... loading ...
ہمارے معاشرے میں یا تو مسلمانوں کی سو سالہ غلامی کے اثرات ابھی تک باقی ہیں یا پھر ہم ابھی تک جاگیردارانہ ذہنیت سے ایک مکمل شہری (یا تہذیب یافتہ) معاشرہ نہیں بن پائے کہ یہاں ہر فرد یا ادارہ ، اپنی سرشت میں جاگیردرانہ رویوں کا اسیر محسوس ہوتا ہے۔ ہر ادارہ یا اس کے ذریعے رو بہ عمل افراد ، بھلے وہ وردی میں ہوں یا وردی کے بغیر ، دنیا کا ہرکام خود کرنے یا پھر اپنی ذات کے گرد گھمانے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ شائد بیشتر فیصلہ سازوں کے لاشعور میں بچپن میں سنی فاتحین اور بادشاہوں کی وہ کہانیاں پنہاں ہیں کہ جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی سے لے کر سلطان محمود غزنوی تک اور شیر شاہ سوری سے لے کر سلطان ٹیپو تک، تمام رموزِ ہائے مملکت ایک ہی ذات کے گرد گھومے یا گھمائے جاتے رہے ہیں۔حالاں کہ حقیقت شائد اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ اگر تاریخ کا ذرا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تاریخ کے ان نامور کرداروں کے جلو میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہر افرادِ کار کی ایک نابغہ روزگار ٹیم ہوا کرتی تھی، جو ان کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں دن رات مصروفِ عمل ہوتی تھی۔ دنیا بھر سے ماہر اور اوصاف والے افراد بادشاہ کے دربار کے ساتھ منسلک ہونے آتے یا لائے جاتے اور پھر پوری پوری عمر وہیں بسر کر دیتے۔
اگر موجودہ دور کی بات کریں تواس وقت اس کی سب سے بڑی مثال امریکا میں اقتدار کی منتقلی کو قرار دیا جا سکتا ہے جو حالیہ دنوں میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور، جہاں ہرکام کے ہونے یا کرنے کے لیے ایک باقاعدہ نظام موجود ہے ، یہاں دو پارٹی نظام لاگو ہے، لیکن یہاں پر بھی جب ایک پارٹی کی حکومت ختم ہوتی ہے اور دوسری پارٹی کا نمائندہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوتا ہے تو لگ بھگ تیس ہزار سرکاری افسروں کا ایک جم غفیر ہوتا ہے جو ایک عہدے کا چارج چھوڑکر دوسرے عہدے پر چلا جاتا ہے اور ان کی جگہ جیتنے والی نئی پارٹی کے ’حامی ‘ افسران انکے عہدوں پر آبراجمان ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ نظام کے اندر سے ہی لائے جاتے ہیں ، لیکن اقتدار میں آنے والی پارٹی نے حکومت کے تمام اہم عہدوں کے لیے اپنے تئیں قابل اور اس کی پالیسیوں کوآگے بڑھانے والے افراد کی بخوبی نشاندہی کر رکھی ہوتی ہے اور پارٹی نے اپنے تئیں ان لوگوں کی فہرستیں مرتب کر رکھی ہوتی ہیں۔ اس پورے عمل پر نظام کے اندر یا باہر کوئی اعتراض نہیں کرتا ، نہ ہی وہاں کی سول سوسائٹی، نہ ہی فوج، نہ ہی مخالف پارٹی۔ کیوں کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تبدیلیاں اُس پارٹی کا حق ہیں جنہیں عوام نے مینڈیٹ دے کر منتخب کیا ہے تا کہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی پالیسیوں کا اطلاق کر سکیں۔
میاں محمد نوازشریف جب 2012 تک سیاست نہ کرنے والے معاہدے کے باعث اقتدار کے ایوانوں سے باہر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، تب تک تو وہ مکمل خاموش رہے جب تک کہ معاہدے میں تسلیم کی گئی ڈیڈ لائن ختم نہ ہو گئی، لیکن جیسے ہی یہ معاہداتی ڈیڈلائن گزرگئی توموصوف نے ملک کے ہر گلی محلے والے اجتماعات اور ٹی وی انٹرویوز میں یہ کہنا شروع کیاکہ ان کے پاس اہل اور قابل افرادِ کار کی ایک ٹیم موجود ہے جس کے ذریعے وہ عوام کے تمام دلدردور کردیں گے۔ اُس وقت ، ایسے میں عوام کو یہ بات بہت خوش کن اور پُرمسرت لگی جب کہ زرداری صاحب، خارجہ اور خزانہ کی وزارتوں کے لیے ’’مقدمین‘‘ پر انحصار کررہے تھے، اس سے خیال یہی آیا کہ میاں نواز شریف کے پاس یقیناً ایسی کوئی نہ کوئی ٹیم ضرور ہوگی جو ان امریکی مقدمین سے قوم کی جان چھڑائے گی۔
مقدمین دراصل ’مقدم‘ کی جمع ہے۔ ہماری بینکاری نظام میں جب کوئی نجی ادارہ یا کمپنی کسی بینک سے سود پر قرض لیتی ہے تو اس کے عوض کچھ اثاثے بینک کے پاس رہن رکھے جاتے ہیں۔ ان اثاثوں کی مسلسل نگرانی ضروری ہوتی ہے ورنہ مقروض فریق ان اثاثوں کی خورد برد کرکے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی بھی کر لیا کرتا ہے۔ اگرچہ اس مقدم کی تنخواہ بینک ہی ادا کرتا ہے لیکن غیرجانبداری کے تقاضوں کے پیش نظر اس کو بینک کا ملازم نہیں مانا جاتا اور ظاہر یہی کیا جاتا ہے کہ وہ ایک آزاد فریق کے طور پر ہی رو بہ عمل ہے۔ اسلام آباد میں وردی والوں کی حکومت ہو یا پھر جمہوریوں کی، ایسے مقدم حضرات آپ کو اقتدار کے ایوانوں میں اہم اور حساس جگہوں پر گزشتہ پندرہ سال سے مسلط نظر آئیں گے، جناب ڈاکٹر مصدق ملک اس کی ایک زندہ مثال ہیں جن کو اقتدار کے ایوانوں کی راہ بہادر کمانڈو، جنرل پرویز مشرف صاحب نے دکھائی تھی، اُس کے بعد وہ کیا زرداری اور کیا نواز شریف، ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔
اگر ا س وقت دیکھا جائے تو میاں صاحب کی پوری حکومت ان مقدمین کی مرہونِ منت نظر آتی ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد سے لے کر وزیر اعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک تک اور نجم سیٹھی سے لے کر سابق مشیر سکیورٹی امور تک، (ہم دانیال عزیز ٹائپ کے مقدمین کا ذکر کرکے آپ کا اپنا منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتے) یہ سب سات سمندر پار بیٹھی قوتوں کے مقدم ہی تو ہیں ، جن قوتوں نے شراکتِ اقتدار کے مبینہ معاہدے کی گارنٹی دی تھی جس کے تحت ابھی تک معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ جس نے بھی اس معاہدے سے دائیں بائیں ہونے کی کوشش کی، جیسے مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ، تو ان کا وہ حشر کیا گیا کہ اپنوں نے کچھ یوں عبرت پکڑی کہ ان کے قتل اور قاتلوں کے نشان مٹانے اور چھپانے میں خود ہی مصروف ہو گئے اور اس انجام سے عبرت پکڑتے رہے،میاں محمد نواز شریف صاحب جاتی امراء میں بیٹھے بیٹھے ٹھٹھرتے پائے گئے۔
اور ہاں یاد آیا ہم نے دو دہائیوں کے لگ بھگ ہائی کورٹ کی کمپنی بینچ کی رپورٹنگ میں یہ بات اخذ کی کہ جب تک مقدم مقروض کے ساتھ نہ ملے، قرض کبھی بھی ڈیفالٹ نہیں کرتا، ہمارے موجودہ نظامِ حکومت سے تو یہی لگتا ہے کہ مقدمین کو اعلیٰ اور حساس عہدوں سے نواز کر ان کا منہ بند کردیا گیا ہے اور یہ اپنے افسران ہائے بالا کو یہ مسلسل باور کروانے میں مصروف رہتے ہیں کہ ’’فدوی آپ سے کئے گئے معاہدوں کی روح کے مطابق ان پر عمل پیرا ہے‘‘۔ تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
میاں نواز شریف کے دو پیادے، جناب پرویز رشید اور جناب مشاہد اللہ خان ، سیاست کی بساط میں کیا پٹے ،میاں صاحب تمام تر چوکڑیاں بھرنا ہی بھو ل گئے۔ اس کے بعد تو ان کی پوری حکومت ہی مقدمین کی مرہونِ منت نظر آتی ہے، تو پھر کہاں گئے وہ افرادِ کا ر جن کا میاں صاحب دعویٰ نما واویلا فرمایا کرتے تھے؟ شہباز شریف صاحب نے کوئی ڈیڑھ درجن وزارتیں اور بڑے میاںنوازا شریف صاحب نے کوئی آدھ درجن وزارتیں اپنی ذات کے گرد گھما رکھی ہیں ، وہ اگر تمام نشستوں پر اپنی تصویریں رکھ کر کابینہ کا اجلاس بھی طلب کر لیں تو آئینی طور پر ان کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن پھر وہ قابل ٹیم کا دعویٰ کیا ہوا؟
شائد یہ خدشہ ہو کہ اگر یہ وزارتیں اپنے نام سے اتاریں تو ان کو بھی کسی مقدم کو بخشنا نہ پڑ جائے، اس لیے وہ کئی اہم وزارتوں پر وزراء کاتقرر ہی نہیں کرتے؟
شہباز شریف صاحب نے اقتدار کے ساڑھے آٹھ سال مکمل ہونے کے بعد جب لگ بھگ آدھے درجن صوبائی وزراء کو شریکِ اقتدار کیا بھی تو یہ پخ لگا دی کہ کوئی وزیر اپنے محکمے میں نائب قاصد کو ڈانٹنے سے پہلے ان سے اجازت طلب کرے گا۔ سنا ہے (اور دیکھا بھی) کہ پنجاب کے نئے وزراء اپنی نئی ملنے والی وزارتوں سے جان چھڑاتے اور میڈیا سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں (ان کو تو سندھ کے صوبائی وزیر جناب ’پتافی‘ والی سہولت بھی دستیاب نہیں کہ خادمِ اعلیٰ نے تعدد ازدواج سے یہ سہولت بھی اپنی ذات کے لیے مخصوص کر رکھی ہے)۔ انہیں لیکن اقتدار میں شراکت میاں شہباز شریف کے مزاج پر اس قدر گراں گزری کہ موصوف کو جا کر باقاعدہ کئی دنوں کے لیے لندن کے ہسپتال میں داخل ہونا پڑ گیا۔ اقتدار سے اس قدر محبت؟ اللہ کی پناہ!!
اب پوچھنا تو بنتا ہے کہ جناب کہاں گئی وہ ٹیم ؟ آپ کو تو پیمرا اور پی ٹی وی کا چیئرمین لگانے کے لیے اپنے گھر کا بندہ بھی تین سال بعد دستیاب ہو سکا۔ یہ کیسی ٹیم ہے، جو بی بی سی کی خبر کی تردید اے پی پی سے جاری کرواتی ہے، اور پوری دنیا میں بھد اڑاتی ہے اور اخلاقی بحران کی لمبی داستانوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی۔ انگریزی محاورہ تو یاد ہی ہوگا کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ تو جناب وزیر اعظم صاحب، کیا آپ کے کردار ، صلاحیت اور قابلیت کا اندازہ آپ کے ارد گرد اکٹھے بوزنوں سے لگایا جائے؟
٭٭
گزشتہ سال جب پی پی کی قیادت یعنی آصف زرداری نے دبئی میں بیٹھ کر زندگی کی لگ بھگ 9 دہائیاں دیکھنے والے سید قائم علی شاہ کو ہٹا کر سید مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ نامزد کیا تو اس وقت صرف خورشید شاہ نے دام میں پھنسنے والے پرندے کی طرح پھڑپھڑایا ،باقی سارے خاموش رہے۔ پھر خورشید شاہ کو ...