... loading ...
اوباما کے پیشرو صدر بش جونیئر رخصت ہورہے تھے تو دسمبر 2008ء میں اُنہیں عراق میں ایک جوتے کا سامنا کرنا پڑاتھا ۔ البغدادیہ چینل کے نمائندے منتظر الازیدی نے اُن پر یکے بعد دیگرے دوجوتے اُچھالے اور ساتھ یہ فقرہ بھی کہ
’’ا ے کتے! یہ تیرے لیے ایک الوداعی تحفہ ہے‘‘۔
اوباما کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ وہ شاید یہ موقع کسی اور کو نہ دیں، مگر تاریخ نے ایک جوتا اُن کے ساتھ خود اُن کی قوم کے سامنے اُچھالا ہے۔ ایک ناکام صدر کے طور پر اُن کے الوداعی خطاب کا یہ فقرہ ہمیشہ اپنی ناکامی کے تاسّف کے ساتھ یادداشتوں میں طنزیہ طور پر محفوظ رہے گا کہ ’’ مستقبل ہمارا ہونا چاہئے‘‘۔ تاریخ کے پلٹا کھانے والے حقائق عجب نہیں کہ امریکیوں کے خلاف اس فقرے کو ایک جوتے کے طور پر استعمال کریں۔دنیا امریکا کے ہاتھوں سے ریت کی مانند نکل رہی ہے۔ہوا مٹھیوں میں قید نہیں ہوتی، تاریخ کی لگامیں کبھی ایک ہاتھ میں نہیں رہتیں۔ کائنات کا رب ایاّم کے اُلٹ پھیرمیں افراد کی ہی نہیں اقوام کی بھی تقدیر بدلتا رہتا ہے۔ دنیا اوباما کے صدر رہتے ہوئے بدل گئی ۔ وہ دانشور اب شرمندگی کا اشتہار بنے ہوئے ہیں جو اوباما کے اندر مارٹن لوتھر کی روح تلاش کرتے پھرتے تھے۔ اوباما کچھ بھی نیا نہیں کرسکے۔
عالمی شہرت یافتہ مصنّف اور نیوزویک کے مدیرفرید زکریا نے اپنی کتاب ’’دی پوسٹ امریکن ورلڈ‘‘ میں امریکا کے بعد کی دنیا پر غور کیا تو حیرت انگیز نتائج اخذ کیے۔
’’اِدھر اُدھر نظردوڑائیں، دنیا کی سب سے اونچی عمارت جو اس وقت نیویارک میں ہے جلد اُس کی جگہ دبئی میں تعمیر ہونے والی عمارت لے لے گی۔ دنیا کا امیر ترین شخص میکسیکن ہے اور سب سے عوامی تجارتی کارپوریشن چینی ہے۔ دنیا کا طویل الحجم جہاز روس اور یوکرائن میں بنایا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی فیکٹریوں میں سے تمام کی تمام چین میں ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا لوہے کا پہیہ سنگاپور میں ہے۔ فلمی دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری بالی وڈ ہے ہالی وڈ نہیں۔ دنیا میں چوٹی کے دس مالز میں سے صرف ایک امریکا میں ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی شاپنگ مارکیٹ بیجنگ میں ہے۔‘‘
فرید زکریا نے اپنی کتاب میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ معیشت ، سیاست کو بھی شکست دے دیتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ امریکا اب اسی سے شکست آشنا ہورہا ہے۔ ایک دہائی قبل سامنے آنے والی اس کتاب میں بیان کردہ حقائق اب زیادہ سنگین ہو کر امریکا کے سامنے آچکے ہیں۔ دنیا کی معیشت پر امریکا نے اپنی ایک استحصالی جکڑ بندی کے ساتھ تقریباً 144 سال تک راج کیا جو، اب ختم ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 1872 کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکی معیشت کا حجم سب سے بڑا نہیں رہا۔ چین نے امریکا کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اپنی معیشت کا حجم 11 ٹریلن برطانوی پاؤند کر لیا ہے جب کہ امریکی معیشت اس کے مقابلے میں 8ء10 ٹریلن برطانوی پاؤند تک محدود ہوگئی ہے۔ محتاط اندازا یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2019ء تک اس چینی معیشت کا حجم سولہ ٹریلن پاؤند سے بھی تجاوز کرجائے گا۔ اگر معیشت ہی سیاسی حقائق تخلیق کرتا ہے تو پھر چین اس کی قدرت حاصل کرچکا ہے۔ مگر وہ اپنی اس طاقت کو شور شرابے میں بیان کرنے کا امریکا کی طرح عادی نہیں۔چین نے دفاعی اور سیاسی میدان میں بھی اپنے نئے حقائق تخلیق کیے ہیں اور امریکا کو اس سے باہر کردیا ہے ۔ مگروہ یہاں موضوع نہیں۔
چین دنیا کا نقشہ معیشت کے قلم سے نئے سرے سے تشکیل دے رہا ہے۔ دنیا میں اُبھرنے والے تمام معاشی حقائق اس وقت کسی اور کی نہیں چین کی دسترس میں ہے۔چین مشرق سے مغرب تک اقتصادی راہداریوں کا ایک جال بچھا رہا ہے۔ چین نے سیاسی حقائق کو غیر موثر بناتے ہوئے یورپ کے اُن ممالک سے اپنے ریل رابطے قائم کرلیے ہیں جو سرد جنگ کے عرصے میں لکیر کی دوسری طرف کھڑے ہوتے تھے۔ چین کی مال گاڑی اب براہ راست لندن تک پہنچ سکے گی۔ پہلے ہی متعدد یورپی ممالک کے لیے یہ مال گاڑی چلائی جاچکی ہے۔ جو چین کے یورپ سے تجارتی روابط کو مستحکم کرنے کا ایک وسیلہ بن چکی ہے۔ اندازا کیجیے صنعتی اور گھریلو استعمال کی تقریباً تمام اقسام کی اشیاء یہ مال گاڑیاں لاد کر تقریباً بارہ ہزار میل کا سفر طے کرکے دوہفتوں میں لندن پہنچا کریں گی جو فضائی سفر سے سستی اور سمندری سفر سے تیزرفتار ہوںگی۔ چین نے قدیم شاہراۂ ریشم کے راستے کو ازسرنوبحال کرکے اِسے پندرہ یورپی شہروں کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ بارک اوباما کو یہ پتا ہی نہیں چلا کہ یہ سب کچھ اُن کے عرصۂ صدارت میں ہوا ہے۔ نئی دنیا میں امریکا اپنے مستقبل کی تشریح اپنی مرضی سے کرنے پر قادر نہیں رہا۔اوباما کا یہ فقرہ کہ ’’مستقبل ہمارا ہونا چاہئے‘‘۔ ایک آرزو سے بڑھ کر اب ایک ایسا جوتا ہے جو اُنہیں الوداعی خطاب میں خود اپنی قوم کے ساتھ کھانا پڑا ہے۔ بش کو عراق میںپڑنے والا جوتا تو سب نے دیکھا تھا مگر اوباما کوپڑنے والا جوتا تو کسی کوابھی نظر ہی نہیں آیا۔ ایک بات اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ بش پہ اُچھالے جانے والے جوتے کی مار سے وہ محفوظ رہے تھے مگر یہ ایک ایسا جوتا ہے جو تاریخ کے ہاتھوں اُنہیں اور اُن کی قوم کو ہر روز ہی پڑتا رہے گا۔
اوباما نے اپنے الوداعی خطاب کو جذبات کے دھارے میں بہاتے ہوئے تاریخ کے تھپیڑوں سے بچنے کا راستا نکالنے کی کوشش کی مگر تاریخ کا معاملہ بھی کچھ عجب ہے کہ اس سے بچنے والا ہر شخص تاریخ میں عبرت کی مثال بن کر جیتا ہے۔ اوباما کا مقدر بھی یہی ہے۔
٭٭