وجود

... loading ...

وجود

قوم کے لیے ۵فروری کاتحفہ ۔۔۔۔۔(آخری قسط)

اتوار 29 جنوری 2017 قوم کے لیے ۵فروری کاتحفہ ۔۔۔۔۔(آخری قسط)

گزشتہ مضمون میں بات پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش سے چلی اور نمائش کنندگان تک پہنچی تھی۔ پاکستان سے ہر سال دس ارب روپے سے زائد سرمایہ اس ذریعے سے بھارت کو گود میں پہنچا دیا جاتا ہے اور اس کے عوض ہم بھارت سے ثقافتی حوالے سے جو کچھ خریدتے ہیں اس کے آئندہ نسل پر پڑنے والے اثرات کو تو رکھیں ایک طرف، لیکن اگر اس کے مجرد معاشی اور مالیاتی پہلووں پر ہی نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ اس حوالے سے بھی صورتِ حال کسی طور بھی قابلِ رشک تو کیا قابلِ برداشت نہیں کہی جا سکتی۔
اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ نجی شعبے میں متعارف کروائی جانے والی کسی بھی رہائشی ا سکیم میں ا سکول ،پارک ، ہسپتال ، شاپنگ مال، ہوٹل اورہیلتھ کلب کے ساتھ ساتھ اب ’’سینما گھر ‘‘بھی ایک سہولت کے طور پر اشتہار میں دکھایا اور بتایا جاتا ہے یعنی ہمارے ’ریاض ملکوں‘ نے یہ بات طے کردی ہے کہ سینما اب ہر علاقے، سیکٹر یا بلاک کا لازمی حصہ ہوگا ۔حالاں کہ یہ جلبِ زر کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس پر مستزاد نئی ٹیکنالوجی کی آمد نے روایتی سینما مالکان کی جگہ جدید سیٹھوں نے لے لی ہے۔جدید سیٹھوں نے آٹھ ا سکرینوں والے سینما کمپلیکس بنا دیے ہیں جہاں بیک وقت کئی کئی فلمیں زیرِ نمائش ہوتی ہیں۔
اس وقت لاہور میں تعمیر کیا جانے والا ایک نیا سینما بھارتی فلم کی نمائش کے ساتھ پونے دو سال میں اپنی لاگت پوری کر دیتا ہے۔ یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب سینما کی نشستوں کو بھرنے کی سالانہ اوسط تعداد کل نشستوں کا ساٹھ فی صد ہو، سینما مالکان کے بقول محرم اور رمضان کے باعث ان کو پہلے ہی پورے سال کے لئے فلموں کی نمائش کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ بھارتی فلموں کی درآمد پر خود ساختہ پابندی سے یہ شرح سترہ فی صد تک گر گئی تھی جس سے ان مہنگے سینما مالکان کے خرچے کا بھی ایک تہائی ہی پورا ہو پاتاتھا ۔جب کہ اس وقت بھارت جیسے ملک میں سینما کی سیٹوں کی اوسط بھرائی ستر فی صد کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
لاہور میں سب سے بڑا سینما کمپلیکس آٹھ ا سکرینوں پر مشتمل ہے جو میاں منشاء صاحب کی ’امپوریم مال‘ نامی دیو ہیکل عمارت میں ان کے بھتیجے نے قائم کیا ہے۔حکومتِ پنجاب کی طرف سے سینما کی صنعت کو پانچ سال کے لئے ’ٹیکس استثنیٰ ‘ کو بھی اسی سینما کمپلیکس کی تعمیر سے جوڑا جاتا ہے۔ اس ٹیکس چھوٹ کے پانچ سالہ عرصے میں سے تین سال توگزر چکے ہیں ، جب کہ دو سال ابھی باقی ہیںاور یوں یہ سینما مالکان کمائی کے اس باقی عرصے کو بھی کسی طور ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے۔جس کے لئے وہ اپنے ہمدرد روابط کو ہر قیمت پر ’استعمال‘ کررہے ہیں۔
جب بھارتی فلموں کی درآمد اور نمائش ہو رہی تھی تو اُس وقت بھی پاکستانی فلم ساز شکوہ کناں تھے کہ ان کی فلموں کو نمائش کے لئے مقامی سینما دستیاب نہیں ہوتے ۔مقامی فلموں کو یاتو ’’ہاؤس فل ‘‘کہہ کر انکار کردیا جاتا یا پھر ان کو ایسے غلط اوقات اور بھاری ٹکٹ پر نمائش کے لئے پیش کیا جاتا کہ کسی فلم بین کوپاکستانی فلمیں دیکھنے کے لئے سینما آنے کی ہمت نہ ہو۔ہاں البتہ وہ فلم ساز جن کے ہاتھ میں ’آئی ایس پی آر ‘ کی پرچی ہوتی تو ان کا معاملہ دیگر ہوتا، اس کے لئے ہر سینما گھر کی ہراسکرین دستیاب ہوجاتی۔ویسے ایک حوالے سے اگر دیکھا جائے تو بھارتی فلمیں ان آئی ایس پی آر والی فلموں سے تو بہتر ہی ہوتی تھیں ۔ ہماری فلموں میں گھٹیا قسم کی ’قوم پرستی‘ کے غلاف میں لپیٹ کر اسلام کو اور شعائرِ اسلام کوگالی دی جاتی ہے اور دین کے ہر شعائر کا مذاق اڑانے سے لے کردہشت گردوں کو پختون بھائیوں کا ہم شکل اور ہم لباس دکھا کر قوم کے سامنے یہ بیانیہ انتہائی گھٹیا انداز میں مسلسل دہرایا جاتاہے۔ ایسے میں بھارتی فلمیں اس حوالے سے قبول نہیں کی جا سکتیں کہ وہ ہمارے معاشرے کے مختلف ’طبقات ‘کو نہیں بلکہ ننگے طریقے سے ’پاکستانی اداروں ‘ اور ’ریاست‘ کو گالی دیتے ہیں ۔کیوں کہ انہیں اس امر کابخوبی اندازہ ہے کہ اگر ان سے مسلمانوں کے اندر کوئی اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت سرزد ہو ئی تو ان کا معاشرہ مسلم اقلیت کے ٹوٹتے اتحاد کے نیچے دب سکتا ہے۔ بہرحال بھارتیوں کا پروپیگنڈہ اکثر اوقات سنسر کے وقت کاٹابھی نہیں جاتاجس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری نئی نسل ، ذہنی طور پر ہر قومی مسئلے پر خود کو بھارت کے قریب محسوس کرتی ہے۔ لیکن ہماری ان ’مقامی‘ فلموں نے ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر بدیشی سرمایہ کاری سے ملکی یک جہتی کی بنیادوں میں جو بارود بھرا ہے ، یہ ہمیں اگلی کئی نسلوں تک بھگتنا پڑے گا۔
اس وقت بھارت سے بڑی کاسٹ والی مہنگی سے مہنگی فلم بھی دس کروڑ (پاکستانی )روپے میں مل جاتی ہے اور بڑے آرام سے تیس سے پینتیس کروڑ کما جاتی ہے۔ ویسے جتنے پیسوں میں بھارتی فلم درآمد ہوتی ہے، اتنی رقم میں پاکستانی فلم بھی تیار ہو جاتی ہے۔ لیکن یہاں پر نئی فلم سازی پر اہلِ کراچی کی اجارہ داری ہے جو اپنی تما م تر فراخ دلی کے باوجود مخصوص ذہنیت سے رو بہ عمل ہوتے ہیں ، اس لئے ان کی فلمیں باقی اہلِ وطن کے لئے ’غیر متعلقہ‘ ہو جاتی ہیں اور بھارت کی تیسرے درجے کی فلموں کے برابر ہی کاروبار کر پاتی ہیں۔ حیر ت کی بات ہے کہ بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کے خلاف آوازان سینما مالکان کی طرف سے نہیں اُٹھی جو اس سے براہِ راست متاثر ہو رہے تھے۔ بلکہ بھارتی فلموں کی نمائش کے لئے ان بڑے بڑے پیٹوں میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں جو کہ اس سے براہِ راست متاثر نہیں ہو رہے ۔اب ہوا یہ ہے کہ ایک تو ہماری طرف تو بھارتی فلموں کی درآمد پرخود ساختہ پابند ی میں خود ہمارا کوئی عمل دخل تھا ہی نہیں تھا جتنا فلم کے پروڈیوسر پر بھارت میں ’ہندوتوا‘ ذہنیت کی حامل شیوسینا اوراس سے ملحقہ مسلح گروہوں اور بھارتی میڈیا کا دباؤ کہ پاکستان کو فلمیں برآمد نہ کی جائیں۔ اسے آپ انتہا کی نفرت بھی کہہ سکتے ہیں جو سرحد کے دوسری طرف ہمیشہ ٹھاٹھیں مارتی رہتی ہے۔ لیکن شوسینا نے بھی تو اپنے معاملات چلانے ہوتے ہیں اس لئے طویل اور شدید مذاکرات ہوئے او ر شیوسینا کی قیادت اس بات پر مانی ہے کہ اگر پاکستان میں اس فلم کی نمائش کے حقوق دس کروڑ کے عوض بیچے جائیں گے تو اس میں سے پانچ کروڑ ’’مالی اعانت‘‘ یا چندے کی صورت میں ان کی پارٹی کو دے دیے جائیں گے۔
اس طرح مجموعی طور پر یہ منظر کچھ یوں بن رہاہے کہ حکمران مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد شریف کی اجازت اور حکم پر بھارت کی فلموں کی درآمد کے ساتھ پچاس فی صد سے زائد رقم ، بھارتی وزیر اعظم ، نریندرا سنگھ مودی کی مادر سیاسی جماعت شیوسینا کو جا رہی ہو گی۔ تو ایسی صورت میں خاکسار جیسے نوازشریف کے ایجنٹ صحافیوں کا کیا بنے گا جو دن رات گلے کی تمام قوت کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ ’نواز مودی کا یار نہیں ہے‘۔ یہ یاری تو سب پر بھاری محسوس ہوتی ہے۔ اس لئے وزیراعظم اور ان کے ارد گرد دسترخوانی راتب خوروں کو اپنا نہیں تو کم از کم ہمارا ہی خیال کر لینا چاہیے کیوں کہ وزیر اعظم ہاؤس میں کوئی بھی نوکری کی عدم کی دستیابی کی صورت میں فی الحال ہمیں انہی لوگوں میں رہنا ہے۔


متعلقہ خبریں


بھاشا ڈیم ایک خطرناک منصوبہ انوار حسین حقی - جمعه 09 دسمبر 2016

سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دیا میر بھاشا ڈیم کے مالیاتی پلان کی منظور ی دے دی ہے ۔ ڈیم کے لیے فنڈز پی ایس ڈی پی سے فراہم کیے جائیں گے ۔ جبکہ واپڈا خود بھی پاور جنریشن کمپنیوں کے ذریعے فنڈز اکٹھے کرے گا ۔ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے ...

بھاشا ڈیم ایک خطرناک منصوبہ

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر