... loading ...
چیست فقر اے بندگان آب وگل
یک نگاہ راہ بیں، یک زندہ دل
(اے دنیا کے غلامو جانتے ہو کہ فقر کیا ہے۔ ایک نگاہ جو صحیح راستہ دیکھ لے۔ ایک دل جو اللہ کی محبت سے زندہ ہو)
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست
ما امینیم ایں متا ع مصطفیٰﷺ است
( فقر ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کی کیفیت ہے۔صرف ہماری ہی نہیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی متاع بھی یہی ہے)
بے پراں را ذوق پروازے دہد
پشہ راہ تمکین شہبازے دہد
( فقر پروں سے عاری ( بے عمل ) لوگوں میں پرواز کا ذوق پیدا کر دیتا۔ ہے، اور مچھر کو شہباز کا سا وقار اور زور عطا کر تا ہے۔)
با سلاطیں در فتد مردِ فقیر
از شکوہِ بوریا لرزد سریر
( فقیر، سلطانوں کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ بوریے کی عظمت اور دبدبہ سے تو تخت لرز جاتا ہے۔)
اسلام کا قلعہ ۔۔۔اور اِس میں بسنے والوں کی حالت۔ حلال و حرام کی تمیز ختم، ہوس کی دوڑ ایسی کہ رُکنے کا نام نہیں لے پا رہی، جو کچھ بالائی طبقہ کرتا ہے وہ کچھ پھر معاشرے کا نچلا طبقہ کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ گویا حکمرانوں کی نقالی عوام اپنے اوپر فرض کر لیتی ہے ۔زنا ،شراب ،جوا عروج پر ۔ بدیانتی اتنی کہ جس جس کی جو ذمہ داری ہے و ہ اُسے پورا نہیں کر رہا۔حتیٰ کہ گدھے کا گوشت کتے کا گوشت تک کھلایا جارہا ہے۔ جب رشوت عام ہوگی، سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوگا تو پھر حالات نے تو ایسا ہی ہونا ہے۔ کہ ہر شعبے میں لوٹ سیل لگی ہوئی ہے، بوڑھوں کے لیے اولڈہوم کھل گئے ہیں۔ طلاقوں کی شرح اتنی زیادہ کہ خدا کی پناہ۔۔۔کیااِس لیے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں ؟ اِس لیے بچے ییتم ہوئے ،اِس لیے عصمتیں لُٹیں؟نبی پاکﷺ کے حکم پر بننے والے اسلام کے قلعے کا حلیہ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ہر طرف شر ہی شر۔دیانت شرافت، ایمان غائب۔ قتل وغارت عروج پر۔گلی محلے میں پھرنے والے آوارہ کتے جن کا کام صرف بھونکنا ہی ہوتا ہے لیکن وہ بھی اُس شخص کا خیال رکھتے ہیں جواُن کو پیار سے چمکارتا ہے جو کچھ کھانے کے لیے کبھی کبھار پھینک دیتا ہے۔مگر ہائے انسان !! غربت میں اپنوں کے بھی مزاج بدل جاتے ہیں ،رشتے تو وہی ہوتے ہیں مگر رواج بدل جاتے ہیں۔شب ، شب ظلمت کا روپ دھار لیتی ہے، سحر بے نور ہوجاتی ہے، وفاء کے کھیل میں جب دولت آجائے تو پھر وفا اور جفا کے انداز بدل جاتے ہیں۔ عشق کے رستے پہ چلنا دشوار لگتا ہے، دوستی کے معیار بدل جاتے ہیں،دولت کا جادو اتنا سر چڑھ کے بولتا ہے کہ بس۔اے میرے رب تمام خطا کاروں کی یہ التجا سن لے۔
جفا کے اندھیروں میں
وفا کے دیپ جلانا ہے
خاکستر ہونا اور پھرخود کو مٹانا ہے
روح کی تازگی کھوئی ہے مدتوں سے
چارہ گر کو یہ دکھ بتانا ہے
آوارگی نے جو مزاج بدلا ہے
اُسے راہِ سخن پہ لانا ہے
شنوائی کا امتحان بڑا صبر آزما ہے
خود بھی رونا اور اُسے بھی رُلانا ہے ۔
درد سے آشنائی کچھ پا کر نہیں، کچھ کھو کر ہوتی ہے۔ جسے ہم کھونا سمجھتے ہیں وہ پانا ہوتا ہے، جسے پا کر ہم نہا ل ہورہے ہوتے ہیں ،وہی تو سب کچھ کھونا ہوتا ہے۔درد لالچ، بے سکونی کی موت اور بے نیازی کی دولت کا نام ہے کہ بندہ بھی اپنے خالق کی طرح بے نیاز ہو جاتا ہے۔وہ مادیت سے دور اور روحانیت سے قریب ہو جاتا ہے۔ انسانی مزاج بھی بہت حد تک متنوع ہے۔ اِس میں جہاں شگفتگی کی انتہاء دکھائی دیتی ہے۔قربانی اور اخلاص کا عظیم پہاڑ بن جاتا ہے۔ اپنے خون کا ایک ایک قطرہ محبت و آگاہی کے در پہ نچوڑ کے رکھ دیتا ہے اور زندگی کی ہر رفعت کو محبوب کی عظمت کے سامنے ہیچ گردانتا ہے۔لیکن جب اِسی مزاج کے برہم ہونے کی باری آتی ہے تو سارے تصوراتی محل زمین بوس ہوجاتے ہیں، اور زندگی جہنم سے بھی بدتر محسوس ہوتی ہے۔انسانی جبلت میں خالق نے یہ شے رکھ چھوڑی ہے کہ دُشمن جان وقت کے ساتھ غم گسار بن جاتے ہیں اور غم گسار جانی دُشمن کا روپ دھار لیتے ہیں۔اِس انسانی رویے کے پیچھے جو عامل کار فرما ہے وہ یہ کہ انسان کو اپنی حقیقت سے آگاہی نہیں ہو پاتی۔ جو انسان خود کو پہچان لیتا ہے تو اُس کو اپنے اردگرد میں ہونے والی تمام تر حرکات و سکنات کا ادراک رہتا ہے۔اور اپنے سے متعلق افراد کے رویوں کے سلوک کا اعتدال کے ساتھ سامنا کرتا ہے۔ اگر تو انسان کو اپنی اصل کی سمجھ آجاتی ہے تو پھر اُسے یہ ادراک ہو جاتا ہے کہ ہر لمحہ اُسکے پائوں کے نیچے زندگی کی ساعتیں کم کرتا جارہا ہے اور یہ زندگی دل لگانے والی جگہ نہیں ہے یہ تو بس ایک پڑاؤ ہے ۔خواہ اِسے صحرا تصور کر لیا جائے اور بے شک اِس زندگی کو نخلستان سمجھا جائے۔انسانی ادراک انسان کو اُس کی معراج پہ پہنچا تا ہے۔ اِسی ادراک کی بنا پر اویس قرنیؓ بنا جاتا ہے۔ بلال حبشیؓ کا اعزاز ملتا ہے اور اِس ادراک کے پیچھے فیضان کارفرما ہوتا ہے۔ اور اِسی لیے تو خالق فرماتا ہے کہ ہدایت اُس کے لیے ہی ہے صرف جسے خالق نوازتا ہے۔امکانات کی دُنیا ہے یہ ،جو جو ہو رہا ہوتا ہے وہ وہ اپنا راستہ بنائے جارہا ہے۔اِس لیے ہونا ہی درحقیقت رد عمل کی ابتداء ہے ۔اِسی سے تعمیر اور تخریب دونوں کا ظہور ہوتا ہے۔اِسی طرح محبت جفا اور وفا کے جذبوں کو اِیسی تمازت سے نوازتی ہے کہ من کی دنیا اور تن کی دنیا ایک جیسی ہوجانے کا رد عمل شروع ہوجاتا ہے۔ہر ہر امکانی صورت کے پیچھے ایسی ہی سرگرمی ہوتی ہے جس سے راستے منفی اور مثبت دونوں میں کسی رُخ پہ گامزن ہو جاتے ہیں۔ روح کی تشنگی کی حدت نے یہ فیصلہ کروانا ہوتا ہے کہ عشق کی آگ میں ڈوبنا ہے یا عقل کی راہوں کا مسافر بننا ہے۔راہی کی منزل کا پتہ اُس کے طور اطوار دے ر ہے ہوتے ہیں۔جس طرح ماں کو اِس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اُس کا بیٹا اُس کو چاہتا ہے یا نہیں، اُس نے تو صرف چاہنا ہوتا ہے یہ سب کچھ تو اُس کی جبلت میں ہے۔ماں نے محبتیں شمار نہیں کرنا ہوتیں۔ محبتیں شمار تو وہ کرے جسکو کوئی طمع ہو۔ خالق بھی نوازتا چلا جاتا ہے ،اُسے بھی جو خالق کو اپنا رب مانتا ہے اور اُسے بھی جو خالق کو نہیں مانتا۔ خالق کی محبت ماں کی محبت سے ستر گُنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن خالق کی عطا سے فیض یاب ہونے کے لیے ایسے راستے کا تعین کرنا پڑتا ہے جس کی منزل عشق ہو،خالی عقل کسی کام کی نہیں۔ خالق نے تو کائنات کی تخلیق بھی صر ف اپنے محبوب بندے نبی پاکﷺ کی خاطر کی۔ خالق اپنے ہی تخلیق کردہ پیغمبر اعظم و نبیِ آخرﷺ کا محب ہے۔امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ کا پنا سرکٹوانا، بلا ل حبشیؓ کا ریت پر جلنا، اویس قرنیؓ کا اپنے دانت مبارک خود اپنے ہاتھو ں سے شھید کرنا۔غازی علم دین،ؒ غازی ممتاز قادری کا پھانسی پہ جھول جانا۔من کی دولت سارے امکانات کو اپنے تابع لے جاتی ہے، جب جب عشق کی لو کی تمازتیں اپنی حدت سے ـ”میں” کو میں نہیں رہنے دیتی،پھر سب تُو ہی تُو ہوجاتا ہے۔
٭٭
یومِ اقبال ؒ کے موقع پر آدھے پاکستان میں تعطیل تھی اور آدھے پاکستان میں کارِ سرکارکی انجام دہی کا سلسلہ جاری رہا ۔معاملہ چھُٹی کا نہیں وابستگی اور دلبستگی کا ہے ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ’’ یومِ اقبال ‘‘ کی چھٹی کے لیے اپنے حضور پیش کی جانے والی سمری مسترد کردی تھی ۔ گزشتہ سال ...
تحریر:ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ان کی آنکھ بینا تھی‘ ذہن بیدار تھا اور فکر عالمگیر تھی۔ علامہ اقبال اپنے وسیع مطالعے‘ فکری تجربے اور ذہنی مشاہدے سے صحیح معنوں میں ’دیدہ ور‘ کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ وہ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ اس مختصر کُروی زندگی کی آموزش گاہ میں فیضیاب ہوکر’دیدہ ور‘ ...