... loading ...
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈٹرمپ اپنے بیانات کے حوالے سے جتنے حیرت انگیز اور ناقابل تصور بن چکے ہیں ،ان کے اب تک کے بیانات سے ظاہر ہونے والی ان کی خارجہ پالیسی بھی اسی طرح حیرت انگیز اور ناقابل سمجھ ہے،دنیا میں ہر جگہ نہ صرف اس پر حیرت کا اظہار کیاجارہاہے،اور عام طورپر اس خیال کااظہار کیاجارہاہے کہ ان کی خواہشات پر مبنی امریکا کی مجوزہ خارجہ پالیسی امریکا کے لیے بہتری کے بجائے اس کی تباہی کاپیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
وائٹ ہائوس کے قریبی ذرائع کی جانب سے وقتاً فوقتاً ظاہر کی جانے والی رائے سے سے پتا چلتاہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس پر حیرت ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے بااثر حلقے بھی جنھیں ابتدا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا اوراسی وجہ سے ان کے بے سروپا بیانات پر اس خیال سے توجہ دینے ہی کوتیار نہیں تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کاکوئی امکان ہی نہیں ہے اب اس پر ناراضگی کااظہار بھی کررہے ہیں اس لیے یہ واضح نظر آرہاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جو اب تک امریکی اسٹیبلشمنٹ کو نظر انداز کرتے رہے ہیں وائٹ ہائوس میں قدم رکھتے ہی امریکی اسٹیبلشمنٹ کو کنٹرول کرنے اور اپنے بیباکانہ بیانات کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی اور ناراضگی کو دور کرنے پر توجہ دیناہوگی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف یہ کہ پوری دنیا کے توقعات کے برعکس انتخابات میں کامیابی حاصل کی بلکہ اب اپنی پسند کی کابینہ بھی بڑی حد تک تشکیل دے چکے ہیں ،اس لیے اب ان کے منہ سے نکلنے والی ہر بات کا نہ صرف امریکی انتظامیہ، فوجی حلقوں اور اسٹیبلشمنٹ میں نوٹس لیاجارہاہے بلکہ ان بیانات کی وجہ سے مستقبل میں امریکا کو پیش آنے والی ممکنہ مشکلات اور مختلف ممالک کے ساتھ تعلق رکھنے والی دشواریوں اورانھیں دور کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر بھی غور شروع کردیاگیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کنزرویٹو نہیں ہیں ان کا تعلق کسی بھی اعتبار سے امریکا کے قدامت پسند سوچ رکھنے والے سیاستدانوں سے نہیں جوڑا جاسکتا ، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوچکاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ لبرل بھی نہیں ہیں، بلکہ اگر باریک بینی سے دیکھاجائے تو ان کاجھکائو قوم پرستوں کی طرف زیادہ نظر آئے گا۔جبکہ حقیقت میں ڈونلڈ ٹرمپ صرف تاجر ہیں اور تاجر ذہنیت کے حامل ہونے کی وجہ سے وہ امریکا کے تجارتی اور معاشی مفادکو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہتے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ تجارتی اورمعاشی مفادات کے تحفظ کے ذریعے امریکا کے عوام کو روزگارکے بہتر مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں اور روزگار کے بہتر مواقع کی فراہمی اور اجرتوں میں مناسب اضافے کے ذریعے ان پسماندہ لوگوں کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی لائی جاسکتی ہے جنھوںنے غیر متوقع طورپر انھیں ووٹ دے کر وائٹ ہائوس پہنچایا ہے۔
چین کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کے تمام بیانات کابنیادی نکتہ یہی تھا کہ چین کو تجارت کی کھلی آزادی ملنے کی وجہ سے امریکا میں بیروزگاری میں اضافہ ہواہے کیونکہ امریکی صنعتیں چین میں تیار کردہ مصنوعات کامقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں اور سکڑتی جارہی ہیں۔لیکن امریکا کا صدر منتخب ہونے کے بعد انھوں نے چین کے خلاف جو سخت بلکہ جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے خاص طورپر ایک چین کی پالیسی کے خلاف ان کی جارحانہ پیش رفت نے پوری دنیا کو حیران کردیاہے،امریکا میں چین کی تیار کردہ مصنوعات کی فروخت میں کمی کرنے اور امریکی صنعتوں کو پھلنے پھولنے کاموقع فراہم کرنے کے لیے انھوں نے چین سے تمام درآمدات پر 45 فیصد ٹیرف عاید کرنے کی تجویز دی ہے،کیونکہ امریکا کے سابقہ تمام سربراہوں کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ چین کی اقتصادی ترقی کو ناجائز تصور کرتے ہیں ،اب اگر اپنے اس تصور کے تحت انھوںنے اپنی اس تجویز پر عملدرآمد کیا تواس سے چین کی پوری معیشت ہل کر رہ جائے گی ،اور اس کے نتیجے میں چین کی جانب سے کئے جانے والے متوقع اقدامات کی صورت میں چین اورامریکا کے درمیان ایک تجارتی جنگ شروع ہونے کے خدشات کونظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
یہ ایک واضح امرہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارت کے فروغ کی وجہ سے ہی امریکا اور چین کی روایتی دشمنی پس پشت چلی گئی تھی اور اقوام عالم میں دونوں ملک ایک دوسرے کے مفادات کا بڑی حد تک خیال رکھتے تھے لیکن یہ تجارتی روابط کمزور پڑنے اور اس کی وجہ سے چین کی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کی صورت میں یہ روایتی دشمنی دوبارہ عود کرآئے گی اوردونوں ملکوں کے درمیان پس پردہ تعاون کی صورت حال تبدیل ہوجائے گی۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ چین امریکا کا پرانا حریف ہے اور اگر وہ چین کے خلاف سخت رویہ یا پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے اس کابڑا جواز موجود ہے،اور وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکی عوام کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرنے کے لیے امریکی صنعتوں کوپھلنے پھولنے کاموقع دینا ضروری ہے اور ایسا اسی وقت ہوسکتاہے جب مارکیٹ میں مقابلے کامناسب ماحول فراہم کیاجائے اور امریکی صنعت کاروں کو بھی چین کے مقابلے میں اپنی اشیا فروخت کرنے کا موقع مل سکے جبکہ موجودہ صورت حال میں امریکی صنعتوں میں تیار ہونے والی اشیا قیمتوں کے اعتبار سے چین کی تیار کردہ مصنوعات کامقابلہ نہیں کرسکتیں جس کے نتیجے میں وہ سکڑتی جارہی ہیں۔لیکن ڈونلڈٹرمپ کی یہ جارحانہ پالیسی صرف چین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ امریکا کے دیرینہ اتحادی یورپی ممالک کو بھی آنکھیں دکھارہے ہیں اور انھوںنے صاف صاف الفاظ میں یورپی ممالک پر یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اب اپنے دفاع کے لیے امریکا پر زیادہ انحصار نہ کریں بلکہ اپنے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کریں اور امریکا نیٹو کو مسلسل بھاری بجٹ فراہم نہیں کرے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی اس دھمکی کا یورپی ممالک نے سنجیدگی سے نوٹس لیاہے ،جس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ اس کے بعد سے برطانیہ اور فرانس سمیت بعض یورپی ممالک نے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا شروع کردیاہے۔یورپی ممالک کو اپنے دفاع کو خود مضبوط بنانے کی دھمکی کے ساتھ ہی انھوںنے جاپان کو بھی دھمکی دی ہے کہ اسے جاپان میں تعینات امریکی فوجیوں کے لیے اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ ادائیگی کرناہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ کی اس دھمکی کو پوری دنیا میں حیرت سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ جاپانی عوام اپنی سرزمین پر امریکی فوج کی موجودگی کے سخت مخالف ہیں اور وہ جاپان سے امریکی فوجی اڈے ختم کرنے کامطالبہ تسلیم کرانے کے لیے نہ صرف مظاہرے کرتے رہے ہیں بلکہ امریکی فوجی اڈوں کا گھیرائو بھی کرتے رہے ہیں،اب امریکا کو اس کی فوجوں کی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے زیادہ ادائیگی کے مسئلے پر جاپان کی حکومت کو اپنے عوام کی ناراضگی مول لیناپڑسکتی ہے یا پھر جاپان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے پر مجبور ہونا پڑسکتاہے یہ درست ہے کہ شمالی کوریا کی جنگی تیاریوں خاص طورپر میزائل ٹیکنالوجی میں اس کی پیش رفت کی وجہ سے جاپان خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کررہاہے اور اپنے دفاع کے لیے امریکی فوجیوں کی موجودگی ضروری تصور کرتاہے لیکن اس مقصد بھاری ادائیگیاں اور خود اپنے عوام کی ناراضگی مول لینا اس کے لیے شاید ممکن نہ ہو دوسری جانب اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتاکہ جاپان امریکی فوجیوں کے انخلا کا فیصلہ کرکے شمالی کوریا کے دل میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے اور مخاصمت کی پالیسی کو دوستی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائے اس طرح امریکا نہ صرف ایک ر وایتی اتحادی سے محروم ہوجائے گا بلکہ جاپان سے نکالی جانے والی امریکی فوج کے ایک بڑے حصے کے اخراجات کی ادائیگی بھی امریکی خزانے پر ایک نیا بوجھ ثابت ہوگی۔
مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات جو ان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں بہت ہی حیرت انگیز بلکہ خوفناک ہیں خاص طورپر اسرائیل کے بارے میں ان کی پالیسیاں مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکا کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوسکتی ہے، مثال کے طورپر وہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے حامی ہیں جبکہ بیت المقدس اسرائیل کا متنازعہ شہر ہے اور مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک بیت المقدس کو اسرائیل کامقبوضہ علاقہ تصور کرتے ہیں، اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی دو قومی پالیسی یا تجویز پر عمل کی صورت میں اسرائیل کو یہ شہر خالی کرنا پڑسکتاہے ،ایسی صورت میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس کئے جانے کی صورت میں امریکا کو مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب جیسے پرانے اور روایتی حلیفوں کی مخالفت کاسامنا کرنا پڑے گا اور اس وقت جبکہ روس مشرق وسطیٰ میں قدم جمانے کی حکمت عملی پر کارفرما ہے اور شام میں روس کی مداخلت کی وجہ سے بشارالاسد کاتختہ الٹ کر امریکا کی حامی حکومت قائم کرنے کا امریکی خواب چکناچور ہوگیاہے سعودی عرب جیسے حامی ممالک کی مخالفت امریکا ہی نہیں خود اسرائیل کو بھی مہنگی پڑ سکتی ہے۔
ایران کے حوالے سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات امریکا کے لیے مسائل پیدا کرنے کاسبب بن سکتے ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران اور 6بڑی طاقتوں کے درمیان طے پانے والی ایٹمی سمجھوتے کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں اس طرح ایران کا ایٹمی مسئلہ ایک دفعہ پھر پوری دنیا اور خاص طورپر بڑی طاقتوں کی پریشانیوں میں اضافہ کاسبب بن سکتاہے اور اس کے نتیجے میں دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ بھی امریکا کے تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں جس سے امریکا اور امریکی عوام کو مشکلات کاسامنا کرناپڑسکتاہے۔
داعش اور دیگر انتہا پسندگروپوں کے حوالے سے وہ چاہتے ہیں کہ ان گروپوں کو سختی سے کچل دیاجائے اور افغانستان سمیت کہیں بھی ان سے کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے ، وہ یہ کام روس کے تعاون سے کرنا چاہتے ہیں جو ابتدا ہی سے ان کے پسندیدہ ممالک کی صف میں شامل رہاہے اور یہ بات عام ہے کہ روس کی مبینہ مدد کے بغیر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بن ہی نہیں سکتے تھے۔
مذکورہ بالا حقائق وشواہد سے ظاہر ہوتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ان سے پہلے برسراقتدار رہنے والے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں سربراہان کے مقابلے میں بالکل مختلف ہوگی، یہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی اس نیت پر شک نہیں کیاجاسکتاکہ وہ امریکی عوام کی بہتری اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے امریکا کو ایک نیا چہرہ دینے کے خواہاں ہیں اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے بظاہر حیرت ناک منصوبوں اور تجاویز پر عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی خواہشات کے سرسری جائزے سے یہ ظاہرہوتاہے کہ اپنی تجاویز یاخواہشات کو عملی شکل دینے میں انھیں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر شدید مزاحمت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان خواہشات کی تکمیل کی کوششوں سے پوری دنیا کے ساتھ امریکا کے روایتی دوستانہ تعلقات کو شدید دھچکہ لگے گا اور ایک عظیم عالمی طاقت کی حیثیت سے عالمی برادری میں اپنا بھرم قائم رکھنا ان کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ثابت ہوسکتاہے۔
تہمینہ حیات
[caption id="attachment_44056" align="aligncenter" width="784"] ابھی تک امریکی صدر نائب وزیر خزانہ کے عہدے پر کسی کو نامزد نہیں کرسکے جسے ٹیکسوں میں ردوبدل کے کام کی نگرانی کرنا اورنئی حکمت عملی تیار کرنا ہے کئی ماہ گزرنے کے باوجودنئے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کاٹیکسوں کے نظام کی تنظی...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد فوری طورپر جس بجٹ کااعلان کیاہے وہ اُن کے دیگر اعلانات کی طرح متنازع بن گیاہے ، ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنے پہلے بجٹ میں ٹرمپ کے انتخابی اعلانات کے مطابق میکسکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے اور امیگرنٹس کو امریکا میں داخلے سے روک...
امریکا کے نومنتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات خاص طورپر غیر ملکیوں کے بارے میں ان کے خیالات اور اس کے پرتشدد انداز میں اظہار امریکی معیشت کے لیے بوجھ بنتے جارہے ہیں،امریکی ماہرین معاشیات کا کہناہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے تندوتیز بیانات سے سب سے پہلے سیاحت کے شعبے پر منفی اثرا...
امریکا میں نسل پرستی کی بنیاد پر نفرتوں کاپرچار کرنے والے گروپ یوں تو ہمیشہ ہی سے سرگرم رہے ہیں ، یہ کبھی’’ اسکن ہیڈ ‘‘کے نام سے سامنے آتے ہیں اور کبھی ’’لیو امریکا‘‘ کے نام پر مہم چلاتے نظر آتے ہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ان نسل پرست نفرت کے پرچارک گروپوں کی ...
امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملکی دفاعی بجٹ میں اضافے کے فیصلے کے چند روز بعد ہی چین نے بھی رواں برس کے دوران دفاعی اخراجات میں 7 فیصد اضافے کا اعلان کردیا۔چین کی جانب سے اضافے کا اعلان بیجنگ میں سالانہ نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے انعقاد سے قبل سامنے آیا۔دفاعی ...
امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ روز ارکان کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ داعش کو کرہ ارض سے ختم کرکے دم لیں گے۔امیگریشن پر کنٹرول کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ملازمتوں کے مواقع میں اضافے، سیکورٹی اور ملک میں قانون کی پاسداری کی صورت حال کو بہتر بنا کر حقیقی م...
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے حالیہ شمارے میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر پھبتی کستے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کی طاقتور شخصیت یعنی امریکا کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کوئی دن بغیر غلطی کے نہیں گزارا،ایک ماہ سے زائد عرصہ گزارنے والے صدر نے اس دوران 132غلطیاں یا ...
جارج برنارڈشا نے بہت پہلے یہ راز بتادیاتھا کہ میں نے بہت پہلے یہ سیکھ لیاتھا کہ خنزیر سے کبھی نہ لڑنا کیونکہ اس سے لڑنے کی صورت میں تم گندگی میںلتھڑ جائو گے اور خنزیر کا اصل مقصد یہی ہوتا کہ آپ کو گندا کردے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی میڈیا کو بہترین انداز میں بے نقاب کی...
امریکا کی شمال مغربی ریاست واشنگٹن میں ایک وفاقی جج نے7 مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم نامے کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے اور اس کا اطلاق پورے ملک میں ہو گا۔وہائٹ ہاﺅس کی ہدایت پر" اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی لیکن...
امریکا کے معروف فلم ساز اور صحافی مائیکل مور ، جنھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران جب کسی کو بھی ان کی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتاتھا ،ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی پیش گوئی کی تھی لیکن ساتھ ہی متنبہ کیا تھا کہ امریکا ایک خطرناک انقلاب کے دوراہے پر کھڑا ہے اور امریکی ع...
امریکی ماہرین نفسیات نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی صحت پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے انھیں خطرناک حد تک خود پسندی اور خوشامد پسندی کا مریض قرار دیاہے۔ ماہرین نفسیات نے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کی شخصیت اینٹی سوشل ،جارحیت پسند،اپنی تسکین کیلئے دوسروں کو اذیت پہنچ...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرکے امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو معطل کرتے ہوئے 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پینٹاگون میں وزیر دفاع جیمز میٹس کی تقریب حلف برادری کے بعد ...