... loading ...
پاکستان اور کشمیر کے عوام کا رشتہ کسی تعارف یا کسی تقریب کا محتاج نہیں ہے۔ تاہم 5 فروری کو منایا جانے والا یوم یکجہتی کشمیر پاکستان کے عوام کے دلوں میں موجزن کشمیریوں کی محبت کا ایک ولولہ انگیز اظہار ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازعہ کا معاملہ نہیں ،یہ ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کے مستقبل اور آزادی کا معا ملہ ہے۔ اور یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ حریت پسند کشمیری عوام ،صرف اپنے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ وہ ساتھ ساتھ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں ۔
کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی بھارت کی اس وقت کی قیادت کے ساتھ پوری منصوبہ بندی کرکے ،اس خطے کو ریاستی عوام کی مرضی کے خلاف بھارت کے کنٹرول میں دینے کا کردار ادا کیا اور جس میں وہ کا فی حد تک کا میاب ہوا ،تاہم کشمیری عوام نے شروع دن سے بھارت کو قابض و جارح قرار دے کر ،اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا حق مانگا،جسے نہ صرف عالمی برادری بلکہ خود بھارت کے حکمرانوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔لیکن تسلیم کرنے کے باوجود وہ حق ابھی تک نہیں دیا گیا۔
جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تناز ع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمیر کے باشندوں کی ’’حق خودارادیت‘‘ کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بقا کی بھی جنگ ہے۔ کشمیری عوام نے 1947 سے لے کر آج تک پاکستان سے محبت کا اظہار ہر موقع اور ہر صورت میں کیا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح کشمیری اپنے پیاروں کی لاشوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر ،دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ بھارت کے خلاف نفرت اور مملکت پاکستان کو اپنی جانوں سے بھی عزیز رکھتے ہیں ۔پاکستانی عوام بھی کشمیریوں کے ساتھ ایسا ہی والہانہ محبت رکھتے ہے۔یہ محبت 5فروری کی محتاج نہیں ،ہاں اس روز حکومت پاکستان بھی اعلا نیہ سرکاری طور پر ملک بھر میں تقریبات کا اہتمام کرکے ،یہ پیغام دینے کی کوشش کرتی ہے کہ نہ صرف پاکستانی عوام ،بلکہ حکومت پاکستان بھی کشمیری عوام کے ساتھ والہانہ محبت رکھتی ہے اور کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھتی ہے ۔
تاہم یہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ ورق ہی ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح سابق حکمران جنرل پرویز مشرف نے 9/11کی آڑ میں حکومت پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان ایک ایسی دراڑ پیدا کی جسے پُر کرنے میں کا فی مدت درکار ہوگی ۔ اکتوبر 2003ء میں ریاست جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن پر یکطرفہ فائر کرکے ہندوستان کو یہ موقع فراہم کیا گیاکہ اس نے700 کلومیٹر سے زائد کنٹرول لائن پر برقی تار نصب کرکے متنازع علاقہ میں کشمیریوں کی آمدورفت کو مکمل طور پر روک لیاحالانکہ آزادانہ نقل و حمل کی اجازت اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود ہے۔ جنوری 2004ء میں سارک کانفرنس میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ’’ اعلان اسلام آباد‘‘ کی صورت میں ایک ایسا متنازع معاہدہ کیا جس میں دہلی سرکار کو یہ یقین دلایا گیا کہ آزاد کشمیر کی سرزمین تحریک آزادی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور اس طرح رواں آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کی بھارت کی کو ششوں کو تقویت فراہم کی۔ اپنے دور اقتدار میں کبھی وہ ’’یونائیٹڈاسٹیٹس آف کشمیر‘‘ اور کبھی چارنکاتی فارمولا کے امریکی روڈ میپ پر عمل پیرا رہے۔ تحریک آزادی کشمیر رسوا ہوتی رہی ،قیادت تقسیم در تقسیم ہوتی رہی ،بھارت نواز سیاست دان مضبوط ہوتے رہے اور سابق صدر سینہ پھیلاتے ہوئے، نوبل پیس پرائز کا انتظار کرتے کرتے بالآخر قدرت کے خا موش انتقام کا شکار ہوگئے۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اس کا موقف شروع سے یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں مضمر ہے۔ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کئی بار اپنے اس موقف کا اظہار کرچکے ہیں ۔ شہید برہان مظفر وانی کا جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران تذ کرہ کرکے انہوں نے کشمیری عوام کے دل جیت لئے ۔حکو مت پاکستان کے حوالے سے کشمیری قیادت اور کشمیری عوام کے جو تحفظات تھے ،وہ اس ایک تقریر سے ختم ہو چکے تھے ۔ایک اعتماد کی فضا قائم ہو چکی تھی ۔لیکن امریکا میں ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے فوراََ بعد ایسے اشارات ملنا شروع ہوگئے ،جن سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ کہیں پھر مشرف دور کی رسوائیوں کا دوبارہ احیاء تو نہیں ہورہا ؟؟مثال کے طور پر کو ہالہ پل پر مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے کشمیریوں کو اس بنا ء پر مظفر آباد جانے سے روکنا کہ وہ بھارتی پاسپورٹ ہولڈر ہیں اور ویزا قوانین کی رو سے وہ آزاد کشمیر کی حدود میں تب تک داخل نہیں ہو سکتے ،جب تک ان کے پاسپورٹ پر مظفر آباد کا ویزہ نہ ہو۔ جماعت الدعوہ کے سربراہ حا فظ سعید کی گرفتاری اور ان کی تنظیم پر پابندی بھی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
اگر پڑوس میں آگ لگی ہو ،ہمسائے کا مال و اسباب اور متاع حیات جل رہا ہو، گھر کے افراد آگ کا ایندھن بن رہے ہوں تو پھر زبانی کلامی ہمدردی اور محض دعائیں کافی نہیں ہوتیں بلکہ عملی مدد و تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارتی حکمران مقبوضہ وادی میں 70سال سے قابض ہیں۔آئے روز وہاں معصوم انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ رہائشی مکانات جلائے جارہے ہیں ،جیل خانے، تعذیب خانے کشمیریوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ جموں میں بسنے والے چند ہزار ہندوؤں کو تحفظ دینے ، اور آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے،مغربی پاکستان سے آئے ہوئے لاکھوں شرنارتھیوں کو مستقل شہریت دینے، امیگرنٹس کالونیز اور سینک کالونیوں کے نام پربھارت کی مختلف ریاستوں کے شہریوں کو بسانے کی تیاریاں حتمی مراحل میں ہیں۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکمران کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کشمیریوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے ٹھوس مدد اور مضبوط و مستحکم کشمیر پالیسی ترتیب دیں۔معذرت خواہانہ طرز عمل ترک کر کے ایک جارحانہ اور جاندار سفارتی مہم چلا ئیں۔ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے ،جن سے کشمیریوں کی دل آزاری ہو۔ مشرف نے 9/11کی آڑ لیکر تحریک آزادی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔موجودہ حکومت ڈونالڈ ٹرمپ کی آڑ لے کر وہی عمل دہرانے سے گریز کرے ۔تحریک آزادی کشمیر حصول منزل تک جاری رہے گی ،لیکن یا د رہے تا ریخ گواہ ہے کشمیر اور شہداء کشمیر کے ساتھ بے وفائی کرنے والے خود اپنازوال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ان شا ء اللہ دیکھیں گے۔اللہ رحم فرمائے
٭٭