وجود

... loading ...

وجود

مسئلہ کشمیر پرپھر مشرف پالیسی کا احیاء؟؟

جمعرات 02 فروری 2017 مسئلہ کشمیر پرپھر مشرف پالیسی کا احیاء؟؟

پاکستان اور کشمیر کے عوام کا رشتہ کسی تعارف یا کسی تقریب کا محتاج نہیں ہے۔ تاہم 5 فروری کو منایا جانے والا یوم یکجہتی کشمیر پاکستان کے عوام کے دلوں میں موجزن کشمیریوں کی محبت کا ایک ولولہ انگیز اظہار ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازعہ کا معاملہ نہیں ،یہ ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کے مستقبل اور آزادی کا معا ملہ ہے۔ اور یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ حریت پسند کشمیری عوام ،صرف اپنے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ وہ ساتھ ساتھ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں ۔
کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی بھارت کی اس وقت کی قیادت کے ساتھ پوری منصوبہ بندی کرکے ،اس خطے کو ریاستی عوام کی مرضی کے خلاف بھارت کے کنٹرول میں دینے کا کردار ادا کیا اور جس میں وہ کا فی حد تک کا میاب ہوا ،تاہم کشمیری عوام نے شروع دن سے بھارت کو قابض و جارح قرار دے کر ،اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا حق مانگا،جسے نہ صرف عالمی برادری بلکہ خود بھارت کے حکمرانوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔لیکن تسلیم کرنے کے باوجود وہ حق ابھی تک نہیں دیا گیا۔
جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تناز ع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمیر کے باشندوں کی ’’حق خودارادیت‘‘ کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بقا کی بھی جنگ ہے۔ کشمیری عوام نے 1947 سے لے کر آج تک پاکستان سے محبت کا اظہار ہر موقع اور ہر صورت میں کیا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح کشمیری اپنے پیاروں کی لاشوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر ،دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ بھارت کے خلاف نفرت اور مملکت پاکستان کو اپنی جانوں سے بھی عزیز رکھتے ہیں ۔پاکستانی عوام بھی کشمیریوں کے ساتھ ایسا ہی والہانہ محبت رکھتے ہے۔یہ محبت 5فروری کی محتاج نہیں ،ہاں اس روز حکومت پاکستان بھی اعلا نیہ سرکاری طور پر ملک بھر میں تقریبات کا اہتمام کرکے ،یہ پیغام دینے کی کوشش کرتی ہے کہ نہ صرف پاکستانی عوام ،بلکہ حکومت پاکستان بھی کشمیری عوام کے ساتھ والہانہ محبت رکھتی ہے اور کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھتی ہے ۔
تاہم یہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ ورق ہی ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح سابق حکمران جنرل پرویز مشرف نے 9/11کی آڑ میں حکومت پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان ایک ایسی دراڑ پیدا کی جسے پُر کرنے میں کا فی مدت درکار ہوگی ۔ اکتوبر 2003ء میں ریاست جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن پر یکطرفہ فائر کرکے ہندوستان کو یہ موقع فراہم کیا گیاکہ اس نے700 کلومیٹر سے زائد کنٹرول لائن پر برقی تار نصب کرکے متنازع علاقہ میں کشمیریوں کی آمدورفت کو مکمل طور پر روک لیاحالانکہ آزادانہ نقل و حمل کی اجازت اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود ہے۔ جنوری 2004ء میں سارک کانفرنس میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ’’ اعلان اسلام آباد‘‘ کی صورت میں ایک ایسا متنازع معاہدہ کیا جس میں دہلی سرکار کو یہ یقین دلایا گیا کہ آزاد کشمیر کی سرزمین تحریک آزادی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور اس طرح رواں آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کی بھارت کی کو ششوں کو تقویت فراہم کی۔ اپنے دور اقتدار میں کبھی وہ ’’یونائیٹڈاسٹیٹس آف کشمیر‘‘ اور کبھی چارنکاتی فارمولا کے امریکی روڈ میپ پر عمل پیرا رہے۔ تحریک آزادی کشمیر رسوا ہوتی رہی ،قیادت تقسیم در تقسیم ہوتی رہی ،بھارت نواز سیاست دان مضبوط ہوتے رہے اور سابق صدر سینہ پھیلاتے ہوئے، نوبل پیس پرائز کا انتظار کرتے کرتے بالآخر قدرت کے خا موش انتقام کا شکار ہوگئے۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اس کا موقف شروع سے یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں مضمر ہے۔ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کئی بار اپنے اس موقف کا اظہار کرچکے ہیں ۔ شہید برہان مظفر وانی کا جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران تذ کرہ کرکے انہوں نے کشمیری عوام کے دل جیت لئے ۔حکو مت پاکستان کے حوالے سے کشمیری قیادت اور کشمیری عوام کے جو تحفظات تھے ،وہ اس ایک تقریر سے ختم ہو چکے تھے ۔ایک اعتماد کی فضا قائم ہو چکی تھی ۔لیکن امریکا میں ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے فوراََ بعد ایسے اشارات ملنا شروع ہوگئے ،جن سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ کہیں پھر مشرف دور کی رسوائیوں کا دوبارہ احیاء تو نہیں ہورہا ؟؟مثال کے طور پر کو ہالہ پل پر مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے کشمیریوں کو اس بنا ء پر مظفر آباد جانے سے روکنا کہ وہ بھارتی پاسپورٹ ہولڈر ہیں اور ویزا قوانین کی رو سے وہ آزاد کشمیر کی حدود میں تب تک داخل نہیں ہو سکتے ،جب تک ان کے پاسپورٹ پر مظفر آباد کا ویزہ نہ ہو۔ جماعت الدعوہ کے سربراہ حا فظ سعید کی گرفتاری اور ان کی تنظیم پر پابندی بھی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
اگر پڑوس میں آگ لگی ہو ،ہمسائے کا مال و اسباب اور متاع حیات جل رہا ہو، گھر کے افراد آگ کا ایندھن بن رہے ہوں تو پھر زبانی کلامی ہمدردی اور محض دعائیں کافی نہیں ہوتیں بلکہ عملی مدد و تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارتی حکمران مقبوضہ وادی میں 70سال سے قابض ہیں۔آئے روز وہاں معصوم انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ رہائشی مکانات جلائے جارہے ہیں ،جیل خانے، تعذیب خانے کشمیریوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ جموں میں بسنے والے چند ہزار ہندوؤں کو تحفظ دینے ، اور آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے،مغربی پاکستان سے آئے ہوئے لاکھوں شرنارتھیوں کو مستقل شہریت دینے، امیگرنٹس کالونیز اور سینک کالونیوں کے نام پربھارت کی مختلف ریاستوں کے شہریوں کو بسانے کی تیاریاں حتمی مراحل میں ہیں۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکمران کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کشمیریوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے ٹھوس مدد اور مضبوط و مستحکم کشمیر پالیسی ترتیب دیں۔معذرت خواہانہ طرز عمل ترک کر کے ایک جارحانہ اور جاندار سفارتی مہم چلا ئیں۔ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے ،جن سے کشمیریوں کی دل آزاری ہو۔ مشرف نے 9/11کی آڑ لیکر تحریک آزادی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔موجودہ حکومت ڈونالڈ ٹرمپ کی آڑ لے کر وہی عمل دہرانے سے گریز کرے ۔تحریک آزادی کشمیر حصول منزل تک جاری رہے گی ،لیکن یا د رہے تا ریخ گواہ ہے کشمیر اور شہداء کشمیر کے ساتھ بے وفائی کرنے والے خود اپنازوال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ان شا ء اللہ دیکھیں گے۔اللہ رحم فرمائے
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر