... loading ...
اسلام آبادمیں پولیس کے اشارے پر گاڑی نہ روکنے پرپولیس اہل کاروں نے براہِ راست فائرنگ کرکے مردان کے رہائشی ایک ۲۶ سالہ نوجوان کو قتل کردیا، اور اپنے افسرانِ بالا کی سرپرستی میں موقع سے فرار ہو کر پہلے تھانے گئے ، جہاں وردی تبدیل کر کے وہ پولیس کے کسی خفیہ مقام پر منتقل ہوگئے۔ مقتول دو بچوں کا باپ اور اپنے خاندان کو واحد سہارا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول کے ساتھ گاڑی میں موجود خاتون اس کی بیوی نہیں بلکہ ’’دوست ‘‘تھی (اور ظاہر ہے اس شخص کو قتل کرنے کے لیے یہی کافی تھا) اور اب پولیس یہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ دونوں افراد نے نشہ بھی کیا ہوا تھا۔ امید نہیں بلکہ یقینِ واثق ہے کہ کچھ دن پہلے ایڈیشنل سیشن جج کے گھر میں بدترین تشدد کا نشانہ بننے والی کم سن بچی کے تشدد کے نشانات اور زخموں کو معمولی قرار دے کر جج صاحب اور ان کی اہلیہ کا اقبال بلند کرکے ان کی ضمانت میں مددگار بننے والے اسلام آباد کے قابل ڈاکٹرز پرمشتمل ٹیم مرحوم اور اس کی دوست کے لیے نشے میں ہونے کا سرٹیفیکیٹ بڑی آسانی سے جاری کر دے گی۔
مرحوم کے لواحقین جب پولیس اہل کاروں کی اس کارنامے پر تھانے میں واپسی اور اپنے ساتھی اہل کاروں کی طرف سے اس کارنامے پر آو بھگت پر احتجاج کر رہے تھے ،تو موقع پر موجود ملک کے اعلیٰ ترین مقابلے کا امتحان سی ایس ایس پاس کر کے پولیس میں شامل ہونے والے ’اعلیٰ کردار کے حامل‘ پولیس افسر مرحوم اور اس کے ساتھ موجود خاتون کے کردار کے بخئیے ادھیڑ رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ دنوں نہیں کچھ گھنٹوں کی بات ہے پھر مرحوم کا پورا خاندان اپنے اسلام آبادی محلے اور مردان اور دونوں جگہوں پر منہ چھپاتا پھرے گا کہ ہر گلی محلے میں پالے گئے پولیس کے ٹاوٹ بھی تو کوئی کام کریں گے ناں ؟
ہماری رائے میں اسلام آباد کی مہذب پولیس نے خوامخواہ اتنا طویل راستہ اختیار کیا ہے۔ لگتا ہے اسلام آباد پولیس کی تربیت میں کوئی کجی رہ گئی ہے۔ وزیر داخلہ کو فوراً ان پولیس افسران کو ریفریشر کورس پر بھیج دینا چاہیے۔ ان کو توچاہیے تھا کہ سیدھے سبھاو ۱۸۵۷ میں لکھی گئی انگریز کی وہی پرانی پریس ریلیز جاری فرمادیتے ’آئی جی کے حکم پر، ڈی آئی جی کہنے پر، ایس ایس پی کی ہدایت پر، ایس پی کی فرمائش پر ، ڈی ایس کی نگرانی میں ، اے ایس آئی کے زیرِ تحت دو پولیس کانسٹیبلان نے نہایت جرات و بہادری سے ایک ناکے پر کارروائی کر کے ’لشکرِ جھنگوی العالمی‘ یا پھر ’القاعدہ ایشیا‘ کے سربراہ کو پولیس مقابلے میں قتل کر دیا اور یہ کہ اس کے ساتھ موجود خاتون خود کش بمبار تھی‘‘۔
اس کے بعد کیا تھا اسلام آباد پولیس بڑے آرام سے اس کے خاندان کے دیگر افراد کو ’اٹھا کے‘ (گرفتاری تو کسی قانون کے تحت ہوتی ہے ) سی ٹی ڈی کے خفیہ ٹھکانے پر منتقل کرتی ، جو ان کا امریکا کے کسی ریمنڈ ڈیوس سے معائنہ کروا کے اپنی نوکری پکی کر لیتے یا پھر نقد پکڑ لیتے کہ اب امریکیوں کو بھی گوانتانامو بے میں رکھنے کے لیے کچھ اور افراد درکار ہیں ۔ نہیں یقین تو لاہور میں گلشنِ اقبال میں بم دھماکے میں شہید ہو جانے والے نوجوان کے خاندان سے پوچھ لیں ، جس کا شناختی کارڈ موقع سے مل گیا تھا، مظفر گڑھ کے اس خاندان کوراتوں رات اٹھا کر غائب کر دیا گیا تھا۔ بعد میں ثابت بھی ہو گیا تھا کہ نوجوان تو خود مقتول تھا، پولیس افسران نے مان بھی لیا تھا لیکن اس خاندان کے افراد کو آتے مہینوں لگ گئے اور آج تک ان کا نام شیڈیول چار میں شامل ہے۔
ویسے بھی مقتول پختون تھا ، اور پختونوں کا خون آج کل پیارے پاکستان میں سب سے سستا ہے اس لیے سارے میڈیا نے یقین بھی کر لینا تھا۔ اسلام آباد پولیس تو اپنے افسران کے لیے مکانوں پر قبضے کے لیے بہارہ کہو میں یہ فارمولا کئی بار آزما بھی چکی ہے۔ پھر دیکھتے یہی میڈیا، جو ان کے لتے لے رہا ہے، کیسے پولیس کے صدقے واری جاتا اور انہی پولیس افسروں کی بہادری کے کارنامے بیان ہوتے ، ان پر آئی ایس پی آر کی فنڈنگ سے ڈرامے بنتے اور سید نور صاحب ان پولیس افسران پر ایک عدد فلم بھی جڑ دیتے، جو ڈی ایچ اے کے سینماوں میں سپر ڈوپر ہٹ ہو جاتی۔ لیکن لگتا ہے اسلام آباد پولیس کے کارنامے میں کوئی جھول رہ گیا۔
گزشتہ دنوں فیصل ٹاون لاہور میں ایک ناکے پر ہم نے شرارتاً پوچھا کہ ’’پانی ہے‘‘ پولیس اہل کار نے پہلے بڑے غور سے ہمیں اور ہمارے اہلِ خانہ کو گھورا پھر نہائت ملائمت سے بولا، جناب مقامی یا غیر ملکی؟ پتہ چلا کہ منہاج القرآن کے ہمسائے میں لگایا گیا پولیس کا یہ ناکہ پارٹ ٹائم ہی چیکنگ کرتا ہے، فُل ٹائم وہ یہ کام کرتا ہے، یعنی ’پانی کی فراہمی کا‘ لو کر لو گل۔ جب پولیس افسر گاڑی کی کھڑکی میں سے جھانک کر یہ ’پبلک سروس‘ کررہا تھا عین اُس وقت اس کے منہ سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھوکوں نے ہمیں بتادیا کہ وہ ’پانی‘ ہی چیک کرکے آیا ہے۔
کیا دور آ گیا ہے کہ جس پولیس کی بدعنوانی، نااہلی اور غلیظ کردار کے باعث ہم موٹرسائیکل چوری کی واردات کی رپورٹ بھی درج کروانے نہیں جاتے کہ انہوں نے کرنا تو کچھ ہے نہیں ، بلکہ الٹا مدعی کو ہی ’لمیاں پا ‘لینا ہے، وہ پولیس جس کے ’اعلیٰ کردار‘ کے حامل اہل کار ہر ناکے پر اپنے لیے چائے اور عوام الناس کے لیے ’پانی ‘کا انتظام کرتے پائے جاتے ہیں ، اُن پولیس اہل کاروں کے ہاتھ میں ہم نے اپنی جان ہی نہیں بلکہ ایمان کے معاملات بھی دے دیئے ہیں ۔
لیکن ویلنٹائن کی آمد سے پہلے اسلام آباد پولیس نے اس واردات کے ذریعے ان خواتین و حضرات کواطلاع نما تنبیہہ بھجوا دی ہے کہ اگر وہ ۱۴ فروری کے حوالے سے کوئی ’خطرناک ارادے ‘ رکھتے ہیں تو ان کو فوراً دل میں ہی دفن کردیں کیوں کہ کم از کم اسلام آباد کی حد تک ان کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے ، اس کی ایک جھلک کل پولیس نے پیش کر دی ہے ۔ کراچی میں چار سال پہلے جن لوگوں نے ویلنٹائن منانے والوں کی ویڈیوز بنا کر جس طرح پر عالمی فحش ویب سائیٹس کو بیچی تھیں (ان کو اب نمبر ون میڈیا گروپ کی مدد بھی حاصل ہے) اس کے بعد کراچی کی حد تک یہ رحجان تو تقریباً اپنی موت آپ مرگیا تھا۔ اب رہ گیا لاہور؟ تو یہاں جب تک خادمِ اعلیٰ کی حکومت ہے، ہم اس کی سرپرستی کرتے رہیں گے۔
پاکستان میں عدالتی نظام پر جتنی بھی تنقید ہوتی ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو تھوڑی بہت آزادی ہے وہ اعلیٰ عدالتوں کی وجہ سے ہی ہے، اگر عدالتیں نہ ہوں تو شاید سیاسی، مذہبی جماعتیں اور مسلح گروہ عوام کو غلام بنا ڈالیں۔ پاکستان میں جتنے بھی اہم ایشوز ہیں، ان کے ح...
سندھ میں جب بھی دہشت گردی ہوئی تو اس کو شہری علاقوں خصوصاً کراچی اور حیدرآباد تک محدود رکھا گیا۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران جیکب آباد‘ شکارپور ‘خان پور اور اب سیہون کو ملا کر پانچ واقعات ہوچکے ہیں جن میں 200 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پہلے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کے قافلے...
جرمنی کے شہر برلن کے کرسمس بازار میں ٹرک تلے لوگوں کو کچلنے کے شبے میں گرفتاری کے بعد ہونے والے پاکستانی شہری 23سالہ نوید بلوچ کے والد کا اصرار ہے کہ ان کا بیٹا بے گناہ ہے۔ نوید بلوچ کے والد حسن بلوچ نے میڈیا سیگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا بے گناہ ہے یہی وجہ ہے کہجبخبریں سا...