... loading ...
مجھے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی صاحبہ کی طرف سے ایک درد بھرا خط، حفیظ خٹک صاحب نے ای میل کیا۔ یہ خط یقیناً دوسرے حضرات کو بھی بھیجاگیا ہو گا۔ خواہش ہے کہ وہ بھی اپنی تحریروں میں پاکستان کی بیٹی مظلومہ امت ِمسلمہ ڈاکٹر عافیہ صدیقہ کے مسئلے کو اجاگر کریں گے۔جس کو امریکاکے متعصب یہودی جج نے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں۸۶ سالہ قید سنائی تھی ۔امید کی جاسکتی ہے کہ اس طرح ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے لیے وزیر اعظم پاکستان پر زور ڈالا جاسکے گا۔ ان کو وہ وعدے یاد کرائیں جاسکیں گے جو انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے متعلق عوام سے کیے تھے اور الیکشن جیتنے اور پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد کراچی کے گورنر ہائوس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ صاحبہ اور اس کے بچوں سے کیے تھے۔
ا س خط میں ڈاکٹر عافیہ کی ضعیف اوردکھیاری والدہ صاحبہ نے حکمرانوں کے وعدے یا دکرائے ہیں کہ کس طرح ان حضرات نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ان سے وعدے کیے تھے۔اس معزز خاتون نے اپنی دکھ بھری داستان میں سارے سیاستدانوں کے حوالے سے پاکستانی عوام کو آگاہ کیا ہے کہ سیاست دان حضرات کس طرح مظلوم لوگوں سے وعدے کر کے بھول جاتے ہیں ،مکر جاتے ہیں یا انہیں اپنی سیاست سے فرصت نہیں ملتی کہ کسی مظلوم سے کیے گئے وعدے کو نبھائیں۔وہ لکھتی ہیںعمران خان صاحب چیئرمین تحریک انصاف نے سب سے پہلے ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے اس کے مقدمے پر بات کی تھی اور کہا تھا کہ میں کوشش کروںگا کہ ڈاکٹر عافیہ کو واپس پاکستان لائو۔ مگر وہ اس وعدے کوپورا نہ کر سکے وہ اب پاناما لیکس کے لیے تو بڑی محنت کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح نواز شریف کو سزا دلوا دیں مگر اپنے وعدے کو آج تک برقرار نہ رکھ سکے۔اسی طرح پیپلز پارٹی نے پانچ سال حکومت میںگزار دیے مگر کچھ بھی نہیں کیا۔ ویسے ان کی فریادسے قطع نظرپیپلز پارٹی کے اُس وقت کے وزیرداخلہ رحمان ملک کی کوشش سے ڈاکٹر عافیہ کے تین بچوں میں سے ایک بچی اور ایک بچہ بازیاب ہوئے اور ا سے نانی صاحبہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب نے بھی وعدہ کیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کو میں واپس لائوں گا۔ اسی پیپلز پارٹی کے دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب نے بھی ایسے ہی وعدے کیے تھے مگر وہ بھی کچھ نہ کر سکے۔پاکستان کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوشش کی اور حکومت وقت کو بھی جنجھوڑا مگر آج تک کسی حکومت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس پاکستان لانے کی سنجیدہ کو شش نہیں کی۔
اس میں شک نہیں کہ دیگر سیاسی اور مذہبی پارٹیوں نے ڈاکٹر عافیہ کوواپس لانے کے وعدے کیے مگر ان کوتو اقتدار ہی نہیں ملا تو وہ اپنے وعدے کیسے پورے کرتے ۔ ان پارٹیوں نے اپنے جلسوں، ریلیوں اور میٹنگوں میں ڈاکٹر عافیہ کا مقدمہ اچھے طریقے سے لڑا۔ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی کو شکوہ تو نواز شریف صاحب سے ہے، جو بجا بھی ہے کیونکہ وہ حکمران ہیں۔ نواز شریف نے اپنی الیکشن مہم میں کئی جلسوں میں اعلانیہ کہا تھا کہ آپ مجھے ووٹ دیں ،اگر میںکامیاب ہو گیا تو میں ڈاکٹر عافیہ کو امریکا سے ضرور واپس لائونگا۔پھر جب وہ الیکشن جیت گئے پاکستان کے وزیر اعظم بھی بن گئے تو ابھی تک اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے۔عصمت صدیقی صاحبہ کے دکھ بھرے فریادی خط کے مطابق نواز شریف صاحب وزیر اعظم بننے کے بعد کراچی تشریف لائے اور گورنر ہائوس میں عصمت صدیقی صاحبہ اور ڈاکٹرعافیہ کے بچوں کو گورنر ہائوس میں بلایا اور کہا کہ آپ میری والدہ ہیں، میں آپ کا بچہ ہوں ۔ اب میرے دکھ درد کا وقت ختم ہو گیا ہے میں آپ کا بیٹا ہوتے ہوئے آپ سے وعدہ کرتا ہوںکہ میں ڈاکٹر عافیہ کو ضرور واپس پاکستان لائو ں گا۔ اب جس سے نواز شریف صاحب نے ماں ہونے کے ناطے وعدہ کیا وہ ماں آج نواز شریف سے فریادی ہے اور وہ نواز شریف کو وعدہ یاد کرا رہی ہے کہ اپنی ماں سے کیا گیا وعدہ پورا کرے۔ڈاکٹر عافیہ کو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے دوسرے مظلوم مسلمانوںکے ساتھ ڈالر کے عوض امریکا کو فروخت کیا تھا۔ اب وہی مشرف مکافات عمل کے قانون کے تحت ملک سے غداری اور قتل کے مقدموں میں الجھا ہوا ہے۔ملک سے فرار ہے۔
امریکی عدالت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک نہتی عورت ڈاکٹر عافیہ کو۸۶ سال قید تنہائی کی سزا سنائی تھی ۔ عدالت کے مطابق،اس کاجرم یہ تھاکہ اس نے افغانستان کی قید کے دوران میں امریکی فوجیوں پر رائفل سے حملہ کیا تھا مگر کوئی بھی فوجی ہلاک نہ ہی زخمی ہوا۔ البتہ فوجی کی جوابی فائرنگ سے ڈاکٹر عافیہ زخمی ہوئی۔ عدالت نے بہت زور لگایا تھا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو القاعدہ کا دہشت گرد ثابت کرے مگر وہ ایسانہ کر سکی تھی۔ پاکستان کے کچھ کالم نگار بھی معلومات کی کمی یا نادانستہ طورپر ڈاکٹر عافیہ کو دہشت گرد اور القاعدہ کی ممبر لکھتے رہے ہیں۔ اگر ایسا کوئی بھی ثبوت ہوتا تو امریکا کی عدالت ڈاکٹر عافیہ کو القاعدہ کی ممبر اور دہشت گردی میں سزا دیتی ۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، اسلام کی بیٹی، اسلام کی مبلغ اور قرآن شریف کی حافظہ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے اپنی بہن کی رہائی کے لیے عافیہ موومنٹ بنائی۔اس پلیٹ فارم سے وہ پاکستان کی ساری مذہبی اور سیاسی پارٹیوں سے رابطے کرتی رہی۔ ملک اور بیرونِ ملک عافیہ کی پاکستان واپسی کی مہم چلاتی رہی۔ سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی دائر کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں حکومت کو حکم دیا کہ وہ امریکا سے قیدیوں کے تبادلہ کا معاہدہ کر کے ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لائے۔قانون کے مطابق وہ اپنی سزا پاکستان میں پوری کرے۔اسی فیصلہ کے تحت نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد ۲۸ ؍اگست۲۰۱۳ ء کو نواز حکومت کی کیبنٹ کی میٹینگ ہو رہی تھی تو ڈاکٹر فوزیہ نے اسلام آباد میں کئی دن گزار کر کیبنٹ کی میٹنگ کی سمری کے ایجنڈے میں سیریل نمبر ۵ پر ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو رکھوایا تھا۔ کیبنٹ میٹنگ نے اس کو پاس بھی کیا کہ امریکا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلہ کا معاہدہ کیا جائے گا۔ فارن آفس کو اس کام پر بھی لگا دیا تھا مگر آج تک اس کیس کا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ڈاکٹر فوزیہ اس کا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر کر کے تھک گئی مگر آج تک اس کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ فارن آفس نے کیا کیا؟ کیا امریکیوں نے حکمرانوںکو منع کر دیا؟ یا کیا حکمران امریکاسے بات کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے؟
اب ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی ایک اور سبیل سامنے آئی ہے۔ وہ یہ کہ اب امریکا کا صدر اوباما نئے آنے والے صدر کو اختیار حوالے کرنے والا ہے۔جانے والے صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جاتے جاتے وہ کسی بھی قیدی کی سزا معاف کر سکتا ہے۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم نوز شریف اوباما کو ا یک خط میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی درخواست کرے۔ اس لیے ڈاکٹر عافیہ کی والدہ صاحبہ نے نواز شریف کو الیکشن کے دوران کیے گئے وعدے اور خود ان سے کراچی کے گورنر ہائوس میں کیے گئے وعدے کو یاد دلاتے ہوئے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی صدر اوباما کو صرف ایک خط لکھ دیںتا کہ جاتے جاتے وہ ڈاکٹر عافیہ کو رہا کر دے۔
گزشتہ برس میں نے ’’ عافیہ صدیقی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب نہ بن جائے‘‘کے عنوان کے تحت ایک مضمون لکھا تھا اور اب عنوان ہی نہیں میں نے اس المیہ کے حوالے سے اپنا قلب وذہن ہی بدل لیا ہے اس لیے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کو جب کوئی ’’ملی یا قومی‘‘مسئلہ درپیش ہو تویہ اپنے آپ کو روئے...