جانے والوں نے مرنا نہیں ہے؟ مگرسرمایہ داروں کے لیے مرناغیراہم ہے۔جینااہم ہے۔ مرنے کی بات کرنابہت بری بات ہے۔معلوم نہیں و ہ کس تہذیب کے لوگ تھے؟جوروز،دن میں ایک بارموت کو یاد کرنا ثواب سمجھتے تھے؟ اور مرنے کے لیے ایسے تیار رہتے تھے جیسے محبوب اپنی محبوبہ سے ملنے کے لیے تڑپتاہے ۔بڑھاپے کی تنہائی آج کے ہرتعلیم یافتہ انسان کامسئلہ بن چکاہے ۔خاص طورپروہ حضرات جو کسی شعبے کے ماہرہیں ۔حال ہی میں ہمیں ہمارے استاد صاحب نے ایک 52سال کی خاتون پروفیسرکے لیے رشتہ تلاش کرنے کاحکم دیا۔موصوفہ گریڈ20میں ہیں ۔نہ کوئی آگے نہ کوئی پیچھے ۔تنخواہ 1لاکھ ماہانہ ۔اپنے علاوہ کوئی کھانے والانہیں ہے۔استانی صاحبہ کے جب ماں باپ زندہ تھے تب ،ان کوکوئی فکرنہ تھی۔ فکرتھی توبس، پی ایچ ڈی(PHD) کرنے کی۔ میٹرک کرنے کے ساتھ ہی ان کے رشتے آناشروع ہوگئے تھے، F.S.C تک، والدین نے ہر آنے والے رشتے کو،کوئی نہ کوئی نقص نکال کر ٹھکرادیا۔ B.S.C کرنے کے بعداستانی جی M.S.C کرنے یونیورسٹی آگئیں ۔ اور یہاں آکر ان کی ظاہری آنکھیں کھل گئیں مگرشعور کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بندہوگئیں ۔یونیورسٹی آکران کواطلاع ملی کہ پڑھائی میں اصل عزت اوراصل کمال پی ایچ ڈی کرنا ہوتا ہے۔ M.S.C مکمل کرتے وقت استانی جی کی عمر22 سال ہوچکی تھی۔اس عمر میں ان کے لیے 26سے 28سال اور 30 یا 32 سال کی عمرکے لڑکوں کے رشتے آتے رہے ۔ مگر استانی جی نے اپنے والدین کوصاف صاف کہہ رکھا تھا کہ ، پی ایچ ڈی تک کوئی گھرمیں شادی کانام بھی نہ لے۔ میں آپ(امی،ابو)اورخاندان کانام روشن کرنا چاہتی ہوں ۔ میں چاہتی ہوں ، آپ سب اور میرا پیارا پاکستان مجھ پرفخرکرے۔شادی تو ہردوسری لڑکی کرہی رہی ہے۔پی ایچ ڈی کرنے تک محترمہ کی عمر28سال ہوچکی تھی۔اب جو رشتے آناشروع ہوئے وہ 35 سے 40اوربعض 50 سال کے مردحضرات کے تھے ،جواِن ہی کی طرح دنیافتح کرنے کے چکر میں شادی میں تاخیر کا شکار ہوچکے تھے ۔استانی صاحبہ کے والدین اس عمر میں ان کے لیے کوئی 30,32سال کالڑکاتلاش کرتے رہے۔ اوراسی میں استانی جی2 5تک پہنچ گئیں اوروالدین جنت میں جاچکے۔ بہن بھائی اپنے اپنے معاملات میں الجھ چکے ہیں ۔ اب ان کے یہاں رشتے توآتے ہیں ، مگر ان کے جو،پروفیسرصاحبہ سے عمرمیں 20سال یا22سال چھوٹے ہوتے ہیں ۔اوران میں سے اکثررشتے ان کے شاگردلڑکے خودہی لے آتے ہیں ۔ استانی کوڈرہے کہ یہ لڑکے دراصل میری تنخواہ پرڈاکا ڈالناچاہتے ہیں ،اسی لیے مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں ۔وہ اب کسی سنجیدہ عمرکے بزرگ کی تلاش میں ہیں ۔جوبس ان سے بات کرے۔ وہ اب کسی کے ساتھ حلال رشتے میں بات کرنے تک کوترس گئی ہیں ،امریکا میں تواس مسئلے کاحل نکال لیاگیاہے۔ وہاں ایسی کمپنیاں کھل گئی ہیں ۔ جہاں آپ کسی بھی وقت فون کرکے اپنے دیئے گئے روپوں کے بدلے اپنی پسند کے کمپنی کے نمائندے سے بات کرسکتے ہیں ۔وہ نمائندہ جب تک آپ کے اکائونٹ میں پیسے رہینگے، آپ سے بات کریگا۔ اوپربیان کئے گئے مسائل کاحل دوطرح سے نکل سکتا ہے ،کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے ان دو راستوں کے سوا۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ ہرعورت اور مرد، بالغ ہونے کے فورابعدسب سے پہلے شادی کرے اوراللہ پاک پربھروسہ کرے ۔رزق تو اللہ پاک نے دیناہے ،جولوگ غریب ہیں وہ امیر لڑکی کے چکرمیں نہ پڑیں ۔وہ اپنے جیسے کسی غریب گھرکی لڑکی کواپنے لیے پسند کرلیں ۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ایسے تمام لوگ جوآج تنہائی کاشکار ہیں ، وہ اپنے رشتہ داروں سے فوراًاپنے تعلقات اچھے کریں ،اپنی کمائی پرسانپ بن کرنہ بیٹھیں ۔اپنی تنخواہ نہ چھپائیں ۔اپنی زندگی کی عیاشیاں کم کریں ۔ اورغریب رشتہ داروں کے بچوں پردست شفقت رکھیں ۔اس طرح یہ بچے ان کے بڑھاپے کاسہارابن جائینگے ۔اس کے علاوہ تیسراراستہ جوبھی ہو،وہ سیدھانیٹی جیٹی پل سے آپ کو سمندر کی گہرائی میں لے جائے گا۔اس لیے ابتدائی دو راستوں کے علاوہ کسی راستے کاانتخاب کرنے کا مشورہ کم ازکم میں تواپنے قارئین کونہیں دونگا۔کچھ عمل ایسے ہوتے ہیں کہ جن کاردعمل ،عمل سے پہلے ہی نظرآناشروع ہوجاتاہے۔جب لوگ جوان ہوتے ہیں تب وہ کسی کے روادارنہیں رہناچاہتے۔ اپنی آزادی پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں ،ہم ہمیشہ ایسے ہی خوبصورت اورجوان رہینگے ،ہمیشہ لوگ آج کی طرح ہم پرقربان ہونے کے لیے تیاررہینگے ۔وہ اپنی تباہی کواپنی آزادی سمجھ بیٹھے ہیں ،مگریہ آزادی ہی ان کومروادیتی ہے ۔انسان دولوگوں کے وسیلے سے دنیامیں آتاہے۔ اوردولوگوں کے وسیلے سے گردن سنبھالنے کے قابل ہوتاہے۔ جواپنی آزادی، قربان کرکے قربانی دے گا،کل اس کے بچے، اپنی آزادی اس کے لیے لازمی قربان کرینگے۔ اورجوآج آزادی کی قربانی نہیں دے گاوہ کل ترسے گا۔کوئی اس کے پاس بات کرنے، ہاتھ تھامنے ،سہارادینے ،حتی کہ پانی پلانے کے لیے دستیاب نہ ہوگا۔یہ یونیورسٹی ،اسپتال اور دیگر اداروں میں کام کرنے والے حضرات یقین کرلیں کہ یہ سرمائے کی خدمت کے سواء کچھ نہیں کر رہے ۔ نسل کی تربیت محض دھوکا ہے۔ ڈاکٹرمفت میں مریض کاعلاج نہیں کرتا ، سرکاری جامعہ میں کوئی مفت میں نہیں پڑھ سکتا،ہم نے سڑکوں پر اساتذہ اورڈاکٹرزبھی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کرتے اورلاٹھیاں کھاتے دیکھے ہیں ۔اس لیے اس فریب سے نکل آئیں کہ ہم عظیم خدمت سرانجام دے رہے ہیں ۔ خاندان سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے۔ اپنا خاندان بنائیں جوکل آپ کے بڑھاپے کا سہارا بنے۔ نہ کہ آپ کاکل ایدھی ہوم میں گزرے (اللہ نہ کرے۔)یہ کڑواسچ ہے، مگر یہ فائدہ مند ہے۔ میری ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ صبح سے پہلے شادی کرلیں ،بس!!
٭٭